Home » یونیورسٹی و مدرسہ: خواتین کا کردار (قسط نمبر 1)
سماجیات / فنون وثقافت مدارس اور تعلیم

یونیورسٹی و مدرسہ: خواتین کا کردار (قسط نمبر 1)

چند نام نہاد سکالرز کی باتوں کا ” خلاصہ” یہ ہے کہ “یونیورسٹی میں پڑھنے والی یا بنات کے کسی مدرسے میں زیر تعلیم لڑکی اپنا دامن صاف نہیں رکھ پاتی اور وہ لازما کسی نہ کسی جال میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے۔”
سچ پوچھیے تو اس “فکر” کے پیچھے نری جہالت پوری طرح کار فرما ہے۔ ایسا وہی لکھ سکتا ہے یا سوچ سکتا ہے جو اندھیرے اور روشنی میں فرق کرنے سے قاصر ہو اور جو صحیح اور برے میں تمیز رکھنے سے عاری ہو۔ہاتھ نہیں کانپتے یہ کہتے ہوئے کہ یہ بے راہ روی کے اڈے ہیں۔ ان کوتاہ مغزوں کو کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ اس معاشرے کی لاکھوں مائیں اور بہنیں جنھوں نے اعلی دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کی اور دامن میں چھینٹ نہیں پڑنی دی، وہ بھی اس طرح کی باتوں سے داغ دار کہلاتی ہیں۔ ایک دو یا درجن بھر واقعات میں کہتا ہوں سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوں تب بھی ہم سب جانتے ہیں کہ ہر ادارے میں اکثر پڑھنے والی لڑکیاں اپنے شخصی اور خاندانی وقار کو لے کر کتنی سنجیدہ ہوتی ہیں۔مسائل بہت زیادہ ہیں جن کی وجہ سے بے راہ روی یا نشہ کا استعمال بڑھا ہے لیکن خدارا کوئی بھی ایسا شخص جو طالبات یا ورکنگ خواتین کے ساتھ پڑھا ہے یا ان کے ساتھ کام کر رہا ہے وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کتنے فیصد کے دامن داغ دار تھے ؟؟؟؟
میں نے میٹرک تا انٹر میڈیٹ اکیڈمی کی سطح پر اور پھر ایم فل اور پی ایچ ڈی میں کو ایجوکیشن میں ہی پڑھا ہے۔ پچھلے آٹھ سال سے سکول، کالج، یونیورسٹی اور پھر اکیڈمی میں پڑھا رہا ہوں، خواتین بطور کولیگز ہر جگہ ساتھ تھیں۔ خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کوئی ایک بھی ایسی نہ تھی ” جیسا ” یہ بتا رہے ہیں باقی رہی محبت یا کسی سے اس کی وجہ سے تعلق تو مجھے بتائیں کون سا گھر ہے، جہاں کزن سے لے کر باہر کی لڑکی یا لڑکے سے محبت نہیں ہوتی یا اس کی وجہ سے کسی درجہ میں بے تکلفی نہیں ہوتی ؟؟؟
یونیورسٹیوں میں ماحول اوپن ہوتا ہے، وہاں رکاوٹیں کم ہوتی ہیں اور پھر یہی حال دفتروں اور اداروں میں ہوتا ہے، اس میں بات چیت زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ سارے ایک دوسرے میں منہ مار رہے ہوتے ہیں اور کوئی بدکاری کا اڈا بنا ہوا ہوتا ہے۔
میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں وہاں ایک خاتون ایسی ہیں جن سے میں خود باقاعدہ عرض کر چکا ہوں کہ میرے لیے دعا کیا کیجیے، وجہ کیا تھی ؟ یہی کہ میں نے انھیں دیکھا اور ان کے جملہ معاملات دیکھے۔ ان کی مزاج کی پاکیزگی اور سب سے بڑھ کر پروقار شخصیت کہ بات کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کس طرح بات کرنی ہے۔نظر پڑے تو فورا ایک احترام دل میں پیدا ہوتا ہے جیسے کسی رعب دار ماں یا بڑی بہن کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ایسی خواتین ہر جگہ موجود ہیں۔یہ بھی انھیں دینی و عصری درس گاہوں کی تعلیم یافتہ ہیں جنھیں آپ نے پوری طرح داغ دار بتلایا ہے۔یہ نام نہاد دوست ایسی باتیں اس لیے لکھ رہے ہیں کیوں کہ یہ ماحول کو پوری طرح جانتے ہی نہیں ہیں اور سنی سنائی پر اپنی بیمار سوچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر تبصرے کر رہے ہیں۔خیر کے پہلو ان کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ بھائی سادہ سی بات ہے کہ ماحول پہلے جیسا نہیں رہا بلکہ مزید اوپن ہو گیا ہے لہذا ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر یعنی لڑکے اور لڑکی پر نظر رکھیں،ان کی خبر گیری کریں اور ان کے فطری مسائل کا ادراک کریں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ دینی و عصری ادارے اب بے راہ روی کے اڈے بن چکے ہیں،وہاں اکثر پڑھنے والیاں خراب ہوتی ہیں۔ ایسا سماج جس میں ماں باپ کے لیے بیٹیوں کو پڑھانا ویسے ہی مشکل ہے، ایسی باتیں کرنا تباہی کا باعث ہے۔
باقی میری گزارش ہے کہ ان دانش وروں کو اپنے دامن میں بھی جھانکنا چاہیے بلکہ ہم تمام مردوں کو اپنی اوقات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں، کتنے پاکیزہ ہیں اور کتنے باکردار ہیں، یہ ہماری مائیں اور بہنیں ہیں اور اسی معاشرے کا حصہ ہیں اس لیے اگر کوئی کجی یا کمی ہے تو پھر گلہ کیسا ہے ؟؟؟

محمد عثمان حیدر

محمد عثمان حیدر نے دار العلوم کبیر والا سے درس نظامی اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے علوم اسلامیہ میں ایم فل کیا ہے۔ فوجی فاونڈیشن کالج اسلام آباد میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
Usaidhaider7@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں