اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو اپنے اس مشہور زمانہ شعر میں کیے گئے شکوہ سے رجوع کرلیتے کہ
رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
وجہ یہ کہ علم کا وہ ایک وار جس کے ذریعہ امام غزالی نے اپنے دور کے فلسفہ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا، بعینہ اسی ایک وار سے جدید مغربی فلسفہء الحاد وتشکیک کی پوری عمارت کو یک لخت منہدم کیا جاسکتا ہے اور یہ کام فلسفہ قدیم کی نسبت کہیں زیادہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ علم کا یہ وار ہماری نظر میں قرآن کی چند روشن تعلیمات سے مستفاد ہے اور قرآن تو خود اقبال ہی کے بقول ایک کتاب لایزال ہے اور
صد جہاں پوشیدہ در آیات او
عصرہا پیچیدہ در آنات او
یعنی اس کی آیات میں معانی کے سو جہان اور اس کے لمحوں میں کئی کئی زمانے بند ہیں۔
فلسفہ کا موضوع راقم کا موضوعِ اختصاص ہے یا نہیں، اس کا جواب ہاں میں بھی ہوسکتا ہے اور ناں میں بھی۔ ہاں اس معنی میں کہ اس موضوع پر اب تک جو کچھ لکھا یا مزید لکھنے کا ارادہ ہے، وہ مطلوبہ بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ اور اس قدر معتد بہ مطالعہ کے بعد ہے جس کے بعد انسان کا ضمیر اسے کسی معاملہ میں رائے زنی کی اجازت دیتا ہے، جبکہ ناں اس معنی میں کہ راقم کو فلسفہ الحادِ جدید، فلسفہء ابطالِ مذاہب اور فلسفہ دہریت ولاادریت کا بالکل ابتدائی اور تعارفی درجہ کا مطالعہ کرنے سے ہی محض بفضل اللہ اس کی کل کائنات کا اور اس کی بے ثباتی وناموزونی کا اس قدر جامع، مکمل اور بدیہی سا احساس پیدا ہوا تھا کہ پھر اس کے بعد فلسفہ کے جدید وقدیم بابوں میں سے ایک ایک کا اختصاصی مطالعہ کرنے اور اس حوالہ سے ڈیڑھ سو کتابوں کا حافظ بننے کی سرے سے کبھی کوئی ضرورت اور طلب ہی محسوس نہیں ہوئی بلکہ الٹا اس خیال سے متلی کا سا احساس پیدا ہوا اور اُن اسلامی مناظرین پر حیرت سی محسوس ہوئی جو فلسفہ کا ابطال کرنے اور اس کے مدِ مقابل اسلام کی برتری وحاکمیت قائم کرنے کے لیے فلسفہ کے ایک ایک دبستان کا باقاعدہ کھوجی بننا ضروری سمجھتے ہیں۔
امام غزالی نے اپنی آپ بیتی “المنقذ من الضلال” میں لکھا ہے کہ میرے لیے فلسفہ کو جواب دینا پانی کا گھونٹ بھرنے سے زیادہ آسان ہے جبکہ ہمارا تاثر یہ ہے کہ غزالی ہی کے طریقہ پر جدید مغربی فلسفہ کو جواب دینا قدیم فلسفہ کو جواب دینے سے بھی زیادہ آسان ہے، لیکن جس طرح ماضی میں یونانی فلاسفہ کے بھاری بھرکم ناموں اور ان کے طبی وریاضیاتی کارناموں کی وجہ سے بعض لوگ اس قدر مبہوت، مرعوب اور متاثر تھے کہ الہیات کے باب میں ان کی تحریر کردہ بدیہی البطلان بونگیوں اور چولیوں پر بھی تنقید سننے کی بجائے اسلام کے ساتھ انہیں منطبق کرنے کی راہیں ڈھونڈتے تھے اور اسی وجہ سے غزالی کو اپنی عبارات کا ایک بڑا حصہ اس مرعوبیت پر نقد کے لیے مختص کرنا پڑاجن کا ایک اشاریہ ہماری کتاب ”غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ“ کے تیسرے باب میں موجود ہے،بعینہ اسی طرح اگر آج ہم بھی مغربی فلسفہ پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے خود میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ اعتماد نہیں ہے تو پھر بڑے سے بڑا استدلال بھی ہمیں مغربی فکر وفلسفہ کے دھوکے سے کما حقہ نہیں نکال سکتا۔
ہمارا یہ کہنا کہ جدید مغربی فلسفہ کی علمی تردید قدیم فلسفہ کی نسبت زیادہ آسان ہے، یہ قطعا کوئی بے بنیاد بات نہیں۔ دراصل اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس خاموش انقلاب سے واقف ہونا پڑے گا جو فلسفہ کی دنیا میں بڑی خاموشی سے رونما ہوا ہے۔
ہم نے اپنی کتاب ‘غزالی اور ابن رشد کا قضیہ’ کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے باب میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح فارابی اور بوعلی سینا سے کر ابن رشد تک تمام فلاسفہء اسلام ارسطو کے الہیاتی اور نیم الہیاتی نظریات کی تشریح میں باہم مختلف ہوکر بھی ان کو ریاضی کی طرح قطعی سمجھتے تھے۔ جبکہ امام غزالی نے تہافت الفلاسفہ کی صورت میں قلم اٹھایا تو خود انہی کے الفاظ ہیں کہ فلسفہ کے غیر اسلامی اجزاء کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں میرا دوسرا بڑا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ فلسفہ کے الہیاتی یا نیم الہیاتی نظریات صرف ظن وتخمین پر مبنی ہیں اور انہیں قطعی ماننا محض ایک دھوکا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزالی نے ایسا کرنے پر اکتفاء کیوں کیا۔ یعنی وہ ان کے دعوائے قطعیت کو رد کرکے اور ان کے نظریات کے ظنی ہونے کو واضح کرکے آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کے کئی جواب کتاب کے اندر دیے گئے ہیں، ہماری نظر میں سب سے عمدہ جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطابق الہیات یعنی غیبیات کے بارہ میں کسی بھی بات کا محض ظنی وتخمینی ثابت ہونا ہی اسے مسترد کرنے کے لیے کافی ہے اور امام غزالی ان کے فلسفیانہ افکار میں تشکیک اجاگر کرکے انہیں اسی بنیاد پر مسترد کرنا چاہتے ہیں۔
وہ بات جو ظن وتخمین پر مبنی ہو، اس کے پیچھے بھاگنے اور اس کی اتباع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اس پر قرآن کی ایک سے زیادہ آیات دلالت کرتی ہیں۔ مثلا قرآن کا مطالبہ ہے : لاتقولوا علی اللہ الا الحق، یعنی اللہ کے بارہ میں صرف وہ بات کہو جو قطعیت سے ثابت اور خدا کے حسب شان ہو۔
اسی طرح ملائکہ کو مونث کہنے والوں اور سیدنا عیسی کو ابن اللہ قرار دینے والوں سے قطعی دلیل کا مطالبہ کرنا بھی قرآن کے اسی منہاج کی نہایت واضح دلیل ہے۔
اسی طرح ارشاد ہے کہ ولاتقف ما لیس لک بہ علم، یعنی جس بات کا قطعی علم تمہیں حاصل نہ ہو، اس کی اتباع مت کرو
ایک جگہ ارشاد ہے کہ ان یتبعون الا الظن وان ہم الا یخرصون، یعنی یہ اہل کفر صرف ظن وتخمین اور اٹکل کے پیچھے چل رہے ہیں۔
جبکہ ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ ان الظن لایعنی من الحق شیئا، یعنی ظن اور اندازہ کی بناء پر حقیقتیں نہیں بدلی جاسکتیں۔
ظاہر ہے کہ قرآن کی یہ ساری باتیں اس کے لیے ہیں جو صاحب تقوی یعنی محتاط آدمی ہو اور احتیاط کے ساتھ علمی حقائق پر بات کرنا اس کے پیش نظر ہو۔ اسی وجہ سے قرآن کو ہدی للمتقین یعنی محتاط لوگوں کے لیے کتاب ہدایت قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ جو غیر محتاط، غیر سنجیدہ اور غیر متقی لوگ ہیں، ان سےقرآن کا پہلا مطالبہ سنجیدگی اور احساس ذمہ داری بیدار کرنے کا ہے، باقی سب باتیں بعد کی ہیں۔
سو تہافت الفلاسفہ کے اندر فلاسفہ پر لگائی گئی غزالی کی علمی ضرب اور زقند کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی نظریہ کا محض ظنی وتخمینی ثابت ہوجانا ہی اسے اسلامی میزان کی رو سے مسترد کرنے کے لیے کافی ہےاور غزالی کے اسی منہج ومیزان کو لے کر جب ہم اپنے عہد کے مغربی فلسفہ کی طرف بڑھتے ہیں تو ایک خوش گوار حیرت کے ساتھ ہمارا ٹاکرا ہوتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مغربی فلسفہ کو اب ظنی ثابت کرکے مسترد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جدید فلسفہ خود ہی اپنی ظنیت کا اعتراف کرچکا ہے۔
اس ساری گفتگو کا حاصل ومحصول یہ ہے کہ غزالی کے مخاطبین اپنے نظریات کو قطعی بتلاتے تھے تو غزالی کو اس میں تشکیک کی ضرورت پیش آئی۔ ہمارا حریف یعنی مغربی فلسفہ تو خود ہی اپنی اس حیثیت کا اعتراف کر چکا ہے کہ وہ محض ایک ظنی اور غیر حتمی چیز ہے۔ کیا قرآنی تعلیم اور غزالی کی تلقین کی روشنی میں جدید مغربی فلسفہ کے نام پر کہے گئے چوں چوں کے سارے مربہ کو رد کرنے کے لیے یہی ایک معیار اور کسوٹی کافی نہیں؟
سو اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ جدید مغربی فلسفہ کو علم کے شکنجہ میں کسنا اور اسلامی میزان پر تولتے ہوئے اس کے تمام دبستانوں کی یکلخت تردید کرنا قدیم فلسفہ کو جواب دینے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ بہت سے ذہنوں کو یہ بات اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوگی کیونکہ ان ذہنوں کے اندر خود ہمارے بعض جدید متکلمین نے ہی ہیوم، فرائڈ اور نطشے کی علمی عظمت کا نقشہ کچھ اس طرح بٹھا دیا ہے کہ جس طرح ماضی میں کچھ ذہن ارسطو اور افلاطون کی مرعوبیت میں مبتلا تھے اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہوچکی تھیں۔
فلسفہ کا سارا رعب ودبدبہ اس کی ثقیل لفاظی اور بھاری بھرکم اصطلاحاتی زبان کے طلسم کا مرہون منت ہے۔ اس طلسم کو اگر اندر سے نکال دیاجائے تو پیچھے اٹکل پچوؤں کا صرف ایک میوزیم ہی بچ جاتا ہے۔
مغربی فلاسفہ کتنے حقیقت پسند اور خداومذہب کے بارہ میں کتنے سنجیدہ تھے، اس کی چند معمولی سی جھلکیاں ان شاء اللہ عرض کی جائیں گی.
کمنت کیجے