Home » دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور عصری تقاضے
تہذیبی مطالعات مدارس اور تعلیم

دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور عصری تقاضے

 

تمہید:

“دین ہمارے سروں کا تاج نہیں رہا بلکہ  پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے ۔اس لیے ہم عصری تقاضوں کی آڑ میں اسے کاٹنے کے لئے بڑے بڑے پاپڑ بیلنے رہے ہیں ہیں۔” (محمد دین جوہر صاحب)

پاکستان کے مایہ ناز ماہر تعلیم کے اس بیان سے میں نے اپنی بات کا آغاز اس لئے   کیا ہے کہ اس میں دور جدید کی نفسیات کو ایک فقرے میں سمو دیا گیا ہے۔  آمد استعمار کے بعد سے دین جو کہ پاؤں کی زنجیر بن کے رہ گئی ہے اس کو کاٹنے کی جو مستشرقین اور غرب زدہ افرادکی طرف سے   کاوشیں ہوئی ہے ان میں سے سے ایک یہ ہے کہ درس نظامی (مدارس کے آٹھ یا دس سالہ نصاب کا نام ہے جس کے ذریعے دینی تعلیم میں تخصص کیا جاتا ہے )کا کار ضیاع وقت ہونا ثابت کیا جائے اس پر اس طبقے نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔خدا بدگمانی سے بچائے ہم نہیں کہتے کہ اس طبقے کے یہ عزائم ہوں گے لیکن بادی النظر یہی محسوس ہوتا ہے دین کے حصول و  ترجمانی کا اکلوتا ذریعہ چونکہ درس نظامی ہی ہے لہذا  اس کو جڑ سے اکھاڑا جائے “نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری ” ورنہ ان کے پورے استدلال کی علمی حقیقت اس سے زیادہ نہیں ہے”کَہِیں کی اِینٹ کَہِیں کا روڑا، بھان مَتِی نے کُنْبَہ جوڑا” اور درس نظامی  پہ طرفا ستم یہ ہے کہ ترجمانی دین کی کرسی پر جلوہ افروز ہونے والے علمائے کرام  چار صدیاں قبل کے زمانہ میں جینا اپنے لیے عافیت خیال کرتے ہیں اور حالات اور زمانے سے واقفیت کا انہیں علم ہے نہ اس کی ضرورت کا خیال فرماتے ہیں۔ اسی وجہ سے اہل مدرسہ ایک فکری جمود میں مبتلا ہے اور مدارس پر ہبوط اور یبوست کا عالم طاری ہے۔ علماء اپنے مخصوص تصورات کو گوشہ دن میں لے کر مذہبی متون کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کو اپنی خواہش نفسانی کے مطابق لبادہ پہنا کر بازار فتوی گرم کیے ہوئے ہیں۔

احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر

تاویل سے قُرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند

                                                            (بال جبریل)

اس بات سے مقصود صرف اتنا ہے ہے کہ اوریجنل درس نظامی کے بارے میں کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا جو کے انسانی فہم و فراست کا شاہکار  ہے۔

معترضین کی خدمت میں :

آقائے سرسید کی فکر کے زیر سایہ درس نظامی کو یہ کہہ کر کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی فرمائش کی جانے لگی کہ اس کے وسیلے سے نوکری نہیں ملتی۔ صحیح کہا ہے حضرت اکبر نے

ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے

بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے

عرض ہے  اس افادیت یہ ہے کہ  ہمیں بطور مسلمان اپنے دین کے ساتھ علمی ، عملی وابستگی کی ضرورت ہے ۔اس ضرورت کی کفالت درس نظامی ہی کر سکتا ہے ۔

اب ایک اور چیز جو درس نظامی کے نصاب کو ہضم کرتے وقت احباب کے گلے میں ہڈی بن کے پھنس جاتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ درس نظامی کی کتب فنون میں بال کی کھال ادھیڑی جاتی ہے جو کہ ایک بے معنی سر گرمی ہے گزارش ہے کہ تعصب کی عینک ہٹا کر دیکھیے تو یہ ہی اس نصاب کی عظمت کا بنیادی ستون ہے ۔اس مادہ پرستی کے دور نے ہمیں ایک پجاری بنا دیا جہاں ظاہر کے سوا باطن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انسان جس طرح جسمانی وجود ہے اسی طرح ایک شعوری اور روحانی وجود بھی ہے ظاہری وجود کی نشوونما کے لیے جس طرح اکل وشراب ضروری ہے بعینہ اسی طرح بال کی کھال کے ساتھ یہ اکھاڑ پچھاڑ کی شطرنج کھیلنا شعور کی نمو کےلیے نا گزیر ہے۔اگر  معتر ضین کی خدمت  کہا جائے کہ لٹریچر شطرنج کی طرح بے کار اور جہالت کی طرح تاریک ہے اور اس کا کوئی فزیکل فائدہ نہیں ہےباوجود اس کے شیکسپیئر ((Shakespeareپرلکھی گئی کتب کا احصا کیجیے ، میر وغالب پر تحریر شدہ مقالات کی گنتی کیجیے ۔ انسانوں کے بہترین اذہان نے ان پر اپنی زندگیاں صرف کی ہیں تو کیا یہ سب بے معنی ہے ۔جوابا پکار اٹھیں گےکہ لٹریچر تو زندگی کےلئے آئینہ ہے اور تکمیل آدمیت کا سبب ہے۔

عرض ہے کہ اس سے بڑی تکمیل آپ کو ان فنی مباحث میں مل سکتی ہے جنہیں آپ کار عبث خیال کرتے ہیں لیکن کیا کیجیے ہمارے پاس وہ چمک دمک نہیں ہے جو مغرب کے میکدوں میں دستیاب ہے۔

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگینوں کی ریزہ کاری ہے

 تو ہم نے ان اعتراضات کو صرف زور قوت کے ذریعے قبول کر رکھا ہے ورنہ ان کی علمی حیثیت بھان متی کے کنبے سے زیادہ نہیں ہے۔

یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج

بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

                                    (ارمغان حجاز،اقبال)

اہل مدرسہ کی خدمت میں

اس عظیم الشان ، علم و حکمت سے معمور  نصاب کی تدریس کے دوران چند زمینی حقائق  کی طرف ہمیں نظر کرنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت جو ہم ایک ادھوری ،اتھلی حالت مسلط ہے اس کو دیکھنے کے لیے ہمیں اب نئی آنکھیں بنوا نے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس ہمہ گیر بحران میں ہم نے برابر اپنا حصہ ڈالا ہے ۔زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ہم ارادہ وشعور کی نصب العینی کے ساتھ بڑے دینی مقاصد کو حالت تعمیل میں رکھنے سے بڑی حد تک محروم ہوچکے ہیں اب ہماری حالت میدان کارزار میں دشمن کے واروں سے چھلنی اس سپاہی کی سی ہے جو سانس ٹوٹنے کا منتظر ہو ۔

مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

            (مصحفی)

اب ہمیں ٹھنڈے ذہن سے یہ بات سمجھنے ضرورت ہے۔ ہمارے اسلاف نے جو نصاب ترتیب دیا تھا ۔اس میں مروج تمام علوم قرآن و حدیث کو سمجھنے کی زینہ  کو قرار  دیا تھا۔اس سے یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے قرآن و سنت کو مروجہ علوم کی روشنی میں سمجھا جائے گا تو اس کا  حالات پر انطباق ممکن ہو سکے گا ورنہ ہم عمر بھر ایسی تیز اندازی میں مصروف رہے گئے جس میں تیر کبھی نشانے پر نہیں لگے گا ۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کریں تو ہم جانتے ہیں  ھمارے کلاسیکی معقولی علوم یعنی طبیعات، عنصریات، فلکیات اور منطق وغیرہ کے متعلق عملی دنیا میں ایک قیامت صغریٰ بپا ہو چکی ہے جس کے بعد اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم متروک علم کی تحصیل میں شب روز صرف کررہے ہیں۔

قرآن وسنت کا اگرچہ اصل موضوع اخروی سعادت ہے۔ مگر چونکہ اس کا مخاطب انسان ہے اس لیے قرآن و سنت میں انسانی علوم کو بطور حوالہ مس کیا ہے۔ جس سے قرآنیات کے طالب علم پر ان علوم کو گہرائی میں جا کر سمجھنا اور ان کی روشنی میں قرآن و سنت کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے۔ ۔مثال کے طور پر جغرافیہ  کےعلم لیجیے قرآن کریم میں جن مقامات کا تذکرہ ہوا ہے ۔ جب ایک طالب علم جغرافیہ کی روشنی میں ان ابدی صداقتوں کا مطالعہ کرے گا تو اس کا ایمان پختہ ہوگا اور وہ معاشرے کی رہبری کا فریضہ سر انجام دینے کے قابل ہو سکے گا۔لیکن موجودہ ناقص اور غیر متعلق نصاب تعلیم سے خود دینی طلبہ متنفر ہورہے ہیں ۔یہ دین انسانوں پر اترا ہے اور جس نے اتارا ہے وہ انسانوں کا خالق بھی ہے اس لیے اپنے زمانے کے حالات اور انسان کو سمجھنا ضروری ہے بصورت دیگر دینی علوم کی تحصیل ایک ایسا سفر بن جائے گئی جس کی کبھی منزل نہیں آئے گی۔

ہم جس کے مسافر تھے وہ منزل ہی نہیں آئی

دیکھا تو قدم بر سر جادہ بھی نہیں تھا

اس لیے مروجہ عصری علوم کی تعلیم کا انتظام مدارس میں ہونا چاہیے اور دینی طالب علم کو جدید فلسفہ و سائنس کا علم ہونا چاہیے ۔

نصاب کے حوالے سے دوسری گذارش یہ ہے کہ درس نظامی کا بڑا مقصد دین اسلام کی ترجمانی ہے لیکن ہمارے نصاب میں بہت سے فقہی و فروعی مسائل معاشرے سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ میں اسلاف کی میراث سے تہی دامن ہونے کا آرزو مند نہیں ہوں۔ بلکہ ہمارے اسلاف نے اپنے ادوار میں دفاع اسلام کی جوعقلی اور اخلاقی کاوشیں کی ہیں ان سے کوئی صاحب عقل انکاری نہیں ہو سکتا ۔ اور نہ ہی ہم ان کاوشوں سے بے نیاز ہونے کا سوچ سکتے ہیں۔

لیکن ہم ان کے وارث ہونے کا دعویٰ ہر گز نہیں کر سکتے۔ بلکہ ہم  تو لکیر کے فقیر ہیں ۔ دینی مباحث کی تفہیم  لیےکے ایسے طریق کار کو حرز جاں بنائے ہوئے ہیں جو ان نسلوں کے لیے بنائے گئے جو بہت سے پہلوؤں میں ثقافت کا ہم سے مختلف تصور رکھتی تھیں ۔اب بہت سارے مباحث فرسودہ ہیں جن کی معاشرے  کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اور عقائد و احکام میں سے ہر دو میں باب میں نت نئے مسائل پیش آرہے ہیں ۔

آج ایک فارغ التحصیل عالم  جب مدرسے کے گیٹ سے نکلتا ہے تو ما سوائے  چند مسائل اور عبادت بتانےکے،  معاشرے  کو اس  کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔دیکھیے سب سے اہم چیز عقائد ہے اور درس نظامی کے نصاب جو اکلوتی کتاب پڑھائی جاتی ہے وہ شرح “شرح عقائد نسفیہ ”

جو ماتریدی اشعری نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتاب ہے اور اکثر مباحث ایسے اسلامی فرقوں کے تردید میں ہیں جن فرقوں کا وجود ہی معدوم ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ اس سےبزرگوں کی بصیرت میں نیم روز کی طرح عیاں ہوجاتی ہے ۔ لیکن مجھے صرف بزرگوں کی بصیرت کو سمجھنے پر اکتفاء نہیں کرنا۔ دین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے لوگ معاشرے  میں مختلف گروہوں اور فرقوں کے بارے اسلام کا نقطہ نظر جاننا چاہتے ہیں مثلا مجھ سے ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ سوشلزم اسلامی نقطہ نظر سے درست ہے یا نہیں برتقدیر اول اس کے حق میں کیا دلیل ہے برتقدیر ثانی اس میں کیا سقم ہے ؟اب مجھے کیا خبر کہ سوشلزم کیا ہوتا ہے اسلام کا اس کے بارے  نقطہ نظر تو دور کی بات ہے ۔اب جوابا ان سے کہوں کہ بھائی میں بتا سکتا ہوں کہ معتزلہ کیوں گمراہ ہوئے ،  قرآن مخلوق ہے یا نہیں وغیرہ , وغیرہ۔

معاشرے کی ضروریات ان مباحث سے مختلف ہیں جن پہ اہل مدرسہ مغز ماری فرمار ہے ہیں  تو اس دوئی نے معاشرے کو علماء سے غیر متعلق کردیا ہے ۔اب ضرورت ہے  اہل مدارس  ان جدید فتن پر فوکس کریں جو معاشرے میں موجود ہیں ؟دوسری جانب کتنے مسائل ہیں جن کا جواب ہماری فقہ دینے سے قاصر ہے ۔طہارت بہت ضروری ہے لیکن ہم نے طہارت کنویں حاصل نہیں کرنی ۔زکوٰۃ فریضہ اسلام ہے اس کے منکرین سے سیدنا ابی بکر صدیق جیسی نرم مزاج شخصیت اعلان جنگ کر سکتی ہے ۔ اس کا جاننا   درہم و دینار سے ممکن نہیں ہے ۔الغرض ہم نے  عقائد ومسائل کے باب میں اپنا سارا زور ان مسائل پر صرف کررکھا ہے جن کا خارج میں وجود ہی نہیں ہے۔اگر خدا توفیق دے تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے۔  ان جدید علوم نے ہماری فقہ کی کوکھ سے ہی جنم لیا ہے اگر ہم جدید معیشت و تجارت ،قانون بین الممالک وغیرہ کو اپنے جامعات میں جگہ دیں گے تو  فقہ اسے ایسے کی گود میں جگہ دے گئی جیسے ایک بچھڑی ماں اپنی اولاد کو لے لیتی ہے۔

خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

                                                (ضرب کلیم،اقبال)

نصاب کے متعلق  تیسری  اور آخری گزارش(یہ حصہ احمد جاوید صاحب سےایک انٹر ویو  کے دوران پوچھے گے ایک سوال کے جواب کی تلخیص پر مبنی ہے) ہے۔ مدارس کے نصاب کو دو حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے ایک پرائمری سکول کی نوعیت کا جس میں خاص و عام کو داخل کیا جائے اور وہ چیزیں پڑھائی جائیں جن کا جاننا اور ماننا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ۔  جیسےترجمہ قرآن ، منتخب احادیث بنیادی عقائد و احکام وغیرہ اور دوسرا حصہ علوم دینیہ میں تقسیم پر مبنی ہونا چاہئے بالفاظ دیگر  پہلے نظام میں داخلے کی غرض  خود کو دیندار بنانا اور دوسرے میں داخلے کی غرض دوسروں دیندار بنانے کی صلاحیت پیدا کرنا ہونا چاہیے۔

 

محمد قاسم سدید

محمد قاسم سدید جامعہ معظمیہ، معظم آباد شریف میں درس نظامی کی تحصیل کر رہے ہیں۔
qasimsadeed5@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • ماشاءاللہ ۔ حضرت نے مدارس کے احوال حاضرہ پر اچھی قلم نگاری فرمائی ہے ۔۔ اللہ کریم ہم سب کو حصار رحمت میں لیے رکھے۔ آمین
    حضور کا اقبال بلند ہو