Home » مدرسہ ڈسکورسز » ورک شاپس » سمر انٹنسو 2018

سمر انٹنسو 2018

 

مدرسہ ڈسکور سز کاسمر انٹنسو (جولائی 2018ء) نیپال میں منعقد کیا گیا ۔ یہ انٹنسو بھی گزشتہ وِنٹر انٹنسو(قطر) کی طرح علمی و فکری سر گرمیوں سے بھرپور رہا ۔ یکم جولائی تا 15 جولائی جاری رہنے والےاس پروگرام کے انعقا د کے لیے نیپال کا ایک نہایت پر فضا مقام دُلے خیل منتخب کیا گیا جو کھٹمنڈو سے تقریبا 30 کلو میٹر شما ل کی جانب واقع ہے ۔یہ نہایت حسین اور دلکش علاقہ ہے جہاں جولائی کے مہینے میں بھی گرمی کا احساس نہ ہوا۔

یہ ورکشاپ کئی لحاظ سے نہایت قیمتی تھی ۔ ایک پہلو اس کا علمی و فکری تھا جو سیمینا ر ہال کے اندرکی مختلف سرگرمیوں پر مشتمل تھا،جس میں اساتذہ کے لیکچر ز ، سوال و جواب کی نشستیں اور ڈسکشن گروپس وغیرہ شامل تھے۔دوسرا یہ کہ اس گر وپ میں کچھ امریکی اور ساؤتھ افریقی طلبہ و طالبات اور اسکالر بھی شامل تھے  جن سے مختلف حوالوں سے گفت و شنید کے مواقع بھی میسر آتے رہے اور ان سے ان کے مذہب ، تہذیب ، سماج اور دیگر مختلف پہلوؤں سے گفتگو ہو تی رہی ۔تیسرا پہلو جو اسی قدر اہمیت کا حامل تھا، وہ ہوٹل سے باہر نیپالی سماج ، ان کے مذاہب ،ان کے رہن سہن اور ان کے طور اطوار اور روزمرہ زندگی کے مشاہدے سے متعلق تھا۔چوتھا یہ کہ ہر روز بعد از مغر ب تخلیق و ارتقا ئے کائنات سے متعلق نہایت اہم ڈاکیو مینٹری فلم Cosmos دکھائی جاتی تھی۔ 45 منٹ کےدورانیے پر مشتمل اس فلم میں کائنات کے آغاز ، حیاتِ انسانی کے ارتقا اور دیگر پہلووں سے متعلق جدید سائنسی نظریات نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ تخیلاتی طور پر ایک شخص ٹائم مشین کے ذریعے کائنات کی تخلیق کے مختلف مراحل میں کسی بھی دَور میں چلا جاتا ہے اور اس دور کی خصوصیات کو نمایاں کرتا  ہے۔پانچواں اور نہایت قیمتی پہلو جو ذاتی طورپر میرے لئے بڑاخاص تھا، وہ یہ کہ چند دوستوں نے ڈاکٹر ابراہیم موسی اور ڈاکٹر ماہان مر زا سےان کی ذاتی زندگی کے مختلف احوال وآثار اور ان کے علمی و فکری ارتقاء کے حوالےسے انٹر ویوز کا پروگرا م بنایا، جس میں خوش قسمتی سے میں بھی شامل تھا ۔

سیمینار ہال کے اندر کی علمی و فکری سر گرمیوں کا محور جن اہم موضوعات و مباحث کو بنایاگیا اور ان پر گفتگو کرنے کے لئے اعلیٰ ترین اساتذہ کو مدعو کیا گیا ،انہیں چار بنیاد ی موضوعات میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں پہلا موضوع “اسلامی قانون اور جنس ( ماضی کے نظائر اور معاصر تحدیات )” تھا ۔اس موضوع پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالنے کے لئے ولیم کالج امریکہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ یعقوب کو مدعو کیا گیا۔ پہلے تین دن اسی موضوع کے لیے مختص تھے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نےجنس اور  قانون کے حوالے سے قدیم انسانی تاریخ ، اسلامی فقہی تراث اور اسلامی قانون کو، جوزیادہ تر قدیم فقہی ذخیرے پر مشتمل ہے ، درپیش معاصر تحدیات نیز مختلف نسائی تحریکوں ( Feminist Movements) کی طرف سے مختلف اعتراضات کا جائزہ پیش کیا اور خصو صا مسلم خواتین سکالرز ،کیشا علی ،آمنہ ودوداورحنااعظم کی طرف سے اس کے مختلف جوابات (Responses) کا علمی وفکری تجزیہ پیش کیا۔ عصمت دری کے حوالے سے قانون سازی بطور خاص زیر بحث آئی اور مرحلہ وار قدیم مشرقی تہذیبوں ، موسوی اور ربّانی قوانین ، رومی اور مسیحی قانون سازی ، قبل از اسلام عرب رسوم و رواج ، اورپھر اسلام کی آمد کے بعد فقہ ِ اسلامی میں اس جرم سے متعلق قانون سازی اور اس کی بنیاد و ں پر نہایت سیر حاصل گفتگو کی  گئی۔ فقہ اسلامی کے حوالے سے خاص طورپر جو بات زیر ِ بحث آئی، و ہ یہ کہ فقہائے کرام نے جس دور میں قانون سازی کی اور فقہ اسلامی کی تشکیل  ہوئی ، اس وقت ان کے ہاں پہلے سے موجود بہت سے مفروضات ( Assumptions) تھے جو ان اصول و قوانین کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کررہے تھے۔ آج ہمیں اگر ان قوانین میں نامانوسیت اور اجنبیت محسوس ہوتی ہے اور دور جدید کے ساتھ عدم مطابقت دکھائی دیتی ہے تو  اس کی وجہ اس دور کا سماجی پس ِ منظر ہے جسے ہم مسلسل نظر انداز کرتے آرہے ہیں ۔ ڈاکٹر موصوفہ نے فرمایا کہ یہاں ہمیں ڈاکٹر فضل الرحمان کی (Double Movement ) والا طریقہ اپنا نا پڑے گا ۔ یعنی پہلے ہم فقہا کے سماجی اور معاشرتی پس ِ منظر میں جھانکیں گے ، اور ان کے دور میں جا کر ان کی صنفی تفریق کی بنیاد پر کی گئی قانون سازی کی تفہیم حاصل کریں گے کہ انہوں نے اپنے دور کے حالات اور ماحول کو کس قدر اہمیت دیتے ہوئے اپنی سماجی فضا سے مطابقت رکھنے والے قوانین کی تشکیل کی ۔پھر ہم انہی اصولوں کی بنیاد پر دوبار واپس اپنے دور میں آئیں گے اور آج کے سماجی و معاشرتی طورو اطوار اور حالات و واقعات کے تناظر میں جدید سماجی ڈھانچے سے موافقت رکھنے والے قوانین کو مدون و مرتب کریں گے ۔

حنفی فقہ کی مشہور کتاب المبسوط کے ایک اقتباس پر بھی بحث کی گئی اور جنسی جرائم کے حوالے سے مختلف اصطلاحات اور قوانین کا جائزہ لیاگیا ۔تفصیلی مباحث سے قطع نظر ،ایک بات بڑی غیر معمولی تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ نے وہی فقہی قوانین جو ہم نے کئی بار پڑھے اور سنے  تھے،اس قدر گہرے تجزیاتی انداز میں پیش کیے کہ شرکاء داد دیے بغیر نہ رہ سکے ۔میں نے تو دل میں تہیہ کر لیا کہ جو متون ہم نے نہایت سر سری انداز میں نظر سے گزار دیے تھے، انہیں اسی قدر گہرے خو ض او رعمیق نظر سے دیکھوں گا ۔ میرے خیال میں اس طرح کے مطالعے کے بغیر نہ تو ہم اپنی فقہی تراث کی حقیقی تفہیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی نئی تحدیات سے نبر دآزما ہونے کےلئے کوئی ٹھوس بنیاد فراہم کر سکتے ہیں ۔

انٹنسو کا دوسرا اہم موضوع “اخلاقی تصورات کے نئے آفاق کے ذریعے اخلاقی تبدیلیوں کی نظریہ سازی ” تھا۔اس موضوع پر تین اساتذہ نے گفتگو فرمائی جن میں پروفیسر جیرالڈ میکینی(Gerald Mackany) ، پروفیسر محمود یونس اور اس پروگرام کے روحِ رواں ڈاکٹر ابراہیم موسی شامل تھے ۔پر وفیسر جیرالڈ میکینی نے فطرت ِ انسانی اور بائیو ٹیکنالوجی کے موضوع پر نہایت اعلیٰ گفتگو فرمائی اور جدید بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی فطرت میں جوہری تبدیلیوں کے حوالے سے حالیہ پیش رفت اور مستقبل کے عزائم کے تناظر میں ،مسیحی مذہبی فکر کے چار نمائندہ مکاتب کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جو ایک طرف جدید حیاتیاتی سائنس کی تحدیات کے لئے مذہبی جواب تھا تو دوسری طرف ہمارے لئے غور وفکر کا سامان پیش کرتا تھا کہ مسیحیت کوہم سے قدرے پہلے ان مسائل کا سامنا کرنا پڑ ا ہے اور ان کی مذہبی روایت نے اس پر کیا رد عمل ظاہر کیا ہےاور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے  ہیں۔

پروفیسرمحمود یونس نے، جو پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور ڈاکٹر ابراہیم موسی کی زیرِ نگرانی مقالہ لکھ رہے ہیں، فطرتِ انسانی کی فلسفیانہ تفہیم کے لیے ورکشاپ کے شرکا ء کے سامنے آٹھ مختلف سوالات رکھے ۔ خاص طورپر مذکورہ موضوع پر ملا صدراشیرازی کے فلسفے پر روشنی ڈالی ۔عالم خارج میں اشیاء کی نیچر اور نفس ِانسانی کی فطرت کا مطالعہ ملا صدرا کی توضیحات کی روشنی میں پیش کیا۔یوں فطرت ِ انسانی اور ماہیت ِ اشیاء کے حوالے سے ہماری تعقلی اور فلسفیانہ روایت کی ایک مختصر جھلک بھی ہمارے سامنے آگئی ۔

ڈاکٹر ابراہیم موسی کی گفتگو کا محور امام عبد الوہاب الشعرانی کی کتاب” ارشاد الطالبین” کے بعض صوفیانہ اور حکیمانہ مباحث تھے جن کی روشنی میں آپ نے دین کی تفہیم کے لیے لامحدود امکانات کو واضح فرمایا۔شعرانی ،ابن عربی جیسے فقید المثال صوفی کے شاگرد ہونے کے ناتے سے  چیزوں کو محدود قانونی وفقہی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ ان کے ہاں بقول ڈاکٹر صاحب ،ایک Sensibility  Poetic موجودہے،جس سے تدبر وتفکر کے امکانات (Contingencies) لامحدود ہوجاتے ہیں ۔اسی لئے ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ :

We  need to develop aesthetic sensibility.

ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح کائنات کی ہر شے میں جمال موجودہے، اسی طرح قرآن و سنت اور ہماری دینی روایت میں بھی یہ بدرجہ اتم موجودہے۔ جمالیاتی شعور و احساس کے بغیر کیسے ممکن ہے کہ ہم قرآن وسنت کو کماحقہ سمجھ سکیں اور اس کی وسعتوں اور ان میں موجود امکانات سے بھرپور انداز میں فائد اٹھاسکیں ۔مثلاََ الواح پر بات کرتے ہوئے شعرانی لکھتے ہیں کہ احکام کا تعلق الواح المحو و الاثبات سے ہے اور ان الواح پرلکھا ہوا مٹتا اور تبدیل ہوتا رہتا ہے اس لئے احکام قابل ِتغیر ہیں۔یوں شعرانی کی یہ بات ہمارے لیے احکام کے میدان میں نئے فکری آفاق کھول دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ تمثیلی بیانیہ میں گہرائی اور گیرائی زیادہ ہوتی ہے ،اور یہی اپروچ ہمیں شعرانی کے ہاں ملتی ہے ۔ مزید یہ کہ اس طرح کی اپروچ ہماری روایت میں اجنبی نہیں ہے ۔مثلاَ ناموس کو آنحضرت ﷺ نے جبرئیل قرار دیا لیکن بعد میں اسے خیر کے حوالے سے بھی دیکھا گیا۔اسی طرح شعرانی جبریل کے پروں کو ایک اور تناظر میں دیکھتے ہیں ۔آخر میں استاد ِمعظم نے اپنی بات کو یوں سمیٹا کہ ہم جہاں فقہ، تاریخ ، تفسیر و حدیث کی پوری روایت کا مطالعہ کرتے ہیں ،وہاں ہماری روایت کا ایک صفحہ یہ بھی ہے جو میں نے آپ کے سامنےشعرانی کی صورت میں پیش کیا ۔ آپ چاہیں تو اسے پھینک دیں ،لیکن اس تناظر میں مضمر نئی ممکنات Contingences بہر حال ہمارے لئے نئی فکری دنیائیں پیداکرسکتی ہیں۔

تیسرا بڑا موضوع “عالمگیر دنیا میں جنس ،مذہب اور قیامِ امن ” تھا  جس کےلئے پروفیسر اطالیہ عمیر (Atalia Umair ) اور پروفیسر جیسن اسپرنگ (Jason Spring)کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ اس اہم موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر اطالیہ عمیر نے یہودی مذہبی لٹریچر میں عورتوں کے حوالے سے قوانین کی از سر ِ نو تشکیل کی ضرورت کو واضح کیا اور یہودی مذہبی قوانین پر ترقی پسند مفکرین خصوصا ترقی پسند خواتین کے اعتراضات اور یہودی قانون میں اس کے لیے مزید گنجائشوں پر غور کرنے کے امکانات کا جائزہ پیش کیا۔جنس اور مذہبی قوانین کے حوالے سے وہ  مسائل جو ڈاکٹر سعدیہ یعقوب نے اسلام کے حوالے سے پیش کیے ،کم و بیش اسی طرح کے مسائل یہودیت کے فقہی اور قانونی  ڈھانچے میں بھی پائے جاتے ہیں ۔

دوسری اہم بات جواس سیشن میں نمایاں طور پر سامنے آئی، وہ عالمی قیام ِ امن کے حوالے سے تھی جس کے لیے کرنے کا بنیادی کام تمام مذاہب کے درمیان مفاہمت اور مثبت مکالمے کی فضا قائم کرناہے۔ مذہبی کشمکش اور منافرت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم صرف اپنے مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں جبکہ اس موضوع پر کسی دوسرے مذہب کا موقف نہ تو سننے کے لیے تیارہیں اور نہ اس پر آزادی سے غورو فکر کے عادی ہیں۔اس سلسلے میں چند وڈیوز بھی دکھائی گئیں جن میں مختلف مذاہب کے اسکالرز اور اہل علم آپس میں نہایت مثبت انداز میں اپنے اپنے مذہبی متون کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس میں تمام مذاہب کے نمائندوں کو دوسرے مذاہب کا موقف خود ان کی زبانی سننے کا موقع میسر آتا ہے۔اس مکالماتی فضا کو قائم کرنے او رقائم رکھنے کے لیے انہوں نے پانچ بنیاد ی اصول بھی بیان کیےجویہ ہیں :

  1. We  should develop the mutual understanding.
  2. Try to release tension among the people.
  3. Give awareness of common goods and facilitate them.
  4. We can use the Methodology of Conflict Resolution Mechanisms.
  5. By adopting moral values.

