۱۷/۱۸ جولائی ۲۰۲۱ء کو دہلی سے قریب گروگرام (ہریانہ)کے لیمن ٹری ہوٹل میں دوروزہ علمی پروگرام میں شرکت و استفادہ کا موقع ملا۔ یہ پروگرام مدرسہ ڈسکورسز کے دو سالہ پروگرام کا اختتامی پروگرام تھا اور لاک ڈاؤن کے بعد پہلی مرتبہ آف لائن پروگرام میں شرکت کا اتفاق ہورہاتھا۔ لاک ڈاؤن کی جو تباہی اور ہلاکت خیزی ہے وہ کسی بیان کی محتاج نہیں۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ہے۔
بہر حال کورونا کی مہاماری نے جہاں بہت سی چیزوں سے محروم کردیا وہیں تعلیمی سرگرمیوں اور علمی اسفارسے بھی محرومی رہی۔ یہ پہلا اتفاق تھا کہ ایک علمی پروگرام میں شرکت کا موقع مل رہا تھا؛ اس لیے احتیاطی تیاریوں کے ساتھ ٹھیک ۱۶/جولائی کی شام کو ہم لوگ”لیمن ٹری“ہوٹل گروگرام پہنچ گئے۔اس وقت تک دیگر احباب بھی پہنچ چکے تھے۔یہ ہمارے مدرسہ ڈسکورسز کے رفقا تھے اور اس کی سرپرستی ہمارے استاذ محترم جناب ڈاکٹروارث مظہری صاحب کررہے تھے۔ پروگرام کے تعلق سے عمومی تاثر یہ ہے کہ ساتھیوں سے ملاقات ہوئی، لاک ڈاؤن کی مسموم فضا میں جو ایک قسم کی گھٹن محسوس ہورہی تھی اس سے کچھ دنوں کے لیے چھٹکارا ملا،گو کہ اس طرح کے اسفار تفریحی نہیں ہوتے ہیں؛لیکن کسی حد تک تفریح کا سامان ضرور ہو جاتا ہے؛ البتہ اس پروگرام میں کووڈ پروٹوکول کی وجہ سے تفریح سے مکمل پرہیز تھا، چناں چہ اس سفر میں معمولی سامان بھی خریدنے کی نوبت نہیں آئی؛ اس لیے یہ پروگرام خالص علمی ہوگیاتھا۔ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے بڑی خوبصورتی سے پروگرام کو مرتب کیا تھا اور بڑی محنت و کوشش سے ورک شاپ کے موضوع کے حوالے سے ماہرین کو مدعو کیا تھا۔ یہ ان کا کمال تھا؛ اس لیے شرکا کو بہت فائدہ ہوا اورایسا لگا کہ ہم دو دن سے نہیں بلکہ ایک ہفتے سے پروگرام میں ہیں۔
پروگرام کا مرکزی عنوان تھا”جنوبی ایشیائی مدرسہ کی روایات: گم شدہ تاریخ کی دریافت اور نئے امکانات کی تلاش“
: SOUTH ASIAN MADRASA TRADITION
Exploring Neglected Histories and Unravelling New Possibilities
مجموعی تھیم یہ تھی کہ ہمارے دینی مدارس کی قدیم روایات کیا ہیں اور کیا ان کے احیا کی ضرورت ہے؟ اور کن روایات کا احیا اس وقت بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے؟ اور مدارس کے نئے فضلاکے لیے مستقبل کے کیا چیلنجیز ہیں اوران سے نمٹنے کے لیے کیا امکانا ت ہوسکتے ہیں؟
ٹائم کے مطابق پروگرام ۱۷/جولائی کو ۹بجے دن میں شروع ہوا،افتتاحی پروگرام میں جناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے مختصر انداز میں مدرسہ ڈسکورسز کی غرض و غایت بیان کی جس میں انہوں نے بتلایا کہ اسلام کی فکری روایت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے میں مدارس نے بڑا رول ادا کیا ہے، آج بھی ہمارے فضلاکوجدید چیلنیج کو سمجھ کر جواب دینے کی ضرورت ہے، مدرسہ ڈسکورس کا مقصد یہ ہے کہ ہماری روایت میں جو متنوع،جامع اور وسیع پہلو ہیں ان کا احیا کیا جائے۔
پروگرام میں سب سے پہلا خطاب ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب تھا،ان کا عنوان تھا ”اسلام کے سیاسی فلسفے: متن، سیاق و سباق اور تاریخی تناظر میں گفتگو“Negotiating the Political Philosophy of Islam: between Text, Context and History“ ڈاکٹر صاحب معروف اسلامی اسکالراور مصنف ہیں، جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہیں اور ان کے ماہنامہ رسالہ”زندگی نو“ کے ایڈیٹر ہیں،ان کے پسندیدہ موضوعات میں خواتین اور تحریک اسلامی، معاشیات اور فقہ اختلافات میں اعتدال کی راہ ہے۔ان کی گفتگو اس بنیادی سوال پر مرکوز تھی کہ حقوق انسانی،عدل اجتماعی اور تکریم انسانیت وغیرہ کے حوالے سے اسلامی نصوص میں جوتصور پایا جاتا ہے،تاریخ میں اس سے انحراف کی وجوہات کیا رہیں۔اس میں کیا بنیادی عوامل کارفرما رہے۔ موجودہ دور میں ان تصورات کی عملی تطبیق کیا شکل کیا ہے اور اس میں کیا مسائل درپیش ہیں؟ انہوں نے مختلف حوالوں اور مثالوں سے اس پر گفتگو کی۔
انہوں نے طے شدہ وقت کے مطابق اپنا پروگرام اس انداز میں شروع کیا کہ تمام سامعین کو ایک سوال دیا پھر اسی سوال کے جواب اور اس پر ہونے والے تاثرات کے ضمن میں اپنی بات رکھی۔یہ محاضرہ کا ایک نیا طریقہ ہے اس سے سامعین میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے، انہوں نے پہلے سوال کیا ہے،”اسلامی سیاسی نظام میں سب سے مشکل ترین مسئلہ کیا ہے“؟مختلف حضرات نے اپنے فکرومطالعہ کی روشنی میں جواب دیا، کسی کا جواب تھا کہ اسلامی سیاسی نظام میں اقتدار کی منتقلی سب سے مشکل ترین مسئلہ ہے۔ایک جواب تھا کہ سب سے مشکل مسئلہ سیاسی نظام کی اصلاح ہے، سسٹم کی بڑی خرابی یہ ہے کہ سسٹم کو صحیح بنانے کے لیے کوئی نظام نہیں ہے۔اسی طرح انہوں نے کچھ سوالات اپنے سامعین کے غور وفکر کے لیے دئے جس پر کچھ گفتگو بھی ہوئی لیکن اس مسئلہ کو وہاں طے نہیں کرنا تھا بلکہ یہ سوالات صرف غور وفکر کے لیے تھے ان میں ایک سوال یہ تھاکہ آپ کے نزدیک سیاسی نظام کی اصلاح کی کیا صورت ہے؟ اچھا حاکم؟ اچھا قانون یا پھر اچھا سماج؟ اسی طرح ایک سوال تھا کہ کیا عورتوں کو حاکم بنایا جاسکتاہے؟ کیا کوئی غیر مسلم اسلامی ریاست کا سربراہ ہوسکتاہے؟ یہ اور اس نوع کے دوسرے سوالات اور پہلووں پرکھل کربحث ہوئی جس سے اندازہ ہوا کہ اسلامی سیاست کے حوالے سے فضلائے مدارس کی جدید نسل خاص طور پرکھل کرگفتگو کرنے کی خواہاں ہے اور اس حوالے سے اپنے اندر بہت سے سوالات واضطرابات رکھتی ہے جن کو ایڈریس کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر محمد کوریا صاحب کا تعلق کیرالا سے ہے، انہوں نے کیرالا کے معروف ادارہ دارالہدی سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد انہوں نے جواہر لال نہر یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور لائڈن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے ان کا موضوع تاریخ ہے ان کے ریسرچ کاموضوع اسلامی قانون اور فقہ شافعی کو سمجھنے کی کوشش کرناہے۔ان کا عنوان تھاMatriarchal Islam and ulama:Discursive Traditionin In Malabar and Lakhadweep (مادرسری معاشرے میں اسلام اور علما: جزائر مالابار اور لکش دیپ کی انحرافی روایت) محمود کوریا کا موضوع اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ فضلائے مدارس کویہ سوچنے کا موقع ملا کہ کس طرح علاقائی عرف وعادات اسلامی قانون یا شریعت کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اسلامی قانون کی تشکیل میں patriarchal سوسائٹی کے رسوم وعادات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔اس تناظر میں matriarchal سوسائٹی کی یہ مثال بہت اہمیت رکھتی ہے کہ کس طرح سماج کا مختلف بنیاد پر بنا ہوا ڈھانچہ اپنے انداز میں قانون کی تشکیل کی راہ ہموار کرتا ہے۔مادرسری معاشرہ وہ معاشرہ ہے، جہاں مرد کے بجائے عورتیں ذمہ دار اور بااختیار ہوتی ہیں اور بچے بھی ماں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔وراثت میں بھی مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ تمام ہی شرکاء کے لیے بڑا انوکھا اور دلچسپ موضوع تھا۔ ایک ایسا معاشرتی نظام جس میں خواتین کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اس سلسلے میں علماء کرام نے موافق اور مخالف دو گروہ میں تقسیم ہوگئے ہیں اور دونوں کی الگ الگ توجیہات ہیں،بہت سے مسائل میں اصولی اورفروعی طورپر اختلاف اوراتفاق رہا ہے۔
ڈاکٹر کوریا صاحب نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ایسا محسوس ہوا کہ موضوع سے متعلق ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وقفہ سوالات کے دوران جتنے بھی سوالات کئے گئے انہوں نے سب کے اطمنان بخش جوابات دئے۔سب سے پہلے انہوں نے مالابار اور اس کے اطراف کے جن جزائر میں ایسے معاشرے موجود تھے ان کی نشان دہی کی اور پھر اس پر گفتگو کی کہ اس کے اسباب کیا رہے اور ایسے معاشرے کیوں وجود میں آئے؟، چنانچہ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے مختلف اسباب تھے ان میں ایک سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں سمندری جہاز کے لیے تجارتی اسفار ہوا کرتے تھے۔ چھ مہینے ہوا ایک سمت میں چلا کرتی تھی اور پھر چھ مہینے دوسرے سمت میں؛ اس لیے جب کو ئی تجارتی سفر میں کہیں جاتا تو واپسی کے لیے اسے چھ مہینے انتظار کرنا پڑتا تھا، ادھر گھر میں عورتیں تنہا رہاکرتی تھیں،اس لیے عام طورپر خواتین ذمہ دار ہواکرتی تھیں، اب جو مرد حضرات تجارت کے لیے ان جزیروں میں آتے انہیں رہنے سہنے اور تجارت کے عمل کو آسان بنانے کے لیے علاقائی شناخت کی ضرورت ہوتی تھی اور نکاح کے ذریعہ علاقائی شناخت کے ساتھ رہنے سہنے کی سہولت بھی حاصل ہوجاتی تھی۔ اس طرح مخلوط آبادی وجود میں آگئی کہ مرد عرب ہیں اور عورت ہندوستانی۔چوں کہ مرد باہر سے آتے تھے اور تجارتی ضرورت کی تکمیل کے بعد واپس چلے جاتے تھے۔اسی طرح اس علاقے کے مرد کسی دوسرے علاقے کے سفر میں ہوتے تھے اس لیے مرد کے لیے ذمہ دارانہ فرائض انجام دینا ممکن نہیں تھا۔لہذا عورتوں کو ان علاقوں میں سربراہی کی حیثیت حاصل ہوگئی، اور یہ سربراہی اس درجہ تھی کہ مرد کو میراث میں حصہ نہیں ملتا تھا بلکہ عورتیں ہی وارث ہوتی تھیں۔ اگر کسی کا ایک لڑکااور ایک لڑکی ہو تو لڑکی کل میراث کی وارث ہوتی تھی لڑکے کو کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔جو غیر منقو لہ جائداد ہوتی تھی اس میں صرف عورتوں کا حق ہوتا تھا اور منقولہ جائداد میں مردوں کا بھی حصہ ہوتا تھا، خواتین یہ کہتی تھیں کہ جو ملکیت میری ہے وہ تو میری ہے ہی جو میرے شوہر کی ملکیت ہے وہ بھی شوہر کے مرنے کے بعد میری ملکیت ہے، اگر چہ یہ اقتصادی مسئلہ تھا؛لیکن اس میں مذہبی اور ثقافتی پہلو بھی پیوست تھے۔
ایسے معاشرہ کے سلسلے میں اہل علم کی دورائے تھیں۔ بعض علماء اس کی حمایت کرتے تھے جب کہ زیادہ تر علماء اس کی مخالفت کرتے تھے۔مخالفت کے متعدد اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ یہ معاشرہ اسلام کے نظام میراث کے خلاف تھا قرآن میں ہے للذکر مثل حظ الانثیین جس میں مذکر کو مونث سے دوگنا دینے کا حکم ہے جب کہ یہاں پر مؤنث کو مذکر پر ترجیح دی جارہی ہے، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں خاوند، بیوی کے گھر میں رہتا ہے۔ گویا گھر جمائی ہوجاتا ہے یہ بھی اسلام کے ازدواجی نظام کے خلاف ہے، اسی طرح اسلام میں بچے مرد کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور نسب باپ سے جاری ہوتی ہے جب کہ اس نظام میں نسب ماں سے جاری ہورہی ہے اور بچے ماں کی طرف منسو ب ہورہے ہیں،اس سے بچوں پر باپ کے جس درجہ اثرات ہونے چاہیے وہ نہیں ہوپاتے ہی؛اس لیے اس زمانے میں مختلف اہل علم نے اس کے خلاف فتوی دیا۔ وقت کے ایک بڑے عالم تھے سید بکری انہوں نے فتوی دیا تھا کہ جو لوگ اس نظام پر یقین رکھتے ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ان حضرات کے نزدیک اس کی اصلاح کا راستہ یہ تھا کہ(۱) حتی الامکان اس کا احاطہ کیا جائے کہ ان کے آبا و اجداد کون کون گزرے ہیں؟ ان کی موجودہ نسلوں میں وراثت کی صحیح تقسیم کی جائے، (۲) توبہ کی جائے (۳)جو اس میں رکاوٹ بنے ان سے جہاد کیا جائے اور ناکام ہوجائیں تو ہجرت کی جائے اگر چہ وہاں کی اکثر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن ان کو دارالحرب کہا جائے گا۔
علماء کا ایک دوسرا گرو ہ جیسے محی الدین، کے اے عبد الرحمن وغیرہ نے اس کی حمایت کی تھی، انہوں نے العادۃ محکمۃ کو بنیاد بنایا۔ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ نصوص نہ ہوں۔ یہاں تو نص موجود ہے۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اگر عادت کو ہٹانے میں فساد ہو تو نص کے باوجود عادت کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔جہاں تک میراث کا مسئلہ ہے انہوں نے کہا کہ یہ وقف علی الاناث ہے،بعض لوگوں نے اس کو اس طرح دیکھا کہ یہ پراپرٹی ہبہ ہے۔ایک نسل دوسری نسل کو ہبہ کردیتی ہے، بعض لوگوں کی رائے یہ تھی کہ ان چیزوں میں وراثت تقسیم ہوتی ہے جس کی ملکیت ہو جب کہ جزائر میں جو پراپرٹی ہے وہ کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ اس کی تقسیم کس طرح ہوسکتی ہے؟ بعض اصحاب علم نے کہا اس اجتماعی ملکیت ہے انفرادی ملکیت نہیں ہے؛ اس لیے تقسیم نہیں ہوسکتی ہے۔غرض ہے کہ بعض علماء نے حالات کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تطبیق و تائید کی کوشش کی اس لیے کہ یہ لوگ تمام مسائل میں شریعت کو ملحوظ رکھتے تھے ان کے یہاں کافی دینداری کاماحول تھا لیکن اس مسئلے میں ایسا نہیں تھا۔
لیکچر کے اختتام پر حسب ضابطہ سوال وجواب کا سیشن شروع ہوا مختلف سوالات ہوئے اس میں راقم الحروف نے بھی دو سوالات کیے: ایک یہ ہے کہ جب لڑکے ماں کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو ان لڑکوں کو ماں کی جائدادمیں بھی آخر حصہ کیوں نہیں دیا جاتا ہے؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ پراپرٹی کو محفوظ رکھنے کے لیے لڑکوں کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا اس لیے کہ لڑکے بڑے ہو کر کسی دوسرے جزیرے میں جائیں گے اور وہیں شادی کرلیں گے۔ اس طرح ایک خاندان کی پراپرٹی دوسرے خاندان میں چلی جائے گی۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ جو لوگ اس کی حمایت کرتے تھے اور انہوں نے اس کو ہبہ یا وقف علی الاناث قرار دیا تھا ان کی دلیل کیا تھی؟ اس لیے کہ ہبہ قرار دینے کے لیے یا وقف علی الاناث قرار دینے کے لیے تو ضروری ہو کہ کسی نے ہبہ کیا ہویا وقف علی الاناث کیا اور باضابطہ اس کو تحریری شکل دی ہو؟ اس کے جواب میں انہوں نے پروجیکٹر میں ایک قدیم دستاویز کی کاپی دکھلائی جس میں وقف اور ہبہ کے ثبوت درج تھے۔ ایک ساتھی نے یہ سوال کیا کہ ان جزیروں میں غیر مسلم بھی رہتے تھے تو ان کے یہاں کیا نظام تھا؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ ان کے یہاں بھی یہی نظام تھا اس لیے کہ اس کے پیچھے سماجی تقاضے تھے۔
دوپہر کے بعد تیسری نشست کے مہمان مقرر ڈاکٹر عرفان احمد تھے:ان کا موضوع تھا ”اسلام میں تنقیدی سوچ اور خود تنقیدی کے طریقہ کار“ Modes of Critical Thinking and Self -Critique in Islam ۔ ڈاکٹر عرفان احمد صوبہ بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی گریجیویشن اور پوسٹ گریجیویشن جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو،نئی دہلی سے اور پی ایچ ڈی لائیڈن سے کی ہے۔ الجزیرہ اور اس کے علاوہ کئی جرنلوں کے مستقل کالم نگار ہیں۔ اس وقت جرمنی کے ادارے Max Planck Institute for Religious and Ethnic Diversityسے وابستہ ہیں۔ان کی دو کتابیں شائع ہوکرخراج تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ایک Islamism and Democracy in Indiaجو پرنسٹن سے شائع ہوئی ہے۔جب کہ دوسری کتاب حال میں ہی شائع ہوئی ہے۔اس کا عنوان ہے:
Religion as Crititique:Islamic Critical Thinking from Mecca to Marketplace
انہوں نے تفصیل کے ساتھ اسلامی روایت میں تنقیدی فکر کے مختلف پہلؤوں پر گفتگو کی، جس میں خصوصیت کے ساتھ جنوبی ایشیا کی اسلامی فکری روایت میں تنقیدکا پہلو شامل ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ نقد کو مغرب کی دین تصور کیا جاتا ہے اور یہ تصور دیا جاتا ہے کہ تنقیدسیکولر فکر وعمل کا متقاضی ہے۔ اسی وجہ سے اس کی نشو ونما مغرب پیدا ہوئی۔ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ تنقید یا نقد صرف کتابوں تک محدود نہیں ہے؛بلکہ یہ ایک ثقافتی عمل بھی ہے، پڑھے لکھے اور بے پڑھے لکھے لوگ بھی تنقید کے عمل میں شامل ہوتے ہیں۔ان کی رائے ہے کہ مولانا عامر عثمانی کو نقاد کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے جب کہ وہ ایک بڑے ناقد ہیں، خدائی خدمت گار تحریک اور اس کے بانی عبد الغفار خاں نے اپنے علاقے میں رائج رسم و رواج پر تنقید کی۔ انہوں نے انگریزی حکومت پر بھی تنقید کی۔
شام کو ایک آخری محاضر ہ ڈاکٹر اوشا شانیال کاتھا جس کا عنوان تھاNavigating Tradition and Modernity in Muslim Girls Education ”مسلم لڑکیوں کی تعلیمی نظام میں جدیدیت و روایت کا جائزہ“۔ اوشا شانیال کا تعلق ہندوستا ن سے ہے۔ بریلوی تحریک پر اپنے کام کی وجہ سے مغربی ومشرقی ممالک کے علمی حلقوں میں وہ کافی معروف ہیں اور کافی طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔بریلوی تحریک اور فکر پر ان کی کتاب Devotional Islam in British India اردو میں جس کا ترجمہ ڈاکٹر وارث مظہری نے کیا ہے،ہندوپاک سے شائع ہوچکی ہے۔ان کی نئی کتاب بریلوی فکر کے لڑکیوں کے مدارس پر آئی ہے۔ ان کا موضوع اسی مناسبت سے تھا۔ انہوں نے پہلے یہ سوال قائم کیا کہ لڑکیوں کے ادارے روایتی ہیں یا جدیدیت کاان میں اثر ہے؟ پھر اس کا جواب دیا کہ یہ ادارے روایت و جدیدیت کا امتزاج اپنے اندر رکھتے ہیں۔ روایتی اس لیے کہ ان کانصاب کچھ تبدیلیوں کے ساتھ درس نظامی پر مبنی ہے۔اس میں زیادہ فوکس ان چیزوں پر ہے جو ان کی زندگی سے مربوط ہیں۔جبکہ یہ مدارس جدید اس لحاظ سے ہیں کہ اس میں عصری تقاضوں کے مطابق بھی نصابی مواد شامل ہوتی ہیں اور ان میں عصری مسائل کی رعایت کی گئی ہے۔ سوال و جواب کے سیشن میں راقم نے سوال کیا کہ مدرسہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا وہ لڑکیاں عصری تعلیم سے محروم رہتی ہیں یا ان کو مدرسے میں عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے؟ تو ان کاجواب تھا کہ عصری تعلیم زیادہ نہیں دی جاتی اس کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ایک سوال کے جواب میں کہ کیا لڑکیوں کے مدارس میں اصلاح کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ یہ ان کی قوم کے لوگوں کو سوچنا اور کرناچاہیے۔
دوسرے دن ۱۸/جولائی کو صبح نوبجے سے پروگرام شروع ہوا، آج کا پہلا محاضرہ ڈاکٹر وارث مظہری صاحب تھا۔ ان کا عنوان تھا ”ہندوستان میں علوم عقلیہ کی روایت: ماضی وحال کے آئنے میں“۔وارث مظہری صاحب کی گفتگو کا بنیادی سوال یہ تھا کہ یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ برصغیر میں عقلی علوم کا زوال کیوں ہوا؟ اس کے بنیادی عوامل اور اسباب کیا تھے؟ اب موجودہ ماحول میں اس زوال وانحطاط کے ازالے کیا شکلیں ممکن ہیں؟ اپنی گفتگو میں انہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ جب تک مدارس کے نصاب میں عقلی علوم کومکمل جگہ نہ دی جائے اس وقت تک اسلامی فکر کی تشکیل جدید ممکن نہیں ہے اور اسلامی فکر کواس طر ح مضبوط نہیں کیا جاسکتا کہ وہ معاصرفکری چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔انہوں نے بتایا کہ ماضی میں برصغیر میں علوم عقلیہ کاجو حصہ رہا ہے اس میں اب کافی کمی آگئی ہے۔ بعض لوگ اس کو صحیح مانتے ہیں لیکن دوسرا احساس یہ ابھرا ہے کہ جس طرح معقولات کوحاشیہ نشیں اور محدود کردیا گیا ہے یہ صحیح رویہ نہیں ہے؛ اس لیے کہ علوم عقلیہ ہر زمانے میں معاصر فکر کے چیلنجوں کا جواب دینے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ کے زوال کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ بعض لوگ امام غزالی کو اس کا ذمہ دار رقرار دیتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ غزالی بنیادی طورپر فلسفے کے مخالف نہیں تھے، بلکہ الہیات میں فلسفے کی دخل اندازیوں کے مخالف تھے۔اسی بنیاد پر انہوں نہ بعض فلاسفہ کی تکفیر کی۔وہ اسلامی الہیات کی تشکیل میں صرف عقل کوفیصل تصور نہیں کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ عہد سلطنت کے ابتدائی عرصے میں فلسفے سے دوری رہی لیکن پھر تغلق کے دور میں اس سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر کی فلسفہ نوازی نے اس کے بازار کوگرم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔اکبر سے لے کر شاہ جہاں تک تمام بادشاہوں نے وفود بھیج کر ایران سے علما کو بلایا اس طرح مغل عہد میں عقلی علوم عروج پر پہنچا۔اس سلسلے میں عضد الدین ایجی اور ان کی شروحات نے سب سے اہم رول ادا کیا۔ جرجانی اور دوانی دونوں نے مواقف کی شرح لکھی، ان کے شاگردوں کے دور میں فلسفہ کی گرم بازاری رہی۔ ہندوستان کا حجاز سے زیادہ تعلق نہیں تھا؛ اس لیے منطق و فلسفہ کی چالیس کتابیں نصاب میں پڑھائی جاتی تھیں جب کہ حدیث و تفسیر میں صرف تین کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔شاہ ولی اللہ کے دور میں حجاز سے رابطہ ہوا اور انہوں نے منقولات کو حاوی کیا اور معقولات میں کمی آئی پھر دیوبند نے شاہ صاحب کے روایت کو آگے بڑھایا۔
ڈاکٹر صاحب نے اخیر میں مندرجہ ذیل چند امور کو ہندوستان میں علوم عقلیہ کے زوال کے اسباب میں شمار کرایا ہے، (۱) معقولات ومنقولات کے نصاب میں عدم توازن (۲) فلسفے کے نئے نظام فکر اور سرگرمیوں سے بے خبر ی، انہوں نے بتایا کہ ڈیکارٹ کے بعد فلسفیانہ نظریات میں تبدیل آئی جب کہ ہمارے یہاں ارسطو کے فلسفے کے ہی چرچے رہے (۳) عالم اسلام میں فلسفے سے بیزاری (۴) استعماری غلبہ کے بعد منقولات پر زور (۵) سائنس کے نئے چیلنجز وغیرہ۔
دوسرے دن کا دوسرا محاضرہ ڈاکٹر ارشد عالم صاحب تھا جس کا عنوان تھا: ہندوستان میں مدرسہ اور مسلم تشخص ”Madrasa and Muslim identity in India“ ان کے پورے لیکچر کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان تعلیم میں کیوں پیچھے ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں، انہوں نے بتایا کہ یورپ میں صرف چرچ تھے اورعلم مسلم دنیا میں تھا لیکن یورپ علم میں آگے بڑھ گیا اور ہم پیچھے گئے اس کی وجہ کیاہے اس پر غورکرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے اس پر بھی گفتگو کی کہ مدرسہ سے ہٹ کر جدید و قدیم کا کوئی نظام کیوں نہیں بنا؟ مدارس کے حوالے سے مسلم شناخت کے مسئلے کو،جس پر ”رتلج“،انڈیاسے ان کی ایک وقیع کتاب شائع ہوچکی ہے،انہوں نے باضابطہ اپنی گفتگوکا موضوع نہیں بنایا جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مختلف مکاتب فکر کے فضلائے مدارس سامعین میں موجود تھے۔
ڈاکٹر ارشد عالم کے محاضرے کے بعد ظہرانہ ہوا اس کے بعد گروپ ڈسکشن تھا، یہ مدرسہ ڈسکورسز کی روایت کا حصہ ہے اس میں عام طورپر چند سوالات دئے جاتے ہیں اور شرکا کو چھوٹے چھوٹے کئی گروپ میں تقسیم کردیا جاتاہے۔یہ گروپ آپس میں بحث و گفتگو کے ذریعہ سوالات کے ممکنہ جوابات تلاش کرتے ہیں پھر ان میں سے گروپ کا نمائندہ طے ہوتا ہے جو اپنے اپنے گروپ کی ترجمانی کرتاہے۔ گروپ ڈسکشن میں تین سوالات تھے (۱) مدارس کی قدیم روایت کے وہ کون سے اہم پہلو ہیں جن کی موجودہ دور میں احیا کی ضرورت ہے؟ (۲) مسلم مذہبی فکر کو کیا چیلنج درپیش ہیں؟ (۳)جنوبی ایشیا کی علمی و فکری روایت میں عقلی علوم سے صرف نظر کا جو موقف اختیار کیا گیا ہے اس کے مثبت یا منفی پہلو کیا ہیں اور اس تعلق سے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اس کے جو جوابات شرکا کی جانب سے دئے گئے وہ مختلف ہیں: ان میں سے چند جوابات یہاں نقل کئے جاتے ہیں۔پہلے سوال کے جواب میں جو مختلف آراء سامنے آئیں وہ یہ ہیں:
انفرادی حلقے ہماری قدیم روایت کا حصہ رہے ہیں اس کے احیا کی ضرورت ہے۔ شروح و حواشی سے اجتناب کرتے ہوئے نصوص و متون پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔تعلیم میں ثنویت کا خاتمہ ہوناچاہیے۔اختلافات پہلے بھی تھے مگر جارحیت نہیں تھی۔تنقید کی روایت کو فروغ دینا اور ادب الاختلاف کی بنیا د پر اسے مضبوط کرنا ضروری ہے۔ہماری قدیم روایت میں دعوت و اصلاح دونوں تھا اب دعوت کا پہلو ترک کردیا گیا اس کیااحیاء ضروری ہے۔ہماری قدیم روایت میں لچک تھی اب علوم دینیہ کو مدارس کی چہار دیواری میں بند کردیا گیا ہے۔ دوسرے لوگوں کے لیے علوم دینیہ کے حصول کا کوئی نظام نہیں ہے۔ پہلے فنون کے اختصاص کا دور تھا اس لیے فن کے اعتبار سے مدارس تھے بعض جگہوں پر منطق میں مہارت پیدا کی جاتی تھی بعض جگہ فقہ میں مہارت پیدا کرائی جاتی تھی اب ایسا نہیں ہے۔
دوسرے سوال کے جواب میں شرکا کی آرا حسب ذیل تھیں (۱)الحاد بڑا چیلنج ہے، ہم ملحدین کو اسلامی فکروعقائد کے حوالے سے مطمئن نہیں کرپارہے ہیں۔ ہمارے افکار پر اسرائیلیات کا غلبہ ہے۔مسلم مذہبی اسکالر زجدید چیلنج سے ناواقف ہیں اس لیے وہ ان کا جواب نہیں دے سکتے ہیں۔دفاع دین کے طریقے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تیسرے سوال کے جوا ب میں شرکا کی آراء یہ تھیں: عقلی علوم ذہنی تفریح کا سبب تھا اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا یہ بحثیں نقلی علوم میں آگئی تھیں صرف نظر کے نتیجے میں غیر ضروری چیزیں نکل گئیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ علوم نقلیہ کو صحیح مقام ملا۔ علوم عقلیہ کے غلبے کے زمانے میں فضول بحثیں ہوتی تھیں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ علم کلام سے صرف نظر کاایک فائدہ یہ ہے کہ نصوص کی طرف توجہ ہوئی۔ منفی پہلو یہ ہے کہ علوم عقلیہ سے صرف نظر کے نتیجے میں ہم اپنی روایت سے کٹ گئے ہیں۔ جدید فلسفے کو پڑھنے اور اس میں اسلام مخالف پہلو کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد ا لوداعی پروگرام تھا جس میں مہمان خصوصی کے طورپر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب اور پروفیسر محمد اسحاق صاحب تشریف لائے تھے۔ پہلے جناب ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کا خطاب ہوا، ڈاکٹر صاحب معروف صاحب قلم ہیں، ان کی تحریریں سوشل میڈیا میں بھی آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں، آپ جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں اور جماعت اسلامی کے شریعہ کونسل کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ انہوں نے مختصر وقت میں بہت پرمغز خطاب کیا، اپنے خطاب میں انہوں نے مدرسہ ڈسکورسز سے اپنی وابستگی کا بھی اظہار کیا اورفرمایاکہ مدرسہ ڈسکورسز کی فکر یہ ہے کہ جدیدیت نے جو انسانی احوال و افکار پیدا کئے ہیں اس کی ایک سے زیادہ تعبیر ممکن ہے،جدیدیت مسلم روایت سے بغاوت کا نام نہیں ہے،جدیدیت کی مختلف تعبیرات کے درمیان مکالمہ کیاجاسکتاہے۔دینی مدارس کے فضلا کو اس سے فکر سے جوڑنا بڑا ضروری قدم ہے۔
اسلامی فکر کی روشن تاریخ رہی ہے، عہد اموی میں جب مسلمان دوسرے علاقے میں پہنچے تو انہوں نے دوسرے علوم حاصل کئے،دوسرے علوم کی کتابوں کو دارالخلافہ منتقل کیا اور عہد عباسی میں اس پر بڑا کام ہوا ان علوم کو انہوں کے جوں کا توں قبول نہیں کرلیا؛ بلکہ مسلم علما و فضلا کا بھی ان علوم و فنون کی ترقی میں بڑاحصہ تھا، یہ علماء مروجہ علوم کے جامع تھے۔انہوں نے نصاب میں تبدیلی کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ علم کی درخشاں تاریخ میں علم کو ایک اکائی سمجھا جاتا تھا۔ عصری اور دینی علوم کی تقسیم نہیں تھی، علامہ شبلی فرماتے ہیں کہ ہر زمانے میں نصاب میں تمام علوم شامل رہے ہیں اور وقتا فوقتا اس میں تبدیلی کی جاتی رہی ہے، موجودہ زمانہ میں ضرورت ہے کہ اسلام کی جو قدیم روایت ہے اس کا احیا کیا جائے۔ علما سماج کا سرآوردہ طبقہ ہے۔ عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں اس لیے مسلم علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمانے کے چیلینج کو سمجھیں اور ان کا جواب دینے کی کوشش کریں۔
اس کے بعد پروفیسر محمد اسحا ق، کا خطاب ہوا۔یہ ہمارے دو روزہ پروگرام کا آخری خطاب تھا۔ پروفیسر محمد اسحا ق صاحب علمی حلو ں میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور تحقیقی مزاج کے حامل ہیں۔ انہوں نے مدرسہ ڈسکورسز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ ڈسکورسز نے مدراس کے فضلا میں علم و تحقیق کی روایت کو زندہ کرنے اور روایت و جدیدیت میں توافق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مارشل ہاڈسن Mashall Hodgsonکی کتابThe Venture of Islam(اسلام کی مہم جوئی) کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔اس کتاب میں مصنف نے اعتراف کیا ہے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوں نے بڑا علمی کارنامہ انجام دیا، ان کے ترجمہ کے ذریعہ یورپ کو بہت سے علوم و فنو ن کا علم ہوا۔انہوں نے دوسری زبانوں سے اہم کتابوں کے ترجمے پر بہت زور دیا، اور بتایا کہ ترجمہ نگاری ہماری روایت تھی جو رک گئی۔ سرسید کو ترجمہ نگاری سے اختلاف تھا بعد میں سرسید کی بھی رائے بدل گئی۔اس کے علاوہ انہوں نے اسلامک ماڈرنزم پر گفتگو کی اور اس کی وجوہات پرروشنی ڈالی، اس ضمن میں انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن اور سرسید کی کتابوں کا حوالہ دیا۔اخیر میں انہوں نے کہا کہ تاریخ کا مطالعہ جدید عہد کی اصلاحات کی روشنی میں نہیں کرنا چاہیے۔پروفیسر محمد اسحاق کے بعد ہمارے دو ساتھیوں نے رسمی طورپر اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور مدرسہ ڈسکورسز کے ذریعہ اپنے اندر پیدا ہونے والی فکری تبدیلیوں پرروشنی ڈالی۔ مدرسہ ڈسکورسز کی روایت کے مطابق الوداعی عشائیے کے بعد شرکاکی واپسی ہوئی۔
کمنت کیجے