Home » برصغیر میں اسلامی تعلیم کی تاریخ
انگریزی کتب تہذیبی مطالعات مدارس اور تعلیم

برصغیر میں اسلامی تعلیم کی تاریخ

 

محمد قاسم زمان

اردو تلخیص: محمد جان اخون زادہ

(یہ مضمون دراصل ڈیل ایف آئکلمان (Dale F. Eicklman) کے اعزاز میں انگریزی میں مرتب کی گئی کتاب[1] کا دوسرا باب[2] ہے، جسے ڈاکٹر محمد قاسم زمان[3] نے تحریر کیا ہے۔)

مدارس کے باضابطہ قیام کی روایت دسویں صدی میں خراسان سے شروع ہوئی، جو دیکھتے ہی دیکھتے گیارھویں صدی تک عالم اسلام کے شرق وغرب میں پھیل گئی۔ سلجوق وزیر نظام الملک (متوفی 1092ء) نے ایران وعراق کے دس شہروں میں ‘نظامیہ’ مدارس قائم کیے۔ 1234ء میں بغداد میں عباسی خلیفہ مستنصر باللہ (1226-1242ء) نے ایک ممتاز مدرسے “مستنصریہ” کی بنیاد رکھی، جس میں پہلی بار بیک وقت چاروں فقہی مذاہب کی تعلیم دی جانے لگی۔ ایران میں ایل خانوں (1260-1335) اور تیموریوں (1370-1507) کے قائم کردہ مدارس بیک وقت تعلیمی وخیراتی مراکز تھے، جن میں مساجد کے ساتھ شفاخانے اور خانقاہیں بھی تھیں۔ ان کی وسعت اور کارکردگی قرن اول کے شاندار ترین مدارس سے بھی فائق تھی۔

تاہم اس عہد میں تعلیم کسی انتظامی ڈھانچے یعنی عمارت، طلبہ واساتذہ کی متعین تعداد، انتظامیہ، داخلے یا کورس کے امتحانات، نصاب، چند مخصوص گھنٹوں پر مشتمل درس وغیرہ کے بجاے علم کی ترسیل کی ایسی سرگرمیوں سے عبارت تھی، جس میں اساسی کردار شیخ کا تھا۔ان سرگرمیوں میں متون اور ان کے حواشی کا مطالعہ، زیر مطالعہ مواد کی پیچیدگیوں کو حل کرنا، ان پر اٹھنے والے سوالات پر بحث ومباحثہ کرنا، اور کسی متن کی تلخیص یا حاشیہ لکھنے کی مہارت حاصل کرنا شامل ہیں۔ اس کو ایک دل چسپ واقعے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس ایک قوال اپنی نومولود بیٹی کا نام رکھوانے کے لیے آیا۔ شاہ صاحب نے نام رکھنے کے بعد اس سے ہندی راگ دھناسری سنانے کی فرمائش کی۔ قوال نے کہا کہ اس ہندی راگ کے بجاے آپ کا عربی کلام سنا دیتا ہوں۔ شاہ صاحب نے ہندی راگ پر اصرار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کوئی مدرسہ نہیں جہاں عربی کلام سنایا جائے۔ حالانکہ یہ وہی درس گاہ تھی، جہاں شاہ صاحب اپنے شاگردوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ دراصل شاہ صاحب کا مطلب یہ تھا کہ جب تعلیم وتدریس کی مخصوص سرگرمیاں جاری ہوں، تو یہ مدرسہ ہوتا ہے، اس کے بعد نہیں۔

تعلیم و تصوف

اس عہد میں تعلیم اور تصوف دونوں  لازم وملزوم تھے۔ تمام طلبہ علوم ظاہرہ کے ساتھ علوم باطنہ کی تعلیم بھی پورے اہتمام سے حاصل کرتے تھے۔ ان کی علمی اور عملی کاوشوں پر تصوف کے گہرے اثرات ہوتے تھے۔ مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ(1762) نے فقہ، حدیث وتفسیر کے ساتھ نقش بندی سلسلے کی کتابوں کی باضابطہ تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ انھوں نے تصوف پر کئی کتابیں لکھی، اور ان کی علمی کاوشوں پر اس کے گہرے اثرات ہیں۔ بحرالعلوم علامہ عبد العلی لکھنوی  (1810ء)نے علومِ ظاہرہ کے ساتھ شدید اشتغال کے باوجود مشہور صوفی عالم شیخ اکبرابن العربی  کی تعلیمات کی روشنی میں مولاناے روم (1273ء) کی مثنوی کی عمدہ شرح لکھی۔ شاہ صاحب کی طرح ان کی علمی وعملی زندگی پر بھی تصوف کا گہرا اثر تھا۔

سرکاری سرپرستی

تعلیم کے فروغ میں سرکاری سرپرستی کا کردار بھی بہت اہم تھا۔ اورنگ زیب عالم گیر طلبہ کے لیے ان کے درجے کے حساب سے (میزان منشعب کے طالب علم کو چار آنے اور شرح الوقایۃ کے طلبہ کو آٹھ آنے) روزینہ مقرر کرتا تھا، تاکہ وہ پوری دل جمعی سے حصولِ علم میں مشغول رہیں۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد امامت وخطابت اورتعلیم وتدریس کے لیے جاگیر  اور حسبِ ضرورت روزینہ مقرر کر دیا جاتا تھا۔ تعلیم اور سرکاری سرپرستی کے درمیان تعلق کو إزالة الخفاء میں شاہ صاحب کے اس قیاس سے بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔حضرات شیخین کے مقابلے میں سیدنا علی کی خلافت کو مرجوح ثابت کرنے کے لیے شاہ صاحب ایک فرضی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرض کروایک بادشاہ طلبہ کو حکم دے کہ فلاں استاذ سے پڑھو۔ لیکن عملا تدریس نہیں ہو پاتی۔  اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو بادشاہ کا مقرر کردہ شخص حقیقت میں استاذ نہیں، یا  یہ کہ کوئی ان سے کوئی پڑھنا نہیں چاہتا۔ اس سے تعلیم کی بابت بادشاہ کے کردار  کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے لیے صرف استاذ کا وجود بھی کافی نہیں، بلکہ یہ مخصوص قسم کی تعلیمی سرگرمیوں کے وجود میں آنے کا نام ہے۔ سرکاری سرپرستی کی ایک اور مثال بحرالعلوم کی ہے۔ جب وہ لکھنو چھوڑ کر ہندوستان  کے مختلف شہروں جیسے رام پور، شاہ جہان پور، بہار، بنگال، کرناٹک گئے ، تو ان شہروں میں کئی حکومتی امرا نے ان کا استقبال کیا، اور ان کے لیے مدارس تعمیر کیے۔ کہا جاتا ہے کہ بنگال میں ان کے جانے میں کچھ کردار انگریزوں کی دعوت کا بھی تھا۔

نصابی کتابوں کا انتخاب

علما مثلا بحرالعلوم بسا اوقات حکومتی سرپرستی اورعلاقوں کو بدلتے رہتے تھے۔ اس میں بنیادی کرداران علاقوں میں رائج مخصوص تعلیمی سرگرمیوں اور درسی متون ہوتا تھا۔مزید برآں نصاب میں شمولیت کے لیے کتاب کا صرف معیاری ہونا کافی نہ تھا، بلکہ اس کا بآسانی دست یاب ہونا بھی ضروری تھا۔  کتاب کی دست یابی  اہل علم کے پاس اس  کی موجودگی، اساتذہ کی طرف سے اس کی تدریس کی اجازت اورمقامی علمی ماحول اور مخاطبین کے ذوق سے اس کی ہم آہنگی کے مرہونِ منت تھی۔یہی وجہ ہے کہ بعض فقہا نے مفتیوں کے لیے شرط قرار دیا ہے کہ  وہ ایسے مصادر سے فتوے دیں جو وسیع پیمانے پر رائج ہوں۔ کسی علاقے میں رائج کتاب کا حوالہ ایسے علاقے میں دینا جہاں پر وہ رائج نہ ہو، مناسب نہیں۔ مشہورحنفی فقیہ علامہ ابن النجیم (م1563ء)نے شیخ عبد العزیز بخاری کی کتاب المحیط البرہانی کو  فتوے کے لیے ناقابل اعتبار قرار دیا تھا۔ علامہ عبد الحی لکھنوی(م 1886) اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن النجیم کے دور میں المحیط کے نسخے اس قدر نادر ہوگئے تھے کہ یہ کتاب ناقابل رسائی بن گئی تھی۔اس وجہ سے انھوں نےاسے فتوے کے لیے غیرمعتمد قرار دے دیا، وگرنہ اپنی مشمولات کے اعتبار سے یہ ایک قابل اعتماد ماخذ ہے۔

کسی خاص متن پر شروح اور حواشی لکھنے کے کئی مقاصد تھے جن میں سے طلبہ اور قارئین کے لیے توضیح وتشریح، اپنی علمی حیثیت کا اظہار، طلبہ کو متعلقہ مضمون میں رہ نمائی فراہم کرنا اور حکومتی توجہ کا حصول تھا۔ ان سب سے ہٹ کر ایک بنیادی مقصد کتاب کو اپنے عہد اور مخاطبین کے لیے قابل فہم بنانا تھا۔  شاہ صاحب اپنے ‘رسالۂ دانش مندی’ میں تدریس کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ استاذ کو چاہیے کہ اس کی تقریر قابل فہم ہو، مشکل اور نامانوس اصطلاحات کی وضاحت کرے، مختلف تصورات جن میں اشتباہ کا امکان ہو کو ایک دوسرے سے ممتاز کرے، اور اختلافی مسائل میں تطبیق کی راہ نکالے، طلبہ کی مقامی زبان میں زیر تدریس متن کا ترجمہ کرے، اور مصنف اور اپنے افکار کو ایک ہم آہنگ انداز میں پیش کرے۔شاہ صاحب کے پیش کردہ یہ اصول جہاں تدریس کے لیے مفید ہیں، وہیں یہ بیرونی علمی روایت کو مقامی قالب میں ڈھالنے کے لیے بھی کار گر ہیں۔

بیرونی علم کو مقامیانے میں شاہ صاحب کا اپنا کردار بھی خاصا نمایاں ہے۔ آپ نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کیا۔مذاہب اربعہ، فقہ وتصوف اور مسالکِ تصوف کے اندرونی اختلافات میں تطبیق آپ کا وطیرہ رہا۔ پھر یہ کہ آپ کی تحریروں میں برصغیر کی مقامی تہذیب وثقافت کی مثالوں کی بھرمار ہے۔بیرونی علم کو مقامیانے(indigenize) کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ نصاب میں معاصر مقامی علما کی کتابوں کو شامل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا نظام الدین سہالوی (م1748) نے درس نظامی اپنے معاصرین ملا محب اللہ بہاری (م 1707) اور ملا جیون امیٹھی (1717) کی کتابیں شامل کیں۔ بعد میں آنے والے علما نے ان کتابوں کو مقامیانے کے لیے ان پر شروح اور حواشی لکھیں۔

متوازی تعلیمی روایتیں

برصغیر میں اٹھارویں صدی کے آخر میں مدارس کی دو ممتاز روایتیں موجود تھیں: معقولی روایت (فرنگی محل/خیرآبادی مکتب) اور حدیثی روایت (ولی اللہی) مکتب۔ لیکن ایسا نہیں کہ فرنگی محل کے فضلا صرف معقولات میں دست گاہ رکھتے تھے، یا ولی اللہی نظام صرف حدیث کی تعلیم تھی، بلکہ ان دونوں روایات کے درمیان کافی مشترکات تھیں۔ مثلا ولی اللہی نصاب میں معقولات کی کئی کتابیں شامل تھیں۔ اسی طرح شاہ عبد العزیزؒ معقولات میں ماہر تھے۔ طلبہ عموما دونوں روایتوں سے مستفید ہوتے۔  مثلاً مفتی صدر الدین آزردہ نے منقولات کی تعلیم ولی اللہی سلسلے کے اکابر اہل علم سے حاصل کی، جب کہ  معقولات کی تحصیل میں خیر آبادی مکتب سے فیض یاب ہوئے۔اسی طرح عبد الرزاق جمال الدین (م 1889) جو فرنگی محل خاندان کے نامور صوفی تھے، نےحدیث کی تعلیم شاہ عبد العزیز کے تلامذہ سے حاصل کی۔

دونوں روایتوں میں کافی امتیازات بھی تھیں۔ مثلا شاہ صاحب نے یونانی علوم، صرف ونحو اور معانی کے ساتھ کثرتِ اشتغال پر سخت تنقید کی ہے، اور انھیں دنیوی علوم قرار دیا ہے۔ ایک مقام پر منطق وفلسفہ سے اشتغال رکھنے والوں کو کتوں سے بدتر قرار دیا ہے۔اس کے برعکس فرنگی محل کے نصاب میں تفسیر اور حدیثی متون کی شرح بے حد کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا ولی اللہ فرنگی محل خانوادے میں وہ پہلی شخصیت ہے جس نے قرآن کریم کی تفسیر لکھی۔ فرنگی محل خاندان کے مشہور صوفی شیخ مولانا انوارالحق جو بحرالعلوم کے شاگرد تھے، نے بھی معقولات پر تنقید کی۔ اس خاندان میں علوم حدیث سے اشتغال رکھنے والے علامہ عبدالحی لکھنوی بھی خلاف القیاس ہیں۔ منطق وفلسفے پر شاہ صاحب کی تنقید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ معقولات سے اشتغال نہ رکھتے تھے، بلکہ شاہ صاحب کی سب سے اہم کتاب حجة الله البالغة کا مرکزی موضوع ہی عقائد واحکام کی عقلی توجیہات ہیں۔ ان کی تنقید ان لوگوں کے بارے میں ہے جو معقولات کی تعلیم میں غلو سے کام لیتے ہیں، اور دیگر علوم دینیہ کی تحصیل کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ولی اللہ مکتب اور فرنگی محلیوں/خیرآبادیوں کے درمیان ایک اور اہم فرق طریقۂ تدریس کا تھا۔ فرنگی محلی نصابِ درس میں ہر فن کے لیے ایک مشکل اور دقیق متن کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسے پڑھنے سے طالب علم خود بخود دیگر کتابوں کے مطالعے کی استعداد حاصل کر لے گا۔ اس طریق تعلیم سے ایک متوسط طالب علم 16، 17 سال کی عمر میں فارغ ہو جاتا۔ اس عمر میں فراغت میں اچھے خاندانی پس منظر کا بھی کردار ہوگا۔ اس کے برعکس شاہ ولی اللہ کے طریق تدریس میں تقریر کی آسانی اور قابل تفہیم ہونے پر زیادہ زور تھا۔

جدید جنوبی ایشیا اور دنیا میں پھیلی اس کی مہاجر آبادی میں دینی نظامِ درس پر فرنگی محل کے اثرات بھی ہیں، لیکن شاہ ولی اللہ کے اثرات بہت زیادہ نمایاں اور دیرپا ہیں۔ ولی اللہی خان نے قرآن وحدیث سے براہ راست اشتغال رکھا۔ شاہ ولی اللہ کا اثر پھیلانے میں بنیادی کردار دارالعلوم دیوبند کا رہا۔ دیوبندی اکابر ان کے علمی شجرے سے براہ راست تعلق رکھتے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے نظام درس میں سہولت وآسانی کا بھی اس میں کردار رہا ہوگا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں فرنگی محل ودیوبند دونوں میں کچھ ایسی شخصیات  بھی تھیں، جو اپنی روایت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ مثلاً فرنگی محل کے آخری ممتاز عالم مولانا عبدالباری، جنھوں نے درس نظامی کی کئی کتابوں پر حواشی لکھے، نے’سائنس وکلام’کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب  لکھی۔ اسی طرح دیوبند کے بانی مولانا  قاسم نانوتوی، جو اپنے معاصرین کے برعکس معقولات سے اچھا خاصا اشتغال رکھتے تھے، نے انگریزی زبان کے سیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔  تاہم دیوبند میں فقہ وحدیث کو بنیادی مقام حاصل رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔

ایک یہ کہ انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی تعلیم کے زیر اثر جدید عقلیات نے اپنے لیے جگہ پیدا کر لی، اور اس کے نتیجے میں مدارس میں پڑھائی جانے والی معقولات اپنی حیثیت کھو بیٹھیں، لیکن دینی مصادر کی جگہ کوئی اور چیز نہیں لے سکی، بلکہ معقولات کے زوال سے قرآن وسنت کی گرفت نہ صرف مدرسہ میں بلکہ مدرسے سے باہر مغربی تعلیم یافتہ حلقوں پر بھی مضبوط ہو گئی۔ دوسری یہ کہ فرنگی محل کے برعکس دیوبند کا انداز تحریکی تھا، جس سے بڑے پیمانے پر  مدارس وجود میں آئے۔ اس کی وجہ سے دیوبند کا علمی وفکری سلسلہ پھلا پھولا اور فرنگی محل پس منظر میں چلا گیا۔ ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ فرنگی محل سے جُڑے اہلِ علم کا انحصار حکومت واَصحابِ ثَروت کے تعاون پر تھا۔ ہندوستان میں جب اسلامی حکومتوں اور مسلم اصحابِ ثروت کو زوال ہوا، تو ان پر انحصار کرنے والے اہل علم اور تعلیمی ادارے بھی زوال پذیر ہو گئے۔ اس کے برعکس دیوبند نے ایک نیا تنظیمی ماڈل پیش کیا جس میں مدارس کا بنیادی دار ومدار عوامی چندے پر تھا، اور اصحاب حکومت وثروت کا کردار ثانوی تھا۔ دیگر مسالک نے بھی اس ماڈل کو اختیار کیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے استعماری ہندوستان میں مدارس کا جال بچھ گیا۔ دنیا کے دیگر خطوں میں استعماری ادوار میں دینی تعلیم کو زوال ہوا، لیکن ہندوستان میں بڑے پیمانے پر دینی تعلیم کو ترقی ہوئی۔

استعماری دور میں ہی مدارس ایک ماہر استاذ کے زیر نگرانی مخصوص تعلیمی سرگرمیوں کے بجاے ایک جدید ادارہ جاتی نظام میں بدل گئے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں قائم ہونے والے مدارس  انگریزوں کی متعارف کردہ پبلک ایجوکیشن کا متبادل تھے، اس کے باوجود انھیں پبلک سکولوں کے ماڈل پر استوار کیا گیا۔ درجہ بندی اور امتحانات،تقریب انعامات، سالانہ دستاربندی وغیرہ  کا نظام متعارف ہوا۔ دیوبندی، بریلوی اوراہل حدیث مکاتب فکر اپنی مخصوص مسلکی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے ایک مشترک نظام تعلیم میں بندھ گئے۔جدید ادارہ بندی سے نصاب میں استحکام اور یکسانیت پیدا ہوئی، اور پورے برصغیر میں درس نظامی رائج ہوگیا۔  علما کی جانب سے تبدیلی کی مزاحمت کے باوجود مدارس کا نصاب ونظام ارتقا پذیر رہا۔

حواشی

[1] Knowledge Authority and Change in Islamic Societies: Essays in the Honor of Dale F. Eickelman، تدوین: ایلن جیمز فرامہرز اور ناداو سمین،شائع کردہ: بریل لائیڈن۔

[2]  باب کا عنوان: Islamic Education in Eighteenth and Early Nineteenth Century India ہے۔

[3] ڈاکٹرمحمد قاسم زمان  پاکستانی امیریکن دانشور ہیں، جو امریکا میں پرنسٹن یونیورسٹی  کے پروفیسر ہیں۔ان کی تحقیقی دل چسپیوں میں قرون اولی، قرون وسطی اور جدید اسلام میں دینی استناد، شرق اوسط اور جنوبی ایشیا میں اسلامی قانون کی تاریخ، اسلامی تعلیم کے ادارے اور جدید اسلامی سیاسی فکر شامل ہیں۔ زمان کی ابتدائی کاوشوں میں اسلام کے ابتدائی تشکیلی دور میں علما اور حکم ران اشرافیے کے درمیان ارتقا پذیر تعلقات کی تحقیق تھی، جو ان کی کتاب Religion and Politics under the Early ‘Abbasids کی بنیاد بنی۔ ان کی دیگر اہم کتابیں The Ulema in Contemporary Islami: Custodians of Change (2002)،Ashraf Ali Thanvi: Islam in Modern South Asia (2008) اور Islam in Pakistan ہیں۔

مولانا محمد جان اخونزادہ

محمد جان اخونزادہ نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے دینی علوم کی تحصیل کی ہے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد سے شریعہ اینڈ لاء میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
m.janakhoonzada@gmail.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • دل خوش ہوا…. آپ نے تصوف کے بارے لکھا ہے.. الحمدللہ تصوف ہمارے اکابرین نے کیا ہے.. جو کہ علم کی روح ہوا کرتا ہے.. ابھی بہت گھڑ بڑ ہوئی اس راہ سلوک میں….. نظام الدین اولیاء اور امیر خسرو، وطب الدین مودود، معین الدین چشتی رحمہ اللہ سے لیکر شیخ زکریا تک..
    حب جاہ و مال، حسد، کبر جو کی شیخ ام الأمراض فرمایا یے، اور اسی طرح گمنامی ہمارے علماء قبول نہیں کر رہے یے.. اور ایسے چیز پر گمنڈ کر رہے یے جو کہ نظر بھی نہیں آتی، مالداروں کا مال تو نظر آ رہا ہوتا ہے، جس عالم نے راہ سلوک اختیار نہیں کی ہوئی ہوتی ہے تو وہ اعمال کرتا ہے لیکن اس کا شیشہ صاف نہیں ہوتا تو پھر معاملات میں ایسا غیر شرعی کام ہو جاتا ہے پھر لوگ کہتا ہے کہ ایسا دیندار آدمی نے ایسا کیا، اور دیندار ایک عام آدمی سے بھی گر جاتا ہے..
    باقی اولیاء اللہ بءی ایسے لوگوں کے ساتھ ملنے سے کراہت کرتے یے، اگر کہ ظاہری طور پر اس کے خلیہ پر عظرت کرتے ہے.. محمد جان صاحب آپ ہمارے قوم کی لیے بڑے اثاثے سے کم نہیں.. آپ سے بڑی امیدیں وابسطہ ہے..
    بحر حال خوش ہوا تحریر پڑھ کر.. باقی میں نے آپ کے میسج آنے سے پہلے پڑھا تھا.. الحمدللہ.
    اسی وجہ سے حضرت حکیم الامت نے آخری وقت میں تصوف کی راہ لی تھی اور شیخ زکریا رحمہ اللہ نے بھی.. کیونکہ یہ کام فرض کفایہ کے طور پر ادا کیا.. اس راہ میں تطہیر بہت ضروری ہے.. کیونکہ ادھر ادھر کے لوگوں نے اس راہ کو بدنام کیا ہوا ہے.. فقط والسلام

  • ماشاءاللہ تحریر بہت عمدہ ہے کافی کچھ سیکھنے کو ملا ۔۔۔لیکن ایک سوال ہے کہ شاہ صاحب رح عمومی طور پر یونانی علوم فلسفہ اور منطق کے حصول پر پرزور تنقید کرتے ہے اور اسے دینی علوم میں شمار بھی نہیں کرتے اس کے مقابل قران و سنت کو زیادہ ترجیح و ترغیب دیتے ہے (جیسے “قران کا مطالعہ کیسے کیا جائے ” میں منقول ہے اور صاحب تلخیص نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے ) لیکن دوسری طرف شاہ صاحب خود معقولات کو حجة اللہ میں کار آمد لاتے ہے ۔۔۔اس کے بنیادی وجوہات کیا ہوسکتی ہے کہ شاہ صاحب کس پیراڈائم میں معقولات بطور خاص فلسفہ پر تنقید کرتے۔ ہے جبکہ خود اس کا استعمال و استخدام کیا ہے۔۔۔

    • اس کا ایک آسان جواب تو یہ ہے کہ وہ دیگر اہل علم کی طرح معقولات میں توغل کو درست نہیں سمجھتے۔ کیوں کہ یہ تو واضح ہے کہ یو نانی فلسفے کی تحصیل کے بغیر اسلام کی علمی میراث کے ایک معتد بہ حصے کو سمجھنا مشکل ہے۔