Home » امام غزالی : رد فلسفہ یا جذب فلسفہ
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات فلسفہ

امام غزالی : رد فلسفہ یا جذب فلسفہ

تحریر:۔محمد عثمان رمزی

لاطینی مغرب میں الگزل سے معروف   الغزالی تہران کے شہر طوس کے ایک چھوٹے سے قصبے طبران میں پیدا ہوئے۔  شرف الا ئمہ، زین الدین اور حجۃ الاسلام جیسے القابات ان کے علمی اور فکری مقام کو متعین کرتے ہیں۔امام غزالی کی فکر کا مختلف انداز اور مخلتف سطحوں پر مطالعہ کیا گیا ہے۔اس کی وجہ امام غزالی کی پیچ دار شخصیت ہی نہیں بلکہ ان کی فکر کی ہمہ جہتی بھی ہے۔ان کی فکر میں ایک خوش رنگ گون نا گونی پائی جاتی ہے۔ان کی فکر کو  کسی مخصوص پہلو کے لیے میزان قرار دینا یا کسوٹی بنانا ان کی فکر کے ہمہ جہتی پہلو کی نا قدری ہے۔ وہ چونکہ ایک مختلف الجہات شخصیت ہیں  اس لیے ان کے فکری مطالعہ سے مختلف پس منظر اور مختلف انداز فکر سے وابستہ لوگ مختلف نتائج برآمد کرتے ہیں۔امام غزالی اپنے قارئین کو حیران کن حد تک متحیر اور مسحور کن حد تک متاثر کرتے ہیں۔ ان کی فکر میں جاذبیت، جدت کے ساتھ اور معقولیت، ندرت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔وہ احساس میں ڈوبی ہوئی عقل اور تعقل میں ڈوبا ہوا احساس اپنے فکری دھاروں میں انڈیل دیتے ہیں۔ آج اسلامی فکر کے عنوان کے ما تحت ہونے والے جدید مطالعوں میں امام غزالی کی فکر تحقیق کا اہم ترین موضوع ہے۔ جدید مغربی اور اسلامی  دانشوروں، سائنسدانوں  اور تحقیقی مطالعوں نے امام غزالی کی فکر کے ہمہ جہتی پہلو کو پس پشت ڈالتے ہوئے،اسے ایک محدود دائرے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور دوسری طرف روایتی اسلامی فکر کے ماہرین نے بھی خود کو محدود کرتے ہوئے امام صاحب کو اپنی محدودیت کا امام بنا لیا ہے۔ جدید مطالعوں نے یہ باور کروایا ہے کہ امام غزالی فلسفہ اور سائنس کے دشمن تھے اور انہوں نے نہ صرف سائنسی علوم کی ترقی پر کاری ضرب لگائی بلکہ  اسلامی، علمی ، فکری اور عقلی  روایت کے سامنے جمود کا ایسا بندھ باندھا  جس سے آج تک مسلم امۃ نہیں نکل پائی۔امام غزالی اسلام میں فلسفیانہ روایت کےقاطع اور نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

ہم اپنے اس مقالہ میں  اختصار کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی امام غزالی سائنسی ترقی کی رکاوٹ، اسلامی فکر کے جمود اور علمی و عقلی  روایت کے  زوال کا سب سے بڑا اور جامع سبب ہیں؟ کیا امام غزالی نے فی نفسہ فلسفہ کی مخالفت اوراس کا کلی طور پر رد کیا ہے؟ان کی تنقید کا دائرہ اور سبب کیا تھا ؟ امام غزالی کی الہیات پر فلسفے اور ان کے مجموعی فکر پر فلاسفہ کے کیا اثرات ہیں؟ کیا امام غزالی طبیعات اور ریاضیات کو شیطانی کام سمجھتے تھے؟ کونیات میں ان کی پوزیشن کیا واقعی اشعری کلامی روایت والی ہے؟ اور اصول تعلیل کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں۔ اور آخر میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا واقع ہی امام غزالی نے فلسفہ کو رد کیا ہے یا پھر اس کو جذب کیا ہے ۔

تہافت الفلاسفہ کو اسلامی تہذیب میں سائنس، فکر اور فلسفہ کے زوال کی بڑی علامت اور نمایاں سبب  سمجھا جاتا ہے ۔ جدید مطالعوں نے اس کی جابجا نشاندہی کی ہے۔ اس تصور کی تشکیل مغرب میں نشاۃ ثانیہ کے بعد اس وقت ہوئی جب اسلامی تہذیب کا مطالعہ جدید مغربی منہج تحقیق  اور انداز فکر پر کیا گیا۔مٖغرب میں جدید سائنسی انقلاب اور  تنویریت کی تحریک کے بعد جب عقلیت پورے زور و شور کے ساتھ سامنے آئی تو یہ ہر چیز کا معیار قرار پائی اور اس طرح ہر گذشتہ تصور اور تہذیب کا مطالعہ اس کے تناظر میں کیا گیا ۔ اس بنیاد پر جدیدیت کے تناظر میں جب اسلامی زریں دور کا مطالعہ کیا گیا تو امام غزالی غیر معقولیت کے امام اور فلسفہ و سائنس کے دشمن کی حیثیت سے نمودار ہو کر سامنے آئے۔ استشراقی دانش، جدید مفکرین، سائنسدانوں  اور مورخین نے اس مقدمہ کو اپنے اپنے انداز میں مضبوط کیا اوراس کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ مقدمہ اس بنیاد پر کھڑا کیا گیا کہ  امام غزالی نے منطق اور فلسفہ کی بیخ کنی کی جس کی وجہ سے اسلامی فکری روایت  میں تفکر و تعقل ممنوع قرار پایا اور اس میں تعطل آ گیا اور اس کے نتیجہ میں اسلامی دنیا میں فکروفلسفہ اور سائنسی علوم زوال پذیر ہوگئے اور بالاخر علم میں پسماندہ تہذیب بھی زوال کا شکار ہوگئی۔ اسلامی تہذیب کے زوال کےکئی وجوہ اور اسباب ہیں جو کہ ہماری تحریر کا باقاعدہ موضوع نہیں ہم سر دست صرف اس بات کا تجزیہ کریں گے کہ آیا امام غزالی اس زوال کے ذمہ دار ہیں یا نہیں۔

مندرجہ بالا تصور کئی جدید مغربی اور مشرقی مفکرین نے پیش کیا ہے جن میں سے چند ایک کا حوالہ درج ذیل ہے ۔

نیل ڈیگراس ٹائسن (پیدائش 5 اکتوبر 1958) ایک معروف امریکی لکھاری، سائنسی موضوعات کے مقرر، اور  طبعی فلکیات کے ماہر ہیں ۔عوام میں سائنسی تحیرات  کی آگاہی پیدا کرنے پر امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز سے ایوارڈ وصول کر چکے ہیں۔  اس سے ان کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں اپنے ایک عوامی لیکچر میں اسلامی زریں دور پر روشنی ڈالتے ہوئے حیرانی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر امام غزالی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے نزدیک ریاضی (جو کہ کائنات کی زبان ہے اور سائنس کو بنیاد فراہم کرتی ہے) وہ شیطانی کام ہے۔

[1]“Manipulation of numbers is work of devil “

               سائنسی سرحدوں میں یہ ریاضیاتی غیاب اس کے بعد سے آج تک اسلامی دنیا میں قائم ہے اور اس پر اصرار بھی ہے۔ اور اسی طرح ایک اور عوامی لیکچر میں اسلامی درخشاں دور کے زوال کا امام غزالی کو  مورد الزام ٹہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ  اگر آپ اس کے علمی کام کو دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ علم ریاضی شیطان کا کام ہے اور اس طرح کی سوچ اور نظریہ سے کبھی بھی کچھ اچھا برآمد نہیں ہو سکتا۔

“Al-Ghazālī…..out of his work you get the philosophy that mathematic is the work of devil and nothing good can come out of this philosophy”.[2]

              پروفیسر ہود بھائی پاکستان کے معروف جوہری طبیعات دان ہیں۔  وہ پاکستان میں آزادانہ فکر کے امین، آزادی اظہار اور لبرلزم کے علمبردار ہیں ۔  وہ مذہب اور سائنس میں  کسی قسم کی مفاہمت کے قائل نہیں ہیں بلکہ مذہب کو سائنسی فکر اور سائنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ  مختلف مکالموں اور مباحثوں میں مذہب پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی اپنی متنازع کتاب Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality میں امام غزالی کو سائنس اور عقل و فلسفہ کا دشمن قرار دیتے ہیں ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ غزالی نے سائنس کی قربانی دے کر رجعت پسندی کو بچا لیا اور امام غزالی نے تعقل پر مبنی فلسفہ کے خلاف منظم بغاوت کی جو کہ کامیاب ہوئی۔

AI-Ghazzali – a man who Seyyed Hossein Nasr gratefully acknowledges as having ‘saved orthodoxy by depressing science’ – that a coherent rebuttal of rationalist philosophy was attempted.[3]

               ڈین براؤن جو کہ مذہب سائنس اور فکشن کا معروف لکھاری ہے  اس نے ویب سمٹ پر “سائنس خدا کو ختم کر دے گی” کے موضوع پر ایک گفتگو میں کہا کہ  غزالی نے اس بات پر کہ ریاضی شیطان کا فلسفہ ہے،  انتہائی سنجیدہ اور قائل کرنے والی تحاریر لکھیں جو کہ اس بات پر برانگیختہ کر نے میں کامیاب ہوگئیں کہ سائنسی علم کی جگہ الہیاتی علم پڑھا جائے اور پھر رات بھر میں سائنسی تحیقیق کی جگہ مذہبی الہام نے لے لی اور اس طرح سائنسی تحریک مکمل طور پر مسلم دنیا میں دم توڑ گئی۔

“Al Ghzali wrote a serious persuasive text declaring the mathematic the philosophy of devil and urging that the scientific study to be replaced by theological study. Almost overnight the scientific investigation was replaced by religious revelation and entire scientific movement collapsed there.”[4]

              اسی طرح  سٹیون وینبرگ جیسے معروف نظریاتی ماہر طبیعات جو کہ فزکس میں نوبل پرائز لے چکے ہیں ۔ سائنسی دنیا میں جس کی تحقیقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ بھی بغیر تحقیق کے اسی طرح کی عمومی رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ  غزالی کے بعد اسلامی دنیا میں کوئی قابل ذکر سائنس نہیں رہی۔

After al-Ghazali “there was no more science worth mentioning in Islamic countries[5]

              محمد عابد الجابری(1935-2010) معاصر عرب اسلامی  دنیا کے مفکر،  فلسفی اور نقاد ہیں وہ ابن رشد کے عظیم مداح ہیں اوراس کو اپنی فکر کے استاد مانتے ہیں۔ وہ اسلام میں مغربی انداز فکر کو مشرقی انداز جذب پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ روایت اور جدیدیت کے ساتھ ایک تخلیقی تعلق کے خواہشمند تھے۔ ان کا فکر اور علمی کام برھان ( استخراجی منطق ) اور  بیان (لسانی تجزیہ ) کی عرفان (روحانی تجربہ) پر فوقیت کے گرد گھومتا ہے۔ وہ  ابن رشد جو کہ عقلیت پسندی کا علمبردار ہے ، کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے امام غزالی کو اسلامی تاریخ میں عقلیت کے خاتمہ کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ابن رشد کے بعد کا عرب تاریخ ساز زوال کا شکار ہو گیا کیونکہ ہم غزالی سے جان نہیں چھڑا سکے۔

“…post-Averroes Arabs have lived on the margin of history (in inertia and decline), because we kept clinging to the Avicennian moment after Ghazālī granted it currency within “Islam”.”[6][7]

 برصغیر کے معروف قانون داں اور جدید نظریات کے حامل اسکالر اور مورخ سید امیر علی (1849–1928)  کا اپنی معروف کتاب “The Spirit of Islam”  میں کہنا ہے کہ

“Rationalism was thus fighting a losing battle of its old enemy, the writings of Imam al-Ghazālī, which were directed chiefly against the study of philosophy.”[8]

              سید امیر علی امام غزالی کو اسلامی تاریخ میں عقلیت کے زوال کا بڑا سبب سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے اسلامی روایت میں جدت پسندی کی جگہ رجعت پسندی نے لے لی  اور وہ اس کی وجہ امام صاحب کا فلسفہ کی تعلیم کے خلاف ہونا بتاتے ہیں۔اس کے علاوہ حسن حنفی بھی امام غزالی کو اسلامی تراث کی مخالف سمت میں کھڑا دیکھتا ہے اورامام صاحب کو اسلام میں عقلی روایت کو زیروزبر کرنے کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

اکیڈیمیا میں غزالی پر ہونے والی جدید تحقیات میں اہم ترین تحقیق [9]Ghazali and the Poetics of Imagination  پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی ہے ۔وہ خاص طور پر اسلامی محقیقین اور فاضلین میں پائی جانے والی اس طرح کی مضحکہ خیز مفروضیت کو   “scapegoat historiography” سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی دانشمندی اور الزام تراشی دراصل کاہل پسند روش اور مغلوب کھوکلی دانش کا شاخسانہ ہے۔

فکر کی سطح پر وسیع تر تناظر میں امام غزالی پر فلسفہ کے اثرات موجود ہیں۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام غزالی نے فلسفہ کو رد نہیں بلکہ جذب کیا ہے ۔ امام غزالی کی علمیات ، مابعد الطبیعات ،کونیات ،  اخلاقیات اور فلسفیانہ علم الکلام اس سےمزین ہے۔ ہم ان کا مختصرا جائزہ لیں گے۔

امام غزالی کا اپنا کام

سب سے پہلے تو امام غزالی کا اپنا علمی کام ، مثلا مقاصد الفلاسفہ ، تہافۃ الفلاسفہ، معیار العلم فی المنطق، المضنون بہ علی غیر اھلہ، القسطاس المستقیم، محک النظر فی المنطق، الاقتصاد فی الاعتقاد، فلسفہ سے ان کے  لگاؤ اور ان کے فلسفیانہ مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر فلسفہ سے اشتغال رکھتے تھے۔

 تنقید میں اصولی بات

اس کے بعد اصولی طور پر ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کسی شخص کے فلسفے پر تنقید بذات خود فلسفے پر تنقید نہیں ہوتی بلکہ اس شخص کے مخصوص فلسفہ پر تنقید ہوتی ہے۔جیسے سائنس کی کسی تھیوری پر تنقید سائنس پر تنقید شمار نہیں ہوتی۔ فلسفہ و سائنس میں نتائج پر ہی نہیں ، اصولوں پر تنقید بھی ایک عام سی بات ہے بلکہ تنقید دراصل فلسفہ و سائنس کی ترقی کی ضمانت  ہے۔ اس طرح کی تنقیدات تو خود فلسفی اور سائنسدان بھی دوسرے فلسفیوں اور سائنسدانوں پر کرتے ہیں۔ اب اگر ہم تہافت الفلاسفہ کو دیکھیں تو امام غزالی نے فلسفہ پر نہیں بلکہ مسلمان فلسفیوں کے کچھ الہیاتی نظریات پر تنقید کی ہے۔ اورمسلمان فلسفیوں کے ان نظریات پر تو خود  دوسرے مسلمان حکماء اور  فلسفیوں مثلا فخر الدین رازی اور ابو البرکات بغدادی نے بھی تنقیدات کی ہیں۔

تنقید کا دائرہ اور نوعیت

امام غزالی نے مسلمان فلاسفہ کے ان الہیاتی نتائج پر تنقید کی ہے جو اسلام کے بنیادی مقدمات سے متصادم ہو رہے تھے۔ امام صاحب کی تنقید کو عام طور overestimate   کیا گیا ہے ۔ تہافت فلسفے کی plain rejection   نہیں ہے۔ تہافت میں بیس مسائل پر امام صاحب نے کلام کیا ہے ان میں سے 16 کا تعلق الہیات اور چار کا تعلق طبیعات سے ہے۔  جن میں مرکزی طور پر تین مسائل کو ڈسکس کیا گیا ہے ۔

  1. کائنات کی ازلیت
  2. اللہ کو جزئیات کا علم حاصل ہے یا نہیں
  3. حشر اجساد

ان کا تعلق بنیادی طور پر الہیات سے ہے جن میں فلاسفہ کا موقف اسلام کی مبادیات سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ امام صاحب نے ان نتائج کی تردید کی ہے ۔ فلسفیانہ اصولوں کی تردید نہیں کی بلکہ انہی اصولوں کو استعمال کر کے فلاسفہ کا رد پیش کیا ہے اور اپنی فکر کی تعمیر میں بھی ان اصولوں کو نمایاں حیثیت دی ہے۔ تہافت الفلاسفہ کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام صاحب فلسفیانہ اصولوں پر تہیں بلکہ  بار بار ان اصولوں کے غلط استعمال کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فلاسفہ کی عدم صلاحیت پر تنیقید کرتے ہیں کہ وہ ان کو صحیح طرح استعمال نہیں کر پائے ان کے فلسفیانہ عجز اور عدم صلاحیت کو نمایاں کرتے ہیں ۔ تہافت الفلاسفہ میں مذکور مسائل کی فہرست کو دیکھیں تو کئی مباحث کےعنوان سے ہی اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ان عنوانات کی فہرست درج ذیل ہے۔

فی تعجیزھم عن اثبات الصانع

فی تعجیزھم عن اقامۃ الدلیل علی استحالۃ الٰہین

فی تعجیزھم عن بیان ان الاول لیس بجسم

فی تعجیزھم عن القول بان الاول یعلم غیرہ

فی تعجیزھم عن القول بانہ یعلم ذاتہ [10]

امام صاحب کی تنقید کی ایک بڑی وجہ فلاسفہ کا رویہ بھی تھا  جوکہ نخوت ، خود ستائی ، اور ادعائیت پر مبنی تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم غلط ہو ہی نہیں سکتے اور ہمارے نظریہ کے علاوہ کسی اور نظریہ کی صحت کا امکان بھی موجود نہیں ہے۔ہمارا نظریہ لزوم کی حیثیت میں واجب الوجود ہے۔ صرف ایک ہی بات ٹھیک ہے اور وہ ہماری ہے۔

 فلسفہ و سائنس میں معروضی پوزیشن

مقاصد الفلاسفہ  کے مقدمہ میں امام صاحب نے سائنس اور فلسفہ کے متعلق اپنی رائے کو بہت واضح انداز میں (categorically) معروضی طور پر بیان کیا ہے۔

“اعرفک اولا ان علومھم اربعۃ اقسام، الریاضیات والالھیات والمنطقیات والطبیعات۔ (اما الریاضیات) فھی نظر فی الحساب والھندسہ و لیس فی مقتضیات الھندسہ والحساب ما یخالف العقل ولا ھی مما یمکن ان یقابل بانکار و جحد واذا کان کذلک  فلا غرض لنا فی اشتغال بایرادہ (واما الالھیات)  فاکثر عقائدھم فیھا علی خلاف الحق والصواب نادر فیھا۔ (واما المنطقیات) فاکثر علی منھج الصواب والخطٰا نادر فیھا  فیخالفون اھل الحق فیھا بالاصطلاحات والایرادات دون المعانی والمقاصد اذ غرضھا تہذیب طریق الاستدلالات۔ واما الطبیعات فالحق فیھا مشوب بالباطل”[11]

یہاں امام غزالی نے مسلم فلاسفہ کے علوم کو چار اقسام میں بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی حیثیت کو متعین کیا ہے سب سے پہلے ریاضیات کے متعلق کہا ہے کہ حساب اور ہندسہ کے مقولات میں سے کوئی بھی عقل کے بر خلاف نہیں (لہذا اس کے انکار کا تو سوال ہی نہیں جس کو بنیاد بنا کر جدید سائنس دان کہہ رہے تھے کہ ریاضی امام صاحب کے نزدیک شیطانی کام ہے) اور پھر الہیات کے متعلق کہا ہے کہ فلاسفہ کے اکثر عقائد غلط ہیں اور ان میں صحت کا امکان کم ہے(لیکن بحرحال صحت کا امکان یہاں بھی تسلیم کرتے ہیں ) اور پھر منطق کے متعلق کہا ہے کہ ان میں سے اکثر صحیح ہے اور کہیں کہیں خطا کا امکان ہے اھل حق کا اس میں اختلاف لفظی یا اصطلاحات کا ہے اور آخر میں طبیعات کے متعلق کہا ہے کہ اس میں حق اور باطل آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

علمیات اور غزالی

علمیات  فلسفہ کی معروف شاخ ہے۔ جدید دور میں فلسفیوں کا ارتکاز مابعد الطبیعات سے زیادہ علمیات پر رہا ہے۔ امام صاحب کی فکر میں بھی علمیات بہت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ علم کا حصول کیونکر ممکن ہے؟ اور ان  کی حد بندی کیا ہے ۔یقین کا علم کیسے حاصل ہو سکتا ہے ۔ علوم کی قسم بندی اور تشکیل اسلامی فلسفہ میں اہم مبحث ہے جس پر فارابی اور ابن سینا کے باقاعدہ رسائل اور مباحث موجود ہیں۔ احیا علوم الدین میں علم کی تقسیم اور مبحث پر فارابی کی احصا العلوم کا اثر بہت واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے درمیان مماثلت  سے اس بات کا نادازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام غزالی پر فلسفیانہ علمیات کس قدر اثرانداز ہوئی ہے۔ امام غزالی  نے علمیات میں (جو کہ فلسفہ کا بنیادی موضوع ہے ) فلسفہ سے کما حقہ استفادہ کیا اور علم کے ذرائع اور مقاصد بیان کیے اور حدود علم کو بھی موضوع بحث بنایا جس میں عقل اور نقل میں تطبیق کے ساتھ ساتھ ان کے مقام کو بھی طے کیا اور بعنیہ فلسفیانہ قسم بندی کو جذب کیا۔  علوم کی تقسیم میں امام صاحب نے  ابن سینا اور فارابی جیسے فلسفیوں سے استفادہ کیا۔

اخلاقیات اور غزالی

امام  غزالی نے اخلاقیات ، جو کہ فلسفہ ہی کی ایک شاخ ہے،  میں  یونانی فلسفہ اخلاق سے کماحقہ استفادہ کیا ہے۔ احیا  علوم الدین میں فلسفہ اخلاق کے جو اصول بیان ہوئے ہیں وہ بعینہ یونانی فلاسفہ کے بیان کردہ ہیں۔خلق کی ماہیت اور اس کی اقسام اس کی ترتیب وہی ہے جو مسلمان فلسفی ابن مسکویہ (جو کہ یونانی فلسفہ اخلاق سے بہت متاثر تھا)  نے  اپنی کتاب” تہذیب الاخلاق ” میں بیان کی ہے اور یہ کتاب یونانی فلسفہ اخلاق کا خلاصہ مانی جاتی ہے۔ اس کتاب اور امام صاحب کے فلسفہ اخلاق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو امام صاحب پر سرقہ کی بدگمانی ہونے لگتی ہے۔بہرحال امام غزالی  نے اسے جس عمومی اور پر تاثیر انداز میں بیان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔اور اس پر مستزاد امام صاحب نے اسلامی اقدار کو یونانی اخلاقی اصولوں میں ڈھال کر دکھایا ہے۔

فلسفیانہ الہیات اور غزالی

امام غزالی نے الہیات پر کلام بھی کیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان گنت مقامات پر اس کو انٹرنلائز بھی  کیا ہے ۔امام غزالی عقلی علم اکلام کے بانیوں میں سے ہیں ابن خلدون نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ امام صاحب علم اکلام کے بانی ہیں جبکہ اگر خالص علم الکلام کو دیکھا جائے تویہ بات مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ امام نے علم اکلام کو ایک نئی جہت عطا کی جس میں عقل و فلسفہ کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔جسے ہم فلسفیانہ علم الکلام کہہ سکتے ہیں۔ امام غزالی فلسفیانہ علم اکلام کے موسس ہیں جسے بعد میں فخر الدین رازی،امام طوسی،  شریف جرجانی، عضد الدین ایجی، جیسے فلسفیانہ مزاج رکھنے والی شخصیات نے جاری رکھا۔

مذہب کا فکری پہلو

امام غزالی اسلامی روایت میں  باقاعدہ منظم انداز میں فکر دینے والی پہلی شخصیت تھی ان سے پہلے اسلام کو قانونی ڈھانچہ میں دیکھا جاتا تھا یا کلامی مباحث کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا یا لٹرالسٹ (اہل ظاہر اور اہل حدیث ) نکتہ نظر سے بیان کیا جاتا تھا ۔اسلام کو مربوط نظام فکر میں ڈھالنے والی ہستی امام ہی کی ہے۔ اور اس منضبط انداز اور جامعیت کے پیچھے امام کی فلسفیانہ سوچ اور منطقیانہ طبیعت تھی۔امام کے تصورات میں ندرت، تخلیقیت اور موزونیت ان کے فلسفیانہ تخیل کی شھادت ہے ۔ فلسفہ اور مذہب میں کمال باریک بینی اور ہم آہنگی جو احتیاط کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دے۔

امام غزالی اور عقلی کونیات

امام  غزالی کی سائنس (طبیعات) کے متعلق اصولی رائے تو وہی ہے جو مقاصد کے مقدمے میں بیان کی گئی ہے کہ یہ ربط و یابس کا مجموعہ ہے اس میں صحیح اور غلط آپس میں  Mixed up ملے ہوئے ہیں ۔ جنہیں تجزیہ و تحقیق کے بعد الگ کیا جائے گا۔  ۔جیسا کہ اوپر بھی بیان ہوا کہ معروف تاثر ہے امام غزالی سائنس کے خلاف تھے اور انہون نے سائنس اور جدید طبیعات پر سخت تنقید کی اور امام کے بعد سے مسلمانوں میں سائنس کی ترقی رک گئی اور مسلمان زوال کے شکار ہونا شروع ہوگئے۔ یہ بات کہ مابعد غزالی اسلامی دنیا میں سائنس بالکل ہی ختم ہو گئی تھی یہ تو محض صحافیانہ بیان ہے ۔ تاریخ اس بات کی تائید نہیں کرتی ہمارے پاس ایک لمبی فہرست ہے مسلم سائنسدانوں اور فلسفیوں کی جو امام غزالی کے بعد کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام نے جس علم اکلام کی بنیاد رکھی وہ ماڈرن سائنسس سے ہم آہنگی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

المنقذ من الضلال میں امام غزالی ان لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جو کہ فلسفیوں کے صداقت پر مبنی سائنسی بیانات یا منطقی مقولات کو بھی محض اس وجہ سےرد کرتے ہیں کہ انکے کچھ فلسفیانہ الہیاتی نتائج مذھب سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کونیات میں کائنات کی تخلیق کے متعلق امام صاحب کی رائے علامہ شبلی نے اپنی کتاب الغزالی میں جو بیان کی ہے وہ نہایت عقلی ہے  کہ اس کائنات کی تخلیق میں جتنا ربط ، ضبط ، نظم ، آہنگ اور ترتیب ممکن ہو سکتی تھی اللہ  نے اتنا ربط اور ترتیب اس میں رکھی ہے۔

کونیات سے متعلق امام صاحب کی رائے مختلف محقیقین مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کونیاتی مسائل میں اہم ترین مسئلہ اصول تعلیل کا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بحث تہافت الفلافسفہ  کے 17 مبحث میں ہوئی ہے لیکن اس کے علاوہ احیا اور دوسرے مقامات پر بھی امام صاحب نے اسے بیان کیا ہے۔ مختلف مقامات پر امام صاحب نے مختلف پہلؤوں پر زور دیا ہے۔ روایتی علماء امام صاحب کو اس معاملہ میں اشعریوں کی رائے ہی سے منسلک کرتے ہیں۔ جو کہ اووکیینالزم موقعیت کے عنوان سے معروف ہے ۔ موقعیت کے مطابق علت کا معلول کے ساتھ تعلق بہ کا نہیں بلکہ عندہ کا ہے یعنی معلول علت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ علت کے وقت یا علت کے قریب ہوتا ہے یعنی دو مختلف واقعات تقدیم اور تاخیر کے ساتھ معرض وجود میں آتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی ربط نہیں ہوتا ۔ ان مختلف واقعات  کے وجود میں آنے کا واحد سبب ہستی خداوندی ہے وہ ہر آن اور ہر موقع پر خود مداخلت کر کے اشیاء کی تخلیق کرتا ہے۔

جدید محقیقین بھی اس بارے میں منقسم ہیں مشل مارمرا کا کہنا ہے کہ امام صاحب کی پوزیشن اشعری ہی ہے کہیں کہیں انہوں نے فلاسفہ کی لفظیات Naturalistic vocabulary   استعمال کی ہے تو وہ بھی اشعری مفہوم ہی میں استعمال کی ہیں اور اسی طرح رچرڈ فرینک کا کہنا ہے کہ امام صاحب کی پوزیشن دراصل فلاسفہ والی نیچرلسٹک ہی ہے لیکن اس کا بیان اشعری ہے تاکہ عام لوگ اسے سمجھ سکیں ۔ ان کے علاوہ ایک معتدل پوزیشن ہے جسے پروفیسر فرینک گرفل نے پیش کیا ہے کہ امام صاحب کسی ایک  extreme انتہا پر نہیں بلکہ درمیانی رائے رکھتے ہیں جو کہ ماڈرن سائنس کے لیے بھی سپیس پیدا کرتی ہے اور مذھب کے لیے بھی۔ان کا کہنا ہے کہ نہ وہ اشعری ہیں اور نہ ہی لزومیت پسند نیچرلسٹ بلکہ ان کی رائے ان دونوں سے مختلف ہے وہ یہ کہ علت و معلول میں رشتہ ہے لیکن لزوم کا نہیں ہے۔ تہافت الفلاسفہ کی سترویں مبحث میں امام غزالی نے واضح طور پر کہا ہے کہ ” جسے عام طور پر علت سمجھا جاتا ہے اس کے اور جسے معلول سمجھا جاتا ہے اس کے درمیان تعلق ہمارے نزدیک لزوم کا نہیں ہے ” امام غزالی دراصل اس فطری لزومیت کا انکار کرتے ہیں جو خود اپنی خالق ہے۔ وہ علت کے وجود کے فی نفسہ منکر نہیں ہیں بلکہ اس کے لزوم کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات ایک  بندھن میں بندھی ہوئی ہے اوراس میں علت و معلول کاجو  قانون کارفرما ہےوہ لازمی نہیں ہے۔ اس قانون اور  اس فطرت کا خالق اللہ تعالی ہے۔اس کی تخلیق خدا نے کی ہے اور اس طرح یہ تصور جدید علم الکلام کے تارو پود میں اہم دھاگے کاکردار ادا کر سکتا ہے۔

غزالی پر فلسفیوں اور فلسفیوں پر غزالی کے اثرات

امام غزالی اور فلسفہ کے مابین تعلق کا تخمینہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امام غزالی کی فکر پر فلسفیوں اور فلسفیوں کی فکر پر امام غزالی کے کیا اثرات ہیں۔ جارج مقدسی کا کہنا ہے کہ امام غزالی کو فلسفیانہ روایت سے مکمل طور پر الگ یا مبرا قرار دینا مشکل ہے بلکہ کسی نہ کسی طرح وہ بھی فلسفیانہ فکر کے تسلسل ہی کی ایک کڑی ہے

He was not entirely unaffected by the heresy of the falāsifa.[12]

روایتی علماء نے امام غزالی پر اس وجہ سے باقاعدہ تنقید کی ہے کہ یہ منطق و فلسفہ کی اسلام میں آمیزش کر رہے ہیں اور انہوں نے فقہ کے اصولوں پر مبنی اپنی کتاب المصتصفی  میں منطق کا استعمال کیا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے الرد علی المنطقیین میں اس پر کلام کیا ہے اور اسی طرح امام ابن الصلاح جو کہ عظیم عالم اور محدث بلکہ اصولیین میں سے ہیں ان کا کہنا ہے کہ

اما المنطق مدخل الفلسفہ ومدخل الشر شر

امام غزالی کی فکر کی ایک  بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص فرقہ، مسلک یا فقہ سے ماورا ہے اسی وجہ سے امام کی  فکر ان حدود سے باہر اثرانداز ہوئی ہے شیعہ و سنی ہر دو میں سے جہاں دوسری طبیعتوں کے لوگ امام سے متاثر ہوئے وہیں فلسفیانہ مزاج کے لوگ امام کے گن گاتے نظر اتے ہی اسی طرح غیر مسلموں پر بھی امام کے  فلسفیانہ  افکار اثر انداز ہوئے ہیں۔ مقاصد الفلاسفہ کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا تو مقاصد الفلاسفہ لاطینی مغرب میں مشائی اور ارسطاطالیسی فلسفہ کی ٹکیسٹ بک کی حیثیت سے پڑھی جاتی رہی ہے۔ وہاں فلسفہ کے دفاع میں لوگ اس کتاب کا حوالہ دیتے رہے ہیں اور اس طرح یہ یقین کرتے رہے ہیں کہ فلسفہ دین کا محافظ ہے۔ مسلمان اور غیر مسلم فلسفیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو امام غزالی کی فلسفیانہ فکر سے متاثر ہوئے۔

مشہور فلسفی لائبنیز کا فلسفی شاگرد رامون لل جو لاطینی زبان میں ریمنڈ س للس کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے غزالی اور اس کی فلسفیانہ فکر سے متاثر ہو کر عیسائی علم اکلام میں فلسفیانہ الہیات کا ایک نظام تخلیق کیا اورامام غزالی کی لوجک پر بھی کام کیا ہے اور اسی طرح  Contemplation  کے  ذریعہ صداقت کے حصول پر بھی گائڈ لکھی جس میں امام غزالی کی طرح تصوف میں عقلانی جہت پر زور دیا۔

اسی طرح جدید فلسفہ مغرب کے بانی رینے دیکارٹ[13] اور امام غزالی کے طریقہ تشکیک میں ظاہری مشابتیں موجود ہیں اگرچہ امام غزالی کی تشکیک فطری اور رینے ڈیکارٹ کی تشکیک خود ساختہ تھی۔ امام غزالی اور جدید فلسفی ڈیوڈ ہیوم کے مابین محرکات اور نتائج کے اختلاف کے باوجود اصول تعلیل کی معروضیت پر تنقید اور اس کے منطقی لزوم کی تردید میں مماثلت موجود ہے۔ میکڈولنڈ جیسا مستشرق جو اسلام کو غیر معقول اور بے جان روایت سمجھتا ہے اس کا کہنا ہے کہ اسلام کو تاریخ میں اگر کسی نے بچایا ہے تو وہ ایک شخص ہے ابو حامد محمد الغزالی۔اسلامی علم الکلام جو غیر عقلی بنیادوں پر کھڑا تھا غزالی نے اس کو صحیح جگہ پر کھڑا کیا اور اس کی نوک پلک سنواری۔

اسی طرح  اسلامی فلسفیانہ روایت میں ملا صدرا ایک بڑا نام ہے ۔امام غزالی نے معاد پر جو فلسفیانہ بحث کی ہے ملا صدرا اس سے متاثر ہوئے اور اس ضمن میں اپنی شہرہ آفاق کتاب اسفار میں امام غزالی کا نام لیکر ان کی تعریف کرتے ہیں  ایسے ہی  ملا صدرا  کےفلسفی  شاگرد ابن مرتضی فیض  الکاشانی  نے احیا علوم الدین کے پیٹرن کو اپنایا اور شیعہ تصورات کے مطابق اس میں ترمیم کر کے آٹھ جلدوں پر مشتمل “المحجة البيضاء في تهذيب الإحياء ” لکھی اور وہ آج بھی شیعہ مکتب میں  ایک مستند حوالہ ہے۔

امام غزالی مشکوٰ ۃ الانوار میں آیات نور کی نو افلاطونی اسلوب میں بعنیہ وہی فلسفیانہ  تشریح کرتے ہیں جو کہ ابن سینا نے اشارات میں کی ہے ۔  اسی طرح امام صاحب روح کی حقیقت و ماہیت اور  روح کے جوہر ہونے کے متعلق وہی دلائل دیتے ہیں جو ابن سینا نےفلسفیانہ انداز میں  کتاب الشفاؑ میں اور اشارات میں دیے ہیں۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ مقاصد الفلاسفہ ابن سینا کی فارسی کتاب دانشنامہ علائی کا  بعنیہ عکس اور تعمیرنو ہے۔ یہ فلسفہ ہی تھا جس نے امام غزالی کے طریقہ استدلال اور اسلوب بیان کو نکھارا اور امام غزالی نے بتایا کہ کس طرح منطقی قوانین اور مقولات فقہی مسائل کی تفہیم میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اور انہوں نے بالکل syllogistically  ہمارے سامنے peripatetic fashion   میں اپنی فکر کو پیش کیا۔

اختتامیہ

امام غزالی کی شخصیت مذہب ، فلسفہ اور سائنس کے تناظر میں مختلف حیثیتوں سے زیر بحث رہی ہے بلکہ آج بھی اس کے نئے نئے پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک طرف امام صاحب کی پر پیچ شخصیت ہے اور دوسری طرف امام صاحب کی ہمہ جہتی ہے۔  جدید مطالعوں نے امام غزالی کو فلسفہ و سائنس کا دشمن باور کروایا ہے۔  استشراقی دانش کے ساتھ ساتھ جدید اسلامی اسکالرز نے بھی امام غزالی کا مطالعہ تنویریت کے منہج تحقیق پر ہی کیا جس کی وجہ سے وہ بھی یکساں نتائج پر پہینچے کہ امام غزالی اسلامی تہذیب میں فلسفہ و سائنس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اورانہی کی اقتداء میں  ہمارے روایت پرست علماء بھی اب امام غزالی کو فاتح فلسفہ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عقلی علوم اور فلسفہ کا اس طرح رد کیا کہ اسے جڑ سے اکھاڑ دیا  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام غزالی نے فلسفہ کا رد نہیں کیا بلکہ اس کو جذب کیا ہے ۔ ہم نے اپنے اس مقالہ میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ انضمام فلسفہ فکر غزالی کا نمایاں عنصر ہے۔ رد فلسفہ امام غزالی کی پہچان بن چکا ہے جبکہ جذب فلسفہ ان کی عظمت فکر کا نشان ہے۔امام صاحب کو عقلیت کا دشمن سمجھا جاتا ہے جبکہ امام غزالی نے عقل کو اس کاصحیح  مقام دیا۔ امام غزالی نے تہافت الفلاسفہ میں جو تنقید کی ہے اس مقالہ میں اس تنقید کی نوعیت اور دائرہ کار طے کیا گیا ہے ۔ امام صاحب کی تنقید کا اصل ہدف مسلمان فلسفیوں کے  وہ الہیاتی  نتائج تھے جو اسلام کے بنیادی مقدمات سے متصادم تھے۔امام غزالی نے منطقی اصولوں پر نہیں بلکہ ان کے غلط استعمال اور فلسفیوں کی عدم صلاحیت  پر تنقید کی ہے۔ اس کے ساتھ مقاصد الفلاسفہ میں امام غزالی نے فلسفہ و سائنس کے متعلق جو اپنی معروضی پوزیشن بیان کی ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انہیں ریاضی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور منطق میں ان کے نزدیک اختلاف دراصل اصطلاحات کا ہے ۔ طبیعات میں حق و باطل ملا ہوا ہے اس میں غورو فکر کرنا ہو گا ھاں الٰہیات میں اکثرباطل ہے لیکن اس میں بھی صحت کا امکان وہ تسلیم کرتے ہیں۔ امام غزالی علم الکلام  میں فلسفہ کی حیات کے ضامن ہیں۔ اس مقالہ میں امام غزالی اور فلسفہ کے مابین تعلق کی نوعیت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح امام صاحب کے مجموعی فکر پر فلسفہ اثر انداز رہا ہے۔ ان کی علمیات، اخلاقیات، الٰہیات اور اصول فقہ پر فلسفہ کے اثرات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امام غزالی پر فلسفیوں اور فلسفیوں پر امام غزالی کے اثرات کو بھی مثالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ کو نیات میں بھی امام غزالی کی پوزیشن خالص عقلی ہے مثال کے طور پریہ کہ اس کائنات میں حتٰی الامکان ربط و ضبط اور نظم ہے۔ اور اسی طرح علت و معلول میں امام غزالی کی پوزیشن  بھی معقول ہے اور امام غزالی کی اصل پوزیشن کیا ہے؟ اس میں مفکرین کا اختلاف ہے۔ روایتی علماء یہ سمجھتے ہیں کہ امام صاحب کا موقف وہی اشعری موقف ہے جسے موقعیت (Occasionalism) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کچھ جدید مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ امام غزالی کا موقف نیچرلسٹس فلسفیوں والا ہے جسے لزومیت پسندی (Necessitarianism)  سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن پرفیسر گرفل کی جدید تحقیق کے مطابق امام غزالی کی پوزیشن ان کے دونوں کے مابین ہے وہ یہ کہ علت و معلول کا روشتہ ہے لیکن لزوم کا نہیں ان دونوں واقعات کے درمیان جو ربط ہے جو  قانون کار فرما ہے وہ آزاد نہیں ہے بلکہ وہ قانون اور فطرت اللہ کے حکم کا پابند ہے ۔ یہ نظریہ جدید دور میں مذہب اور سائنس دونوں کے لیے مفید ہے۔ اس طرح امام غزالی کا نظریہ کونیات جدید دور میں طبیعات اور مابعد الطبیعات دونوں میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے اور آخر میں بس یہ کہ فلسفہ کا امام غزالی نے کلی رد نہیں کیا بلکہ ان الٰہیاتی نتائج پر تنقید کی جو اسلام کی مبادیات سے ٹکڑا رہے تھے۔ اس کے برعسکس امام غزالی نے مجموعی طور پر فلسفہ کو جذب کیا اور منطقی قوانین کو اصول فقہ، اخلاقیات ، اور کلامی مسائل میں برت کر نیا فلسفیانہ علم االکلام تخلیق کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔

 

[1] https://www.youtube.com/watch?v=SNdFMTDCfy8

[2] https://www.youtube.com/watch?v=Fl1nJC3lvFs

[3] Pervez Hoodbhoy, Islam and Science Religious Orthodoxy and The Battle for Rationality, Zed Books Ltd ( London and New Jersey, 1991), P,104.

[4] https://www.youtube.com/watch?v=MIds81TTNj0

[5] https://www.thenewatlantis.com/publications/why-the-arabic-world-turned-away-from-science

[6] https://www.youtube.com/watch?v=MIds81TTNj0

[7]  M. A. Al-Jabri, Arab-Islamic Philosophy: A Contemporary Critique (Austin, TX: University of Texan Press, 1999), p. 124.

[8] Sayed Ameer Ali, The Spirit of Islam or The life and Teaching of Muhammad, S.K.LAHIRI and Co, (54 collage  street, 1902), p. 411.

[9]https://books.google.com.pk/books/about/Ghazali_and_the_Poetics_of_Imagination.html?id=sH5AoW4hNSoC&printsec=frontcover&source=kp_read_button&redir_esc=y#v=onepage&q&f=false

[10] The Incoherence of the Philosophers, Al-Ghazali, A parallel English-Arabic text translated, introduced and annotated by Michael E. Marmura, (Brigham Young University Press, Provo Utah, 2000), p10.

[11] ، مقاصد الفلاسفۃ لحجۃ السلام الغزالیMuhyi al-Din Sabri al-Kurdi  (Misr: al-Matba‘ah al-Mahmudiyah al-Tijariyah bi-al-Azhar, [Cairo]1936.),P 2.3.

[12] George MAKDASI, The non-ash’ariteshafi’ism of Abu Hamid al-Ghazzali,  French journal, EXTRAT DE LA REVUE DES ETUDES ISLAMIQUES, LIBR. ORIENTALISTE PAUL GEUTHNER, ,( TOME LIV,1986), p, 252.

[13] رینے ڈیکارٹ (1596-1650) فرانسیسی فلسفی اور ریاضی دان ہیں ان کو جدید فلسفہ کا باوا آدام مانا جاتا ہے۔ اس نے تشکیک کی راہ سے تیقن کی منزل حاصل کی اور وہ اپنے اسی تشکیکی منہج میں امام غزالی سے مشابہ ہے۔

محمد عثمان رمضان

محمد عثمان رمضان، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ میں استاذ اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبہ اسلامی فکر وثقافت میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔
usmanramzan13@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں