عام طور پر والدین کی یہ عادت ہوتی ہے کہ اگر بچہ خود بخود گِر کر یا کسی دوسرے فرد کے کسی عمل کے نتیجہ میں رو پڑے تو وہ اس سے فورًا سوال کرتے ہیں کہ
بچے کیا ہوا ؟
آپ کیوں رو رہے ہو ؟
بچہ جواب میں کہتا ہے کہ میری دیوار سے ٹکر لگ گی یا فلاں نے مجھے مارا یا گرایا ہے ۔بچے کے اس جواب پر والدین فوری طور پر
بچے کے سامنے اس چیز یا فرد کو بدلے کے طور پر مارتے ہوئے کہتے ہیں اچھا ! اس نے آپ کو گرایا یا رُلایا ہے، لو میں ابھی اس کی پٹائی کیے دیتا ہوں۔ یہ کہنے کے بعد وہ از راہ مزاح یا کبھی سنجیدگی سے اس فرد کی پٹائی کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
اب والدین کے اس چھوٹے سے عمل کی وجہ سے اس وقت تو بچہ خاموش ہو جاتا ہے لیکن والدین کا یہ فعل اس کی تربیت کے لیے انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے ۔اس لیے کہ آپ نے اس فعل سے بچے کی نفسیات میں یہ چیز بٹھا دی ہے کہ بچے جو چیز بھی آپ کو گرا دے یا رُلا دے آپ اسے بدلہ میں ضرور ماریں پیٹیں ۔
مجھے ایک والد نے قصہ سنایا کہ اس کی 5 سالہ بچی ایک پرائیویٹ سکول میں زیر تعلیم ہے ایک دن بچی نے گھر آ کر مجھے شکایت کی بابا ! مجھے آج ٹیچر نے مارا ہے
وہ کہنے لگے اگلے دن میں بچی کے سکول گیا ، جہاں ہماری پرنسپل صاحبہ سے ملاقات ہوئی اور میں نے سارا معاملہ ذکر کیا ، انہوں نے بتلایا کہ پرنسپل نے اسی وقت اس ٹیچر کو اپنے آفس بلایا اور میرے اور بچی کے سامنے اس ٹیچر کو از راہ مزاح ہلکا سا تھپڑ لگانے کے بعد کہنے لگیں کہ بچے! دیکھو ہم نے آپ کا بدلہ لے لیا ، اس سے پہلے کہ میں اس پر کوئی کمنٹ کرتا، وہ صاحب خود کہنے لگے کہ مجھے پرنسپل کا یہ عمل بہت ہی نا مناسب لگا اور میں نے بعد میں انہیں کہا بھی کہ آپ کو بچی کے سامنے اس ٹیچر کے ساتھ یہ عمل نہیں دہرانا چاہیے تھا ۔
روز مرہ زندگی میں ہم اکثر شعوری و غیر شعوری طور پر یہ نامناسب عمل دُہرا کر بچوں کے مزاج بگاڑ دیتے ہیں اور پھر شکوہ کرتےن ہیں کہ میرا بچہ انتقامی جذبات کیونکر رکھتا ہے،
ایسے مواقع پر والدین و اساتذہ کو چاہیے کہ وہ پہلے ساری صورت حال کاجائزہ لیں اور پھر حکمت عملی سے ذمہ دار فرد کو تنبیہ کریں ۔
بچے بچپن میں بڑوں کے اکثر کاموں کی نقالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم بچپن میں انہیں درگزر کرنا سکھلائیں گے تو وہ بڑے ہو کر بھی دوسروں سے چشم پوشی کریں گے لیکن اگر ہم نے بچپن میں ہی انہیں اپنی موجودگی میں انتقامی کا روائی کا درس دیا تو یاد رکھیے ! پھر آپ کا یہ بچہ کسی کی معمولی سی تکلیف پر اسے شدید ترین اذیت پہنچانے سے بھی نہیں ہچکچائے گا ۔
دوسری بات جو اس سے بھی خطرناک ہے کہ کچھ والدین اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کی معمولی سی تکلیف پر مد مخالف بچے یا اس کے والدین سے جھگڑ پڑتے ہیں اور بعض نادان تو دست وگریبان ہو جاتے ہیں۔ ایسے والدین اپنے بچے کو جہاں اچھے دوستوں سے محروم کر دیتے ہیں وہیں انہیں ہر حالت میں انتقامی کارروائی کی ترغیب دے کر کسی بڑی مصیبت میں مبتلا کر بیٹھتے ہیں۔
بچوں کے معاملہ میں انتہائی حکمت و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے بچے کی محبت میں اس سے دشمنی سے بچنا چاہیے ۔
بچے بچے ہوتے ہیں وہ لڑ جھگڑ کر پھر ایک ہوجاتے ہیں لیکن بڑوں کی قلبی رنجشیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ وہ پھر عمر بھر ایک دوسرے کا سامنا نہیں کر پاتے ۔
کمنت کیجے