Home » فکر اسلامی اور اس کا مزاج
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات زبان وادب کلام

فکر اسلامی اور اس کا مزاج

فکر اسلامی کی حقیقت وماہیت کے حوالے سے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔یہ اصطلاح علمی دنیا میں نسبتاً نئی ہے۔عربی،اردو اور دیگرمشرقی زبانوں میں یہ اصطلاح Islamic thoughtکے مقابلے میں آئی ہے۔ تہذیبی و ثقافتی ارتقا اورعلوم کے پھیلاؤ کے نتیجےمیںاصطلاحات بدلتی اور پیدا ہوتی رہتی ہیں۔اسلامی فکر کی طرح اسلامی تہذیب(الحضارۃ الاسلامیۃ)،اسلامی ثقافت(الثقافۃ الاسلامیۃ)اوراسلامی شناخت(الھویۃ الاسلامیۃ)جیسی اصطلاحات سے بھی ہماری کتب تراث خالی ہیں۔غزالی،ابن تیمیہ،ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ جیسےمفکرین نےان موضوعات پرگفتگو کی ہےلیکن یہ اصطلاحات استعمال نہیں کیں۔اس وضاحت کی ضرورت اس لیے ہے کہ اصطلاح کوئی بھی ہو اس سےمتوحش ہونےکی ضرورت نہیں۔اہل اصول کے نزدیک معروف ہے:لامشاحۃ فی الاصطلاح یعنی اصطلاح میں کسی گفتگو اور کلام کی ضرورت نہیں ہے۔خواہ یہ اصطلاح اپنی ثقافت کی پیداوار ہو یا کسی دوسری ثقافت سے ملاقات کے نتیجے میں وجود میں آئی ہو۔

فکر اسلامی کی تعیین و تشخیص اسی طرح ایک مشکل کام ہے جس طرح خود اسلام کی تعریف۔مختلف مکاتب فکر کے متنوع رجحانات کے حاملین اسلام کی تعریف و تشخیص کا مختلف نظری وفکری پیمانہ رکھتے ہیں۔اسلام کے ابتدائی عہد کے استثناء کے ساتھ کسی ایک تعریف پر نہ تو کل امت کے تمام افراد اور گروہوںکا اتفاق تھا اور نہ آج ہے۔اسلام کی فکری و نظری تقسیم کا عمل پہلی مرتبہ خوارج کے ذریعے پہلی صدی میں سامنے میں آیا جس نے مزید تقسیمات کی راہ ہموار کردی۔چوتھی صدی میں اہلسنت والجماعت کے عنوان سے نظری تحدیدکے باوجود امت مختلف مکاتب فکر اور ان مکاتب فکر کے ذیلی گروہوں میں منقسم رہی اور ایسا فکری پیمانہ وضع کرنا ممکن نہیں رہا جس پر ایک مکتب فکر کے تمام گروہوں کا اتفاق ممکن ہو۔ابوالحسن اشعری مقالات الاسلامیین میں لکھتے ہیں:

اختلف الناس بعد نبیھم فی اشیاء کثیرۃ ضلل فیھا بعضھم وبرّأ بعضھم من بعض فصاروا فرقا متباینین واحزابا متشتتین الا ان الاسلام یجمعھم ویشتمل علیھم۔
’’لوگوں نے اپنے نبی کی وفات کے بعد بہت سے معاملات میں اختلاف کیا جن کے حوالے سے بعضوں نے بعضوں کوگمراہ یا گمراہی کی ان سے برأت کا اظہار کیا۔ اس طرح لوگ باہم مختلف اورمتخالف فرقوں اورجماعتوں میں تقسیم ہوگئے ۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسلام ان تمام کوشامل ہے۔(مقالات الاسلامیین ،ص،۹)

اس طرح تمام تر اختلافات کے باوجود اسلام کے وجودی عناصر تمام اسلامی گروہوں پرمشتمل رہے اور ان کی باتیں اسلام کےدائرہ فکر میں شمار کی گئیں۔ کتاب کا با معنی نام ’’مقالات الاسلامیین‘‘اس پر دلالت کرتا ہے۔اس طرح فکر اسلامی امت مسلمہ کے تمام گروہوں کی ترجمانی کرتی ہے اور اس کے ان افکار و نظریات پر مشتمل ہے جو اسلام کی بنیادی شناخت اور اس کی حیثیت عرفی سےہم آہنگ ہوں۔

اسلامی فکر بنیادی طور پر اسلام کی فکری وتہذیبی سطح پرنمائندگی کرتی ہے۔دنیا کی مختلف تہذیبوں کے مقابلےمیںاسلامی تہذیب کی خصوصیات وامتیازات وخصوصیات کو متعین کرتی ہےجیسےمغربی تہذیب یاہندوستانی اورچینی تہذیب۔تاہم چوںکہ مغربی تہذیب یا مغربی فکر دنیا میں ایک غالب فکر و تہذیب کی حیثیت رکھتی ہے،اس لیےداخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر اسلامی فکر کو بالعموم اس کے مقابل تصور کیا جاتا ہے اور اسلامی فکر کی قدر پیمائی اس کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے مغربی فکر کے مقابلے میں یہ دیکھنا مناسب ہوگا کہ اسلامی فکر کا اپنا ڈھانچہ اور اس کی خصوصیات کیا ہیں؟

