رمضان المبارک کی آمد اُمّت مسلمہ کے لئے عیدکے سماں سے کم نہیں اس مبارک مہینہ میں ہر مسلمان عبادت و ریاضت کے ذریعہ اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے
دوجہاں کے سردارخاتم النبیین ﷺ کی سیرت مبارکہ میں استقبال رمضان میں کمال درجہ کا اشتیاق وانتظار معلوم ہوتا ہے ابھی رجب کاچاند نظر آتا تو زبان اقدس پرفورا یہ دعا آجاتی
”اے اللہ ہمارے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا“
دو ماہ تک متواتر یہ دعا وردِزبان رہتی پھر یہی نہیں شعبان المعظم میں خوب روزے رکھ کر خود کو ماہ مبارک کے روزوں کے لئے تیار کیا جاتا
اورجب رمضان المبارک کی آمد ہوتی تو چہرہ انور کھل اٹھتا عجیب سی بشاشت ورونق جلوہ افروز ہوتی ۔اور ایسا کیوں کر نہ ہوتا کہ خود خالق ارض وسماءجنت کو رمضان المبارک کے لئے شروع سال سے آخرسال تک مزیّن فرماتے ہیں
اور رمضان کی پہلی رات عرش کے نیچے سے مثیرہ نامی ہواچلتی ہے کہ جس سے جنت کے درختوں کے پتے اور کواڑوں کے حلقے بجنے لگتے ہیں جس سے ایسی سریلی آواز نکلتی ہے کہ سننے والوں نے اس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی حوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بالاخانوں کے درمیان کھڑی ہو کر کہتی ہیں ”ہے کوئی اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہم سے منگنی کرنے والا؟
تاکہ اس کی ہم سے شادی کردی جائے ۔
خالق رمضان اپنی رحمتوں اوربرکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اورجہنم کے دروازے بندکردیتا ہے اور اپنے اور اپنے بندہ کے دشمن سرکش شیاطین کو جکڑ دیتا ہے کوئی ایک نیکی کرے توبدلہ میں 70ستر گُنازیادہ جھولی میں ڈال دیتاہے۔ اعلان ہوتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے میں خودا س کااجردوں گا۔
عشرہ اول میں رحمتوں کی موسلادھاربارش ہوتی ہے۔ دوسرے عشرہ میں مغفرت اورآخرمیں جہنم سے آزادی کی نویدسنائی جاتی ہے۔ جبکہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ساری دنیا سے یکتا ہو کرجب کوئی بندہ مومن اپنے آقاومولی کے در کا فقیر بن کرگذارتا ہے تواس کی مثال اس دروازہ کھٹکھٹانے والے کی سی ہے کہ جوکسی کے غصے اورناگواری وحقارت سے لاپرواہ ہو کر اپنا مطلب لیے بنا کسی قیمت پرنہیں ٹلتا اور بالآخر اس کو اس کامطلوب مل جاتا ہے معتکف کو اللہ تعالی کی رضاوخوشنودی اورمغفرت کاپروانہ دے دیاجاتاہے۔
رب العالمین اوررحمة للعالمین ﷺ کی اس ماہ مبارک میں عنایات سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ان کے نزدیک یہ ساری کائنات سے قیمتی اوقات ہیں۔ ان گنت انعامات واحسانات میں دو مخصوص خوشیاں ایسی ہیں جن کاظہورصرف اسی ماہ میں ہوتاہے ایک تو افطار کے وقت کی خوشی وفرحت اوردوسری جب یہ روزہ داراپنے پروردگارسے ملاقات کرے گا۔
شہنشاہ عالم نے امت محمدیہ ﷺ کو رمضان المبارک کے طفیل قرآن کریم اورلیلة القدر جیسی بے نظیرو بے مثال تحفے عنایت کیے کہ جن میں سے ہرایک صرف اسی امت کاشرف خاص ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب ﷺ اورامت مسلمہ سے اسی ماہ مبارک میں خطاب کا آغاز کیا اورپھر 23 سال کاطویل عرصہ شب وروزمیں جب وہ چاہت اہے اپنے فرامین کوجبرائیل امین ؑکے ذریعہ سے پہنچاتا ۔
ان مبارک راتوں کوکلام باری سننے اورسنانے والوں کو وہ اپنا محبوب بنالیتا ہے اوران کو اپنی رضا کا پروانہ عطاکرتا ہے اورخود ان کی تلاوت کو سنتاہے اور ہزار راتوں سے افضل رات شب قدر کہ ساری زندگی کی شب بیداری کواس سے ادنی سی مماثلت وبرابری نہیں ۔
طلوع فجرتک آسمان سے زمین تک نورکا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہ پے درپے انعامات کی بارش فقط اسی دل کونصیب ہوگی کہ جواپنے مالک اوراس کے محبوب پیغمبرﷺکی کماحقہ منشاوچاہت کے مطابق ان گھڑیوں کوبسرکرے گا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک درزی کوآمدرمضان کااس لئے سال بھر انتظار رہتا ہے کہ وہ اس ایک مہینہ میں سال بھرسے زیادہ کمائے گاچوبیس گھنٹوں میں وہ صرف چندگھنٹے آرام کے لئے نکالتا ہے باقی وقت سرجھکائے ہمہ تن گوش اپنے کام میں مصروف رہتا ہے ۔لیکن کاش کیاہی اچھاہواکہ ہم اپنے خالق ومالک کوراضی کرنے کے لئے ان مبارک شب وروزمیں خوب عبادت وریاضت کریں۔
رمضان المبارک میں نمازتراویح کے اندر دنیا بھرمیں مسلمان قرآن کریم کوحفاظ کرام کے توسط سے سنتے ہیں۔قرآن کریم اللہ تعالی کاکلام ہے اوراسے اپناکلام اس درجہ محبوب ہے کہ حضوراکرم ﷺنے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالی اتناکسی طرف توجہ نہیں فرماتے جتناکہ اس نبی کی آوازکوتوجہ سے سنتے ہیں جوکلام الہی کوخوبصورت آوازمیں پڑھتاہے۔چونکہ نبی کے اوپریہ کلام نازل ہوتاہے اس لئے اس سے عمدہ پڑھناکسی دوسرے کے بس میں نہیں ہوتا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی قاری کی آوازکی طرف اس شخص سے زیادہ کان لگاتے ہیں جواپنی گانے والی باندی کاگاناسن رہاہوارشاد نبوی ﷺہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جوقرآن سیکھے اورسکھائے۔
حضرات صحابہ کرام ؓ کو قرآن کریم کے تعلیم وتعلم سے عشق تھا وہ کلام اللہ کواپنی جان سے زیادہ عزت واہمیت دیتے اورانکے نزدیک قرآن کریم سے بہرہ ورہوناکسی انسان کی افضلیت کی علامت تھی ان کازیادہ تروقت قرآن کریم کی تلاوت اوراس کے معانی ومطالب کے سمجھنے میں گزرتا۔
رمضان المبارک کے مہینہ میں اس میں بہت اضافہ ہوجاتا۔حضرت عمرفاروق ؓنے اپنے دورحکومت میں حضرت ابوموسی اشعری ؓاورانکے علاوہ تین سوکے قریب حفاظ صحابہ کرام کے نام ایک طویل خط لکھاجس میں قرآن اورحافظ قرآن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ بندہ جب رات کوکھڑاہوتاہے اورمسواک کرکے وضوکرتاہے پھرتکبیرکہہ کر(نمازمیں )قرآن پڑھتاہے توفرشتہ اس کے منہ پراپنامنہ رکھ کرکہتاہے کہ اورپڑھ۔ اورپڑھ۔تم خودپاکیزہ ہواورقرآن تمہارے لئے پاکیزہ ہے۔مزیدفرمایانمازکے ساتھ قرآن کاپڑھنامحفو ظ خزانہ ہے اوراللہ کامقررکردہ بہترین عمل ہے۔
ایک دفعہ مدینہ منورہ سے عراق کے ارداہ سے ایک قافلہ روانہ ہواتوحضرت عمربن خطاب ؓمقام حرا تک ان کوالوداع کرنے کے لئے چلے راستہ میں ان سے پوچھاکیاآپ لوگ جانتے ہومیں آپ کے ساتھ کیوں چلا؟ساتھیوں نے کہاجی ہاں ہم لوگ حضورﷺکے صحابہ ہیں اس لیئے آپ ہمارے ساتھ چلے ہیں حضرت عمرفاروق ؓنے فرمایایہ بات توہے لیکن یہاں ایک خاص بات ہے کہ تم لوگ ایک ایسے علاقہ میں جارہے ہوکہ وہاں کہ لوگ شہدکی مکھی جیسی دھیمی آوازسے قرآن پڑھتے ہیں۔یعنی جس خوبصورتی سے وہ لوگ کلام اللہ کوپڑھتے ہیں وہ قابل رشک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خلیفة المسلمین حضرت عمرفاروق ؓنے اپنے زمانہ خلافت میں رمضان وقرآن کی مناسبت کے پیش نظربیس رکعات تراویح باجماعت اداکرنے کی سنت جاری کی اورحضرت ابی بن کعب ؓنے امامت کی۔ اس وقت سے آج تلک پورے عالم اسلام میں تراویح میں قرآن کریم کوسنااورسنایاجاتاہے جوکہ ایک بہت بڑی نعمت وسعادت ہے۔ اس طرح سال بھرمیں ایک دفعہ ایک امام کی اقتداءمیں قرآن کریم کوسننے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کواپنے کلام سے محبت کرنے والے اوررمضان کی راتوں میں مشقت برداشت کرکے تراویح پڑھنے پڑھانے والوں پرجس قدرپیارآتاہے اس کااندازہ نہیں کیاجاسکتاہمیں تروایح کے دوران یہ تصورباندھناچاہیے کہ میرارب بھی میرے ساتھ اپنے کلام کوسن رہاہے اورجوکام خالق کائنات خودکرے اس کواپنانے والاخداکامقرب وبرگزیدہ بن جاتاہے۔
رمضان المبارک کی یہ پُرنور ساعتیں اپنے ساتھ بہارکی نویدلے کرآئی ہیں اوربہت جلدظلمت کی رات ڈھلنے والی ہے ہمیں اس ماہ مبارک میں خود کورحمت الہی کاحقداربنانے کے لئے عبادت کے سمندر میں غوطہ زن ہوناپڑے گا۔
کمنت کیجے