Home » سائنسی تصور کائنات
سائنس

سائنسی تصور کائنات

 

(رچرڈ ڈیوٹ کی کتاب Worldviews کے پہلے باب کا ملخص ترجمہ)

ترجمہ وتلخیص :شہزاد حسین

پہلا باب ورلڈویو کے تعارف پر مشتمل ہے۔ اس موضوع پر گفتگو سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ نظریہ اتنا سادہ نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت پیچیدگیاں ہیں۔ اس باب کی ابتدا اِس نظریے پر روشنی ڈالنے سے کی جائے گی، اس کے بعد ارسطو اور موجودہ دور کے ورلڈویو کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی، تا کہ ان میں موجود پیچیدگیوں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

ورلڈویو کی اصطلاح کے استعمال کو اگرچہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی کوئی متّفق علیہ تعریف نہیں ہے۔ اس کتاب میں مصنّف نے ورلڈویو کی اصطلاح کو عقائد کے ایسے نظام کے لیے استعمال کیا ہے جو آپس میں اس طرح مربوط ہوں، جیسے جِگسا پزل کے ٹکڑے باہم مربوط ہوتے ہیں۔ ورلڈویو کے اس معنی کو بیان کرنے کے لیے سب سے پہلے ارسطو کے ورلڈویو سے مدد لی گئی ہے۔

ارسطو کا پیش کردہ تصور کائنات:

ارسطاطالیسی تصور کائنات کو 300 (ق-م) سے 1600 (ب-م) تک مغربی دنیا میں غلبہ حاصل رہا ہے۔ اس تصور کائنات  میں اگرچہ کئی نظریات ایسے ہیں جو ارسطو (322-384 ق-م) کے بیان کردہ ہیں، لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس کا معتدّ بہ حصہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو ارسطو کے بعد اس میں شامل کیے گئے، لیکن ارسطو کے نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے اسی کا حصہ سمجھے جاتے ہیں ۔ ارسطاطالیسی تصور کائنات  کو بہتر طریقے سے سمجھنے کی غرض سے پہلے ارسطو کے اپنے نظریات کو بیان کیا جائے گا اور اس کے بعد اس میں شامل کیے جانے والے دیگر تصورات کا تذکرہ ہو گا۔

ارسطو کے نظریات:

ارسطو کے معروف نظریات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1۔ زمین کائنات کا مرکز ہے۔

2۔ زمین ساکن ہے؛ نہ تو کسی اور ستارے کے گرد گھوم رہی ہے اور نہ اپنے محور پر گھوم رہی ہے۔

3۔ سورج، چاند اور دیگر سیارے تقریباً چوبیس گھنٹے میں زمین کے گرد اپنا چکر مکمل کرتے ہیں۔

4۔ چاند اور زمین کے درمیانی حصے  میں (جس میں زمین بھی شامل ہے) بنیادی طور پر چار عناصر پائے جاتے ہیں، یعنی  مٹی، پانی، ہوا اور آگ۔

5۔ چاند اور اس سے اوپر کی فضا  میں ایک پانچواں عنصر پایا جاتا ہے، جسے ایتھر کہا جاتا ہے۔

6۔ ہر عنصر کی ایک لازمی فطرت ہے، جس پر اُس عنصر کا برتاؤ اور حرکت دلالت کرتی ہے۔

7۔ مثلاً‌ مٹی کی فطرت یہ ہے کہ وہ کائنات کے مرکز کی جانب حرکت کرتی ہے (پتھر کے زمین کی جانب گرنے کی وجہ یہی ہے؛ کیوں کہ زمین مرکزِ کائنات ہے)۔

8۔ پانی کی فطرت بھی یہی ہے کہ وہ کائنات کے مرکز کی جانب حرکت کرتی ہے، لیکن اس کی فطرت مٹی کے مقابلے میں کمزور ہے (اسی لیے پانی اور مٹی کو جب یک جا کر کے کیچڑ بنایا لیا جائے تو دونوں مرکز کی جانب حرکت کرتے ہیں، لیکن پانی مٹی کی بالائی سطح پر آ جاتا ہے)۔

9۔ ہوا کا خاصّہ یہ ہے کہ وہ مٹی اور پانی سے اوپر کے مقام کی جانب حرکت کرتی ہے (جب پانی میں ہوا کو داخل کیا جائے تو اس کی سطح پر بلبلوں کا نمایاں ہونا اسی کی علامت ہے)۔

10۔ آگ کی فطرت میں مرکزِ کائنات سے دور جانا شامل ہے (آگ کے شعلوں کے اوپر کی جانب جانے کا یہی سبب ہے)۔

11۔ سورج، چاند اور دیگر ستارے جس عنصر سے بنے ہوئے ہیں، اسے ایتھر کہا جاتا ہے اور اُس کی فطرت میں گول دائرے میں چکر کاٹنا شامل ہے۔ (سورج، چاند اور ستاروں کا مرکزِ کائنات یعنی  زمین کے گرد لگاتار گول چکر لگانے کا یہی سبب ہے)۔

12۔ زمین اور چاند کے درمیانی علاقے میں حرکت کرنے والی شے بالآخر ساکن ہو جاتی ہے؛ یا تو وہ اپنے فطری مقام تک پہنچ جاتی ہے اور یا کوئی شے بیچ میں حائل ہو جاتی ہے۔

13۔ جب تک ساکن چیز کو حرکت میں لانے کا کوئی سبب نہ ہو، اس وقت تک وہ ساکن ہی رہے گی۔ (یہ ذریعہ یا تو خارجی ہو گا، جیسے ایک لڑکے کا ساکن گیند کو حرکت دینا اور یا داخلی و فطری ہو گا، جیسے بارش کے پانی کا زمین کی جانب برسنا)۔

یہ ارسطو کے صرف چند نظریات ہیں۔ اس کے علاوہ ارسطو کے کئی نظریات ہیں جن کا تعلق سیاست، حیاتیات، نفسیات اور اخلاقیات وغیرہ سے ہے۔ مذکورہ بالا نظریات سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اکثر نظریات ارسطو کے نظریات سے مختلف ہیں۔

ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ ارسطو کے مجموعۂ نظریات کو متفرّق اور غیر مدلّل نہیں کہا جا سکتا؛ کیوں کہ ہر نظریہ دیگر نظریات سے ماخوذ ہے اور ان دلائل پر مبنی ہے جو ارسطو کے زمانے میں انسانی علم کو دستیاب تھے۔ مثال کے طور پر زمین کے مرکزِ کائنات ہونے کا نظریہ اس دور کی میسّر سائنسی معلومات کے عین مطابق تھا۔ اسی طرح یہ مجموعہ باہمی مربوط ہے۔ اس باہمی ربط کو سمجھنے کے لیے اِن نظریات کو جِگسا پزل کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، نہ کہ گھر کے سودا سلف کی غیر مربوط فہرست کی طرح۔ جِگسا پزل کی مثال سے تصور کائنات کا مفہوم بھی زیادہ واضح ہو جاتا ہے؛ کیونکہ پزل کا ہر ایک ٹکڑا دوسرا ٹکڑے کا محتاج اور اس کے بغیر بے مقصد ہوتا ہے۔ اسی طرح ارسطو کے نظریات باہم مربوط ہو کر ایک نظام بناتے ہیں۔ اس ربطِ باہمی کو ایک مثال سے سمجھیے۔

ارسطو کے نزدیک زمین کائنات کا مرکز ہے۔ اس کا ایک اور نظریہ یہ ہے کہ مٹی کی فطرت یہ ہے کہ وہ کائنات کے مرکز کی جانب حرکت کرتی ہے۔ یہ دونوں نظریات مربوط ہیں؛ کیوں کہ زمین مٹی کی بنی ہوئی ہے، لہذا مرکزِ کائنات ہونا اس کی فطرت ہے۔ اسی طرح کوئی شے اس وقت حرکت کرتی ہے، جب حرکت کا کوئی ذریعہ ہو اور جب وہ اپنی فطری مقام تک پہنچ جائے تو وہ ساکن ہو جاتی ہے۔ لہذا زمین مٹی سے بننے کے سبب مرکز کی جانب حرکت کرے گی اور چوں کہ وہ اپنے فطری مقام تک پہنچ گئی ہے تو اب وہ ساکن ہو گی۔ معلوم ہوا کہ زمین کا ساکن ہونے کا نظریہ مذکورہ بالا نظریات سے مربوط ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جِگسا پزل میں بعض ٹکڑے بنیادی و ضروری ہوتے ہیں، جبکہ بعض کی اہمیت ثانوی وضمنی ہوتی ہے۔ ضروری ٹکڑوں کے بغیر سارا پزل خراب ہو جاتا ہے، لیکن غیر ضروری ٹکڑوں کی گمشدگی کی صورت میں پزل قابلِ استعمال رہتا ہے۔ اسی طرح ارسطو کے نظریات میں بھی بعض بنیادی ہیں اور بعض غیر بنیادی۔ بنیادی نظریات کی ردّ و بدل کی صورت میں پورا تصور کائنات تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی، جب کہ غیر بنیادی نظریات میں تغیّر کی گنجایش رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ارسطو کا نظریہ یہ تھا کہ سورج اور چاند کے علاوہ پانچ سیارے ہیں؛ کیوں کہ اُس دور کی معلومات کے مطابق یہی دریافت ہوئے تھے۔ لیکن اگر ایک چھٹا سیارہ دریافت ہو جاتا تو ارسطو کے بنیادی نظریات میں کسی تبدیلی کے بغیر اس نئے سیارے کی گنجایش نکالی جا سکتی تھی اور اس کی حرکت کو بیان کیا جا سکتا تھا۔ یہ اس کے غیر بنیادی نظریہ ہونے کی دلیل ہے۔ اس کے مقابلے میں زمین کا ساکن اور مرکزِ کائنات ہونے کا نظریہ بنیادی نظریہ تھا۔ آیا ارسطو اس بات کو قبول کر سکتا تھا کہ سورج کائنات کا مرکز ہے اور زمین متحرّک ہے؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ نہیں؛ کیوں کہ اُس صورت میں ارسطو کو اپنے پورے ورلڈویو کو تبدیل کرنا پڑتا۔ اس کے نزدیک مٹی اور پانی کی حرکت کائنات کے مرکز کی جانب ہوتی ہے، تو اگر سورج کو کائنات کا مرکز مان لیا جائے تو عناصرِ اربعہ کی حرکت کے بارے میں اسے متبادل نظریات پیش کرنا ہوں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ارسطو کے نظریات متفرّق اور بے ربط نہیں ہیں، بلکہ باہم مربوط اور دلائل پر مبنی ہیں۔ البتہ بعض ضروری و بنیادی نظریات ہیں، جب کہ دیگر غیر بنیادی ہیں۔

ارسطوطالیسی ورلڈویو:

پہلے ارسطو کے مجموعۂ نظریات کا ذکر کیا گیا اور اب ارسطوطالیسی ورلڈویو کا تذکرہ کیا جائے گا؛ کیوں کہ 300 ق-م سے 1600 ب-م تک یہی ورلڈویو مغربی دنیا میں غالب رہا۔ اگرچہ ارسطو کے مجموعۂ نظریات کو ورلڈویو کہا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ ہر شخص کے نظریات عام طور پر باہم مربوط ہوتے ہیں اور یہی ورلڈویو کا خاصّہ ہے۔ لیکن اس کتاب میں انفرادی سطح سے ہٹ کر اجتماعی سطح کا لحاظ کر کے ارسطوطالیسی ورلڈویو کی اصطلاح کی جائے گی۔ مغربی دنیا کے اس غالب ورلڈویو کو ارسطو کی جانب منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس ورلڈویو میں ارسطو کے بنیادی نظریات کو عمومی طور پر مانا گیا ہے۔ زمین کا مرکزِ کائنات ہونا، اشیا کے لیے فطرتِ لازمہ کا ثبوت، زمین اور چاند کے مابین مقام کا غیر کامل ہونا اور اس سے بالائی مقام کا کامل ہونا اس ورلڈویو کے بنیادی نظریات رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں بہت سی ضمنی تبدیلیاں رونماں ہوئيں، مثال کے طور پربعد میں یہودی، عیسائی اور اسلامی نظریات بھی اس ورلڈویو کا حصہ بن گئے۔ اس کے علاوہ نوافلاطونیت کے نام سے افلاطون کے چند نظریات بھی اس ورلڈویو میں متعارف کرائے گئے۔ لیکن ارسطوطالیسی روح اس ورلڈویو کا بنیادی حصہ رہی۔

نیوٹونین ورلڈویو:

ارسطوطالیسی ورلڈویو کے مقابلے میں دیگر کئی مجموعۂ نظریات بھی سامنے آئے۔ مثال کے طور پر 1600 صدی عیسوی میں دوربین کی ایجاد سے یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے۔ یہ بات پہلے ذکر ہو چکی ہے کہ زمین کا سورج کے گرد حرکت کرنے کا نظریہ ارسطوطالیسی ورلڈویو کے بنیادی نظریات میں سے ہے، لہذا اس کے مقابلے میں کسی دوسرے نظریے کو قبول کرنا درحقیقت ایک نیا ورلڈویو پیش کرنے کے مترادف ہے۔ اس نئے نظریے کی بنیاد پر کھڑا ہونے والا نیا ورلڈویو نیوٹونین ورلڈویو کہلاتا ہے، جو ائزک نیوٹن (1642-1727) اور ان کے معاصرین کے نظریات کے بل بوتے پر ابھرا۔ ارسطوطالیسی ورلڈویو کی طرح اس ورلڈویو میں بھی کئی نظریات شامل تھے؛

1۔ زمین اپنے مدار پر حرکت کرتی ہے اور چوبیس گھنٹے میں ایک چکر مکمّل کرتی ہے۔

2۔ زمین اور دیگر سیّارے سورج کے گرد بیضوی حرکت کرتے ہیں۔

3۔ کائنات میں ایک سو سے زیادہ بنیادی عناصر پائے جاتے ہیں۔

4۔ اشیا کی حرکت بیرونی قوّتوں کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ (مثال کے طور پر کششِ ثقل کی وجہ سے پتھر زمین کی جانب گرتے ہیں۔)

5۔ دیگر سیارے اور ستارے اُنھی بنیادی عناصر سے بنے ہوئے ہیں، جن سے زمین بنی ہے۔

6۔ زمینی اشیا پر لاگو ہونے والے قوانین خلا (دیگر ستاروں اور سیّاروں) میں بھی لاگو ہوتے ہیں۔ (مثال کے طور پر متحرّک شے حرکت میں ہی رہے گی، جب تک اسے کوئی قوّت  ساکن نہ کر دے۔)

مذکورہ بالا چند نظریات نیوٹونین ورلڈویو کے بنیادی نظریات ہیں۔ یہ ورلڈویو، ارسطوطالیسی ورلڈویو کی طرح کئی خواصّ کا حامل ہے؛ اس کے نظریات باہم مربوط، ایک دوسرے سے مشتقّ ہیں اور ان میں بعض بنیادی اور دیگر غیر بنیادی ہیں۔ ارسطوطالیسی ورلڈویو سے نیوٹونین ورلڈویو میں ڈرامائی تبدیلی کو اس کتاب کے دوسرے حصے میں ذکر کیا جائے گا۔ کتاب کے تیسرے حصے میں اس دور کی دریافتوں کا تذکرہ ہو گا، تا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ جس طرح سولھویں صدی کی دریافتوں کے نتیجے میں نظریات میں تبدیلی کی ضرورت پڑی، اسی طرح موجودہ دریافتیں بھی تبدیلی کا تقاضا کرتی ہیں۔

اختتامیہ:

آخر میں دو اہم باتوں کی وضاحت کی جا رہی ہے؛ دلیل اور عقل۔

دلیل:

ہر شخص کے نظریات کے پیچھے کچھ وجوہات و دلائل کار فرما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو کا یہ نظریہ کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے، اپنے وقت کی معلومات کی حدّ تک مدلّل نظریہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہ نظریہ غلط قرار دے دیا گیا۔ دلائل دو طرح کے ہوتے ہیں؛ بلا واسطہ اور بالواسطہ۔ ہمارے نظریات کے پیچھے اکثر اوقات بالواسطہ دلائل ہوتے ہیں اور محض چند نظریات بلا واسطہ دلائل پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا نظریہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس کوئی بلا واسطہ دلیل نہیں ہے۔ جب ہم سائیکل چلا رہے ہوں تو ہمارے پاس اپنی حرکت کے لیے بلا واسطہ دلائل ہوتے ہیں؛ مثال کے طور پر اشیا کا ہم سے پیچھے رہ جانا، چہرے پر مخالف رخ میں چلنے والی ہوا کا احساس وغیرہ۔ جب کہ زمین کی حرکت کے دوران ہمیں اس جیسی کسی چیز کا مشاہدہ نہیں ہوتا۔ ہم اس نظریے کو اس لیے مانتے ہیں کہ ہم نے بچپن سے یہی بات سنی ہے، ہمارے اردگرد کے تمام لوگ اسی کے قائل ہیں اور ہماری معتبر سائنسی کتابوں میں یہی بات لکھی ہوئی ہے۔ اکثر اوقات کسی نظریے کو ماننے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ نظریہ ہمارے ورلڈویو کے دیگر نظریات سے مطابقت رکھتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اس نظریے کی دلیل کا ہمارے ورلڈویو سے گہرا تعلّق ہوتا ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال ہمارے اس نظریے کی ہے کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کئی دفعہ ہم کسی نظریے کو محض اس لیے قبول کر لیتے ہیں کہ وہ ہمارے ورلڈویو کے دیگر نظریات سے مطابقت رکھتا ہے، جبکہ معدودے چند نظریات کے لیے ہمارے پاس بلا واسطہ دلائل ہوتے ہیں۔

عقل(Common Sense):

ہم میں سے اکثر لوگ بچپن سے ہی نیوٹونین ورلڈویو کی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں، لہذا ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ نیوٹونین ورلڈویو کے نظریات عقل کے عین مطابق ہیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں یہ دعوی درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر زمین کی حرکت کو لیجیے۔ جب کوئی شے حرکت کرتی ہے تو اس کے کچھ اثرات محسوس ہوتے ہیں اور عقل عام انھی اثرات کا تقاضا کرتی ہے، لیکن زمین کی حرکت کا کچھ اثر ہم محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح متحرّک شے کا ہمیشہ حرکت میں رہنا بھی عقل و تجربہ کے خلاف ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے یہ نظریات عقل کی دَین نہیں ہیں، لیکن اسی ورلڈویو کے ساتھ مانوس ہونے کے سبب ہمیں یہ عین فطرت و عقل کے مطابق محسوس ہوتے ہیں۔ اگر ہم ارسطاطالیسی تصور کائنات میں پلے بڑھے ہوتے تو یقیناً ہمارا یہی رویہ اُس کے ساتھ بھی ہوتا۔ لہذا کسی نظریے یا ورلڈویو کے درست ہونے پر یہ دلیل پیش کرنا کہ یہ اس لیے صحیح ہے کہ عقل عام اس کا تقاضا کرتی ہے، مضبوط دلیل نہیں ہے۔

اس بات سے یہ دل چسپ معاملہ بھی سامنے آتا ہے کہ ارسطاطالیسی ورلڈویو غلط ثابت ہو گیا؛ کیونکہ زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے، اشیا کوئی خاص فطرت نہیں ہوتی وغیرہ۔ دو ہزار سال تک مانے جانے والا ورلڈویو اب تاریخ کا حصہ بن گیا۔ یہ بات کوئی بعید نہیں کہ جس ورلڈویو کو ہم عقل کے مطابق سمجھ رہے ہیں اور کائنات کی بہترین توضیح جسے سمجھ رہے ہیں، وہ ہماری اولاد کے زمانے میں غلط ثابت ہو جائے۔

مولانا شہزاد حسین

مولانا شہزاد حسین نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے درس نظامی اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے علوم اسلامیہ میں ایم فل مکمل کیا ہے۔ ہری پور کی ایک سرکاری درسگاہ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
abumuhammad1434@hotmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں