کچھ دنوں قبل کسی نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیر کی تھی جس میںابن رشد کی تانیثیت پسندی یا feminist approach کاذکرآیا تھا۔اس سے متعلق بعض احباب( خصوصا پروفیسر محمد مشتاق صاحب، اسلام آباد) نے یہ جائز سوال اٹھایا تھا کہ ابن رشدکی تانیثی فکرکا ماخذکیا ہے جوروایتی فکر کے مقابلے میں جدیدیت سے زیادہ قریب ہے۔راقم الحروف نےاس کے پیش نظرضروری سمجھا کہ ابن رشد کی اس حوالے سے مکمل بات مع حوالہ قارئین کےسامنے آجائے۔آپ اسے ملاحظہ فرمائیں۔اس پرتبصرہ اگلی پوسٹ میں کیا جائے گا۔
ارسطو کی کتاب الطبیعات کی شرح میں ابن رشد لکھتے ہیں:
’’عورتیں مردوں سے اپنی طبعی صلاحیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ مرتبے کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ مردوں کی طرح ہی ان کے اندر جنگ لڑنے اور فلسفے میں اشتغال جیسی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔البتہ ان میں مردوںکا درجہ ان سے بڑھا ہوا ہے۔( لیکن صلاحیت دونوں میں موجود ہے) تاہم بعض معاملات میں وہ مردوں سے بازی لے جاتی ہیں۔جیسے موسیقی۔ موسیقی کا کمال مرد کے ساز اور عورت کی آواز پر منحصر ہے۔بعض افریقی ممالک کی مثالوں کو سامنے رکھ کردیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر میدان جنگ میں اپنا جوہر دکھانے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔اور جمہوری حکومت کے منصب تک ان کا پہنچ جانا کوئی معجزہ نہیں ہے۔اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہو سکتا ہے کہ کتوں کی طرح کتیا کے اندر بھی جانوروں کے ریوڑ کی حفاظت کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔۔۔
ہماری اجتماعی حالت نے ہمیں اس لائق نہیں چھوڑا کہ ہم عورت کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کےامکانات کو واقعے کی شکل میں دیکھ سکیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صرف بچہ جننے اورانہیںدودھ پلانے کے لیے ہی پیدا کی گئی ہوں۔اس غلامی کی نفسیات اور صورتحال نے عظیم الشان کاموں کی ان کے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں کو فنا کر ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے درمیان کوئی بھی ایسی عورت نہیں پاتے جو اعلی اخلاقی فضائل سے آراستہ ہو۔ عورتوں کی زندگی اپنے شوہروںکی کفالت میں پودوں کی طرح گزرتی ہے۔ یہی وجہ تو ہے ہماری بدحالی و بدبختی کی جو ہمارے شہروں کو نگلتی جا رہی ہے۔اس لیے کہ ان شہروں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے دو گنا ہے لیکن وہ خود سے کسب معاش کر کے اپنی ضرورت پوری نہیں کر سکتیں۔‘‘
عورت کی شخصیت اور اس کی فکری و عملی قابلیت کے بارے میں ابن رشد کے یہ خیالات کئی پہلوؤں سے قابل غور و بحث ہیں:
۔۔۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن رشد ارسطو کا معنوی شاگرد،اس کا شارح اور پرستار ہے۔ لیکن عورت کی شخصیت و صلاحیت کے بارے میں وہ ارسطو کی فکر کا مقلد نہیں ہے۔ارسطو و افلاطون سمیت یونانی فلاسفہ کی اکثریت عورت کی فطری صلاحیتوں کے بارے میں منفی رائے رکھتی تھی۔ مثلا ارسطو کا کہنا تھا کہ عورت کے اندر مرد کی طرح اخلاقی صفات اور ان کوبرتنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ فطرت کی پیدا کردہ یہ ایک مسخ شدہ مخلوق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افلاطون کواس بات پرافسوس تھا کہ وہ ایک عورت سے پیداہوا ہے۔ بظاہر انہیں خیالات نے مسیحی روایت میں عورت
کی تحقیر کی راہ ہموار کی ہے۔ ایسے میں ابن رشد کی اس حوالے سے ’’روشن خیالی’’ چونکانے والی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم فلاسفہ صرف یونانی فلسفیوں کے دماغ سے ہی سوچنے کے پابند نہیں تھے۔
۔۔۔ اصحاب علم و فقہ کی جماعت ،مجموعی طور پر، اجتماعی امور میں عورت کی عقلی قوت اور فیصلہ لینے کی صلاحیت پر اعتماد کی قائل نہیں تھی۔( اس بحث کا جو پہلو بعض نصوص سے تعلق رکھتا ہے مثلا یہ کہ عورت ناقص العقل ہے وہ یہاں زیر بحث نہیں) اس کا اندازہ مثلا عورت کے بارے میں امام غزالی کے خیالات سے کیا جاسکتا ہے جن کا اظہار انہوں نے ’’احیاءالعلوم‘‘ اور ’’التبر المسبوک’’ میں کیا ہے۔ ان کے بقول مردوں کو جوبھی ہلاکت ومصیبت پیش آتی ہے اس کا بنیادی سبب عورت ہے۔عورت سے مشورہ کرنا چاہیے اور جو مشورہ وہ دیں اس کا برعکس کرنا چاہیے۔(اس مضمون کی ایک حدیث ہے جوبالاتفاق موضوع ہے۔)
کوئی وجہ نہیں ہے کہ احیاء العلوم ابن رشد کی نگاہ سے نہ گزری ہو جبکہ انہوں نے غزالی کی “المستصفی” کی تلخیص بھی کی ہے ۔دوسرے یہ کہ ابن رشد بجائے خود ایک بڑے فقیہ بھی ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت ان کی کتاب “بدایۃ المجتہد” ہے۔اس سیاق میں عورت سے متعلق ان کی فکر علم کے دونوں شعبوں :فقہ اور فلسفہ میں ایک نئے رجحان کی غمازی کرتی ہے۔
۔۔۔ اسپین کے ایک دوسرے مسلم مفکر ابن حزم جو فقیہ و اصولی ہونے کے ساتھ فلسفیانہ ذوق کے بھی حامل ہیں،خواتین کے حوالے سے ان کی فکر بھی ’’غیر روایتی اور جدت پسندانہ‘‘ ہے۔ اس پر کسی اور پوسٹ میں روشنی ڈالی جائے گی۔ سر دست اس پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اسپین میں عورت کی قابلیت و صلاحیت کے حوالے سے پیدا ہونے والے “افکار تازہ” نے بظاہر مغرب کے تاریک تر ماحول میں نئی روشنی بکھیرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہوگا۔ تاہم عورت کی حالت زار پر ابن رشد کے ماتم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بارے میں مشرق و مغرب کی صورتحال میں بہت حد تک یکسانی تھی۔
۔۔ عورت کے اندر انتظام ریاست کی قابلیت پائی جاتی ہے۔ اپنے اس نقطہ نظر کی تائید میں ابن رشد کا فلسفیانہ طرز استدلال عجیب اور دل چسپ ہے ۔یعنی یہ کہ کتے کی طرح کتیا کے اندر بھی جانوروں کے ریوڑ کی حفاظت و نگرانی کی صلاحیت پائی جاتی ہے ۔یہ واضح طور پر ظن و تخمین پر مبنی یونانی فلسفے کے آمیزے سے تیار ذہن کی کرامت محسوس ہوتی ہے۔
۔۔۔آخری بات یہ کہ خواہ فلسفیانہ تناظر میں ابن رشد نے ایک حد تک “عورت اور مرد کے مساوات” کا نظریہ پیش کیا ہو لیکن فقہی تناظر میں ان کے نقطہ نظر میں کوئی جدت نظر نہیں آتی۔ کم از کم ان کی کتاب بدایۃ المجتہد سے تویہی اندازہ ہوتا ہے۔
کمنت کیجے