Home » کیا امام غزالی کی علت کی بحث میں تضاد ہے؟
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

کیا امام غزالی کی علت کی بحث میں تضاد ہے؟

 

ایک فیس بک لکھاری، جو خود کو علم فلسفہ کا ماہر گردانتے  اور الحادی فکر کی تبلیغ کرتے ہیں،  نے  مباحث علت پر امام غزالی (م 1111 ء ) کا ڈیوڈ ھیوم (م 1776 ء) کے خیالات سے موازنہ کرتے ہوئے امام غزالی پر یہ نقد کیا ہے کہ ” تهافت الفلاسفة ”  کتاب میں ایک جانب غزالی علت و معلول (cause and effect)  کے تعلق کا انکار کرتے ہیں مگر جب وجود خداوندی کے اثبات کی بحث آتی ہے تو علت اولی (first cause) کے تحت اسی تصور علت پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزالی کی طرح اگرچہ ڈیوڈ ھیوم نے بھی علت و معلول کے تعلق کا انکار کیا، تاہم وہ اپنے عقیدے کو بیچ میں نہیں لاتا بلکہ تشکیکیت (agnosticism) کے مقام پر قائم رہتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے پاس علت و معلول کی حقیقت جاننے کا کوئی علمی ذریعہ نہیں جبکہ غزالی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے  ایک طرف اس تعلق کو رد کرتے ہیں مگر ساتھ ہی خدا و کائنات کے مابین اسی تعلق کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ امام غزالی پر نقد کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں: “وہ لزوم جو آگ اور روئی کے جلنے میں نہیں ہے، وہی لزوم خدا اور کائنات کے درمیان کیسے در آیا ہے؟”

ان صاحب کے ایسے خیالات کو ہم موضوع خطاب نہ بناتے، تاہم محترم عمار خان ناصر صاحب نے ان  کی تائید کرتے ہوئے تبصرہ فرمایا ہے:

“آپ نے اعتراض کی بہت اچھی وضاحت کی ہے کہ اگر علت ومعلول کا رشتہ ہی نہیں مانا جا رہا تو پھر اسی تصور کی بنیاد پر علت اولی کا اثبات کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس کو گویا اشعری استدلال میں ایک داخلی تضاد کہا جا سکتا ہے کہ وہ معجزے کا امکان بتاتے ہوئے علت کے تصور کی نفی کرتے ہیں، لیکن خدا کا وجود ثابت کرنے کے لیے اسی علت کے تصور کو بنیاد بنا لیتے ہیں۔”

ان کے اس تبصرے سے ظاہر ہوتاہے  کہ اس بارے میں غلط فہمی عمیق ہے  اور مذہبی  فکر کے حاملین بھی اس کا شکار ہیں۔ لہذا کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں۔

تبصرہ

اس نقد پر ہمارا درج ذیل اصولی تبصرہ ہے:

  • پہلے یہ سمجھئے کہ متکلمین کے نزدیک علت و معلول کے تعلق کی حقیقت کیا ہے۔ ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے “احتیاج”، یعنی dependence۔
  • یہ احتیاج “ممکن الوجود” (possible being) کی ماہیت یا essence ہے، یعنی وہ وجود جس کا ہونا و نہ ہونا مساوی ہے۔ عدم سے حالت وجود میں آنے اور وجود میں آنے کے بعد اس میں برقرار رہنے ہر دو صورت کے لئے ممکن الوجود اپنے سے خارج میں کسی کا محتاج ہے۔ ممکن الوجود کے “خود بخود” اتفاق سے ہونے اور مسلسل ہوتے رہنے جیسے غیر معقول خیالات کو انسانی عقل پوری قوت کے ساتھ رد کردیتی ہے۔
  • ارسطو کا کہنا تھا علت و معلول کے مابین یہ “احتیاج” چار جہتی ہوسکتی ہے: مادی (material) ، صوری(formal) ، فاعلی (efficient) [1]و غائی (final) ۔ متکلمین، بشمول امام غزالی، کا کہنا ہے کہ حقیقی علت صرف “علت فاعلی” ہے کیونکہ مادہ و صورت از خود ممکن الوجود ہونے کی بنا پر احتیاج سے خالی نہیں لہذا یہ از خود اپنے سے باہر کسی دوسرے وجود کی حتمی توجیہہ نہیں ہوسکتے کہ یہ خود عدم سے وجود کے لئے اپنے سے خارج کسی حقیقت کے محتاج ہیں۔ یہی وہ بات ہے جسے امام غزالی یوں کہتے ہیں کہ اشیاء کے مابین اقتران (co-existence) ان کے مابین سببیت (causality) کی کوئی لازمی دلیل نہیں، یہ بالکل ممکن ہے کہ علت مادی یا صوری  تو پائی جائے مگر معلول نہ پایا جائے کیونکہ اشیاء کے اندر ایسی کوئی ذاتی صفات و تاثیرات موجود نہیں جو ناگزیر طور سے نتیجہ خیز ہوں بلکہ ممکنات (possible beings) کے مابین یہ تعلق خدا کے ارادے و حکم سے ظاہر ہوتا ہے۔
  • ممکن الوجود (محتاج موجودات) کا لامتناہی تسلسل اور دور ناقابل فہم ہے (اس کے دلائل کا یہ محل نہیں)، پس ماننا ہوگا کہ ممکنات کے اس سلسلے کا کوئی آغاز ہے۔ اس سے قبل یہ ممکنات جب معدوم تھیں تو لازما وجود کے لئے کسی علت (فاعلی) کی محتاج ہوں گی، ایسی علت جو خود کسی کی محتاج نہ ہو۔ یہ واجب الوجود ہستی (necessary being)  ہے جسے مانے بغیر عقل کے پاس ممکن کے وجود کی توجیہہ کا کوئی چارہ نہیں۔ یہاں سے ممکن (پوری کائنات) کی واجب الوجود ہستی پر مکمل احتیاج ظاہر ہوتی ہے، ممکن الوجود میں “ذاتی اوصاف” جیسے تصور کی انسانی عقل میں کوئی بنیاد موجود نہیں۔
  • اس سے معلوم ہوا کہ جب امام غزالی اور اشاعرہ علت کی نفی کرتے ہیں تو وہ علت فاعلی نہیں بلکہ علت مادی و صوری کے اس تصور کی نفی کرتے ہیں جو علت فاعلی سے آزاد حیثیت میں مؤثر ہو۔ اس کے برعکس جب وجود خداوندی کے اثبات پر بحث ہوتی ہے تو وہ علت فاعلی کی تاثیر کی بحث ہے۔ ناقد صاحب نے علت کے ان تصورات کو بری طرح خلط ملط کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ “وہ لزوم جو آگ اور روئی کے جلنے میں نہیں ہے، وہی لزوم خدا اور کائنات کے درمیان کیسے در آیا ہے؟”۔ اول الذکر میں جس لزوم کی نفی ہے وہ اپنی نوعیت میں اس سے الگ ہے جس کا دوسری میں اثبات ہے، بلکہ اول الذکر معاملے میں بھی متکلمین کو اسی تصور علت کی کارفرمائی پر اصرار ہے جو دوسرے میں کارفرما ہے۔

تهافت الفلاسفة ” چند اقتباسات

یہاں امام غزالی کی کسی اور کتاب نہیں بلکہ تهافت الفلاسفة کے بھی اسی باب کے چند حوالہ جات پیش کرتے ہیں جہاں امام صاحب نے علت و معلول کی حیثیت پر بحث کی ہے۔ چنانچہ جس بھی شخص نے صرف اسی ایک باب کو آنکھیں اور دماغ کھول کر پڑھا ہو وہ ابتدائی پیراگرافس ہی میں سمجھ لیتا ہے کہ غزالی کس تصور علت کی تردید کررہے ہیں۔

  • باب نمبر 17 کا پہلا پیراگراف: اس باب کی ابتداء امام صاحب یوں سے کرتے ہیں:

الاقتران بين ما يعتقد في العادة سبباً وما يعتقد مسبباً ليس ضرورياً عندنا بل كل شيئين ليس هذا ذاك ولا ذاك هذا، ولا إثبات أحدهما متضمن لإثبات الآخر ولا نفيه متضمن لنفي الآخر، فليس من ضرورة وجود أحدهما وجود الآخر ولا من ضرورة عدم أحدهما عدم الآخر مثل الري والشرب والشبع والأكل والاحتراق ولقاء النار والنور وطلوع الشمس والموت وجز الرقبة والشفاء وشرب الدواء وإسهال البطن واستعمال المسهل وهلم جرا إلى كل المشاهدات من المقترنات في الطب والنجوم والصناعات والحرف، وإن اقترانها لما سبق من تقدير الله سبحانه يخلقها على التساوق لا لكونه ضرورياً في نفسه غير قابل للفرق بل في المقدور خلق الشبع دون الأكل وخلق الموت دون جز الرقبة وإدامة الحيوة مع جز الرقبة وهلم جرا إلى جميع المقترنات

مفہوم: “ایسی چیزیں جنہیں عادتا سبب اور اثر کہا جاتا ہے، ہمارے نزدیک ان کا باہمی تعلق لازمی نہیں ہے۔ (بلکہ) ایسی چیزیں جو ‘یہ وہ اور وہ یہ نہیں’ یا ایک کا اثبات دوسرے کی نفی یا دوسرے کی نفی پہلے کے اثبات پر محمول نہ ہو (ان کے علاوہ) کسی ایک کا وجود کسی دوسرے کے وجود کو لازم نہیں کرتا اور کسی ایک کا عدم وجود دوسرے کے عدم وجود کو لازم نہیں کرتا (پھر کچھ مثالیں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں) ان کے مابین یہ تعلق خدا کے مقدر کرنے کی وجہ سے ہے جو انہیں ایک ساتھ پیدا کرتا ہے نہ کہ اس بنا پر کہ ان کے مابین کوئی لازمی تعلق ہے جس کا ختم ہونا ناممکن ہے بلکہ یہ امور اللہ کی قدرت میں شامل ہیں کہ کچھ کھائے بنا سیر ہو جانے کی کیفیت، سر کٹے بنا موت لاحق ہوجانے اور سر کٹنے کے باوجود موت نہ واقع ہونے اور ان جیسے امور کو رونما کرے”

ملاحظہ کیجئے کہ امام غزالی اس باب کے ابتدائی پیراگراف ہی میں قاری کو بتا رہے ہیں کہ وہ کس تصور علت کی نفی کرتے ہیں اور کس کا اثبات۔

  • اس کے بعد دوسرا پیراگراف پڑھئے جہاں وہ مدمقابل کا مدعا بیان کرکے اپنا جوابی موقف بتاتے ہیں:

وللكلام في المسألة ثلثة مقامات: المقام الأول أن يدعي الخصم أن فاعل الاحتراق هو النار فقط هو فاعل بالطبع لا بالاختيار فلا يمكنه الكف عما هو طبعه بعد ملاقاته لمحل قابل له. وهذا مما ننكره بل نقول: فاعل الاحتراق بخلق السواد في القطن والتفرق في أجزائه وجعله حراقاً أو رماداً هو الله إما بواسطة الملائكة أو بغير واسطة، فأما النار وهي جماد فلا فعل لها

مفہوم: “زیر بحث مسئلے کے تین پہلو ہیں۔ پہلا، مدمقابل کا یہ دعوی کہ جلانے کے عمل کی فاعل صرف آگ ہے جو طبعا (یعنی ذاتی خصوصیات کی بنا پر) جلاتی ہے نہ کہ ارادہ و اختیار سے اور اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ اپنی اس طبع کو ظاہر نہ کرے جبکہ اس کے قریب ایسی چیز لائی جائے جو اس کی جلانے کی صلاحیت کا اثر قبول کرنے والی ہو۔ ہم بعینہہ اسی دعوے کی نفی کرتے ہیں کیونکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ آگ کے ملاپ سے روئی کو جلانے کے عمل کی فاعل اللہ کی ذات ہے، چاہے یہ بذریعہ فرشتہ ہو یا بغیر فرشتہ۔ رہی آگ تو وہ نری جمادات میں سے ہے جس میں فعل (اثر انگیزی) کی کوئی صلاحیت نہیں”

کیا امام غزالی نے علت فاعلی کا انکار کیا ہے یا اثبات؟ آخر کون نہیں سمجھ سکتا کہ انکار کس تصور علت کا کیا ہے؟

  • امام غزالی نے تهافت الفلاسفة کے اس باب میں مخالفین سے تین زاویہ نگاہ سے بحث کی ہے (جیسا کہ اوپر اشارہ گزرا)۔ دوسرے زاویہ نگاہ پر پہلے ان کا موقف نقل کرتے ہیں:

المقام الثاني مع من يسلم أن هذه الحوادث تفيض من مبادئ الحوادث ولكن الاستعداد لقبول الصور يحصل بهذه الأسباب المشاهدة الحاضرة، إلا أن تيك المبادئ أيضاً تصدر الأشياء عنها باللزوم والطبع لا على سبيل التروي والاختيار صدور النور من الشمس، وإنما افترقت المحال في القبول لاختلاف استعدادها فإن الجسم الصقيل يقبل شعاع الشمس ويرده حتى يستضيء به موضع آخر والمدر لا يقبل والهواء لا يمنع نفوذ نوره والحجر يمنع وبعض الأشياء يلين بالشمس وبعضها يتصلب وبعضها يبيض كثوب القصار وبعضها يسود كوجهه، والمبدأ واحد والآثار مختلفة لاختلاف الاستعدادات في المحل كذى مبادئ الوجود فياضة بما هو صادر منها لا منع عندها ولا بخل وإنما التقصير من القوابل. وإذا كان كذلك فمهما فرضنا النار بصفتها وفرضنا قطنتين متماثلتين لاقتا النار على وتيرة واحدة فكيف يتصور أن تحترق إحديهما دون الأخرى وليس ثم اختيار؟ وعن هذا المعنى أنكروا وقوع إبراهيم في النار مع عدم الاحتراق وبقاء النار ناراً وزعموا أن ذلك لا يمكن إلا بسلب الحرارة من النار وذلك يخرجه عن كونه ناراً أو بقلب ذات إبراهيم وبدنه حجراً أو شيئاً لا يؤثر فيه النار، ولا هذا ممكن ولا ذاك ممكن

مفہوم:  “اب ہم اس شخص کے دعوے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کا کہنا یہ ہے کہ اثر پیدا کرنے کی صلاحیت مشاھدے میں آنے والے اسباب میں ہے اور ان اسباب سے لازمی طور پر نتائج کا ظہور ہوتا ہے جیسے کہ سورج سے غیر ارادی و ناگزیر طور سے روشنی کا ظہور ہوتا ہے نیز اشیاء ایک دوسرے سے اپنے ذاتی خصائص کی بنا پر ہی ممیز ہوتی ہیں (کچھ مثالیں دینے کے بعد کہتے ہیں) چنانچہ جب روئی کے ایک جیسے دو گالوں کو آگ کے قریب لایا جائے تو یہ کیسے مانا جاسکتا ہے کہ ایک تو جل جائے مگر دوسرا نہ جلے؟ پس اس بنا پر یہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ میں نہ جلنے پر شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا تبھی ممکن ہے جب یا تو آگ میں گرمائش و جلانے کی صلاحیت نہ ہو جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ آگ آگ نہ تھی اور یا یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کوئی پتھر یا اس جیسی شے میں تبدیل ہوگئے ہوں جس پر آگ اثر انداز نہ ہوتی ہو۔ ان کے نزدیک چونکہ یہ دونوں ہی امکان ممکن نہیں لہذا یہ واقعہ درست نہیں”

غور کیجئے کہ ڈیوڈ ھیوم اور اس کے بعد آج تک ہر ملحد و متشکک معجزوں کے خلاف اسی قسم کی باتیں کرتا ہے، ان کی باتوں میں ذرا برابر بھی جدت نہیں۔ اب امام غزالی کے جواب کا پہلا جملہ ملاحظہ کیجئے:

والجواب له مسلكان: الأول أن نقول: لا نسلم أن المبادي ليست تفعل بالاختيار وأن الله لا يفعل بالإرادة، وقد فرغنا عن إبطال دعواهم في ذلك في مسألة حدث العالم. وإذا ثبت أن الفاعل يخلق الاحتراق بإرادته عند ملاقاة القطنة النار أمكن في العقل أن لا يخلق مع وجود الملاقاة

مفہوم: “ان کے جواب کے دو طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ کائنات کا مبداء کوئی غیر ذی ارادہ ہستی ہے نیز اللہ تعالی بغیر ارادہ (طبعا) فعل سرانجام دیتے ہیں۔ ہم مسئلہ حدث عالم میں فلاسفہ کے ان دعووں کا ابطال کرچکے ہیں (کہ کائنات کا مبدا کوئی غیر ارادی علت ہے)، پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاعل حقیقی (یعنی اللہ کی ذات) جلانے کا عمل اپنے آزاد و خود مختار ارادے کے تحت سر انجام دیتا ہے (نہ کہ کسی طبعی قانون کی پابندی کرتے ہوئے) تو عقل نے یہ جان لیا کہ ایسا ہونا بالکل ممکن ہے کہ آگ اور جسم کا ملاپ تو ہو مگر اللہ تعالی جلانے کا ارادہ نہ فرمائیں، لہذا جلانے کا عمل رونما نہ ہو”

بتائیے ہے کوئی ابہام؟ یہاں یہ بات بھی نوٹ کیجئے کہ امام غزالی نے تهافت الفلاسفة کے پہلے باب میں یہ بحث کی ہے کہ کائنات کا حدوث ایک ایسی ھستی سے ماننا کیوں کر لازم ہے جو “با ارادہ فاعل” ہو۔ پھر باب نمبر 3 میں اس نکتے پر بحث کرتے ہیں کہ فلاسفہ جس علت کا نام خدا رکھتے ہیں وہ ایک بے جان و غیر ذی ارادہ قانون کا نام ہے اور یہ قطعا وہ تصور خدا نہیں جسے اہل اسلام خدا کہتے ہیں، یعنی “فاعل خود مختار”۔ درج بالا تیسرے پیراگراف میں امام غزالی اسی بحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ اصول ہم پچھلے ابواب میں ثابت کرچکے ہیں اور اسے ماننے سے لازمی طور پر علت و معلول کی حقیقت کے بارے میں وہ درست تصور جنم لیتا ہے جو باب نمبر 17 میں زیر بحث ہے۔ چنانچہ اس قسم کی باتیں کہ غزالی موجودات کے خدا کے ارادے کے تحت ہونے کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ آگ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نہیں جلایا تھا نیز یہ کہ غزالی نے ایک طرف علت و معلول کے تصور کا انکار کردیا اور دوسری طرف اسے مان لیا، یہ کوئی ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جس نے امام غزالی کی کتاب و فکر کو سمجھ کر پڑھنے کی زحمت نہ کی ہو۔ اچھی طرح سمجھ رکھنا چاہئے کہ متکلمین علت و معلول کی بحث میں یوں استدلال نہیں کرتے کہ “چونکہ معجزہ نبی سے منقول ہے اور ہمارا نبی کی سچائی پر ایمان ہے، لہذا ہم مانتے ہیں کہ علت و معلول کا تعلق خدا کے اذن سے ہے۔” علم کلام سے متعلق ایسے علمی شگوفے صرف وہی شخص چھوڑ سکتا ہے جسے متکلمین کے نظام فکر سے قطعا مناسبت نہ ہو۔ اس کے برعکس متکلمین معجزے کا امکان کائنات پر خدا کے ارادے و اذن کی بالادستی کے عمومی اصول سے اخذ کرتے ہیں۔ یعنی جب پہلے قدم پر یہ ثابت کیا جاچکا کہ ممکن الوجود ہر حال میں واجب الوجود کا محتاج ہے نیز ممکنات کے اقتران سے ذھن میں ان کے مابین علت و معلول کا جو تعلق ابھرتا ہے وہ از خود مؤثر نہیں مانا جاسکتا کہ ممکن از خود مؤثر ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو پھر اس سے یہ نتیجہ خود بخود اخذ ہوتا ہے کہ جس ارادہ خداوندی سے الف ب کے ساتھ پایا جاتا ہے آخر اسی ارادہ خداوندی سے اس اقتران کے ختم ہوجانے میں کونسی چیز عقلا محال ہے؟ دوسری بات یہ یاد رہے کہ متکلمین کے نظام فکر میں معجزے کے امکان پر بحث نبی پر ایمان کے بعد نہیں بلکہ اس سے پہلے کا مرحلہ ہے۔

دھیان رہے کہ یہاں ہم نے باب نمبر 17 کے صرف تین سے چار صفحات سے چند اقتباسات پیش کئے ہیں۔

تصور سببیت اور متکلمین و غزالی کا انداز  فکر

سببیت یا علیت کا تصور متکلمین اور امام غزالی کی فکر میں کس قدر گہرائی کے ساتھ رچا بسا ہے نیز اس سے وہ کیا مراد لیتے ہیں، اس کے لئے امام غزالی کی کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد  کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے جو آپ نے وجود خداوندی کی دلیل کے ضمن میں تحریر کیا:

الدعوى الأولى: وجوده تعالى وتقدس، برهانه أنا نقول كل حادث فلحدوثه سبب، والعالم حادث فيلزم منه إن له سبباً، ونعني بالعالم كل موجود سوى الله تعالى. ونعني بكل موجود سوى الله تعالى الأجسام كلها وأعراضها، وشرح ذلك بالتفصيل أنا لا نشك في أصل الوجود، ثم نعلم أن كل موجود اما متحيزاً أو غير متحيز، وأن كل متحيز إن لم يكن فيه ائتلاف فنسميه جوهراً فرداً، وإن ائتلف إلى غيره سميناه جسماً، وإن غير المتحيز أما أن يستدعي وجوده جسماً يقوم به ونسميه الأعراض، أو لا يستدعيه وهو الله سبحانه وتعالى، فأما ثبوت الأجسام وأعراضها، فمعلوم بالمشاهدة، ولا يلتفت إلى من ينازع في الأعراض وإن طال فيها صياحه وأخذ يلتمس منك دليلاً عليه، فإن شغبه ونزاعه والتماسه وصياحه، وإن لم يكن موجوداً فكيف نشتغل بالجواب عنه والإصغاء إليه، وإن كان موجوداً فهو لا محالة غير جسم المنازع إذ كان جسماً موجوداً من قبل، ولم يكن التنازع موجوداً فقد عرفت أن الجسم والعرض مدركان بالمشاهدة. فإما موجود ليس بجسم ولا جوهر متحيز ولا عرض فيه فلا يدرك بالحس ونحن ندعي وجوده وندعي أن العالم موجود به، وبقدرته، وهذا يدرك بالدليل لا بالحس، والدليل ما ذكرناه، فلنرجع إلى تحقيقه. فقد جمعنا فيه أصلين فلعل الخصم ينكرهما، فنقول له: في أي الأصلين تنازع؟ فإن قال إنما أنازع في قولك إن كل حادث فله سبب فمن أين عرفت هذا، فنقول: إن هذا الأصل يجب الاقرار به، فإنه أولي ضروري في العقل

مفہوم : “پہلا دعوی: وجود خداوندی۔ اس دعوے کی دلیل یوں ہے:

1۔  ہر حادث کا سبب (یا علت) ہوتی ہے

2۔  کائنات حادث ہے

نتیجہ: پس لازما کائنات کا سبب ہے

کائنات سے ہماری مراد ماسواء اللہ سب کچھ ہے اور اس ماسواء اللہ میں اجسام اور ان کی اعراض شامل ہیں ۔۔۔ (پھر کچھ تعریفات نیز وجود سے متعلق گروہ متشککین کی اصولی تردید کے بعد کہتے ہیں) ۔۔۔ اجسام و اعراض کا یہ علم مشاہدے سے متعلق ہے جبکہ وہ وجود جو نہ جسم ہے اور نہ عرض تو اس کا ادراک بذریعہ حسی مشاہدہ ممکن نہیں۔ تاہم ہم اس وجود کے ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ سارا عالم دراصل اسی کی قدرت سے موجود ہے، اس وجود کا ادراک دلیل (عقلی) سے ہوتا ہے نہ کہ حسی مشاہدے سے۔ اس وجود کی دلیل کو ہم نے دو مقدمات میں بند کیا ہے، بتاؤ تمہیں ان میں سے کس پر اعتراض ہے؟ اگر ناقد کہے کہ آخر پہلے مقدمے “ہر حادث کا سبب ہوتا ہے” کا علم کیسے ہوا، تو ہم کہیں گے کہ اس مقدمے کا اقرار کیا جانا عقلا واجب ہے کیونکہ اس میں کہی گئی بات اولیات عقل (aprioris or axioms of reasons) میں سے ہے”

ملاحظہ کیجئے کہ امام صاحب علیت کے تصور کو aprioris or axioms of reasons قرار دے رہے ہیں۔ [2]کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ تهافت الفلاسفة میں آپ مجرد تصور علت ہی کی نفی کررہے ہوں گے؟ اس قسم کے شگوفوں کی علم کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں، یہ صرف اور صرف متکلمین کے نظام فکر سے ناواقفیت کی علامت ہے اور اس ناواقفیت کی وجہ علم کلام کی کوئی کتاب نہ پڑھنا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ جب امام غزالی علت کے تصور کی نفی کرتے ہیں تو وہ اس کے ایک خاص و غیر عقلی تصور کی نفی ہوتی ہے۔ علیت کے تصور سے آپ کی کیا مراد ہے نیز یہ کیوں کر اولیات عقلیات میں سے ہے، امام غزالی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

ومن يتوقف فيه فإنما يتوقف لأنه ربما لا ينكشف له ما نريده بلفظ الحادث، ولفظ السبب، وإذا فهمهما صدق عقله بالضرورة بأن لكل حادث سبباً، فانا نعني بالحادث ما كان معدوماً ثم صار موجوداً فنقول وجوده قبل أن وجد كان محالاً أو ممكناً، وباطل أن يكون محالاً لأن المحال لا يوجد قط، وإن كان ممكناً فلسنا نعني بالممكن إلا ما يجوز أن يوجد ويجوز أن لا يوجد ولكن لم يكن موجوداً لأنه ليس يجب وجوده لذاته إذ لو وجد وجوده لذاته لكان واجباً لا ممكناً، بل قد افتقر وجوده إلى مرجح لوجوده على العدم حتى يتبدل العدم بالوجود. فإذا كان استمرار عدمه من حيث أنه لا مرجح للوجود على العدم، فمن لم يوجد المرجح لا يوجد الوجود، ونحن لا نريد بالسبب إلا المرجح: والحاصل أن المعدوم المستمر العدم لا يتبدل عدمه بالوجود ما لم يتحقق أمر من الأمور يرجح جانب الوجود على استمرار العدم، وهذا إذا حصل في الذهن معنى لفظه كان العقل مضطراً إلى التصديق به.

مفہوم: ” جو کوئی اس پہلے مقدمے میں اختلاف کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ اسے سبب اور حادث کے وہ معانی معلوم نہ ہوں جو ہم ان سے مراد لیتے ہیں، جونہی اسے یہ معانی معلوم ہوں گے وہ لازما اس مقدمے کو قبول کرے گا کہ ہر حادث کا سبب ہوتا ہے۔ حادث کا مطلب وہ شے ہے جو عدم سے وجود میں آئے۔ چنانچہ وجود میں آنے سے قبل اس کا موجود ہونا یا محال ہوگا اور یا ممکن۔ عدم سے وجود میں آنا محال نہیں ہوسکتا کیونکہ جو محال ہو وہ وجود میں آ ہی نہیں سکتا (جبکہ بات ہی حادث کی ہورہی ہے جو وجود میں آئے)۔ اور اگر وہ شے ممکن ہو تو ممکن کا معنی وہ شے ہے جس کا ہونا اور نہ ہونا دونوں اطراف جائز ہوں کیونکہ وہ واجب نہیں ہوتا کہ اگر واجب ہوتا تو پھر معدوم نہ ہوتا (کہ واجب وہ ہے جس کا نہ ہونا محال ہو)۔ ممکن کے معدوم ہونے کی وجہ مرجح (prepondrant) کا نہ ہونا ہوتا ہے، مرجح کا مطلب وہ شے ہے جو دو مساوی امکانات میں سے کسی ایک جانب کے لئے وجہ ترجیح ہو۔ جب تک معدوم کے لئے وجہ ترجیح نہ ہو وہ معدوم رہتا ہے (یعنی عدم اس پر طاری رہتا ہے)۔ پس سبب سے ہماری مراد یہی وجہ ترجیح ہے (جو ممکن کی اس احتیاج کو پورا کردے کہ وہ معدوم سے موجود ہوسکے)۔ خلاصہ گفتگو یہ کہ جو معدوم تھا وہ معدوم ہی رہے گا یہاں تک کہ کوئی وجہ ترجیح (سبب) اسے عدم سے وجود میں لائے۔ الغرض جونہی ان دو الفاظ کے معانی واضح ہوں گے عقل لازما اس مقدمے کی تصدیق کرے گی۔”

امام غزالی اس کتاب میں آگے جاکر واضح کرتے ہیں کہ کائنات کو عدم سے وجود سے متصف کرنے والی وجہ ترجیح (سبب) واجب الوجود کا ارادہ ہے، اس کے سواء حادث کے وجود کی توجیہہ کی کوئی قابل لحاظ اور معقول توجیہہ ممکن نہیں اور  تهافت الفلاسفة کے باب نمبر 1 میں بھی امام صاحب اس پر تفصیلی بحث کرتے ہیں۔

خلاصہ بحث

خلاصہ کلام یہ کہ اشاعرہ و امام غزالی جب علت و معلول کے تصور کی نفی کرتے ہیں تو وہ کلیتاً علیت (احتیاج) کے تصور کی نفی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اس گمراہ کن و غیر عقلی تصور کی نفی ہوتی ہے جسے الحاد پسند مفکرین اپنی کم عقلی کے باعث فلسفیانہ حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جناب ناقد نے متکلمین و غزالی کی فکر کا احاطہ کئے بغیر ہی نقد کا شوق پورا فرمایا ہے۔

حواشی

[1] متکلمین کی اصطلاح کی رعایت کرتے ہوئے علت فاعلی کا درست انگریزی ترجمہ agent ہونا چاہئے کیونکہ efficient cause سے مراد مجرد علت اولی ہے جبکہ متکلمین اس سے محض علت اولی کے بجائے ایسی ہستی مراد لیتے ہیں جو قدرت، علم ، حیات  و ارادے کی صفات سے متصف ہے۔

[2] مغربی فلاسفہ میں کئی صدیوں بعد کانٹ اس تصور کا نام synthetic apriori  رکھتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں