جدید تمدنی پیش رفت کے نتیجے میں مسلم معاشروں کوجومسائل درپیش ہیں،ان کے حل کے تعلق سے عام طور پر اصحاب علم وفقہ کا طرزعمل، دانستہ یا نادانستہ طور پر، اس وقت یہ نظر آتا ہے کہ ایسے جدید ترین مسائل جن میں متعلقہ مسلک یا حلقے کی مقتدی شخصیات کی قطعی آرا نہیں ہیں، ان میں توغوروفکر کرکے حل کی کوئی قطعی صورت نکالنے کی کوشش کی جائے ،لیکن جن مسائل میں موقر شخصیات کےبے لچک فتاوی پہلے سے موجود ہیں، ان میں خاموشی کی روش برقرار رکھی جائے اور اجتہادی عنوان سے ان کوغوروخوض کاموضوع نہ بنایا جائے۔اس کی ایک مثال تصویر کشی کا مسئلہ ہے۔برصغیر ہند میں سنی اصحاب افتا کی اکثریت ،چاہے وہ کسی بھی مسلک کی حامل ہو،تصویر کشی کے جوازکی قائل نہیں ہے۔یہاں تک کہ ملک کے دار الافتا اسلامی یا مسلم ٹی وی چینل کے قیام ،جس سے اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کا کام لیاجاسکے اور باتصویر اخبار کی اشاعت تک کے قائل نہیں ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں کوئی خالص ’اسلامی ریاست‘ بھی ان ’خرابیوں ‘ میں ملوث ہوئے بغیر اپنا تہذیبی وسیاسی وجود کیسے برقرار رکھ سکتی ہے؟اس کا حل کیا ہے؟ ۔گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست مفتی صاحب نے اس کے جواب میں جس موقف کا اظہار کیا اس سےاس مخمصے کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جواس طرح کے مسائل میں ہماری اسلامی فکر کولاحق ہے۔اس رائے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہ ذرائع ابلاغ کے شعبے میں مسلمانوں کی طرف مضبوط پیش رفت نہ ہونےمیں ہمارے مفتیان کرام کے اس باب میں سخت موقف کو بھی دخل رہا ہے؛ انہوںں نے فرمایا کہ علما اور اصحاب افتا کومورد الزام ٹھہرانا بالکل غلط ہے۔کیوں کہ بھلا لوگ کب ہر کا م علما اور مفتیوں سے پو چھ کراور ان کی اجازت سے کرتے ہیں؟ اس لیے یہ کوتاہی ان کی ہے اور اس کے ذمہ دار وہی ہیں۔
دیکھا جائے تویہ بات ایک لحاظ سے درست ہے۔لیکن اس سے اس فکری الجھن کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے علما ومفتیان اس طرح کے مسائل کا ’’اسلامی حل‘‘ نکالنا درست نہیں سمجھتے ۔ البتہ وہ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام ایسے مسائل کا حل ڈھونڈیں لیکن اسلام کواس میں زحمت نہ دیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ صورت حال نئی نہیں ہے۔ہندوستان کے مسلم عہد میں ایسے ناگزیر مسائل کے حوالے سے جن سے اسلامی فقہ کے غالب فریم ورک میں تعامل ممکن نہیں تھا،یہی موقف اختیار کیا گیا۔ پروفیسر مظفر عالم نے اپنی کتاب : The languages of Political Islam in India(1200-1800) اس کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔
مظفر عالم (پروفیسر شکاگویونی ورسٹی،امریکہ،فاضل دارالعلوم دیوبند)جوعہد سلطنت اورعہد مغلیہ پر اپنے وقیع علمی وتحقیقی کارناموں سے مشرق ومغرب کے علمی حلقوں میں معروف ہیں،نے اپنی مذکورہ کتاب کے ابتدائی ابواب میں ہندوستان کے مسلم عہد کے تناظر میں اس صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ہندوستان میں مسلم حکومت کےقیام واستحکام میں جومسائل درپیش تھے ان میں سے پہلی نوعیت کے مسائل سیاسی تھے، جن کا حل سیاسی دور بینی اوربہتر انتظام وانصرام سے نکال لیا گیا لیکن دوسری نوع کے مسائل خالص فکری اوردینی نوعیت کے تھے۔سب سے بڑا چیلنج ہندووں ؍غیر مسلموں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کا تھا جومسلم حکومت اور مسلم آبادی کواپنے لیے عظیم خطرہ تصور کرتے تھے۔بعض شافعی فقہا (قاضی وجیہ الدین وغیرہ)کا موقف یہ تھا کہ مشرکین ہونے کی وجہ سے ہندووں کو اہل کتاب کی رعایت نہیں دی جاسکتی۔اس لیے ان کے باب میں ’’اما الاسلام واما القتل‘‘ کے اصول کا نفاذ کرتے ہوئے اسلام یا جہاد میں سے کسی ایک انتخاب پرعمل آوری کویقینی بنایا جائے(ص،۸۳) لیکن حنفی فقہ کی رو سے اس مسئلے کوحل کرلیا گیا کہ اہل کتاب کی طرح ’مشرکین ‘کوبھی اسلامی ریاست کے شہری کا حق دیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں خود عہد سلطنت کے حکم رانوں مثلا: شمس الدین التتمش، غیاث الدین بلبن ،علاؤ الدین خلجی وغیرہ کا یہ موقف رہا کہ جہاں شرعی اورسیاسی موقف کے درمیان تصادم درپیش ہو وہاں سیاسی مفاد کوترجیح دی جائے جس کا صریح اظہار التتمش کی زبان سے ملتا ہے۔(ایضا)لیکن شرعی اورسیاسی موقف کا ٹکراؤ مختلف دوسرے حوالوں سےاپنی جگہ باقی رہا جس کے لیے خاص طورپرعہد مغلیہ کے حکم رانوں نے اخلاق کے لٹریچر کواستعمال کیا۔اس میں بالخصوص نصیرالدین طوسی کی ’’ اخلاق ناصری‘‘ شامل ہے، جوخالص دینی تصور اخلاق کے مقابلے میں عام انسانی اخلاق کے تصور پرمبنی ہے اور اسلامی دنیا پر منگولوں کے حملے کے بعد کی سیاسی وسماجی صورت حال کے تناظر میں مرتب کی گئی ہے۔ اس کے مصنف شیعہ ہیں جب کہ عہد اسلامی عہد کے حکم راں خالص سنی تھے۔
حکم راں طبقے کی طرف سے تو یہ پہل کی گئی جب کہ بعض صوفیہ (جوشرع کے پابند تھے)کی طرف سے یہ کوشش کی گئی کہ اس کا حل شرعی موقف اور صوفیانہ عمل کے درمیان تفریق کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی جائے۔اس کی ایک دل چسپ مثال حضرت عبد الرزاق بانسویؒ(م،۱۷۲۴) کی ہے۔وہ اپنے خلیفہ ومرید ملا نظام الدین(بانی درس نظامی ) اور دوسرے مریدوں کوہندووں کے مشرکانہ تہواروں میں شرکت سے منع کرتے تھے لیکن خود ان میں شریک ہوتے تھے۔جس کے جواز کی ظاہری بنیاد یا دلیل یہ تھی کہ صوفیہ کے بہت سے اعمال ان کے کشف یا وجدان کی بنیاد پرہوتے ہیں جن کی پیروی دوسروں کے لیے ضروری نہیں ہے۔(ص،۱۰۶) مصنف کے بقول ہندووں کے تعلق سے برتی جانے والی اس رواداری کے حدودوقیود اور جواز وعدم جواز کی بحث میں وہ پڑنا نہیں چاہتے تاکہ علما واصحاب فقہ کو اس حوالے سے ان کے عمل پراعتراض کا موقع نہ ملے۔اس طرح گویا فقہامصالح اوراستحسان کی بنیاد پرمختلف امورومعاملات میں جس طرح لچک اور گنجائش کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ،صوفیہ نے اپنےذاتی روحانی مشاہدات اور انفرادی اعمال وتجربات کے ذریعہ ،مقامی احوال کے تقاضے کے مطابق، مسلم غیر مسلم تعلقات کے باب میں وہی لچک کی راہ نکالنے کی کوشش کی۔
(جاری)
کمنت کیجے