Home » فلسفہ و مذہب … ابن رشد کا نقطہ نظر
فلسفہ

فلسفہ و مذہب … ابن رشد کا نقطہ نظر

تحریر :۔  حافظ محمد بلال

فلسفہ و مذہب ایک ہی منزل تک پہنچانے والے دو راستے ہیں یا دونوں کی منزلیں بھی الگ الگ ہیں، ایسا قضیہ ہے جو صدیوں سے اہل علم کے درمیان مکالمے و مناقشے کا سبب بنا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ سوال صرف کسی ایک مذہب کے پیروکاروں اور فلسفیانہ طرز استدلال کے حامیوں میں سبب تنازع ہو بلکہ تقریباً‌ تمام آسمانی مذاہب عقل و نقل کے اس بکھیڑے سے دوچار رہے ہیں۔ مسلمان تاریخ اس حوالے سے خاصی زرخیز رہی ہے کہ اس میں دور اول ہی سے اس بحث کو ٹھیٹھ فلسفیانہ انداز میں موضوع بنایا جاتا رہاہے۔ یہ بحث آج بھی جاری ہے اور شاید آئندہ بھی جاری رہے گی۔ ہمارے خیال میں اس ضمن میں ابن رشد کا نقطہ نظر لائق تقلید ہونا چاہیے کیونکہ ابن رشد کے  خیال میں مذہب و فلسفہ  میں کوئی تعارض نہیں ہے ،بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون و مؤید ہیں ۔دونوں کے مقاصد مشترک ہیں ۔مذہب کا مقصد بھی  حقیقت اعلیٰ کی پہچان ہے اور فلسفہ بھی موجودات پر اس طریقے سے غور کرنے کا نا م ہے کہ وہ حقیقت اعلیٰ تک پہنچا سکے۔
وہ لکھتے ہیں کہ فلسفہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ موجودات اور ان کے متعلقات پر اس حیثیت سے غور کیا جائے کہ وہ اپنے صانع کی طرف راہنمائی کریں۔کیونکہ موجودات اپنی بنت کے فہم سےبنانے والے کی جانب راہنمائی کرتی ہیں اور جب بھی صنعت کی معرفت حاصل ہو گی تو صانع کی معرفت بدرجہ اتم حاصل ہوگی ۔اس تناظر میں ابن رشد یہ مانتے ہیں کہ مذہب اس لیے حق ہے کہ اس کے پاس براہ راست وحی کے ذریعے خدا کا پیغام موجود ہے اور فلسفہ انسانی عقل کا نتیجہ ہونے کی وجہ سے حق ہے ۔اور حق چونکہ حق کا مخالف نہیں ہو سکتا، اس لیے ان دونوں کے مابین کوئی تعارض ممکن نہیں ہے۔اپنی کتاب فصل المقال میں اس مقدمے کو ثابت کرنےکے لیے ابن رشدقرآن کریم سے استدلال کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ  قرآن خود بار بار غوروفکر کرنے یا دوسرے لفظوں میں عقل کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے جبکہ عقل کے استعمال کو درست رکھنے کے لیے چند قوانین کی ضرورت ہے اور انہی قوانین کا مطالعہ فلسفہ کہلاتا ہے، لہذا فلسفہ کا مطالعہ حکم قرآنی کی بنا پر واجب  یا کم از کم مستحب ہے ۔

ابن رشد کا کہنا ہے کہ جب ہم عقل کے درست استعمال سے کسی سچائی تک پہنچتے ہیں توشریعت اس سچائی کے حوالے سے یا تو خاموش ہوگی  اور یا وہ سچائی بعینہ شریعت میں مذکور ہو گی ۔ایسا ممکن نہیں کہ عقل جس نتیجے پر پہنچے، وہ اور شریعت کی بتائی تفصیلات باہم متعارض ہوں۔لیکن اگر قرآن میں کوئی بات بظاہر فلسفہ کے خلاف محسوس  ہو تو یقیناً اس کی تہہ میں کوئی اور معنی و مطلب ضرور ہوں گے جو کہ نتائج فلسفہ کے موافق ہوں ۔ لہذا اس ظاہری معنی کی تاویل کی جائے گی ۔
ابن رشد کے مطابق تاویل ” لفظ کو اپنے حقیقی معنی سے مجازی معنی کی طرف پھیرنے “کا نام ہے،لیکن اس طرح کہ مجازی معنی اہل عرب کی عام روایت اور استعمال  کے برخلاف نہ ہو ۔مجازی مفہوم تک پہنچنے کے اس عمل میں کبھی تو تشبیہات اور کبھی استعارے کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔مثلا سبب کی جگہ مسبب، شے کا لاحق یا مقارن وغیرہ اصناف کلام مجازی مستعمل ہوتی ہیں۔ (فصل المقال ص 2)خیال رہے کہ اس نکتے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق رہا ہے کہ ہر جگہ نصوص کے ظاہری معنی مراد لینالازم نہیں  بلکہ سیاق کلام کی روشنی میں یا ظاہری مفہوم کے مستحیل ہونے کی بنا پر نصوص کی  تاویل کی جاسکتی  ہے ۔البتہ  وہ کون کون سے مقامات ہیں جہاں تاویل کی جا سکتی ہے ، آیا وہ متعین و محدود ہیں یا لا محدود، تو اس بابت اہل علم کی رائے مختلف ہے۔ (فصل المقال ص 3)اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ یہ سبب متعین نہیں کیا جا سکا کہ تاویل کیونکر کی جائے گی ۔ابن رشدؒ تاویل کا سبب متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  مسلمانوں کے باہمی تفرقہ کی بنیادی وجہ نصوص کی اپنے اپنے معیارات کے حوالے سے تاویل کرنا ہے ۔اگر ان نصوص کی تاویل کے لئے صرف عقل سلیم کو معیار بنا لیا جائے تو اس فرقہ واریت کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔

یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ابن رشد کے مطالعے سےبظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ فلسفہ و مذہب کی درجہ بندی میں ابن رشد فلسفہ کی اولیت کے قائل تھے۔لیکن اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ تاثر  زائل ہو جاتا ہے کیونکہ ابن رشد ؒ کے فلسفہ میں بنیادی اہمیت قرآن مجید کو حاصل ہے ۔ وہ اپنی کتب میں بار بار  قرآن مجید کو واضح انداز میں ” حکم ” قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی بھی شریعت سے ان تمام بدعات کو دور کرنا چاہے، وہ قرآن کریم کو اپنا راہنما بنائے ۔ (فصل المقال ص 65)دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ متکلمین کے طریقوں کو چھوڑ کر صرف قرآن حکیم کو پیش نظر رکھو  تو تمہاری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔آگے لکھتے ہیں کہ لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے ہر بات پر منطقی دلیل قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔بعض صرف خطیبانہ انداز سے متاثر ہوتے ہیں اور بعضوں کے لیے صرف وعدہ و وعید کافی ہوتے ہیں ۔قرآن کریم چونکہ معجز انہ کتاب ہے اور تمام جہان کے لیے نازل ہوئی ہے ، اس لیے وہ ان تینوں طریقوں کی جامع ہے ۔(فصل المقال ص 25)

اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ ابن رشد فلسفہ و مذہب کی کسی ایسی درجہ بندی کے قائل نہیں جس میں مذہب کو فروتر قرار دیا گیا ہو ہے  بلکہ درست بات یہ ہے کہ ابن رشد ؒ کے ہاں بھی بنیادی طور پر مذہب کو فلسفہ پر برتری حاصل ہے۔

حافظ محمد بلال

محمد بلال فاروقی نے دار العلوم کراچی سے درس نظامی کی اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ سے ایم فل کی تکمیل کی ہے۔
bilalfarooqi2004@gmail.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • کیا ابن رشد کے کام سے مسلم دنیا ا میں علمی فائدہ اٹھا یا گیا اس حوالے سے بھی ضرور لکھیں اس آرٹیکل کے ت وسعت سے ابن رشد اور ان کے کام کےُمتعلق جس زاویہ کی طرف نشاندہی کی گئی ہے وہ خاصی دلچسپ ہے
    شکریہ