یہ سمجھنا ضروری ہےکہ مغربی فکر کی بھی اپنی کوئی متعین اور ڈھلی ڈھلائی صورت نہیں ہے۔اس کی مختلف ذیلی صورتیں ہیں اور ان میں مختلف سطحوں پر تضاداور تباین کا بھی فرق پایا جاتا ہے تاہم جن قدروں نے اس کی بنیادی شناخت کی تشکیل کی ہے ان میں مجموعی طور پر اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہے۔سترھویں۔انیسویں صدی کے دورانیے میں مغربی فکر پر مادیت پرستی کاجو غلبہ قائم ہوا۔اس کے نتیجے میں ایک ایسے ورلڈ ویو کو وجود میں لانے کی کوشش کی گئی جس کے مطابق کائنات میں خدا کے بجائے انسان کو مرکزیت حاصل ہوگئی۔ اس انسان مرکزی تصور کائنات نے مذہب کی اصل مابعد الطبیعاتی حیثیت پر سوالیہ نشان قائم کردیا۔اس کے مطابق کائنات کا وجود تو خدا کا عمل ٹھہرا لیکن موجودکی ساری سرگرمیاں اتفاقی ٹھہریں۔کائنات سے خدا کا عملی و ارادی تعلق باقی نہیں رہا۔اسلامی فکر اس کے مقابلے میں ایک ایسے خدا کا تصور رکھتی ہے جس کا کائنات پر مکمل کنٹرول ہے۔( بیدہ ملکوت السماوات والارض) انسان اس زمین پر خدا کا فرستادہ ہے جسے خیر و شر دونوں کی عملی قوت دے کر اس پر امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے۔مذہب دنیاوی اور اخروی سعادت کے حصول کے ذرائع سے انسان کو آشنا کرنے کا ذریعہ ہے۔

ایک بڑا فرق جو اسلامی اور مغربی فکر کے درمیان پایا جاتا ہے اس کی بنیاد علمیاتی تصور(epistemological       concept) پر مبنی ہے۔مغربی فکر اپنی غالب شناخت کے لحاظ سے علم کے حصول کا ذریعہ انسان کی اپنی سرگرمیوں اور مشاہدات وتجربات کو قرار دیتی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ مغربی فکر میں یہ بحث بھی پائی جاتی رہی ہے کہ انسانی مشاہدات وتجربات کے علاوہ بھی ایسے مصادر ہیں جنہیں علم کا ذریعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر وجدان (intuition)کی بحث اسی سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ اسلامی فکر عقلی مشاہدات و تجربات کے ساتھ وحی کو ایک مکمل مصدر علم کی حیثیت دیتی ہے اور یوں عقل اور نقل یا عقل اور وحی دونوں کو مستقل بالذات مصدر علم تصور کرتی اور ایک دوسرے کا معاون اورتکملہ سمجھتی ہے۔ اسلامی فکر اسلامی علوم و افکار کی تمام شاخوں کو شامل ہے جیسے تفسیر، حدیث،فقہ،تصوف ،کلام،فلسفہ، تاریخ،ادب وغیرہ۔ یہ تمام عناصر مل کر ایک کلی وجود بن جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے لیکن زمان و مکان کی تبدیلی اور اسلامی فکر کو درپیش سوالات وتحدیات کے لحاظ سے ایک کے مقابلے میں دوسرے پر ارتکازکی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

اسلامی فکر جس علمی روایت سے تشکیل پاتی ہے وہ بہت گوناگوں اور وسیع ہے۔ وہ بجا طور پر ایک رسی کی مانند ہے جس کی بنت میں مختلف ریشےشامل ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ ریشو ں کو نکال دیا جائے تو رسی کی پہلی حالت وکیفیت اور مضبوطی باقی نہیں رہے گی۔ اس علمی روایت میں مختلف مکاتب فکر،گروہوں اور جماعتوں کارول شامل رہا ہے۔مکتبی اور گروہی اختلافات سے قطع نظر یہ روایت اپنے توسیعی حصے میںان تمام سے اخذ و اکتساب کرتی رہی ہے۔اگرچہ ان میں سے بہت سے افراد اور جماعتوں پر امت کے غالب طبقے کی طرف سے کفر و زندقہ کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے ۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ امام غزالی نے مسلم فلاسفہ خصوصا فارابی و ابن سینا کی ان کے تین نظریات کی بنیاد پر تکفیر کی ہے لیکن یہ معلوم و مسلم ہے کہ اسلامی فلسفہ کے تصور یا روایت سے انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کی کوئی بھی معیار بندی ہماری علمی روایت کو شکست و ریخت سے دوچار کر دے گی۔

اسلامی فکر کا ایک رخ ہماری علمی روایت سے جبکہ دوسرا رخ معاصر علمی و فکری تقاضوں سے تعلق رکھتا ہے۔اسلامی فکر کا تصورہمیں بتاتا ہے کہ معاصر علمی و فکری دنیا میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کو جو چیلنجز درپیش ہیں،اسلامی فکر ان سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتی ہے یا ہو رہی ہے؟ اس حوالے سے اسلامی فکر کا رخ تہذیبی سطح پر اسلام کی ایسی تعبیر ہے جس میں عقل کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے کیوں کہ اسلامی فکر کے اصل مخاطبین ،مسلم ہوں یا غیر مسلم اسلامی فکر کو عقلی حوالے سے ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • فکر اسلامی کی ممکنہ حد تک انتہائی مختصر تعریف وتعارف
    پیش فرمائیں
    8707812449