Home » فکر اسلامی کو درپیش چند اہم سوالات اور ان پر تصنیف و تحقیق کی ضرورت
اسلامی فکری روایت

فکر اسلامی کو درپیش چند اہم سوالات اور ان پر تصنیف و تحقیق کی ضرورت

 

28 نومبر،2021 کو تصنیفی اکیڈمی،جماعت اسلامی ہند کی طرف سے اس کے مرکزی کیمپس میں منعقدہ ایک “تصنیفی ورک شاپ” میں منتظمین کی دعوت پر راقم الحروف کو شرکت کا موقع ملا  جس کے لیے میں خاص طور پر ڈاکٹر محی الدین غازی (سکریٹری، تصنیفی اکیڈمی و مدیر ماہنامہ زندگی نو،دہلی) کا مشکور ہوں۔اس کامقصد یہ تھا کہ اسلامیات اور اسلامی فکر کے میدان میں تصنیف وتالیف کی نئی جہتوں اور راہوں کی جستجو کی جائے۔موجودہ عہد میں اسلامی فکر کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ اسلامی فکر کے کن موضوعات اور پہلوؤں پردوسرے موضوعات کے مقابلے میں تصنیف وتحقیق کے حوالے سے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ موضوع امیر جماعت اسلامی،ہند،سید سعادت اللہ حسینی صاحب کی فکری بصیرت کی غمازی کرتا ہے۔ان کی کمیاب خوبی یہ ہے کہ وہ اسلامی فکری روایت کے ساتھ مغربی فکری روایت کا وسیع مطالعہ اور گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ موصوف کے قلم سے نکلی ہوئی اس قبیل کی تحریریں جن اصحاب ذوق کی نگاہوں سے گزری ہیں وہ اس حقیقت کے معترف ہوں گے۔وہ اس پروگرام میں صبح سے شام تک بنفس نفیس موجود تھے۔پروگرام کے آغاز واختتام پر انہوں نے فکر انگیز گفتگو کی ورک شاپ کے مندوبین کو ان کی اس سلسلے کی ایک تفصیلی تحریر”تحریکی لٹریچر اور درپیش علمی معرکہ” ( یہ مقالہ نیٹ پر دستیاب ہے)کے عنوان سے شرکت سے قبل ارسال کی گئ تھی جس میں انہوں نے اس علمی معرکے کے خدو خال پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔زیادہ تر علم الکلام کے دائرہ بحث میں انہوں نے جن نکات پر گفتگو کی ہے، فکر اسلامی کی نمائندہ نئی نسل کی ان سے واقفیت ازبس ضروری ہے۔

موضوع کی انفرادیت کےعلاوہ اس پروگرام کی کچھ مزیدخصوصیات تھیں:پروگرام میں شریک اصحاب فکرو ودانش ہندوستان کی مختلف ریاستوں، شہروں اور حلقہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں فاضل خواتین کو بھی بھرپور نمائندگی دی گئی تھی۔ نیز یہ کہ اظہار فکر پر اس کے علاوہ کوئی بندش اور قدغن نہیں تھی کہ اپنی بات انتہائی حد تک اختصار کے ساتھ رکھی جائے۔ہرکسی کو مکمل فکری آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی آراوتجاویز پیش کرے۔

موضوع کے مختلف نکات پر گفتگو کے لیے چند سوالات متعین کیے گیے تھے۔ مقصود یہ تھا کہ خاص طور پر دعوت اسلامی کے تناظر میں ان فکری سوالات کے کن پہلوؤں پر تحقیق و تصنیف کی ضرورت ہے:

فرد کے تزکیے کے کون سے پہلو تشنہ ہیں؟

اسلامی خاندان کے اصلاح طلب پہلو کیا ہیں؟

اسلامی معاشرہ کی کن خوبیوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے؟

ہندوستانی سماج کو کن زاویوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے؟

اسلامی عقائد کو موجودہ عہد میں کیا سوالات درپیش ہیں؟ اور ان کے کن پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے؟

مسلم خاتون کے حوالے سے اسلامی فکر کو درپیش سوالات کیا ہیں؟

سیرت اور اسلامی تاریخ کو دورِ حاضر میں کس طرح پیش کیا جائے؟

دورِ جدید کے وہ کون سے نظریات ہیں جن پر تنقید ہونا باقی ہے۔

مختلف سوالات کے ذیل میں میں نے اپنی آرا پیش کیں۔چوں کہ وہاں تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کی گنجائش نہیں تھی، اس لیے خیال آیا کہ اس کی تلافی کی کوشش کی جائے۔ شاید اس سے ان موضوعات پر غور وفکر کی راہیں ہموار کرنے اور بحث وگفتگو کو آگے بڑھانے میں مدد حاصل ہو۔

فکر اسلامی کو درپیش سوالات کی فہرست طویل ہے اور یہ کوئی نیا ظاہرہ نہیں ہے۔ تقریبا ہر دور میں اسلامی فکر کو مختلف نوعیت کے سوالات اور چیلنجز درپیش رہے ہیں جو اپنی حساسیت اور سنگینی کے لحاظ سے آج درپیش سوالات سے کسی بھی طرح کم نہیں تھے جن سے وقت کے اصحاب علم و فکر نے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی۔

اس فکری نشست کے لیے جو سوالات منتخب کیے گئے تھے وہ اس تناظر میں بنیادی نوعیت کے نہیں ہیں۔بہت سے سوالات وہ ہیں جن کا تعلق فکری عقدہ کشائی کے بجائے عملی اصلاح سے ہے جیسے فرد کا تزکیہ،خاندان کی اصلاح اوراسلامی معاشرہ کےاوصاف و خصوصیات سے تعلق رکھنے والے موضوعات جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ دعوتی لحاظ سے ان سوالات کی اپنی اہمیت ہے جن پر گفتگو ضروری معلوم ہوتی ہے۔خاص طور پر اس سیاق میں کہ ان موضوعات کے کن گوشوں پر کام ہوا ہے اور کون سے ایسے گوشے تشنہ رہ گئے ہیں جن پر تصنیفی و تحقیقی کاوشوں کی ضرورت ہے؟ اسی طرح ہمارے علمی و فکری حلقوں میں سنجیدگی کے ساتھ اس سوال کو زیر بحث نہیں لایا گیا کہ وہ کون سے موضوعات ہیں جن پر مزید خامہ فرسائی تکرار محض اور ‘علمی اسراف’ کی حیثیت رکھتی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ ہمارے اصحاب علم و قلم کی زیادہ بڑی تعداد وہ ہے جو لہجے اور اسلوب کی تبدیلی کے ساتھ پیش پا افتادہ موضوعات پر داد تحقیق و تصنیف دینے کو علم پروری تصور کرتی ہے۔خاص طور پر اردو ناشرین کتب کی اکثر فہرست کتب کا جائزہ لے کر دیکھیں تو مجموعی تاثر یہ قائم ہوگا کہ نہ تو موضوعات میں کوئی جدت و تنوع ہے نہ ہی ان کے مشمولات میں کوئی نئی فکر یا تحقیق سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

( میں نے ایک مختصر تحریر میں اس کاجائزہ لیا تھا جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے:

http://alsharia.org/…/madaris-tasneef-tehqeeq-maulana…

یہ صرف عوامی اصلاحی لٹریچر کا حال نہیں ہے۔علمی موضوعات پر لکھی گئی تحریروں اور کتا بوں کا بھی کم وبیش یہی حال ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس پہلو پر اس فکری نشست میں باضابطہ بحث وگفتگو ہوتی کیونکہ یہ بحث براہ راست اس سوال سے مربوط ہے کہ ہمیں کن موضوعات کو دوسرے موضوعات کے مقابلے میں پوری اہمیت کے ساتھ مرکز توجہ بنانے کی ضرورت ہے۔

میرا احساس ہے کہ اوپر مذکور سوالات کا تعلق براہ راست فکری معرکہ آرائی یا الغزو الفکری سے نہیں ہے۔جس پر محترم امیر جماعت کے محولہ بالا مقالے میں توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ موضوعات فکری سے زیادہ عملی نوعیت کے ہیں۔ ایسے اصلاحی خطوط اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جن کے تحت انفرادی یا اجتماعی سطح پر ان حوالوں سے عملی نقشہ ترتیب دیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان سوالات سے متعلق اب تحریر و تصنیف کا کوئی بھی گوشہ تشنہ نہیں رہ گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ترجیحات کی فہرست میں وہ یقینا دوسرے اہم سوالات کے بعد آتے ہیں۔

فرد کے تزکیہ پر کام سے متعلق مختلف پہلو ذکر کیے گئے۔ ہر کام کی ضرورت ہے لیکن اکثر پہلو وہی تھے جو عملی نوعیت کے ہیں،جن کے لیے کسی مفکر کے قلم سے زیادہ کسی صاحب دل کی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جو فرد کے سوئے ہوئے احساس یا خودی کو بیدار کردے۔ اس احساس کا اظہار محترم امیر جماعت اسلامی نے بھی کیا۔

میں نے اس سوال پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس پہلو پر توجہ دلائی کہ تزکیے کا براہ راست تعلق فرد کی نفسیات کے مطالعہ سے ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسانی نفسیات اور شعور کو جس طرح مغرب کے حلقہ ہائے فکر میں مطالعہ کا موضوع بنایا گیا ہے ،اس کے مقابلے میں ہمارے علمی و فکری حلقوں میں اس کو کچھ اہمیت نہیں دی جا سکی۔انسانی شعور انسان کی ایک ارتقا پذیر صفت ہے۔ تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کا ارتقا ہوتا رہا ہے۔موجودہ احوال میں اسلامی فکر وفلسفے کے تناظر میں اِس کا مطالعہ ضروری ہے۔ مثلا پہلے فرد کی اخلاقی تربیت میں تخویف کے تربیتی محرک کو خصوصی اہمیت حاصل تھی اب انسان کی مزاجی و نفسیاتی ساخت اس تربیتی محرک کو پسند نہیں کرتی۔ انسانی جبلت اور نفسیات کے حوالے سے مغرب کے مادی نظریات مشرق و مغرب کے علمی و تدریسی حلقوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ مثلا فرائیڈ نے جنس(sex) کے حوالے سے انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ فرد کے نفسیاتی رجحان اور عملی رویوں کی تشکیل میں اس کی جنسی جبلت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے علمی حلقوں میں یہ یا اس موضوع سے متعلق نظریات کی تردید کا عمل تواتر کے ساتھ جاری رہا اور یہ ایک حد تک ضروری بھی تھا۔ لیکن متوازی سطح پر انسانی نفسیات کے مطالعے سے اسلامی فکر کے سیاق میں ایسے نظریات کو بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے جن سے انسانی شخصیت کی ترکیب میں شامل غیر مادی اور روحانی عناصر کی تفہیم میں مدد حاصل ہو سکے۔

ایک سوال یہ تھا کہ ہندوستانی سماج کو کن زاویوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔بعض حضرات نے بجا طور پر توجہ دلائی کے ہندوستانی معاشرت کو سمجھنے کے لئے ہندو مذہب کے مزاج اور خصوصیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے نسیم غازی صاحب کی گفتگو بہت عمدہ تھی۔( نو مسلم ہونے کی وجہ سے غازی صاحب ہندو مذہب و ثقافت اور نفسیات کا گہرا مطالعہ اور عملی تجربہ رکھتے ہیں)حقیقت یہ ہے کہ البیرونی کی “کتاب الہند” کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے تحقیقی و تجزیاتی کام اس موضوع پر نہیں ہوا ۔ہندوستانی مذاہب، مذاہب عالم یا خاص ہندومت کے تعارف پر مصنفین کی ایک تعداد خامہ فرسائی کرتی رہی ہے۔لیکن اکثر کتابیں ثانوی ماخذ کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہیں اور اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں کہ ہندو ازم کے مقابلے میں اسلام کی خصوصیات اور اس کے مذہب حق ہونے کو واضح کیا جاسکے۔ بجائے خود یہ منشا غلط نہیں ہے۔ لیکن اس زاویے سے کسی مذہب پر لکھی جانے والی کتب میں عموما متعلقہ مذاہب کے بہت سے ضمنی یا توسیعی پہلوؤں کو اساسی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ اور ایسے بہت سے اصول و کلیات سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے جن کو زیر مطالعہ مذاہب کی تفہیم میں بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔مدارس کے حلقوں میں یا تو تقابل ادیان یا مطالعہ مذاہب کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی یا پھر دوسری صورت میں اپنے طے شدہ فکری زاویے کے ماتحت اور اپنے اعتقادی اصول و نظریات کی روشنی میں دوسرے مذاہب بشمول ہندو مذہب کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

ہندوستانی سماج کے مطالعے کا ایک زاویہ نظر یہ ہے یا ہوسکتا ہے کہ ثقافتی سطح پر ہندو اور مسلمان معاشرت کے باہمی تبادلے اور تاثیر و تاثر کی کیا نوعیت رہی ہے، اس کو دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ ڈاکٹر تارا چند کی کتابInfuence of Islam on Indian Culture اور ڈاکٹر محمد عمر کی کتاب: “ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر”ثقافتی تبادلے کی اس نوعیت کو واضح کرتی ہے ۔ڈاکٹر عابد حسین کی کتاب” قومی تہذیب کا مسئلہ” اس موضوع پر بہت ہی اہم ہے۔ محض سیاسی نوعیت کے بیانیوں سے ہٹ کر باضابطہ اسلامی تہذیب کے تصوراتی سیاق میں اس موضوع کا مطالعہ ضروری ہے۔تاکہ اس کی بنیاد پر مشترکہ تہذیب کی حقیقت اور اس کے حدود سامنے آسکیں۔

مباحثے کا ایک عنوان یہ تھا کہ اسلامی عقائد کو موجودہ عہد میں کیا سوالات درپیش ہیں ؟ میں نے بتایاکہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سوالات کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے ۔پہلی نوعیت کے سوالات وہ ہیں جن میں تمام مذاہب، خاص طور پر تینوں سامی مذاہب مساوی ہیں۔ یہ سوالات وہ ہیں جن کا تعلق خود مذہب کی حقیقت سے ہے ۔سماجیات وبشریات کے میدان سے تعلق رکھنے والے مفکرین مغرب کی اکثریت یہ تصور رکھتی ہے کہ مذہب انسان کی اپنی سماجی ضرورت اور خوف کی پیداوار ہے۔ اس سے جڑے ہوئے اخلاقیات و ما بعد الطبیعیات سے تعلق رکھنے والے تمام تصورات کو وہ اسی تناظر میں دیکھتے ہیں ۔یہ چیلنج الحاد کے مقابلے میں تمام مذہبی کمیونٹیز کو درپیش ہے۔دوسری نوعیت کے سوالات وہ ہیں جن کا تعلق اسلام سے ہے ۔ان میں سب سے اہم نجات اخروی کا مسئلہ ہے۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ نجات اخروی کا واحد راستہ اسلام ہے ۔ہندوستانی مذاہب کے علاوہ موجودہ عیسائیت نے بھی ایک حد تک اس سے سمجھوتا کر لیا ہے اور وہ نجات یا سالویشن کو صرف مسیحی مذہب میں محصور تصور نہیں کرتی لیکن اسلام صرف اپنے حاملین تک اس کو مخصوص اس کے اثبات کے لیے عقلی استدلال کا منہج کیا ہو گا؟

جہاں تک مسلم خواتین کے حوالے سے اسلامی فکر کو درپیش سوالات کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اس موضوع سے متعلق بہت سے سوالات وہ ہیں جو کلامی دائرے میں آتے ہیں۔ یعنی یہ مسئلہ فقہ کا نہیں علم الکلام کا ہے کہ وہ اس تعلق سے پیدا ہونے والے سوالات کو موضوع بحث بناکر اپنا موقف طے کرے۔سرسری طور پر اس کو دو حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے:ایک عورت کی شخصیت کہ اس کو اسلامی فکر میں مرد کے مقابلے میں کئی پہلوؤں سے نصف حیثیت دی گئی ہے۔ جیسے دیت کے مسئلے میں کہ اسلامی شریعت میں عورت کی دیت مرد کے مقابلے میں نصف رکھی گئی ہے۔دوسرا مسئلہ عورت کے ناقص العقل ہونےکا ہےجس کی تشریح فقہا کے نزدیک یہ ہےکہ اس کے اندر چیزوں کا تجزیہ کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔اسلامی فقہ میں عورتوں سے متعلق بہت سے مسائل کا مدار اسی تصور پر ہے۔عرب علما کے علاوہ ہندوپاک سے تعلق رکھنے والے بہت سے مستند اور محقق علما (ابواللیث خیرآبادی، قاسمی،پروفیسر حدیث بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،ملیشیا، عمر عثمانی صاحب “فقہ القرآن” وغیرہ) نے اس موضوع پر نئے زاویے سے روشنی ڈالی ہے۔جس سے اس تعلق سے بحث کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔

دور حاضر میں فکر اسلامی کو درپیش سوالات میں سے اخیر کے زیر بحث دو سوالات یہ تھے:

  1. سیرت اور اسلامی تاریخ کو دور حاضر میں کس طرح پیش کیا جائے؟

2.دور جدید میں وہ کون سے نظریات ہیں جن پر تنقید ہونا ابھی باقی ہے؟

پہلے سوال کے تعلق سے مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب نے فرمایا کہ سیرت رسول کے ان پہلوؤں کو بنیاد بنا کر کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے تکثیری معاشرے میں اسلامی زندگی کو رہنمائی حاصل ہوتی ہو۔بلاشبہ یہ موضوع بہت اہم ہے۔ اس موضوع کا تعلق براہ راست رسول اللہ کی مکی زندگی سے تعلق رکھتا ہے جس پر بہت کم کام ہوا ہے۔اردو میں یاسین مظہر صدیقی رح کی کتاب “اسوہ نبوی: مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل” بہت اہم ہے ۔انگریزی میں طارق رمضان کی کتاب In the Footsteps of Prophet اس حوالے سے اچھی ہے۔ عربی میں بھی اس موضوع پر میری معلومات کی حد تک بہت اہمیت کے ساتھ نہیں لکھا جاسکا ہے۔ یہ احساس اصحاب دانش کے اکثر حلقوں میں پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ کی سیرت میں غزوات کے پہلو کو زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے۔ اس کا بہتر طور پر اظہار گفتگو میں سامنے آیا۔ یوں تو رسول اللہ کی سیرت کے ایسے متعدد پہلو ہیں جن پر مزید کام کی ضرورت ہے لیکن خاص طور پر دو پہلوؤں پر زیادہ ارتکاز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے: ایک آپ کی خانگی و ازدواجی زندگی اور دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ آپ کے تعلقات کی نوعیت۔ ان دو موضوعات کو زیادہ ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ کن نظریات پر تنقید کا فریضہ اب تک صحیح طور پر انجام نہیں دیا جا سکا ہے؟ بعض حضرات کا خیال تھا کہ ہمیں نظریات کی تنقید کو موضوع بنا کر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات بجائے خود غلط نہیں ہے لیکن دعوتی نقطہ نظر سے باطل کی تردید ضروری ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ موجودہ عہد میں باطل کی تردید کا اسلوب بدل گیا ہے۔ جس طرح مناظرے نے مکالمے کی شکل اختیار کر لی ہے اسی طرح ابطال باطل کا صحیح اسلوب و انداز ڈسکورس یا مباحثے کا انداز ہے۔جو بات اس انداز میں نہ کہی جائے وہ معنویت سے خالی اور بے اثر رہتی ہے۔ لیکن(باطل) نظریات کی تردید میں۔ترتیپ پانے والے لٹریچر پر یہی رنگ غالب ہے ۔

بہرحال اس بزم مباحثہ کو منعقد کرنے والے اصحاب علم وفکر قابل ستائش ہیں۔ میری تجویز ہے کہ خاص طور پر علم کلام کے حوالے سے فکر اسلامی کو جو چیلنجز درپیش ہیں ،ایک علمی مذاکرہ اس موضوع پر منعقد ہونا چاہیے تا کہ جدید علم کلام کے خد و خال کی تشکیل میں اس سے مدد حاصل ہو سکے ۔ مولانا مودودی علیہ رحمہ کے کام کی ایک جہت یہی تھی ۔اس لیے جماعت اسلامی کی طرف سے ایسی پیش رفت کے نتیجہ خیز ہونے کی توقع زیادہ ہے۔

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں