دین کی حرفی تعبیر کا رجحان تو کسی نہ کسی شکل میں اسلامی علمی روایت میں بہت پہلے سے رہا ہے تاہم موجودہ عہد میں اس میں اضافہ ایک دوسری شکل میں سامنے آیا ہے۔ اور وہ ہےنص کی حرفی تعبیر کے ذریعے اپنی علمی روایت سے مکمل انقطاع کا رجحان۔یہ رجحان بنیادی طور پر اس دعوے پر مبنی ہے کہ ہماری علمی روایت میں قرآن کی تفہیم وتعبیر صحیح طور پر نہیں کی جاسکی۔ اور دین و شریعت کی نہایت مہتم بالشان تعلیمات بھی پردہ ٔخفا میں رہ گئیں۔ تمام فکری اور تہذیبی مسائل در اصل اسی مسئلے کی پیداوار ہیں۔ مخالفین کی طرف سے بہت سے مسائل وموضوعات کے حوالے سے جواعتراضات واشکالات پیش کیے جاتے ہیں ، ان کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ’’قرآن کے بالکل واضح بیانات‘‘ سےدانستہ یا نادانستہ طورپر چشم پوشی کرتے ہوئےہمفسرین ومجتہدین کی تقلید میں متعلقہ نصوص ؍آیات کے وہ معنی اخذ کرلیے گئے ہیں جوقرآن کی منشا کے صریح خلاف ہیں۔
اس کی مختلف مثالوں میں سے ایک مثال دیکھیں۔سوال یہ ہے کہ غلامی کی اسلام میں کیا حقیقت ہے؟ اس تعلق سے علما کی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ اسلام نےجہاد کے نتیجے میں مفتوحہ قوموں کے قیدیوں کوغلام بنانے کی اجازت دی ہے کیوںکہ قیدیوں کے مسئلے کا یہ ایک بہتر حل ہے۔خود رسول اللہ نے جنگی قیدیوں کو غلام بنایا اور صحابہ وتابعین کرا م کے یہاں غلام اور باندیاں تھیں ۔ اس کارواج اموی اورعباسی ادوار میں پورری شدت کے ساتھ باقی رہا۔ تمام فقہا ومجتہدین اس کوجائزقرار دیتے رہے ۔چناں چہ فقہ کی کتابوں میں غلامی کے حوالے سے تفصیلی مسائل موجود ہیں۔ا ن کا موقف یہ ہے کہ اسلام نے غلامی کے رواج پر بندش تونہیں لگائی تاہم غلاموں کی رہائی کے حوالے سے ایسے ترغیبی اور ترہیبی احکامات متعارف کرائے جن کے زیر اثر آہستہ آہستہ اس کا سد باب ہوجائے۔
لیکن زیر تذکرہ رجحان کے مطابق، جس کے نمائندے ہندوپاک دونوں میں پائے جاتے ہیں، درج ذیل آیت کے بعد جوبدرکے موقع پر نازل ہوئی قیدیوںکوقتل کرنے یا لونڈی اور غلام بناکر رکھ لینے کی گنجائش ہمیشہ کے لیے ختم کردی گئی۔(میزان:602):
َوإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا۔’’اور جب ان لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہوجنہوںنے کفر اختیار کررکھا ہے،توگردنیں مارو،یہاں تک کہ جب ان کی طاقت کچل چکے تومضبوطی سے گرفتارکرلوپھر چاہے احسان کرکے چھوڑدو یا فدیہ لے کر‘‘۔(محمد: ۴)
میرے مطالعے کی حدتک اس آیت کا یہ مطلب کسی قابل ذکر عالم ومفسرنے کبھی یہ نہیں لیا۔ چناں چہ کسی بھی معتبر تفسیر کی کتاب سے اس موقف کے حق میں دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ برصغیر ہند میں غالبا سب سے پہلے چراغ علی نے اس آیت کا یہ مفہوم بیان کیا۔جس کوسرسید احمد خاں کے رسالہ’’ ابطال غلامی‘‘(ص،۲۵) کے ذریعے تقویت حاصل ہوئی۔
یہ رجحان یا موقف نہایت درجہ علمی سادہ لوحی پرمبنی ہے۔یہ وقت کے پیچیدہ ترین مسائل کا ریڈی میڈ حل ڈھونڈنے کی کوشش ہے۔اس موقف پرسب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرخیر القرون میں پائی جانے والی غلامی کی مثالوں ،صحابہ وتابعین کے اعمال اور جمہور ائمہ ومجتہدین کے اجتماعی موقف کی کیا تعبیر کی جائے گی ؟ بغیرنکاح کے باندیوں سے استمتاع اور غلاموں سے انتفاع کے ان کے نظریہ وعمل کوکس خانے میں رکھا جائے گا؟
جواب ہے: قرآن سے جوبھی موقف متصادم ہو اس کوقبول کرنے کی ضرورت نہیں۔مجتہدین ومفسرین کو اس کے لیے معذور تصور کیا جائے گا کہ قرآن کا صحیح موقف سمجھنے میں ان سے اجتہادی خطا ہوئی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے اس مستقل رجحان کی جس کے مطابق ایسے فکری پیچیدگی رکھنے والے مسائل کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی چودہ سوسالہ علمی وفکری روایت سے اوپر اٹھ کرنصوص کی مجرد تعبیر کے ذریعے ان کا آسان حل دریافت کرلیا جائے اور اس سے پوری علمی روایت کے بارے میں جوپوزیشن بنتی ہےاس سے صرف نظر کرلیا جائے۔اس رجحان کی خطرنا کی کا سب سے اہم پہلویہ ہے کہ آپ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرون اولی میں بھی دین کے نہایت واضح اور صریح احکامات کی صحیح فہم وتفہیم ممکن نہیں ہوپائی۔یہ موقف سیکولر اور دین مخالف رجحان کے حاملین کے ہاتھوں میں ایسا خنجر دے دیتا ہے جس سے وہ بہ آسانی دین کی شہ رگ کوکاٹ سکتے ہیں۔اس کی مثال جسم کے ایک صحیح عضو کوکاٹ کر دوسرے خراب فرض کرلیے گئے عضوکی جگہ اس کی پیوندکاری کی کوشش ہے جس سے اس عضومیں پایا جانے والے’ نقص‘ کا تودور ہونا ممکن نہیں البتہ ایک صحیح تندرست وتوانا عضو کے بے کار ہوجانے کا خدشہ ضرور ہے۔
اس موقف سے اصولی طور پرکسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ:’’روایت سے انقطاع وانحراف کا مزاج اور روایت کی ابدیت کا تصور رکھنا ‘‘ دونوں ہی غلط ہیں۔روایت انسان کی عقلی اورتمدنی ترقی کے نتیجے میں ہمیشہ ارتقا پذیررہتی ہے لیکن جس اطلاقی تعبیر کے ساتھ یہ بات کہی جاتی ہے ،اس پرمتعدد سوالات پید اہوتے ہیں۔سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر یہ تسلیم کرلیا جائےکہ روایت اپنے مکمل ڈھانچے کے ساتھ مجموعی شکل میں ارتقا اورتغیر کوقبول کرتی رہتی ہے، تومذہبی فکر میں’’مسلمات‘‘ کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ جاتی کیوں کہ اس ضمن میں عقائد واخلاق بھی آتے ہیں،جن کی بنیادیں اسلامی فکر میں بدیہی طور پرمسلمات کا درجہ رکھتی ہیں ورنہ دوسری صورت میں بات relativismتک پہنچتی ہے جس کے ساتھ مذہبی فکرآگے نہیں بڑھ سکتی۔اصل بات یہ ہے کہ روایت پرگفتگو کا مذہبی اورفلسفیانہ فریم ورک باہم مختلف ہے۔ اگراس تعلق سے فرق کو روا نہ رکھا جائے تو خلط مبحث پیدا ہوجاتا ہے۔
ہم جس نئے رجحان کی بات کررہےہیں اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسی مذہبی روایت کے فریم ورک میں نصوص کی تعبیروتفہیم پرسوال کھڑے کرتے ہوئے یہ دعوی کرتا ہے کہ نصوص کی تفہیم کے حوالے سے جومسائل پیش آرہے ہیں اس کابنیادی سبب ان نصوص کے ابتدائی شارحین کی نصوص کے فہم میں غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں۔یہ اس رویے سے مختلف ہے جوجدیدیت پسند اختیارکرتے ہیں کہ نص کی تفہیم جو اس وقت کی گئی اپنے سیاسی وثقافتی سیاق میں وہ صحیح تھی البتہ اب سیاق بدل جانے کی وجہ سے اس کی تعبیرمختلف ہوگی۔اس میں شک نہیں کہ یہاں بھی جس اطلاقیت اور عمومیت سے کام لیا گیا ہے وہ نصوص کی مجموعی تعبیر کے حوالے سے نہایت مشکل آفریں ہے اور اس سے نئی قسم کی پیچیدگیاں پید اہوجاتی ہیں تاہم اس میں وہ قباحت باقی نہیں رہتی کہ لامحالہ دینی نصوص کی غلط تفہیم کا الزام اصحاب فقہ واجتہاد کی اولین نسلوں پر عائد کیا جائے۔میرا خیال ہے کہ اس رجحان کی اساس تحقیق وتنقیح سے زیادہ ادعائیت اور مفروضہ پسندی پر ہے۔مثال کے طور پر اس رجحان کے حاملین کا خیال ہے کہ قرآن مدون شکل میںرسول اللہ کی طرف سے امت کوحاصل ہوا۔عہد ابوبکروعثمان میں تدوین کی بات محض افسانہ ہے۔ اس قبیل کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ اس رجحان کے حاملین کا ارتکاز اسلامی تاریخ کے حوالے سے ’’کیا ہوا‘‘یا ’’کیا ہوسکتاتھا‘‘ کے بجائے ’’کیا ہوناچاہیے تھا‘‘پر زیادہ ہے۔اس لیے اس اس ذہنی فریم ورک میں جوچیز فٹ نہیں ہوتی وہ اس کا انکار کردیتا ہے۔
میرے محدود علم کے مطابق برصغیر ہند میں دینی حلقے کی طرف سےسب سے پہلے مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں یہ نکتہ پیش کیا کہ چار قرآنی اصطلاحات: الہ ،عبادت،دین اوررب کی تفہیم صحیح طرح نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کی تین چوتھائی تعلیم پردہ خفا میں چلی گئی۔لیکن یہ لے آگے نہیں بڑھ سکی اوراس تعلق سے معذرت خواہانہ موقف حاوی رہا لیکن اب اسی نوع کا موقف یا رجحان دوسرے اسلوب میں سامنے آرہا ہے۔اس لیے اس موقف کا سنجیدہ علمی تجزیہ ضروری ہے۔
کمنت کیجے