چوتھا اور آخری موضوع “جنوبی ایشیا کی حالیہ مذہبی فکر میں کلامی تجدید کے راستے ” تھا ۔ یہ موضوع استاد ِ محترم مولانا عمار ناصر صاحب اور محترم ڈاکٹر وارث مظہری ؔ کے حصے میں آیا ۔ڈاکٹر وارث اپنی بعض تدریسی مصروفیات کی وجہ سے ورکشا پ میں آخر تک شامل نہ رہ سکے ۔لہذا اس موضوع پر دودن استاد محترم عمارصاحب ہی نے گفتگو فرمائی ۔

اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں استاد ِ گرامی قدر نے ورکشاپ کے پہلے دس دن کی پوری علمی و فکری روداد کو نہایت جامع انداز میں پیش کیا اور پھر اس موضوع کو اس کے ساتھ جوڑتےہوئے جنوبی ایشیا اور خاص طور پر بر صغیر پاک و ہند میں پچھلے دواڑھائی سو سال کی تجدیدی مساعی اور بیدار مغز مسلم علماو مفکرین اور اہل دانش کے چند کلامی و فکری تجدیدی کارناموں کو بحث کا موضوع بنا کر اس بات پر روشنی ڈالی کہ بر صغیر کی مذہبی روایت میں جو تبدیلیاں آئیں اوربڑے بڑے فکری سوالات سامنے آئے، ان کو اہل علم نے کیسے حل کیا۔مثلا جب ہم اس خطے یعنی بر صغیر میں سیاسی طور پر غالب تھے تو صورتحال اور تھی ،جب حکومت ختم ہو گئی تو اب نئے تصوراتِ سیاست سامنے آئے۔اب سوال یہ تھا کہ انہیں کیسے دیکھاجائے۔ ایک بڑا مسئلہ “جہاد ” تھا جو کئی حوالوں سے موضوع بن گیا ۔مثلا  یہ اعتراض ہوا کہ اسلام زبردستی پر یقین رکھتا ہے ، تلوار کے ذریعے پھیلا ہے،محمد ﷺ ( معاذاللہ ) ایک تشدد پسند مذہبی  رہنما تھے، وغیرہ ۔اس کے جواب میں اسلام کے تصور جہاد کو واضح کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔نوآبادیاتی دور میں جہاد کی نوعیت پر بحث ہوئی کہ آیا اسلام میں جہاد اقدامی ہےیا دفاعی۔ پھر جب بیسویں صدی کے وسط میں مسلمان قومی ریاستیں قائم ہوناشروع ہوئیں تو اسی مسئلے کی نئی جہت سامنے آئی کہ ان مسلم ریاستوں کے غیر مسلم قوموں کے ساتھ تعلق کی نوعیت خصوصا جہاد کےتناظر میں کیا ہوگی۔اسی طرح جب نو آبادیاتی حکومت ختم ہوئی تو بر صغیر میں ایک اور بحث پیداہوئی کہ چونکہ اب مسلمان دوبارہ ماضی کی مسلم سلطنت بحال نہیں کرسکتے تو اب مستقبل کے لیے ان کا لائحہ عمل کیا ہو۔مذہبی فکر کے سامنے یہ ایک بڑا سوال یہ تھا جس کے جواب میں علماء دو نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ۔ایک طبقے نے قومیت کے جدید تصور کو اپناتے ہوئے کہاکہ ہمیں متحدہ ہندوستا ن میں رہنا چاہیے جبکہ ایک طبقے کے نزدیک متحدہ قومیت کا تصوراسلامی اصولوں کے سراسر خلاف ٹھہرا۔اسی طرح دیگر متعدد مسائل پر شاہ ولی اللہ،مولانا حسین احمد مدنی ، سید انور شاہ کاشمیری ، عبید اللہ سندھی ، مناظر احسن گیلانی ، وحید الدین خان ، علامہ شبلی ، سر سید احمد خان اور جاوید احمد غامدی کی منتخب تحریرات کی روشنی میں برصغیر کی علمی و فکری روایت کو درپیش نئے چیلنچز اور ان کے ریسپانسز کاتجزیہ پیش کیا گیا۔

ورکشاپ میں چائے کے وقفوں ، کھانے کے دوران میں ، اور دیگر کئی مواقع پر اساتذہ ، نوٹرےڈیم یونیورسٹی کے طلبہ اور ساؤتھ افریقی مہمانوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا۔ ایک سوال جو مجھ سےذاتی طور پر ساؤتھ افریقی مسلم سکالر زاور طلبہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ آپ انگریزی لباس میں کلین شیو چہرے کے ساتھ پاکستان میں کیسے ایک اسلامی شعبے میں ایڈجسٹ ہو گئے ہیں۔کیا آپ کو شدید تنقید کا سامنا نہیں کر نا پڑتا؟ ان کے بقول ساؤتھ افریقہ کے ایک علاقے میں تواسے گوارا کر لیا جاتا ہے لیکن اسی ملک کے دوسرے علاقے میں جہاں زیادہ تر انڈین کمیونٹی کے علما ء ہیں ، یہ بالکل بھی قابل ِ قبول نہیں۔ میں نے بہرحال جواب کے مثبت پہلو کو ہی نمایاں کرنے کی پوری کوشش کی ۔

پروفیسرجیرالڈ مکینی (Gerald Mackeny) پاکستان کے نامورمسلم مفکر ڈاکٹر فضل الرحمان کے براہ راست شاگر د  رہے ہیں ،لہذا ان سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کافی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ ایک دن جب میں پروفیسر موصوف کے ساتھ کھانے کے دوران میں گفتگو کر رہا تھا تو نوٹرے ڈیم کی ایک طالبہ بھی آگئی اور ہمارے ساتھ شریک ِ گفتگو ہو گئی ۔ بات چلتے چلتے واک (Walk)کر نے کی افادیت پر پہنچی تو پروفیسر مکینی مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ واک کرتے ہیں ؟میں نے کہا کہ پہلے کر تا تھا، آج کل چھوڑی ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ  You should walk . میں نے کہا، ان شاء اللہ تو اس پر ساتھ بیٹھی امریکی طالبہ قہقہہ لگا کر ہنسی اور کہا” ان شا ء اللہ “۔ میں نے سمجھا کہ شاید اسے ان شاء اللہ کے معنی معلوم نہیں۔ پوچھا تو کہنے لگی کہ جانتی ہو ں کہ اگر اللہ نے چاہا۔ خیر بات آگے بڑھ گئی ،مگر میں اس قہقہے کے بارے میں سوچتارہا جو مجھے کہہ رہا تھا کہ ایک کام جو آپ جب چاہیں کر سکتے ہیں، اس کے بارے میں بھی یہ کہنا کہ اگر اللہ چاہے تو ،یعنی اس کا م میں اللہ کی مر ضی کا کیا مطلب ؟ طالبہ کے اس قہقہے میں اس ا کا پورا Worldview جھلک رہاتھا ۔

زرعی دور کے آخری حصے خصو صا سو لہویں سے اٹھارویں صدی میں زوال پذیرہوکر امت ِ مسلمہ تحفظات کی چادر اوڑھ کر لمبی تان کر سو گئی اور جب ہم اٹھے تو صنعتی دور کی چکا چوند سے ہماری آنکھیں چندھیانے لگیں ۔ سما ج کا بنیادی ڈھانچہ بدل چکاتھا۔ علم و فکر کے نئے نئے زوایے متعارف ہو چکےتھے ۔خاندان کے نظام میں جوہری تبدیلیاں واقع ہو رہی تھیں۔معیشت ، معاشرت، سیاست غرض ہرشعبہ ِ زندگی کی صورت کیا سے کیا ہو چکی تھی۔ ہمارا سارا فقہی ذخیرہ زرعی دورمیں مدون و مرتب ہوا تھا، اور اس کا ایک بڑا حصہ جدید صنعتی دور سےغیر متعلق ہو چکاتھا ۔ چنانچہ کئی سو  سال کے اس تغیر کو بر وقت نہ سمجھنے کی وجہ سے دانشِ عصر اور ہماری علمی روایت کے مابین کافی گہرا خلا پید اہو چکا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ مدرسہ ڈسکور سز اسی خلا کو پر کرنے کی ایک نہایت غیر معمولی کو شش ہے ۔یوں تو اس خلا کو پر کرنے کا احساس پوری دنیا میں مختلف علمی و فکری حلقوں میں موجود ہے اور اس سلسلے میں مختلف کوششیں بھی جاری ہیں، لیکن میرے خیال میں مدرسہ ڈسکورسز اپنے قبیل کی دیگر کاوشوں سے کئی لحاظ سے بہترہے ۔ چند پہلو ملاحظہ کیجئے:

پہلا یہ کہ اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ مسلم روایت کے علمی وفکری ورثہ میں نہایت قیمتی اجزا ہیں جو نہ صرف اُس دور کے تناظرمیں مفکرین و مجتہدین کی علمی سطح سے واقفیت عطا کرتے ہیں بلکہ دور ِجدید کی تحدیات کے حوالے سے بھی نہایت ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمیں یہ بھی سیکھنے کا موقع ملا کہ تراث کا صرف متن ہی اہمیت نہیں رکھتا، اس کے اردگرداور بین السطور بھی پوری ایک دنیا آبادہے ۔اس کے بر عکس دیگر تجددانہ مساعیا ت میں اور علمی و فکری شخصیات و تحریکا ت میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا جس سے ہماری نئی نسل کے اذہا ن میں لاشعوری طورپر روایت کے بارے میں بد اعتمادی اور نہایت غیر محسوس طریقے سے سلف سے بدگمانی پیداہوتی جارہی ہے ۔

دوسر ا یہ کہ اس کورس کی وجہ سے اپنی تراث کے کئی اہم متون نظر سے گزرے جو مدارس کے نصاب میں شامل نہیں اور نہ ہی کبھی انہیں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر سمسٹر کے بعدکسی ملک کی تہذیب وتمدن کا براہ راست مشاہدہ موقع میسر آتا ہے جس سے نئے تہذیبی،دینی ، ثقافتی و سماجی مسائل اور چیلنجز کو براہ راست دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔

تیسری بات ا س باب میں نہایت اہم یہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں سوال تواُٹھائے جاتے ہیں لیکن ان کے طے شدہ جوابات نہیں دیے جاتے ،جس کے بارے میں کافی عرصہ غور و خوض کر تا رہاکہ آخر ایسا کیوں ہے کہ سوال تو ا ٹھایا جاتاہے، لیکن اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیا جاتا ۔بالآخر اس کی بنیاد ی وجہ یہ معلوم ہو ئی کہ اساتذہ ہم پر اپنا کوئی فکری ڈھانچہ مسلط نہیں کر نا چاہتے ،ان کی کوشش یہ ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ علمی و فکری آلات ( Tools) سے لیس کریں تاکہ ان سوالات کا جواب ہم بذات ِ خود تلاش کر سکیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر علمی دیانت کا مظہر اور نہیں ہو سکتا کہ کسی سوال کا حتمی جواب دے کر مزید پہلو ؤ ں پر سوچنےاو رسمجھنےکے دروازے بند نہ کر دیے جائیں۔

رپورٹ: ڈاکٹر سید مطیع الرحمن