Home » قوموں کی شکست وزوال کے اسباب کا مطالعہ
اردو کتب تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات

قوموں کی شکست وزوال کے اسباب کا مطالعہ

 

میاں انعام الرحمن

پچھلی صدی کے آخری عشرے کی بات ہے جب ایف سی کالج لاہور میں ایم اے سیاسیات کے لیے داخلہ لیا۔ دو سال پوسٹ گریجویٹ ہوسٹل میں قیام رہا جو کالج بلڈنگ کے بجائے نیلا گنبد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے بالکل قریب واقع ہے۔ رات کے کھانے کے بعد اکثر اوقات دوستوں کے ساتھ اور کبھی تنِ تنہا واک کے لیے باہرجانا ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ پانچ سات منٹ کی مسافت پر پرانی و نئی انار کلی ناصر باغ اور مال روڈ جیسے پُررونق علاقے تھے۔ پاک ٹی ہاوس بھی وہیں تھا۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب پارٹ ون کے امتحانات جاری تھے کہ میں رات کے کھانے کے بعد نصابی کتابوں سے جان چھڑا کر ہلکی پھلکی راحت بخش سردی میں مال روڈ پر نکل کھڑا ہوا۔ گھومتے گھماتے کتابوں کی مشہور دوکان فیروز سنز دکھائی دی تو بے اختیار اس کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔ ان دنوں یہ دوکان تقریباً تمام موضوعات کی اہم کتب سے سجی ہوتی تھی اور لوگوں کی آمد ورفت بھی قابلِ رشک اور دیدنی تھی۔ مختلف کتابیں دیکھتے صفحات پلٹتے ایک کتاب بھا گئی ، کچھ اس لیے بھی کہ جیب اسے خریدنے کی اجازت دے رہی تھی۔ نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹر آغا افتخار حسین کون ہیں، مجلس ترقی ادب بھی کوئی ادارہ ہے۔ اب مجلس کو تو جانتا ہوں لیکن ڈاکٹر صاحب مرحوم سے تعارف ابھی تک ان کی انتہائی وقیع شاندار کتاب “قوموں کی شکست وزوال کے اسباب کا مطالعہ” (طبع سوم جون 1992 قیمت 70 روپے) تک لامحدود ہے۔ اس کتاب پر میری خریداری تاریخ 19 نومبر 1992درج ہے، تب عمر 22 برس سے کچھ اوپر تھی۔ واپسی پر ورق گردانی کی نیت سے احمد ندیم قاسمی کا 15 اکتوبر 1979 کا لکھا “عرضِ ناشر” پڑھا ، دلچسپی بڑھی اور پڑھتا چلا گیا۔ یاد نہیں کہ ٹائپ پر کوئی کتاب مکمل پڑھی ہو، لیکن اس کتاب نے خود کو بہت دلجمعی سے پڑھوا لیا۔
امتحانات کے دباومیں سیفٹی والو کی طرح یہ کتاب اپنے مطالعے کے لیے مسلسل گنجایش نکالتی رہی۔ چھٹیوں میں گوجرانوالہ واپسی ہوئی تو میرے بڑے کزن محترم میاں محمد عزیز (جو ابو جی کے تقریباً ہم عمر ہیں) اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش لدھیانہ مشرقی پنجاب انڈیا کی ہے۔ معلوم تھا کہ صاحبِ مطالعہ شخصیت ہیں، عربی فارسی اردو اور انگریزی پر دسترس رکھنے کے علاوہ کئی اہم کتابوں پر مشتمل ذاتی لائبریری کے مالک ہیں۔ پنجاب یونی ورسٹی سے ریگولر ایم اے تاریخ ہیں نیز سید نذیر نیازی جیسے نابغے کے ہاں طالب علمی کے دور میں بحیثیت پیئنگ گیسٹ قیام کے دوران علمی گپ شپ کرتے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ محترم میاں محمد عزیز عمر میں بڑے ہونے کے باوجود کزن کے رشتے کا پورا پورا لحاظ رکھتے رہے ہیں ، اس لیے ان سے ممکن حد تک دوستانہ بے تکلفی بھی ہے۔ بہت اشتیاق سے کتاب ان کی خدمت میں پیش کی اور اپنے تئیں تعریف و توصیف بھی کی۔ شاید دل رکھنے کو انہوں نے مطالعہ کا وعدہ کیا۔ اگلی بار جب وہ گوجرانوالہ آئے تو “پروفیسر صاحب! یہ رہی آپ کی کتاب، واقعی بہت شاندار ہے ، کیا کہنے” کچھ اس قسم کے الفاظ ستائشی نگاہ سے دیکھتے ہوئے عنایت کیے۔
اب نستعلیق میں دستیاب ، اس کتاب کو پڑھے اٹھائیس برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران میں مزید مطالعہ کا موقع ملا۔ بہت نہ سہی، لیکن کچھ کتابیں بالاستیعاب (اے ٹو زیڈ)پڑھ رکھی ہیں، جن میں متاثر کرنے والی بھی یقیناً موجود ہیں۔ لیکن ڈاکٹر آغا افتخار حسین مرحوم کی اس کتاب کی بات ہی الگ ہے۔ اگر کوئی ذہنی سفر ہوتا ہے تو اس کا آغاز شاید اس کتاب سے ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، لیکن کم از کم اس کی سمت متعین کرنے اور اسے مہمیز عطا کرنے میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے۔اپنا ذاتی نسخہ کئی دوستوں کو پڑھوایا، کئی دوستوں نے میرے اصرار پر خرید کر پڑھی اور بعد ازاں ممنون و شکر گزار ہوئے۔ پچھلے تیس برس کے بہت محدود مطالعہ کے باوجود یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ اردو زبان میں بیسویں صدی کی پانچ علمی و فکری کتابیں منتخب کی جائیں تو یہ کتاب ان میں ضرور شامل ہو گی۔ نیز اردو زبان کی علمی تاریخ اس کتاب کے تفصیلی بیان کے بغیر ادھوری رہے گی۔
اگر آپ نے یہ کتاب ابھی تک نہیں پڑھی تو پہلی فرصت میں پڑھ ڈالیے۔ فرصت کیا؟ اس کے لیے وقت نکالیے۔

میاں انعام الرحمن

میاں انعام الرحمن گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں سیاسیات کے استاذ ہیں۔ ۲٠۱۷ء میں سیرت نبوی پر ان کے مجموعہ مضامین ’’سفر جمال’’ کو سیرت صدارتی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔
inaam1970@yahoo.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • شاندار تبصرہ ہے۔
    ڈاکٹر آغا افتخار حسین کی یہ کتاب کہاں سے ملے گی، نستعلیق والی طبع، کوئی رابطہ نمبر اگر ملے تو ممنون ہوں گا شکریہ