Home » آلاتِ موسیقی میں دف کے جواز کا سبب
تفسیر وحدیث فقہ وقانون

آلاتِ موسیقی میں دف کے جواز کا سبب

فقہاء نے آلات موسیقی کے بارے جو بحث کی ہیں تو اس کی کئی ایک جہتیں ہیں۔ فقہاء کی ایک جماعت کا انداز اور اسلوب بیان یہ ہے کہ آلات موسیقی سب کے سب حرام ہیں یہاں تک کہ بعض نے صریح الفاظ میں دُف یا دَف کو بھی حرام لکھا ہے۔

جہاں تک احادیث میں دُف کی اجازت کا بیان ہے تو وہ اسے کچھ شرائط کے ساتھ مقید کر کے مخصوص صورتوں اور مخصوص حالات میں اس کی اجازت دیتے ہیں جیسا کہ احناف بلکہ بعض حنابلہ اور مالکیہ کا کہنا ہے کہ دُف بجانے کی اجازت عورتوں کے لیے ہے جبکہ مردوں کے لیے دُف بجانا جائز نہیں ہے۔ ابن تیمیہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اسی طرح اکثر فقہاء احناف، مالکیہ اور حنابلہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ دُف کی اجازت مخصوص خوشی کے مواقع پر ہے جیسا کہ عید اور پیدائش یعنی اس کی اجازت عام نہیں ہے۔

اس ایپروچ کے مطابق حرمت اصل میں آلات کی ہے یعنی ان فقہاء نے حرمت کی علت آلہ موسیقی ہونا بنایا ہے۔ بہر حال آلہ موسیقی کو حرمت موسیقی کی علت بنانا ایک منضبط وصف ہے اور اصولی طور اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ لیکن دوسری طرف فقہائے اربعہ میں سے مالکیہ، شوافع اور حنابلہ میں یہ بھی ایپروچ ملتی ہے کہ دُف بجانے کی اجازت مردوں کے لیے بھی ہے اگرچہ احادیث میں عورتوں اور بچوں کا ہی ذکر ہے۔ اسی طرح بعض شوافع کے نزدیک دُف بجانے کی اجازت مطلق ہے یعنی خوشی کے مواقع کے ساتھ خاص نہیں ہے۔

اسی قسم کا اختلاف جانجھ والی دُف میں بھی ہے کہ شوافع اور بعض مالکیہ کے نزدیک اس کی اجازت ہے جبکہ حنفیہ، حنابلہ اور مالکیہ کی ایک جماعت کے نزدیک جانجھ والی دُف جائز نہیں بلکہ محض دُف جائز ہے۔ طبل کے بارے اختلاف یہ ہوا کہ شوافع نے ڈھول کے علاوہ طبل کو دُف کے حکم میں رکھا ہے جبکہ بقیہ فقہاء طبل کی ہر صورت کو ناجائز کہتے ہیں۔ ایک اور اختلاف طبل جنگ کے بارے بھی ملتا ہے کہ جس کی بابت ایک بڑی تعداد جواز کی قائل ہے۔ حج اور شکار کے لیے طبل بجانے میں بھی جواز کے اقوال مل جاتے ہیں۔

فقہاء کے اختلاف میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آلات موسیقی کی بابت احناف کا موقف سخت ترین ہے جبکہ شوافع کے ہاں توسع ہے۔فقہاء کی ایک ایپروچ تو یہی ہے کہ آلات موسیقی کل کے کل حرام ہیں اور جو احادیث میں ہے تو وہ مخصوص مواقع میں مخصوص افراد کے لیے مخصوص آلہ کی اجازت اور رخصت ہے۔ اور ہمارے نزدیک اس ایپروچ کی اصولی گنجائش موجود ہے۔

دوسری ایپروچ جو ہمیں بہتر معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ حرمت اصل میں آلات موسیقی کی نہیں بلکہ مخصوص آوازوں کی ہے۔ اب یہ آوازیں بھلے آپ منہ سے پیدا کر لیں یا کسی آلہ موسیقی سے تو وہ حرام ہیں۔ اب تو ووکل میوزک کا دور ہے کہ ہر قسم کا انسٹرومینٹل میوزک لوگ منہ سے بجا لیتے ہیں۔ہماری نظر میں آلات موسیقی کو حرمت کی اصل بنانے میں ایک تقلیدی جمود پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بعض نے ووکل میوزک کے جواز کا فتوی دے دیا، بھلے منہ سے بانسری، گٹار اور پیانو بجا لے۔

مخصوص آواز کو حرمت کی اصل بنانے میں یہ مسئلہ ہو سکتا ہے کہ علت منضبط نہیں ہے لیکن مناسب ضرور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آلہ موسیقی کی حرمت اور آواز کی حرمت دونوں میں سے حکمِ حرمت سے زیادہ مناسبت آواز کی ہے نہ کہ ایک مخصوص اور متعین شکل کے آلے کی۔ رہی انضباط کی بحث تو مخصوص سُروں کی آواز کے ساتھ اس قول میں علت میں انضباط بھی حاصل ہو جاتا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ موسیقی کی اصل آواز ہے تو شریعت کو آواز سے مسئلہ کیا ہے؟ یعنی چڑیا کی چہچہاہٹ، کوئل کی آواز، آبشار اور جھرنوں کی موسیقی اور طبلے کی تھاپ، گھنگھرو کی چُھن چُھن اور گھڑیال کی ٹن ٹن کی آواز میں وہ بنیادی فرق کیا ہے کہ ایک موسیقی کو آپ نیچر اور فطرت کہہ کر جائز کہہ رہے ہیں اور دوسری کو حرام اور ناجائز کہہ رہے ہیں؟

دیکھیں، آپ یہ بحث نہیں کریں گے تو لوگ غامدی بنیں گے۔ اب صرف یہ کہہ کر کے نواجون نسل کو آپ مطمئن نہیں کر سکتے کہ آلات موسیقی حرام ہیں۔ یہاں سب حنفی تھے، جو اہل حدیث بنے ہیں، انہی میں سے بنے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ احناف نے اُس طرح سے سوالات کو ایڈریس ہی نہیں کیا جیسا کہ اُس دور کا تقاضا تھا۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ حنفی اور اہل حدیث دونوں طرف کے نوجوان غامدی بن رہے ہیں کہ دونوں مسالک کے علماء اپنے فتاوی سے جوانوں کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ مسلمان اگر کافر بن گئے تو اب ہمارا کیا قصور۔ ٹھیک ہے کچھ خواہش نفس سے بھی کافر بنے ہوں گے لیکن کچھ کا سبب ہماری حرکتیں یا اعمال وافعال بھی ہو سکتا ہے۔

اس وقت اجتہاد کے مخالف دو ہی طبقے ہیں؛ ایک وہ جو تقلیدی جمود پر ڈٹے ہیں اور دوسرے وہ جو اس تقلیدی جمود کے شدید مخالف ہیں۔ ہماری فقہی روایت بہت زرخیر ہے۔ اس سے تمسک اختیار کرتے ہوئے ہم عصر حاضر کے جمیع مسائل اور چیلنجز کو ریسپانس کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے تقلیدی اور سلفی جمود سے نکلنا ہو گا کہ متعین فقہاء اور متعین سلف کے اقوال کو ہی منزل سمجھ لیا جائے بلکہ پورے فقہی ذخیرے اور سلفی روایت کو کنگھال کر علی وجہ البصیرت اس کے ساتھ ایک تمسک اختیار کیا جائے۔

بہر حال موسیقی بنیادی طور سات سُروں کا نام ہے سا رے گا ما پا دا نی۔ بعض نے اس کو پانچ کے تکرار کے ساتھ بارہ بنا دیا۔ سُر بنیادی طور آواز کی فریکوئینسی ہے۔ اور فریکوئینسی سے آسان الفاظ میں مراد ایک سیکنڈ میں آواز جو نشیب وفراز طے کرتی ہے۔ مثال کے طور اگر یہ کہا جائے کہ میری آواز کی فریکوئینسی 240 ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میری آواز نے ایک سیکنڈ میں 240 نشیب وفراز طے کیے اور ایک لہر یعنی ویو بنی ہے اور اس ویو سے ایک آواز پیدا ہوئی ہے۔

اب 240 سے 480 کے مابین ہزاروں مقامات ہیں جہاں فریکوئینسی تبدیل ہوتی ہے اور آواز اونچی یا دھیمی، باریک یا موٹی ہوتی ہے۔ ان ہزاروں مقامات میں سے سات کے بارے انہوں نے کہا کہ انسانی ذہن ان کو کیچ کر لیتا ہے یا ان سے سُر کی ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انہی کو وہ سا رے گا ما پا دا نی کہتے ہیں۔ ان سات سُروں کے نشیب وفراز سے وہ پھر راگ بناتے ہیں اور یہ اگلا مرحلہ ہے۔

ہم جو بات کر رہے ہوتے ہیں، وہ بھی ایک فریکوئینسی میں ہے اور موسیقی کی آواز بھی بنیادی طور ایک آواز ہی ہے لیکن اس کی فریکوئینسی ڈیفرینٹ ہے۔ یہ سُر انسانی دل میں ایک حرکت پیدا کرتا ہے جیسا کہ پوپ میوزک سن کر آپ کا تھرکنے کو دل کرتا ہے۔ میوزک میں انسانی رغبت اسی حرکت کے سبب سے ہے کہ انسانی دل پر بعض اوقات نفسی سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ موسیقی اس ساکن دل میں تحریک پیدا کرتی ہے تو سکون چونکہ مُردگی ہے اور حرکت حیات ہے لہذا انسان یہ سمجھتا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے کہ اس دل میں حرکت یعنی حیات پیدا ہو گئی ہے۔

ہمارا دین قلب میں تحریک پیدا کرنے کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ اس تحریک کی سمت منفی نہ ہو یا یہ بے سمت یعنی ڈائریکشن لیس نہ ہو۔ دیکھیں، خود کش بمبار بھی تحریک کا نتیجہ ہے لیکن اس تحریک کی ڈائریکشن منفی ہے لہذا نتیجہ فساد فی الارض ہے۔ اسی طرح میوزک کی تحریک کی سمت بھی منفی ہے کہ اس کا اینڈ ریزلٹ وجد ہوتا ہے یا مخلوط رقص ہے یا شراب ہے یا زنا ہے۔ مائیکل جیکسن کے شو میں عام طور ایمبولینسز کھڑی ہوتی تھِیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کئی ایک کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا تھا اور انہیں ہسپتال لے جانا پڑتا تھا۔

موسیقی سننے والے نے تحریک کو قلب کی حیات سمجھ لیا حالانکہ نتیجے کے اعتبار سے وہ نفس کا فساد ہے۔ اسی طرح غزل سننے سے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کا کتھارسیس ہو گیا ہے لیکن وہ اس کا مسئلہ حل نہیں کرتی بلکہ شراب اور ڈرگ کی طرف ایک خاص نفسی کیفیت میں لے جا کر وقتی طور بے غم کر دیتی ہے جیسا کہ سائیکیٹریسٹ نے آپ کو نیند کی گولیاں دے دی ہوں۔

اسلام یہ کہتا ہے کہ قلب میں پیدا شدہ تحریک کی ڈائریکشن پازیٹو ہونی چاہیے کہ تبھی یہ آپ کی پرسینیلیٹی کے لیے کنسٹرکٹو ہو گی۔ جن آوازوں کو حرام قرار دیا گیا تو وہ آپ کے دل میں وہ تحریک پیدا کرتی ہیں کہ جن کی ڈائیریشکن نیگیٹو ہے اور نتیجہ نفس کا فساد ہے۔ مثال کے طور قرآن کی خوبصورت آواز اور لَے جو تحریک پیدا کرے گی وہ آپ کی پرسنیلیٹی کو کنسٹرکٹ کرے گی اور یہ سب باتیں مشاہدے سے معلوم ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ موسیقی بھی آواز ہی ہے جو آلے سے پیدا کی گئی ہے اور شریعت نے آواز کو نہیں بلکہ متعین آوازوں کو حرام قرار دیا ہے جو خاص فریکوئینسی سے پیدا ہوں جیسا کہ موسیقی کے سُر وغیرہ۔ اس خاص فریکوئینسی کی آوازیں انسانی جذبات میں ہل چل مچا کر ان میں افراط وتفریط پیدا کرتی ہے لہذا انسانی جذبات اعتدال کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں اور انسانی جسم کے لیے جہاں ایموشنل ہیلتھ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، وہیں نفس میں فساد کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ یہ سُر بھلے آلات سے پیدا ہوں یا منہ سے، دونوں صورتوں میں حرام ہیں۔

حرمت کی اصل آلات نہیں ہیں البتہ شریعت نے خاص فریکوئینسی کی ممنوع آوازوں کا تعین متعین آلات کی حرمت سے طے کر دیا ہے۔ دف ان میں شامل نہیں ہے بلکہ دف جیسے آلات کا بھی جواز ہے کیونکہ وہ اس فریکوئینسی کی آوازیں نہیں ہیں جو نفس انسانی کے لیے فساد کا سبب بنیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شریعت یہ نہیں چاہتی کہ انسان اپنے اوپر خاص فریکوئینسی کی آواز کے ذریعے کوئی جذباتی کیفیت یا حالت مثلا مصنوعی غم طاری کرے تا کہ اس کے نفس مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں