میاں انعام الرحمن
غالباً 2005 کے سرما کی بات ہے کہ ابو جی رحمہ اللہ (م2006) آتے جاتے گزرتے بیڈ روم تک آتے ، موجودگی کا احساس ہونے پر جوں ہی ذرا سا متوجہ ہوتا، مطالعے میں غرق دیکھ کر کچھ کہے بغیر اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ایسا کچھ دن جاری رہا۔ جی ہاں! اپنی نوع کی ایک منفرد سی طلسماتی کتاب نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ پھر بیگم بھی تو چھٹیاں گزارنے بچوں سمیت میکے گئی ہوئی تھیں، اس لیے مطالعاتی انہماک میں کسی قسم کے رخنے کا اندیشہ نہیں تھا۔ بعد میں خیال بھی آیا تو اسے ابو جی کی معمول کی حساسیت پر محمول کیا کہ وہ ہر کسی کا بہت ہی زیادہ خیال رکھنے والے تھے چہ جائے کہ سب سے چھوٹا بیٹا ہو۔ آخر ایک دن دورانِ مطالعہ ہی میں تشریف لائے اور فرمانے لگے: ” منڈیا، بچیاں نوں کدوں لیئنا” (بیٹا! بچوں کو کب لے کر آؤ گے)۔ الفاظ و لہجے سے زیادہ ان کے چہرے پر بے قراری تھی، جسے میں تب پوری طرح نہیں بھانپ پایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے بڑے اطمینان سے جواب دیا، اگلے مہینے کی آٹھ دس تاریخ کو لے آؤں گا(جب کہ رواں ماہ کی غالباً بیس بائیس ہوئی تھی)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔اب حیاتِ مستعار کی گولڈن جوبلی (5جون 2020)منا کر ان کلمات و تاثرات کی ملاطفت اور ان میں پنہاں بے قراری کی نوعیت کو کچھ کچھ سمجھنے کے قابل ضرور ہوا ہوں۔
وہ کتاب جس کا ذکر چل نکلا ہے ایک غیر مسلم کی لکھی ہے۔ فقاہت تو اس میں خیر ہے ہی، علمی دیانت بھی جگمگا رہی ہے۔ہر لکھنے والے کے سامنے جو بنیادی چیلنجز ہوتے ہیں ان میں دو بہت نمایاں ہیں جنہیں نبھانے والا موضوع سے واقعتاً انصاف کر پاتا ہے۔ وہ دو یہی ہیں 1ـ فقاہت (متعلقہ موضوع پر عبور) اور 2ـ علمی دیانت(موضوع پر عبور کو خود ساختہ شخصی تعصبات سے بچائے رکھنا)۔ یہ سچ ہے کہ پروفیسر توشی ہیکو از تسو نے “دینی اخلاقیات کے قرآنی مفاہیم” میں بشری استطاعت کی حد تک ، فقاہت و دیانت کے دودھاروں کےدرمیان تحقیق کا شاندار سفر طے کیاہے۔
آج سے تقریباً پندرہ برس قبل جب یہ کتاب زیرِ مطالعہ تھی تو اس کے سوا ، کچی پنسل تھی شاپنر تھا اور ہائی لائٹنر۔ یاد نہیں کہ 496 صفحات کی یہ پُرشکوہ علمی کتاب کتنے عرصے میں ختم کی۔ کم از کم دو ہفتے تو لگے ہوں گے۔ کیوں کہ محض سطور نہیں، بین السطور بھی تو پڑھنا ہوتا ہے(جس سے اکثر لوگ بھلے گریز کرتے ہوں)۔ اس کتاب کے موضوع کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ چند قرآنی الفاظ (اصطلاحات) کا مسلم علمی روایت کی روشنی میں لسانیاتی مطالعہ ہے۔ اس لیے اس میں غلام احمد پرویز کے سے انداز میں “اہلِ قرآن” ہونے کی تعلی نہیں پائی جاتی۔پروفیسر توشی ہیکو ، علم دوستی اور انصاف پسندی کی وجہ سے “زبان و ثقافت” کے باہمی گہرے ربط سے کس قدر باخبر ہیں، صفحہ نمبر 30 کا حوالہ دیکھیے:
“جب ہم کوئی عبارت اصل زبان میں بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں تو قطعاً لاشعوری طور پر ہم اس عبارت میں اپنے ہی تصورات پڑھنے لگتے ہیں جو ہماری مادری زبان نے ہمارے ذہن پر نقش کیے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس عبارت کے اگر سارے نہیں تو بہت سے کلیدی الفاظ کے مفہوم کو اپنی مادری زبان میں دستیاب ملتے جلتے تصورات میں تبدیل کر کے سمجھ رہے ہوتے ہیں”۔
جاہلی عرب کیا تھا اس کا اخلاقی نظام تھا تو کس قسم کا تھا، پھر اسلام کے ظہور کے بعد اس جاہلیہ لسانی و ثقافتی ڈھانچے کی تہذیب و تطہیر ہوئی تو کس نہج پر ہوئی وغیرہ وغیرہ ، پروفیسر توشی ہیکو مستند تاریخی ماخذوں کی مدد سے استدلالی و تجزیاتی رنگوں کی قوسِ قزح بکھیر دیتے ہیں جو نہایت دلکش اور جاذبِ نظر ہے۔پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ:
“زمانہ جاہلیت کے عرب در حقیقت ایک بہت مضبوط اخلاقی حس کے مالک تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ان اخلاقی خصائص کی بنیاد پر حقیقی بحران کے وقت کسی فرد کے ذاتی افعال کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں تھا، خصوصاً اس صورت میں جہاں قبیلہ کے مفادات کو خطرہ ہو۔ مثلاً صحرا کا معروف اصول تھا کہ اپنے بھائی (ہم قبیلہ) کی ہر صورت مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ جاہلی عرب کا اگر کوئی استدلال تھا تو صرف یہ کہ ایک چیز اچھی یا جائز اس لیے ہے کہ ہمارے آبا و اجداد ایسا ہی کرتے آئےہیں(ص 97۔ 98)”
ذرا غور کیجیے کہ آج کل ظالم و مظلوم کی بحث سے قطع نظر، جاہلی قبائلی طرز پر سیاسی و جماعتی وابستگی اختیار کی جاتی ہے کہ نہیں ، اور وقت آنے پر اپنے اپنے مسلک کی ڈفلی بھی بجائی جاتی ہے۔ حالاں کہ ظالم کی حمایت کو اسلام نے اسے ظلم سے روکنے سے مشروط قرار دیا ہے۔
صفحہ نمبر 163، 164 پر توشی ہیکو کہتے ہیں کہ:
“زمانہ جاہلیت کی شاعری کے عمومی جائزے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس زمانے کے جنگجو اپنے بے قابو جذبے کی تسکین کے لیے جنگوں میں بے جگری سے لڑتےاور نڈر بہادری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس زمانے میں بہادری ایک ناقابلِ ضبط جذبہ تھا۔ اسلام نے اس میں ایک مخصوص تبدیلی کی، تاہم اس کی اصل قوت میں ذرا سی بھی کمی نہیں کی۔ اب بہادری ایک اندھا اور بے قابو جذبہ نہیں تھا بلکہ ایک محترم اور منضبط شجاعت کا نام تھا جس کا مقصد ِاعلیٰ مذہبِ حق کی خدمت تھی”
یاد کیجیے کہ کسی غزوہ میں کوئی شخص انتہائی بہادری دلیری کا مظاہرہ کر رہا تھا، کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا(جس کا مفہوم یہ ہے کہ) یہ حرام موت مرے گا۔ پھر وہی ہوا ، اس شخص نے لڑتے ہوئے بے جگری سے خود کشی کر لی۔
تفصیل کا موقع نہیں کہ اس کے لیے کئی صفحات درکار ہیں اور قارئینِ کرام کا بہت سا قیمتی وقت بھی۔ بس اتنی سی گزارش ہے کہ قرآن مجید پر غور و فکر کرنے والے احباب اس کتاب کا سنجیدگی سے دیانت دارانہ مطالعہ کریں تو یہ انہیں روشنی دکھائے گی۔ غیر مسلم کی لکھی ہے تو کیا ہوا، قرآن مجید ذکر للعالمین ہے، ذکر للمسلمین نہیں۔ اب جھوٹ تکبر طمع حرص لالچ تعصب بدیانتی ذخیرہ اندوزی بے حیائی وغیرہ جس حد تک ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، اس پر ہمیں بہت فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم عہدِ جاہلیت سے بھی بدتر اخلاقی سطح پر گزر بسر تو نہیں کر رہے؟ یہ انتہائی تشویش ناک صورتِ حال تقاضا کر رہی ہے کہ “دینی اخلاقیات کے قرآنی مفاہیم” جیسے مطالعات سمجھے سمجھائے جائیں رواج دیے جائیں۔
نا سپاسی ہو گی اگر ڈاکٹر محمد خالد مسعود کا ذکر نہ کیا جائے جنہوں نے اس انتہائی اہم علمی کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالا ۔
کمنت کیجے