Home » مدرسہ ڈسکورسز » ورک شاپس » ونٹر انٹنسو 2017

ونٹر انٹنسو 2017

 

جب سائنس نیچرکے اپنے حدودسے تجاوزکرکے سوشل سائنسزمیں دخل دینے لگے توکیاہوگا؟جدیدیت کے نئے حالات میں قدیم روایات اورخبروں میں نئی معنی آفرینی علم کی کیاخدمت کر سکتی ہے؟کیاہوگاجب انسان کوبھی ویسے ہی نیچرل اشیاء کی طرح دیکھا جانے لگے جیسے سائنس نیچرل چیزوں، جانوروں، پودوں  اوریہاں تک کہ غیر جاندار چیزوں کو دیکھتی ہے۔یہ اوران جیسے اور سوالوں پر غورکرنے کے لیے 2017 کے سرمائی انٹینسو پروگرام میں ہندوپاکستان سے مدارس کے50  فارغین کو بلایا گیا تھا،ہ مارے اساتذہ اورگائڈ ان کے علاوہ تھے۔ہم اگلے چھ دنوں تک یعنی 25سے30 دسمبرتک سنجیدہ ودل چسپ لیکچروں،مذاکروں اورکائناتی تناظرمیں اسلام کوپیش کرنے کے تربیتی ورکشاپوں سے لطف اندوزہوتے رہے۔

پہلے دن پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پروفیسرماہان مرزا،جوکہ تین سالہ مدرسہ ڈسکورس پروجیکٹ کے پروگراموں کے منتظم اوراستادبھی ہیں،نے ایک لیکچردیااوراگلے چھ دنوں کے لیے یہ کہتے ہوئے غوروفکرکا ایجنڈاطے کردیا کہ ’’ہماراکام یہ نہیں کہ آپ کویہ بتائیں کہ کیسے سوچیں بلکہ یہ بتاناہے کہ بس سوچیں‘‘۔پروفیسرماہان نے ہماری توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ قرآن پاک میں دوطرح کی آیات ہیں :ایک ذکراللہ کی اوردوسرے آفاق وانفس میں تفکروتدبرکی ۔ان کی گفتگواس امرپر مرکوزرہی کہ معاصرمذہبی مسائل کویوں برتاجائے کہ سائنس اورعقیدہ کے درمیان رابطہ سمجھ میں آئے جوقدیم زمانوں سے ہی مطالعہ وتحقیق کا موضوع رہاہے۔اوراس پر مذہبی علما،فلسفیوں اورسائنسدانوں سب نے توجہ مبذول کی ہے،البتہ سب کا تناظرالگ الگ رہاہے ۔بعض نے مذہب وسائنس کے درمیان تصادم کا رشتہ بتایا،بعض نے دونوں میں تقابل کا اوربعض نے تجویز کیا کہ دونوں کے درمیان ہم آہنگی تلاش کی جائے۔موت اورابدی زندگی کے مسئلہ میں موجودہ سائنس کا موقف بڑا انوکھا اور دل چسپ ہے۔سائنس یہ نہیں سمجھتی کہ موت کوئی راز یا بھید ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ موت کا حادثہ ایک ٹیکنیکل غلطی سے ہوتاہے (مثلا ہارٹ اٹیک یا کینسر وغیرہ) توٹیکنیکل مسئلہ کا حل بھی مستقبل میں تیکنیکی بنیادوں پر نکالا جانا چاہیے!

سہ پہرکے بعدطلبہ چھوٹے چھوٹے گروپوں میں منقسم ہو کر جناب ماہان مرزاکے ذریعہ صبح کے لیکچرمیں اٹھائے گئے سوالوں پر غور کرتے رہے۔مثال کے طورپر یہ سوال کہ مذہب وسائنس کے درمیان رشتہ کی کون سی نسبت قابل قبول ہوسکتی ہے،تصادم کی، تقابل کی یا مفاہمت کی ؟کیاجدیدسائنس کبھی موت کی گتھی سلجھانے کے قابل ہو سکے گی ؟اورابدی زندگی مذہبی فکر کے سامنے کیاچیلنج لے کر آئے گی؟

دوسرے دن پروفیسرابراہیم موسی ٰ نے تعبیرمتن کے اصول (Hermeneutics ) تاریخ اورروایت کا تعارف کرایا۔اس میں یہ بحث بھی شامل تھی کہ مسلم ذہن میں متنیت کا کون ساپہلوحاوی رہاہے:محکم معنی کایااستعارہ کا؟ اوراسلام میں لفظ ومعنی کا کیااٹوٹ رشتہ رہاہے۔انہوں نے اصول تعبیرمتن کے بارے میں اس چیز کی وضاحت کی کہ کسی متن کومجموعی طورپرکوئی کیسے دیکھتاہے اورمجموعہ کے حوالہ سے ہرفردکی فہم کا کیارول ہوتاہے ۔ان کا کہناتھاکہ نہ ہی کوئی پورامتن نہ اس کا کوئی حصہ ایک دوسرے کے حوالہ کے بغیرسمجھاجاسکتاہے اوراسی لیے یہ اصول فہم دائروی ہے ۔یہ موضوع تعبیراتی طورپر کسی متن کی تفہیم کے پراسِس کی وضاحت کرتاہے۔آج اس موضوع میں زبانی وغیرزبانی ابلاغ ،مفروضات ،ماقبل مفہوم اورعلامتیات سب سے بحث کی جاتی ہے۔ پروفیسرابراہیم کے لیکچرسے اٹھے کئی سوال سہ پہرکے سیشن میں ہماری فوری گفتگوکا موضوع بن گئے۔مثلاًیہ سوال کہ جوزبان ہم استعمال کرتے ہیں وہ حقیقت تک پہنچاتی ہے؟زبان کی تخلیق میں کلچرکا کردارکیاہوتاہے؟اوریہ کہ کسی ایک سے دوسری زبان میں تصورات کومنتقل کرناکیوں دشوارہوتاہے؟

تیسرے دن پروفیسردین محمد نے، جو سری لنکا سے تعلق رکھتے ہیں اورجنہوں نے مدرسہ اورایک بودھ خانقاہ میں تعلیم پائی ہے،  اخلاقیات ،معاصرمسائل کے حل اوراس میں علماکے کردارپر گفتگوکی۔ انہوں نے علماکی صلاحیتوں میں اضافہ کے حوالہ سے بھی اظہار خیال کیا۔انہوں نے واشگاف لہجہ میں مسلم فکرکی اہمیت سے آگاہ کیا اورامام غزالی اورشہاب الدین سہروردی کے نظریات کا تعارف کرایا۔ہمیں ایک عرب اسکالرپروفیسرمحمدخلیفہ کوسننے کا موقع بھی ملاجنہوں نے ہماری توجہ کئی چیزوں کی طرف ملتفت کرائی مثلاً اسلام اور مسیحیت کے مابین ہم آہنگی کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کیا ۔ مسلمانوں کے عروج وزوال کے اسباب گنائے۔مسلم دنیا پر سامراج کے اثراتِ بدکا تذکرہ کیا۔ماحولیات اورقابل بقاترقی کی وضاحت کی اورشکوہ کیاکہ علماجمعہ کے خطبوں میں سائنس وٹیکنالوجی کوموضوع کیوں نہیں بناتے ؟ہم لوگ متعلقہ سائنسی چیزوں کا ترجمہ کیوں نہیں کرتے ؟وغیرہ۔

یہ کلاسیں اورمذاکرے ڈائننگ ہال،کیفوں،اورمیدانی دوروں میں بھی تقسیم ہوجاتیں۔جن کے دوران میں ہم نے قطرمیوزیم آف اسلامک آرٹ کا دورہ کیا،جس میں تین براعظموں کے تقریبا 1400 نوادرات کی نمائندگی ہے۔اسی طرح ہم نے قطرنیشنل لائبریری کا دورہ بھی کیاجوکہ قطرفاؤنڈیشن فار سائنس، ایجوکیشن،سائنس اورکمیونیٹی ڈیولپمنٹ کی ایک ممبر ہے۔

ونٹرانٹینسوکوکامیاب بنانے میں ڈاکٹروارث مظہری اور مولانا عمارخاں ناصر،جوانڈیاوپاکستان سے مدرسہ ڈسکورس کے اہم اساتذہ ہیں،نے اہم کرداراداکیا۔انہوں نے چوتھے دن زبان،مقدس کتابوں اوران کی تعبیروتفسیرکے اوپرکلام کیا۔ان کے لیکچروں سے معلوم ہواکہ اپنے تجربات اورفہم میں مطابقت ڈھونڈنے اوروحی کی تعبیرات کواپنی سماجی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنے کے میدان میں ہم تنہانہیں ہیں بلکہ اس سے قبل بڑے بڑے مسلمان مفکرین جیسے الغزالی بھی عقل ونقل میں مطابقت پیداکرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔اوراس عمل میں ان کوبھی ہماری جیسی ہی مشکلات کا سامناکرنا پڑا تھا ، تاہم انہوں نے ان مسائل کواپنے زمانہ اوروقت کے اعتبارسے حل کیاتھا۔

پروگرام کے اختتام کے نزدیک پانچویں دن پروفیسر رنا دجانی کے دل چسپ لیکچرنے سب کی توجہ مبذول کی ۔ انہوں نے مسلم دنیا میں نظریہ ارتقا  کی تدریس کے بارے میں گفتگو کی ۔اسی طرح عالمی سطح پر اجماعی بنتے جارہے حقوق انسانی کے تصور اور اسلامی روایتی ورلڈویوکے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے سلسلہ میں  اپنی اسٹریٹیجی بتائی۔اپنے لیکچرمیں بڑے دل چسپ انداز میں انہوں نے بتایاکہ اسلامی تصورات اورارتقاء کی تھیوری میں بہت زیادہ اختلاف نہیں ہے۔اس تھیوری کے مطابق جانوروں اور انسانوں کی تخلیق کا عمل کوئی مثبت ومسلسل عمل نہیں ہے بلکہ اس میں موت،قحط سالی اورجنگوں کے ذریعہ انقطاع بھی ہوتا رہتا ہے۔

چھٹے دن ونٹرانٹینسوکا یہ پروگرام چندطلبہ کے اظہار تاثرات اورہمارے اساتذہ وسرپرستوں کے اختتامی کلمات کے ذریعہ تکمیل پذیرہوا۔پروفیسرابراہیم موسیٰ نے اس کا اختتام شکیل بدایونی کا یہ مشہورمصرع پڑ ھ کرکیا ؂

میراعزم اتنابلندہے کہ پرائے شعلوں کا ڈرنہیں

مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کوجلانہ دے

اس پروگرام میں کئی چیزوں سے ہم نے بہت استفادہ کیا۔میرااحساس ہے کہ اب ہم پہلے سے بہترطورپرتحریراورتبادلہ افکارکے ذریعہ دوسروں تک پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ پروگرام بھلے ہی ختم ہوگیاہولیکن ہمارے اندراُس نے گہری سوچ اورتبدیلی پیداکردی ہے اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی شہرمیں یہ چھ دن بڑے یادگارتھے جنہیں ہم بھلانہ سکیں گے۔

رپورٹ: ڈاکٹر جاوید اختر