راجا قاسم محمود
ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمہ اللہ کا علمی حلقوں میں ایک معروف اور مستند نام ہے۔ بین الاقوامی قانون اور مسلم طرزِ ریاست کے طور پر آپ کی حیثیت بہت مسلمہ ہے۔ پھر سیرت مقدسہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب رح نے بہت قیمتی کام کیا ہے۔
“خطبات بہاولپور” ڈاکٹر صاحب رح کے اپریل ۱۹۸۰ میں دئیے گئے بارہ خطبات کا مجموعہ ہے۔ یوں تو اس کو کئی پبلشرز نے شائع کیا ہے مگر میرے پاس کتاب محل کا شائع کردہ ایڈیشن ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر ڈاکٹر عبد المجید بغدادی صاحب نے تحقیق و تخریج کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر تعلیقات کا بھی اضافہ کیا ہے۔جو کہ ہر خطبے کے آخر میں موجود ہیں
ڈاکٹر حمید اللہ رح کے خطبات کے عنوان درج ذیل ہیں
۱. تاریخ قرآن مجید
۲. تاریخ حدیث شریف
۳. تاریخ فقہ
۴.تاریخ اصول فقہ و اجتہاد
۵.اسلامی قانون بین الممالک
۶.دین (عقائد, عبادات، تصوف)
۷.عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مملکت اور نظم و نسق
۸.عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظام دفاع اور غزوات
۹.عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظام تعلیم
۱۰.عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظام تشریع و عدلیہ
۱۱.عہدنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظام مالیہ و تقویم
۱۲.عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاؤ
ان خطبات کے موضوعات دیکھ کر ہی بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب رح نے ان خطبات میں اسلام کا عمومی تعارف، قرآن، حدیث اور فقہ کے ساتھ ساتھ سیرت مقدسہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم پر گفتگو کی ہے۔
قرآن مجید کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب رح نے ورقہ بن نوفل رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے سلسلے میں انھوں نے جو قرآن مجید کو “ناموس” کہا۔ یہ یونانی زبان “نوموس” ہے جس کا مطلب قانون ہے اور توریت کو بھی نوموس بولا جاتا تھا۔ اب ورقہ بن نوفل کے وہ الفاظ یاد کریں جو انھوں نے فرمائے تھے کہ
“یہ وہ نوموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہے”
ابلاغ وحی کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل یہ تھا کہ پہلے مردوں کی جماعت کو سناتے پھر عورتوں کی جماعت کو یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام مردوں اور عورتوں دونوں کی تعلیم سے برابر دلچسپی لیتے تھے۔
قرآن مجید سے قبل کی کتب سماویہ کی تاریخ پر بھی اجمالی نظر ڈالی گئی ہے۔اس کے علاوہ مجوسیوں کے مذہب زردشت کی کتاب “اوستا” پر بھی گفتگو کی ہے۔
حدیث کی اہمیت پر بھی ڈاکٹر صاحب رح نے عمدہ گفتگو کی ہے۔ نیز متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث لکھیں اور مجموعے مرتب کیے۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے مجموعہ حدیث میں دس ہزار حدیثیں تھی۔ جبکہ صحیح بخاری میں مکررات نکال لیں تو احادیث کی تعداد دو ہزار سے کچھ اوپر تک بنتی ہے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کا یہ مجموعہ بدقسمتی سے ہم تک نہیں پہنچ سکا۔
ڈاکٹر صاحب رح نے ایک دلچسپ بات بتائی ہے کہ عہد نبوی میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک بار مسلمانوں کی مردم شماری کرائی۔
امام مہدی رح کے متعلق ایک سوال کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان کی آمد پر یقین بھی رکھتے تھے اور اہلسنت کے ہاں جو مشہور موقف اس کو ہی درست سمجھتے تھے۔
فقہ اسلامی کے باب میں ڈاکٹر صاحب رح نے کئی مثالوں سے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی تخلیقی اور مجتہدانہ بصیرت کا ثبوت ہے اس کو رومن لاء سے مستعار لیا جانے والی بات بے بنیاد اور تاریخی طور پر غلط ہے۔
اسلامی قانون کے ارتقاء پر ان کی گفتگو بہت اہم ہے، اور مکہ معظمہ کے وہ رسم ورواج جو کہ شرک سے پاک تھے کو اسلام کا ابتدائی قانون قرار دیا ہے۔ ایسے ہی اصول مماثلت (Reciprocity) کے قانون کو بھی حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شامل کیا گیا۔
اسلامی قانون کے ضمن میں ایک اور دلچسپ بات جو ڈاکٹر صاحب رح نے کی ہے کہ کتب سابقہ کے وہ احکامات جو صحت کے ساتھ مروی ہیں اور اسلام نے ان کو منسوخ یا تبدیل نہیں کیا وہ بھی اسلامی قانون کا حصہ ہیں جیسے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا حکم۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب رح نے کئی جگہ گفتگو کی ہے ان کا حضرت سیدنا زید بن علی رحمہ اللہ علیہ کی فقاہت سے استفادہ فرمانا پھر اپنے شاگردوں کی کفالت کرنا، ان کا طرز تدریس اور علمی مجالس کے حوالے سے بہت مفید گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب رح نے اسلام کے نظام حکومت کے بارے میں گفتگو کی ہے کہ اسلام اس حوالے سے جامد نہیں کہ خلافت ہو، جمہوریت یا بادشاہت۔یہ مسلمانوں کی اپنی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ اپنے ماحول کے مطابق جو سا بھی طرزِ حکومت بہتر سمجھتے ہیں اس کو اپنا لیں۔
اصول فقہ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا اعزاز ہے جو کہ دیگر قوموں کو حاصل نہیں کہ کیوں کہ اس پر سب سے پہلے بات اسلام نے کی ہے۔ حمورابی کے قانون کی اپنی اہمیت ہے مگر اصول قانون کی روشنی میں اس کے اندر بے شمار کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ایسے ہی قانون بین الممالک کو بھی دنیا میں سب سے پہلے متعارف کرانے والا اسلام ہے۔
اپنے خطبہ میں ڈاکٹر صاحب رح نے معتزلہ کے اوپر بھی بات کی ہے کہ ان پر انکار حدیث کا الزام درست نہیں ۔ان کے اصول حدیث تھے جس کے مطابق وہ خبر واحد کے قائل نہیں تھے جس پر دیگر فقہاء نے ان سے اختلاف کیا اور ان کے موقف کی کمزوریوں کی نشاندھی کی۔
قانون سازی کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب نے مسلم روایت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کسی حکومت کے ماتحت نہیں ہوئی بلکہ فقہاء نے نجی طور پر یہ فریضہ سر انجام دیا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ حکومتی دباؤ سے بھی آزاد تھی۔
ایک خطبہ میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والے لوگوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ان پر اعتماد تھا کہ ان ہی میں سے ایک شخص حضرت عتاب ابن اسید رضی اللہ عنہ جو اس دن مسلمان ہوئے کو مکہ معظمہ کا والی بنا دیا اور ان لوگوں کی نگرانی کے لیے کسی مہاجر و انصار کو تعینات نہیں کیا۔ ان لوگوں کی اسلام کی پختگی ہی تھی کہ جب آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وصال کے بعد فتنہ ارتداد پھیلا تو یہ سب کے سب لوگ نا صرف ثابت قدم رہے بلکہ اس کے خلاف جہاد کرنے والے ہر اول دستے میں تھے۔ یمامہ کی جنگ میں ان میں سے کئی لوگوں نے جام شہادت نوش فرمایا، اس لیے جو لوگ محض طلقاء کہہ کر ان اصحاب رضی اللہ عنہم کو باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے الگ تصور کرتے ہیں کا خیال باطل ہے۔
جہاد کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کی رائے یہی ہے کہ اسلام میں فقط دفاع کی اجازت ہے اور جارحیت کی اجازت اسلام میں نہیں۔
تصوف کو ڈاکٹر صاحب نے احسان و سلوک کی شکل قرار دیا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود جیسی دقیق مباحث کا اس احسان و سلوک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے عہد مبارک کی مناسبت سے آپ کے خطبات بہت اہم ہیں اور اس میں قاری کو پڑھنے کے لئے بہت سی چیزیں ملیں گی ان خطبات میں کچھ باتیں پہلے خطبات سے دوہرائی گئی ہیں جبکہ کئی چیزیں سیرت مقدسہ کے نئے گوشوں سے آگاہی دیتی ہیں۔
جیسا کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک ماہر سپہ سالار اور جنگی امور کا ماہر ہونا۔
غزوہ احزاب کے خاتمے کی تفصیل میں عام طور پر موسم کو وجہ بیان کیا جاتا ہے جبکہ ڈاکٹر صاحب رح کے نزدیک اس سے زیادہ اہم وجہ معاشی کیونکہ یہ جنگ شوال میں ہوئی آگے ذیقعد کا مہینہ آ رہا جو حرام مہینوں میں سے تھا اور اس ہی مہینے میں مکہ میں مسافروں کی آمد و رفت بڑھ جاتی تھی تو اگر کفار یہ جنگ ختم نہ کرتے تو اس منفعت سے محروم ہو جاتے۔اس لیے انھوں نے جنگ ختم کی اور بھاگ گئے۔
ایک اور خطبہ میں ڈاکٹر صاحب رح نے بتایا ہے کہ مکہ معظمہ میں لکھنے کا رواج حرب بن امیہ کے دور سے شروع ہوا یعنی کہ جب آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیدائش ہوئی تو مکہ معظمہ میں لکھنے کا رواج نیا نیا تھا اور اس دور میں مردوں کے ساتھ کئی عورتوں کا بھی لکھائی جاننے کا پتہ ملتا ہے۔
ایک اور جگہ مکہ معظمہ میں دور جاہلیت میں نظام حکومت پر بھی بات کی ہے جو کہ اس سماج کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کس طرح مختلف قبائل نے ذمہ داریاں تقسیم کی ہوئی تھیں
ان خطبات میں اس کے علاوہ بھی بہت سی اہم باتیں ہیں مگر چند کا ذکر کر دیا تاکہ ان خطبات کی اہمیت واضح ہو سکے۔
ایک دو جگہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کے نظر ثانی کی محتاج ہیں مثلاً ایک خطبہ میں ڈاکٹر صاحب نے غزوہ احد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جبل الرماہ پر حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مامور کیا گیا حالانکہ وہ اس وقت تک اسلام بھی نہیں لائے تھے۔ دوسرا انھوں نے حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو بھی مامور کرنے کا ذکر کیا ہے حالانکہ کئی روایات کے مطابق غزوہ احد کے وقت ان کی عمر بھی کوئی تین سال تھی۔
ڈاکٹر حمید اللہ رح کے یہ خطبات ایک بہترین کتاب ہے جس کا مطالعہ ہر عمر کے قاری کو فائدہ دے گا۔امید ہے اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے بدلے اپنی شان کے مطابق اجر دے گا۔
کمنت کیجے