Home » مغربی سماجی علوم میں ’’مذہب’’ کا مفہوم اور مطالعہ اسلام
انگریزی کتب تہذیبی مطالعات

مغربی سماجی علوم میں ’’مذہب’’ کا مفہوم اور مطالعہ اسلام

 

(کارل ڈبلیو ارنسٹ کی کتاب  Following Muhammad: Rethinking Islam in the Contemporary World کے دوسرے باب کی تلخیص)

یورپ میں مذہب کے مفہوم کا ارتقا

اس باب میں ابتداءً یورپ میں تکثیریت اور مذہبی آزادی کے جدید تصور کے تناظر میں مذہب کے مفہوم کے ارتقا پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک یورپ میں مذہب کے مفہوم کا ارتقا پانچ بنیادی مراحل میں ہوا ہے:

1۔          45 قبل مسیح میں سب سے پہلےسسرو نے اپنی لاطینی تصنیف On the Nature of Godsمیں لفظ مذہب کی توضیح کی۔ اس توضیح کی رو سے religio کی اصطلاح relegere سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے: “دوبارہ یا بار بار پڑھنا”۔تو religio کا معنی ہے: ادائیگی فرض کا ایک شدید احساس، اور حکم کوبعینہ مطلوبہ طریقے سے سرانجام دینا۔ لاطینی مصنفین اس لفظ کو بطور جمع (religiones) مذہبی فرائض کے لیے استعمال کرتے تھے، تاہم بنیادی طور پر ریلیجیوکے مفہوم میں الٰہیاتی یا نظریاتی معنی شامل نہیں تھا۔

2۔          سلطنتِ روما میں مسیحیت کے ظہور کے بعد مذہب کے تصورکو مسیحیت کے قالب میں ڈھالنے کا عمل شروع ہوا۔ یہ کام 390 عیسوی میں مشہور عیسائی متکلم اور فقیہ سینٹ آگسٹائن نے اپنی کتاب Of True Religion میں کیا۔ آگسٹائن نے کہا کہ سچا مذہب وہی ہے جو خالق کو ماننے کے ساتھ اس کی تقدیس کرتے ہوئے ایک درست عقلی تناظر اور صحیح کردار اور اعمال کو یکجا کرے۔ان کے نزدیک سچے مذہب کا مفہوم مختلف زمانوں میں مختلف ہو سکتا ہے۔ مثلاً افلاطون سچے مذہب کی مثال ہے، لیکن چوتھی صدی عیسوی میں سچا مذہب عیسائیت ہے، جو افلاطون کے فلسفے کو مسیح کی لائی ہوئی حقیقت سے یکجا کرتا ہے۔اس تعریف سے کئی اہم نکتے جنم لیتے ہیں، جس نے بعد کے ادوار میں مسیحیت کے فروغ میں غیرمعمولی کردار ادا کیا:

  1. ہر زمانے میں سچا مذہب ایک ہوتا ہے۔
  2. مذہب طاقتور الہیاتی اور نظریاتی مواد پر مشتمل ہوتا ہے۔
  • درست اعمال وکردار کی تشکیل کے لیے ماخذِ استناد کلیسا ہے۔

3۔           ماقبل جدید دور میں اور مذہب کے مفہوم میں ایک اور بنیادی تبدیلی نے جنم لیا۔ یہ تبدیلی سترھویں صدی میں ولندیزی مصنف ہوگو گروشیس کی مشہور کتاب On the Truth of Christianریلجن سے آئی(سن اشاعت 1627)۔ یورپ کے اندر مسیحی فرقوں کے درمیان ہولناک اور طویل خونریزیوں نے اس تصور کو مقبول بنایا کہ بیک وقت کئی مذاہب کا وجود ممکن ہے۔ ہوگو گروشیس کی کتاب، جو استعماری مہم جووں کے ساتھ جانے والے مسیحی مبلغین کے لیے مناظرہ بازی کے مقصد سے لکھی گئی تھی، اور وہ تراجم کے ذریعے پورے یورپ میں مقبول ہوگئی تھی، کے سرورق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوگو مسیحیت کے علاوہ اسلام، یہودیت اور شرکیہ مذاہب کو بھی کم از کم مذہب ماننے پر مجبور ہے۔ سینٹ آگسٹائن کے تصورِ مذہب کی روشنی میں خدائی تصدیق اور قانونی حاکمیت صرف مسیحیت کے ساتھ خاص تھی، لیکن ہوگو کی کتاب کے تناظر میں مسیحیت متعدد مذاہب میں سے ایک مذہب ہے، جو دنیا پر اپنے جھنڈے گاڑنے میں دوسرے مذاہب کے دوبدو شامل ہے۔

4۔          یہ بنیادی طور پر تبدیلی کا مرحلہ (transition phase) ہے۔ یورپی مسیحیت کی تاریخ میں سب سے ہنگامہ خیز دور تحریکِ اصلاح کی شکل میں پروٹسنٹ فرقے کا ظہور ہے۔ مذہبی شناخت کی اساس پر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان طویل اور خوفناک خونریزیوں نے جنم لیا،  جن میں لاکھوں لوگ اپنی جان کھو بیٹھے۔ اس سنگین صورتحال نے یورپی فلاسفہ اور مفکرین کو اس سوچ پر آمادہ کیا کہ قانون اور سیاسی طاقت سے جڑے معاملات میں ریاست کی بالادستی قائم کرکے مذہب کو نجی معاملہ قرار دیا جائےاور اخلاقیات وکردار کا تحفظ مذہب کے بجاے ریاست کے ہاتھ میں دیا جائے۔یہ برداشت اور تکثیریت کے جدید مفہوم کی طرف ایک بنیادی قدم تھا۔

5۔          مابعد جدید اور مابعد استعماری دور میں مذہب کے حوالے سے ایک یکسر مختلف نظریہ پروان چڑھا ہے، جس کے مطابق نہ صرف یہ کہ مختلف مذاہب کے وجود کو برداشت کیا جائے، بلکہ  الحاد کو بھی ایک اہم اور جائز انتخاب کے طور پر قبول کیا جائے۔ جدید تکثیری معاشروں میں کسی الہامی کتاب کی مخصوص ‘لفظی’ تشریح کو حجت بنا کر پیش کرنا طاقت کے آمرانہ استعمال کے مساوی سمجھا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے ہاں مذہب کے مفہوم کا ارتقا

مصنف کے نزدیک مسلمانوں کے ہاں مذہب کے مفہوم کے ارتقا کے دو بنیادی مراحل ہیں:

1۔          جدید دور سے قبل مذہبی آزادی کے حوالے سے اسلام ایک روشن روایت کا حامل ہے۔اسلامی روایت نے مذاہب کے درمیان اختلاف اور تعدد کو فطری مان کر اسے قبول کیا ہے۔ اسلامی قانون نے غیرمسلموں کو ایک ذمی کو ایک قانونی درجہ دے کر ان کو تحفظ فراہم کیا۔ ان تمام چیزوں کی نظیر کم از کم مسیحیت میں نہیں ملتی، جہاں پر مذہبی اقلیتوں کے لیے کوئی قانون نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلامی دنیا میں ماقبل جدید دور کی بہت سی غیرمسلم اقلیتیں سکونت پذیر ہیں، جبکہ مسیحیت نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا تھا۔

2۔           دوسرا دور مابعد جدید استعماری دور میں مسیحی مبلغین کے خلاف مسلمانوں کے رد عمل کا ہے۔ مصنف کے نزدیک مسیحیوں کی طرح تبشیری سرگرمیوں کی نظیر اسلامی تاریخ میں بالکل نہیں ملتی۔ مسلمانوں کا دوسرے مذاہب پر اپنی برتری کے اثبات کا نقطۂ آغاز استعماری دور ہے، جو مسیحی مشنریوں کے رد عمل میں ہوا۔اس ردعمل کے تسلسل کے طور پر بیسویں صدی میں ایک نئی آئیڈیالوجی سامنے آئی، جس کی رو سے انسانی زندگی  کامل ومکمل طور پر مذہب اسلام کے قالب میں ڈھالنی چاہیے۔ مصنف کے نزدیک یہ آئیڈیالوجی متناقض ہےکیونکہ یہ اسلام کی گزشتہ چودہ صدیوں کی تاریخ کو بالاے طاق رکھتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کے قائم کردہ مثالی معاشرے کے قیام کی بات کی کرتی ہے، لیکن وہ یہ کام جدید افسرشاہی ومابعد استعماری ریاستی مشینری کے ذریعے کرنا چاہتی ہے۔

اسلام اور مذہب کا تاریخی مطالعہ

            مغرب میں مذاہب پر تحقیق  کے حوالے سے جو مختلف تصورات پروان چڑھے، ان کا پس منظر استعماری دور کی تبشیری (missionary)سرگرمیاں ہیں۔ ان میں سے ایک تصور مذہب کا تقابلی مطالعہ ہے، جو”کون سا مذہب سب سے اچھا ہے؟” کے جواب میں پروٹسٹنٹ مدارس کے اندر پروان چڑھا۔ اپنے مذہب کی مثالی تعلیمات اور دوسرے کے مذہب کے نسبتا کمزور احکام سےتقابل کیا جاتا، تاکہ مناظرے میں اپنے مذہب کی برتری ثابت کی جائے۔بیسویں صدی کے اوائل میں یہ تصور نسبتا کم تبشیری اور زیادہ نظری سرگرمی بن گئی، جس کاموضوع مختلف مذاہب میں پائے جانےوالے مشترک نظریات کی تفہیم ہے۔

استعماری تبشیر کی کوکھ سے جنم لینے والا مذہب کے مطالعے کا  دوسرا تصور عالمی مذاہب کا ہے، جس کی رو سے زیادہ پیروکاروں والے مذاہب عالمی مذاہب قرار دیے گئے، جو دنیا کو مغلوب بنانے میں مسیحیت کے مد مقابل ہیں۔ اس تصور کی رو سے مسیحیت، اسلام اور بدھ مت تینوں عالمی مذاہب ہیں۔چونکہ اسلام اور مسیحیت کے پیروکاروں کی تعداد بدھ مت کے پیروکاروں سے زیادہ ہے، اس لیے بنیادی مقابلہ اسلام اور مسیحیت کے درمیان ہے۔

استعماری تبشیر کے علاہ مذہب کے تقابلی مطالعے کا ایک دوسرا ماخذ مختلف حیوانات کی درجہ بندی کا علم لینین بیالوجی (Linnaean Biology) ہے۔ اس علم کے مطابق مذہب کی درجہ بندی کے پیچھے یہ مفروضہ تھا کہ مذاہب میں بھی مختلف جانداروں کی اجناس وانواع کی طرح کچھ بڑے اجناس ہیں، اور باقی ان کی انواع ہیں۔ لیکن اس درجہ بندی میں بنیادی مسئلہ مختلف مذاہب کے اندر موجود فرقے ہیں، جن میں سے ہر ایک دوسرے کی تکفیر وتضلیل کر رہا ہوتا ہے، اور دوسرےفرقے کو اس مذہب کے جنس میں شامل نہیں سمجھتا۔ مسیحیت میں اس کی مثال کیتھولک-پروٹسٹنٹ جبکہ اسلام میں شیعہ-سنی اختلاف ہے۔

حالیہ دہائیوں میں شمالی امریکا میں مطالعۂ مذاہب نے ایک نئی کروٹ لی، جس سے عقیدے اور سیاسی مسابقت سے ہٹ کر تاریخی تفہیم وتشریح کے تناظر میں مذہب کا مطالعہ شروع ہوا۔اس طریقِ کار کا بنیادی مقصد استعماری وتبشیری تصورات کے برعکس باہمی افہام وتفہیم پر مبنی ایک تکثیری معاشرے کا قیام ہے، جہاں کسی پر زبردستی اپنے عقائد نہ تھوپے جائیں۔ چرچ اور ریاست کے درمیان علاحدگی کے امریکی نظریے نے اس تصور کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

مطالعۂ مذاہب کےتاریخی منہج سےسامنے آنے والا ایک اہم نقطۂ نظر یہ ہے کہ تاریخی اور ثقافتی حقیقت ہونے کی حیثیت سے مذاہب زمان ومکان سے ماورا ابدی حقائق نہیں، بلکہ وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔تاریخی منہج کی ایک نمایاں مثال ولفریڈ کینٹول سمتھ ہیں۔ ان کے مطابق مذہب ایک مبہم اصطلاح ہے، جن کو دوبڑے اجزا میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. داخلی:یہ حصہ عقائد پر مشتمل ہے، اور مذہب کے پیروکاوں کے لیے بنیادی اور فوری اہمیت کا حامل ہے۔
  2. خارجی: اس میں مقدس کتابیں، عبادات، اخلاقیات، قانون، ادبیات، اساطیر، سیاسیات وغیرہ شامل ہیں۔ اس حصے کی توضیح وتشریح، بحث وتمحیص اور جمع وتدوین کی جاسکتی ہے، اور یہ ہر کسی کے لیے قابل عمل ہے، چاہے وہ اس مذہب کا پیروکار ہو یا نہ ہو۔یہی وہ پہلو ہےجو تاریخ کے مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔( سمتھ کے برخلاف مصنف کی ذاتی راے یہ ہے کہ عقائد سے متعلق مذہب کا داخلی پہلو بھی تاریخ سے ماورا نہیں )۔

تاریخی منہج کا ایک اور بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ مذہب کو ایک “شے” تصور کرنا بڑی حد تک ناممکن ہو گیا ہے۔بالعموم کہا جاتا ہے: اسلام کہتا ہے، مسیحیت کہتی ہے وغیرہ۔یہ خود کو مسلمان یا مسیحی کہنے والوں کی ذاتی آرا ہوتی ہیں۔مذاہب تجریدی تصورات ہیں نہ کہ انسانوں کی طرح متحرک کردار۔ مزید برآں، مختلف مذاہب کے درمیان تبشیری مسابقت نے مذہب کو خدا کے مقام پر لا کھڑا کیاہے۔ مثلا جدید روایت اور میڈیا میں مسیحی یا مسلمان ہونے کو خدا کے ماننے یا نہ ماننے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ سمتھ کےنزدیک مذاہب کی انسانی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ ایک طرح کا مشرکانہ تصور ہے۔

مطالعۂ مذاہب کو دو مزید طریق ہاے کار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. Prescriptive: اس طریقِ کار کے مطابق مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے عقائد واحکام کی تعریف کرتے ہوئے اپنے تناظر سے تحکمانہ انداز میں مختلف چیزوں کو صحیح یا غلط بتاتے ہیں۔
  2. Descriptive: کسی مذہب سے باہر لوگ اسی روایت کی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں کو بیان کرتے ہیں۔ اس طریقِ کار میں احترام اور غیرجانبداری کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ مذہب کے پیروکاروں کے خیالات سے بھی اعتناکرنا چاہیے۔

مذہب کے بارے میں داخلی وخارجی اور Prescriptiveو Descriptiveطریق ہاے کار کے درمیان فرق کو سمجھنا بالخصوص ان لوگوں کے لیے بہت اہم ہے، جو اسلام کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ فی الحال میڈیا میں موجود ناواقف شارحین اسلام کے بارے میں عوام کے لیے معلومات کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ مثلا ایک مذہبی انتہا پسند ٹی وی نمائندے کو بتاتاہے کہ اسلام کافر مغرب کے خلاف ایک مقدس جنگ کا تقاضا کرتا ہے، تو یہ prescriptive اور اقلیتی نقطۂ نظر میڈیا کے ذریعے یکدم مستند بن جاتا ہے، حالانکہ خود اپنے معاشرے میں یہ نعرہ اتنی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔مغرب کے عوامی حلقوں میں اسلام سے متعلق مستند Descriptiveموادنہ ہونے کی وجہ سے یہ اہم ہو گیا ہے کہ اسلام کے نام پر اٹھنے والی مختلف آوازوں کے درمیان خطِ امتیاز کھینچی جائے۔

مذہب کے تاریخی مطالعے سے ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر زمانے کے گزرنے کے ساتھ عقائد واعمال اور ان کی تعبیر وتشریح بدلتی ہے، تو پھر مقدس متون کا کردار کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک خاص مذہبی روایت کے اندر کے مقدس متون کی اہمیت بھی مختلف زمانوں میں متنوع رہی ہے۔ مثلا پروٹسٹنٹ مسیحیت بائبل کی صورت میں صرف مقدس متون کو کافی سمجھتی ہے، جبکہ کیتھولکس کلیسائی روایت کو بھی اس کے برابرحجت مانتے ہیں۔ غیرمسیحی مذاہب کے مطالعےکے لیے “مشرق کی مقدس کتابوں کی سیریز” جیسی مثالوں کے پیچھے مذہب کا پروٹسٹنٹ ماڈل کار فرماتھا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بائبل کی طرح دیگر مذہبی روایات میں مقدس متون یکجا نہیں ملتے۔ مثلاً  بدھ مت میں تین مختلف زبانوں میں تین قسم کے مختلف وسیع اور بنیادی متون کے مجموعے ہیں۔

ایک دوسرا اہم سوال کسی خاص مذہب سے انتساب کا ہے۔ مثلاً ایک مسیحی کی تعریف کیا ہے؟اگر مذہب صرف عقیدے کا نام ہے  تو مسیحیوں کی تعداد عملی پیروکاروں سے بڑی حد تک بڑھ جائے گی۔اور اگر عقیدہ ایک نہ بدلنے والی چیز ہے، تو پھر ہم ایک ہی مذہب کے اندر موجود مختلف گروہوں، جو جمہور سے نمایاں طور پر الگ خیالات رکھتے ہیں، سے کس طرح معاملہ کریں، جبکہ وہ خود کو اس مذہب سے منسوب بھی سمجھتے ہوں؟ اس مقصد کے لیے اکثر دانشور descriptive طریق کار استعمال کرتے ہیں۔ لوگ اپنی شناخت خود جس طرح کرتے ہیں، وہ اسے شناخت کا بامقصد اور واحد راستہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ مذہبی شناخت کے حوالے سے الہیاتی کے بجاے سماجیاتی طریق کار ہے۔

مغرب میں اسلام کے حوالے سے مستند معلومات کی کمی ہے۔ شمالی امریکا میں علوم اسلامیہ سے متعلق لوگوں میں بیشتر شرق اوسط کی تاریخ وسیاست میں ماہرین ہیں۔ ان کی بیش قیمت تحریریں عوام تک اس لیے پہنچ نہیں پاتیں کہ وہ تحقیقی مجلات  میں یا یونیورسٹی پریس سے محدود تعداد میں چھپتی ہیں، یا ان کے مخاطبین دوسرے ماہرین ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام ان سے استفادہ نہیں کر پاتے۔

اسلام کی تعریف وتحدید: ریاست اور اعداد وشمار کے تناظر میں

            مذہب کی تعریف وتحدید صرف ایک نظری سرگرمی نہیں۔ عملی طور پر پوری دنیا میں ریاست مذہب کی تعریف وتحدید کرتی ہے۔ مثلا امریکا میں مختلف اداروں سمیت عدالتیں یہ کام کرتی ہیں۔  بنیادی سوال کا تعلق مذہبی عقیدے سے نہیں، بلکہ سیاسی شناخت کے حامل گروہ سے ہے۔ اور ریاستیں اسی شناخت کی بنیاد پر مذہب کی تعریف وتحدید کرتی ہیں۔ مذہب کے پیروکاروں کے اعداد وشمار کا مسئلہ البتہ بہت پیچیدہ ہے۔ مثلا ایسی مردم شماری کے وقت بعض لوگ دو یا تین مذہب سے انتساب لکھ لیتے ہیں۔مصنف نے اس سلسلے میں برطانوی ہندوستان اور جاپان میں کی گئی مردم شماری کی مثال پیش کی گئی ہے۔

مذہبی شناخت کی اساس پر مردم شماری کے مختلف مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اس وقت دنیامیں آبادی کے لحاظ سے عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔مسلمانوں کی مجموعی 1.3 بلین ہے، جن میں 10 سے 15فیصد شیعہ جبکہ باقی سنی ہیں۔نسلی اعتبار سے معروف موقف کے برعکس عرب (250 ملین)مسلمانوں کی آبادی کا 18 فیصد ہیں۔ دوسرا بڑا نسلی گروہ بنگالی ہیں، جو تقریبا 200 ملین کی تعداد میں بنگال اور ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت زیادہ تعداد میں مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل اقوام انڈونیشیا(180 ملین)، پاکستان(120 ملین)، بنگلہ دیش(130ملین) اور ہندوستان(120) ہیں۔ مسلمانوں کی دیگر بڑی آبادیاں مصر، ایران، ترکی، نائجیریا میں ہیں۔باوجود معاشی اور سیاسی اہمیت کے سعودی کی آبادی 15 ملین ہی ہے۔50 سے زیادہ ممالک مسلم اکثریتی ہیں، لیکن ہر ایک ملک میں اسلام کی مذہبی روایت کا کردار مختلف ہے۔

مستند اندازوں کے مطابق چین میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 30 ملین ہے۔ امریکا میں بہت سے ماہرین کے نزدیک 5 ملین مسلمان ہیں جو مارمنز یا لوتھرنز کی آبادی کے برابر اور امریکی یہودیوں سے زیادہ ہے۔یورپ میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 10 ملین ہے، جس میں مختلف اسلامی ممالک سے جانے والے مہاجرین شامل ہیں۔

اسلام کی مذہبی زبان

اسلام کے معنی اطاعت اور امن ہے۔ جو خدا کے سامنے جھکتا ہے وہ مسلمان کہلاتا ہے۔آج لفظ اسلام اور مسلمان لفظ مسیحیت اور مسیحی کی طرح بالکل جدید معنوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض لوگ اسے prescriptive استعمال کرکے اس سے  قطعی اور ناقابلِ تبدیل تصورات مراد لیتے ہیں، حالانکہ لفظ مسلم ایک معنی میں وہ تاریخی حقیقت ہے، جو لوگوں کے تاریخی تعامل کی روشنی میں سامنے آیا ہے۔

عربی میں religion کا متوازی لفظ دین ہے۔ اگر چہ دین اور لاطینی لفظ religio کا معنی احساسِ فرض وذمہ داری میں ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ہے، تاہم دین مسیحی تصورِ مذہب سے اس طرح مختلف ہے کہ اس کا ماخذومنبع  کسی انسانی وابستگی کی بجاے خدا کی مرضی ہے۔قرآن کریم بار بار دین ابراہیم یا دین حق کا ذکر کرتا ہے کہ وہ براہ راست خدا سے ماخوذ ہے۔حدیث جبریل میں مذکور اسلام، ایمان اور احسان کے مجموعے کو بھی دین کی تعریف میں پیش کیا جاتا ہے۔

الہیات ، قانون اور دیگر متعلقہ میدانوں میں درج بالا مباحث صدیوں سے بنیاد کا کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ میں ایک صدی قبل مغربی استعمار کے ردعمل میں سامنے والی اسلام کی ان سلفی اور وہابی تحریکات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، جو صدرِاسلام کی طرف ازسرِ نو واپسی کی دعوت دیتی ہیں، اور اسلامی تہذیب کے اکثر وبیشتر حصے کو اصل اسلام کے خلاف سمجھتی ہیں۔یہ تحریکیں معاصر تاریخ کا حصہ اور مسیحی مشنریوں بالخصوص پروٹسٹنٹ فرقے کے طریقِ کار  سے کافی متاثر ہیں۔ مذہبی متون پر شدید اصرار اور مابعدی اضافوں کا اخراج پروٹسٹنٹ مسیحی عقائد ہیں۔

مذہب کے مسیحی تصورات نے بھی اسلام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ بالعموم احیائی تحریکیں کہتی ہیں: “اسلام  مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے”۔ بین السطور یہ مغرب میں رائج مذہب کے انفرادی معاملے ہونے کی تردید ہے۔ سب سے بدنام مسیحی اصطلاح جو اسلام پر تھوپ دی گئی، بنیاد پرستی ہے۔یہ اصطلاح 1900 میں امریکا میں ایجاد ہوئی اور ایونجیلکل مسیحیوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ 1878-79 میں صحافیوں نے آیت اللہ خمینی کی آئیڈیالوجی کے لیے یہ لفظ استعمال کرنا شروع کیا، اور میڈیا کا ان گروہوں پرزیادہ توجہ ہونے کی وجہ سے بنیاد پرست اور مسلمان ایک دوسرے کے مترادف بن گئے۔

بہر صورت، اگر ہم چاہتے ہیں کہ آج کے دور میں مسلمان ہونے کی صحیح اور معقول تصویر سامنے لاسکیں، تو ہمیں مطالعۂ مذاہب کے اصولوں کو بروے کار لاتے ہوئے  Prescriptive نقطۂ نظر کو قبول کرنے کے بجاے اس تمام تر تنوع کو زیر بحث لانا چاہیے۔

مولانا محمد جان اخونزادہ

محمد جان اخونزادہ نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے دینی علوم کی تحصیل کی ہے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد سے شریعہ اینڈ لاء میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
m.janakhoonzada@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں