Home » نیپال کا سفر اور افکار تازہ – 3
احوال وآثار اسلامی فکری روایت مدرسہ ڈسکورسز

نیپال کا سفر اور افکار تازہ – 3

مولانا ڈاکٹر  نعیم الدین الازہری

 

وركشاپ کے آخري تين ایام کی روداد :

نیپال میں جاری تحقیقی ورکشاپ میں  گذشتہ تین ایام میں  کافی بھرپور علمی سرگرمی رہی ، یہاں ان تینوں ایام کی سرگرمیوں کی کچھ تفصیل پیش کی جا رہی ہے ۔

جمعہ کے دن ہم نے ہوٹل میں ہی باجماعت جمعہ ادا کیا ، کیونکہ قریب قریب کوئی مسجد نہ تھی ۔ نیپال کے کچھ مقامی علماء ملاقات کے لیے آئے تو ان سے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ نیپال میں مسلمانوں کی صورتحال بہتر ہے ۔ تعداد میں تو اگرچہ چار فیصد ہیں اور مزید اضافہ نہیں ہو رہا  ، لیکن ان کو حکومت کی طرف سے مذہبی شعائر ادا کرنے کی کافی حد تک آزادی ہے۔ وہ جلسے اور مذہبی اجتماعات کر سکتے ہیں ۔ قربانی میں گائے کے علاوہ باقی جانوروں کی قربانی کر سکتے ہیں ۔  لیکن پڑوسی ملک انڈیا میں جس طرح بتدریج ہندتوا نظریے کے زیر اثر مذہبی آزادی کی حدود کو تنگ کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے ، اس کے اثرات مستقبل میں نیپال کے مسلمانوں پر بھی ہو سکتے ہیں۔

فیمنسٹ ڈسکورس اور اسلام :

27 اگست کو پہلے سیشن میں انڈیا سے تشریف لائی مسلمان اسکالر ڈاکٹر ثمینہ صاحبہ نے انڈیا میں موجود خواتین کے دینی مدارس کا جائزہ پیش کیا ۔

ان کا موضوع تھا :

The role of women in madrasa today

انہوں نے بتایا کہ دینی مدارس کو اپنے نصاب تعلیم کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کے نصاب میں سیرت کی مباحث سے کتاب المغازی کو پڑھایا جاتا ہے ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر معاشی اور معاشرتی اصول و اخلاقیات پڑھائے جائیں تو وہ زیادہ مفید ہو سکتے ہیں ۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ جو اصولی مباحث اور ادق علوم ہیں، وہ صرف مرد حضرات پڑھاتے ہیں جس سے عورتوں میں یہ تأثر پیدا ہو گیا ہے کہ ہم مشکل کتابیں اور مباحث پڑھا ہی نہیں سکتیں ، اس معاملے میں بھی محنت کے ساتھ خواتین معلمات کی تیاری کروانا ضروری ہے تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو سکے ۔

اس دوران یہ بھی کہا گیا کہ مردوں کے مدارس نے تو برصغیر کو بہت علماء اور مدرسین تیار کر کے دیے جبکہ خواتین کے مدارس کوئی قابل ذکر معلمات ، مدرسات اور داعیات تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔  ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا نام لیا گیا کہ جس معیار کے ساتھ انہوں نے دعوت و تربیت کا کام کیا ہے ، اس معیار اور اعتماد کے ساتھ بات کرنے والی مزید مبلغات کی معاشرے میں  بہت ضرورت ہے ۔

مغرب کی طرف سے فیمنزم اور تانیثیت و نسوانیت کے نام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے اور عورتوں کو آزادی حاصل کرنے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ عورت بہت مظلوم ہے۔ اس کے پاس اتھارٹی نہیں ۔ پدرسری معاشرہ ہے ، مرد کو غلبہ حاصل ہے ، خواتین سے صرف گھریلو کام کروائے جاتے ہیں   اور ان کو  مساوی حقوق نہیں دیے جاتے ۔

ان سوالات کے حوالے سے راقم نے عرض کیا کہ ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں ایسے مسائل موجود ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر مسائل ہندو تہذیب کے اثرات ہیں جن کے زیر اثر خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ہورہا ہے  ۔ اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ جن معاشروں اور خاندانوں میں اسلامی تعلیمات کے اثرات موجود ہیں، وہاں خواتین بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہیں ۔

اسلام نے مرد اور عورت کو مقام و مرتبے میں مساوات عطا کی ہے اور دونوں کو اپنی بارگاہ تک رسائی کے مواقع یکساں طور پر عطا فرمائے ہیں ۔  لیکن اسلام نے مرد اور عورت کی ذمہ داریوں کو الگ الگ بیان کیا ہے ۔  رجال کو قوام بنایا کہ وہ گھر کے نان و نفقہ اور معیشت کے ذمہ دار ہیں تاکہ ضروری چیزیں محنت کر کے فراہم کریں اور عورت کو گھریلو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عورت شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم ، روزگار اور معاشرتی معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے ۔

یورپ نے عورت کی آزادی کا نعرہ نہیں لگایا درحقیقت عورت تک پہنچنے کی آزادی کی بات کی ہے جسے کچھ خواتین اپنا بھلا سمجھ بیٹھی ہیں ۔

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے

قبض کی روح تیری دے کہ تجھے فکر معاش

عورت جب تک جوان رہتی ہے، یورپی معاشرے میں اس کی قدر موجود رہتی ہے لیکن جب وہ عمر رسیدہ ہو جائے تو اس کو اولڈ ہاوسز کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ جبکہ اسلام کے مطابق عورت جیسے جیسے بچوں کی ماں بن کر بزرگ ہوتی جاتی ہے، اس کی قدر و منزلت اور احترام میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔

پوسٹ اسلام ازم :

27 جولائی کو ہمارا دوسرا سیشن پوسٹ اسلام ازم کے متعلق تھا ۔ اس پر گفتگو کرنے کے لیے ڈاکٹر حسن الامین صاحب ڈائریکٹر آئی آر ڈی اسلام آباد کو دعوت دی گئی ۔

برصغیر اور دیگر اسلامی معاشروں میں گذشتہ دور میں نفاذ اسلام کی تحریکیں چلیں، انہوں نے اسلامی نظام خلافت اور حکومت کے قیام کے بارے میں بہت کچھ لکھا ، اس کے نتیجے میں وہ نفاذ اسلام تو نہ کر سکے لیکن ان کی کوکھ سے شدت پسند تحریکوں نے جنم لیا ، جو داعش ، القاعدہ ، طالبان ، اخوان المسلمون وغیرہ کی شکل میں سامنے آئیں اور شدت پسندی کو فروغ ملا ۔

عصر حاضر کے مفکرین نے اس کو اسلام ازم قرار دیا ، اور یہ مفروضہ قائم کیا کہ اسلام ازم اپنی کوشش کر کے ناکام ہو چکا ، اب ہم پوسٹ اسلام ازم کے دور میں آ چکے ہیں ۔ اب ہمیں مان لینا چاہیے کہ اسلامی نفاذ کو خواب دیکھنے کی بجائے ، جو قوتیں اور حقیقتیں موجود ہیں ان کے ساتھ پر امن طریقے سے کیسے co-exist کیا جائے ۔  اسلامی ممالک میں پوسٹ  اسلام ازم کی نمائندگی میں  تیونس کے راشد الغنوشی ، پاکستان سے جاوید احمد غامدی اور ان کے  ہمنوا اور اسی طرح ڈاکٹر فضل الرحمن اور دیگر بہت سارے نام لیے جاتے ہیں ۔

راقم الحروف کا اس حوالے سے تجزیہ یہ ہے کہ پوسٹ اسلام ازم کا مفروضہ گھڑنے کی زحمت ان لوگوں اور جماعتوں کو کرنی پڑی جن کا تعلق ماضی میں شدت پسند تحریکوں سے کسی نہ کسی شکل میں رہا ہے ۔  بہت سے حضرات پہلے دور میں جماعت اسلامی یا کسی ایسی جماعت سے متعلق رہے جنہوں نے بڑی شد ومد سے اقامت دین اور خلافت علی منھاج النبوت کی بات کی ، لیکن اس سلسلے میں روڈ میپ اور حکمت عملی واضح نہ ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی تھک گئے اور اب پوسٹ اسلام ازم کے پہلو میں پناہ تلاش کر رہے ہیں ۔

لیکن وہ علمی تحریکیں ، ادارے اور شخصیات جنہوں نے آغاز سے ہی اعتدال و وسطیت کا منہج اپنایا اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی دعوت دی، وہ اس قسم کے مفروضے گھڑتے اور تقسیمات قائم کرتے نظر نہیں آئیں گے ۔  اس سلسلے میں جامعۃ الازھر،  مصر ، پاکستان میں دار العلوم محمدیہ غوثیہ ، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازھری رحمۃ اللہ علیہ  ، جسٹس تقی عثمانی اور ہمارے اکثر علماء اور کئی اکثر اداروں کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جو شروع سے ہی حقیقت پسندانہ رجحان سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔

میں یہاں پاکستان کے مشہور عالم دین شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کی مثال دینا چاہوں گا ۔  ایک دفعہ کسی نے ان سے پوچھا : حضرت بہت ساری دینی جماعتوں کے جہادی ونگ موجود ہیں ، آپ نے اہلسنت کا کوئی جہادی ونگ کیوں نہیں بنایا ؟ نورانی صاحب نے فرمایا : ہمارا جہادی ونگ موجود ہے ہمیں الگ سے بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔ پوچھا گیا کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : پاک آرمی ہمارا جہادی ونگ ہی ہے۔ جس جس کو جہاد کا شوق ہے، اس کا حصہ بن جائے ۔

28 جولائی

تعددیت و تکثریت کے متعلق اسلامی نقطہ نظر :

اس سلسلے میں انڈیا سے علامہ سیف الہادی صاحب نے گفتگو کی اور ایک مستشرق یوہانن فرائڈمن کی کتاب Tolerance and Coercion in Islam کا جائزہ لیا گیا ۔  اس کتاب میں انہوں نے بردباری اور جبر وتشدد کے متعلق اسلامی نظریات کو پیش کیا ہے ۔

انہوں نے ایک استشراقی نقطہ نظر کے ساتھ اسلامی لٹریچر احادیث اور فقہ سے ایسی روایات کو چنا ہے جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مکی دور میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم اہلِ کتاب اور مشرکین کے ساتھ رواداری کا اظہار کرتے تھے لیکن مدنی دور میں جب قوت حاصل ہو گئی تو (نعوذ باللہ ) ہر قسم کی رواداری کو چھوڑ دیا ۔

اس بیانیے کو تشکیل دینے کے لیے انہوں نے بہت ساری موضوع ، ضعیف ، متروک اور ساقط الاعتبار روایات کا سہارا لیا ہے  جس میں “قصۃ الغرانیق” والی روایت سر فہرست ہے ، جہاں مستشرقین کہتے ہیں کہ مکہ میں  قرآن پڑھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے نعوذ باللہ جان بوجھ کر ایسے جملے شامل کر دئیے جن سے مشرکین کو خوش کرنا مقصود تھا ۔( نقلِ کفر کفر نہ باشد)

اس کتاب کو اس غرض سے پڑھنا علماء کے لیے ضروری ہے کہ دور جدید کے مستشرقین اور مغربی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو مسکت علمی جوابات دیئے جا سکیں ۔ لاہور میں ڈاکٹر سمیع اللہ فراز صاحب اس کا اردو ترجمہ کر رہے ہیں جو ان اعتراضات کو سمجھنے اور رد عمل دینے میں علماء کے لیے مفید ثابت ہو گا ۔

29 جولائی

 عقل اور دینیات ، جاحظ اور امام حارث المحاسبی کا تقابلی مطالعہ :

اس موضوع پر گفتگو کے لیے لبنان سے تعلق رکھنے والے اسکالر ڈاکٹر حسین عبد الساتر کو مدعو کیا گیا ، انہوں نے یہ بتایا کہ عقل کی اہمیت اور عقل کی ماہیت و حقیقت کے متعلق جاحظ نے اپنی کتاب “حجج النبوۃ” میں ، اور امام حارث المحاسبی نے “مائیۃ العقل” میں کافی روشنی ڈالی ہے ۔

امام حارث المحاسبی دوسری اور تیسری صدی ہجری کے عظیم صوفی ، عالم اور اصولی تھے ۔ وہ حضرت امام احمد بن حنبل کے معاصر اور حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کے استاد تھے ۔ دو سو کےقریب کتب اور رسائل تصنیف فرمائے ، ان کی کتاب ” رسالۃ المسترشدین ” صوفیاء کے حلقے میں بہت معروف ہے ۔

جاحظ معتزلہ سے تعلق رکھنے والے مشہور  عالم اور ادیب تھے ۔ ان کی کتابیں الحیوان ، البیان و التبیین عربی زبان و ادب کو سمجھنے بہت مفید ہیں ۔ انہوں نے زیادہ فلسفیانہ اور عقلی استدلالات کو اختیار کیا ہے جبکہ محاسبی نے تزکیہ نفس اور اصلاح احوال پر زیادہ گفتگو فرمائی ہے ۔ ان دونوں کی کتب کے مابین مقارنۃ کرنے سے معلوم ہوا کہ اس دور کے مصنفین ایک دوسرے کی کتب سے کیسے استفادہ کرتے تھے ۔ اور تصحیف و تحریف کا ان کتابوں میں کیا دخل ہے ۔

30 جولائی

امام الحرمین جوینی رحمہ للہ کے افکار کا مطالعہ :

پہلے سیشن کا عنوان کچھ یوں تھا :

Religious Authority in times of cricis

اس عنوان کے تحت لیکچر ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب نے دیا , اس میں امام الحرمین الجوینی رحمة اللہ علیہ کی ایک مشہور کتاب کا تجزیہ پیش کیا گیا ۔ کتاب کا نام ہے

“غیاث الامم فی التیاث الظلم ”

اس کتاب میں امام الحرمین نے حکمرانوں اور علماء کے مابین تعلق کی نوعیت کو بیان کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں  عوام کی مصلحت کے لیے حکمرانوں کے اختیارات و اقتدار بھی ضروری ہے اور علماء کا شرعی کردار بھی اہم ہے ۔ کیونکہ مسلم معاشروں کی بقاء میں دونوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اس کتاب کے تیسرے باب کا عنوان ہے : خلو الزمان عن المفتیین و نقلۃ المذاھب ” ۔ اس میں انہوں نے فرمایا : علماء اگر معاشرے میں اپنا صحیح کردار ادا کر رہے ہوں تو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ چار متوقع صورتیں ہو سکتی ہیں۔

1- معاشرے میں مجتہد امام اور علماء موجود ہوں جو براہ راست نصوص سے استدلال کر سکتے ہوں ، جیسا کہ أئمہ اربعہ کے دور میں تھا ۔

2 – مجتہد مطلق أئمہ موجود نہ ہوں بلکہ ان کی جگہ مذاہب فقہ کو نقل کرنے والے علماء موجود ہوں ، ان کو جوینی نے نقلۃ المذاہب کہا ہے ۔

3- اگر ایسا زمانہ آ جائے کہ نقلۃ المذاہب یعنی مذاہب فقہ اور مسائل کو بیان کرنے والے علماء بھی نہ رہیں اور عوام کو دین کے مرکزی عنوانات اور بنیادی ضابطوں کا پتہ ہو تو وہ اپنی عقل اور کامن سینس سے اس پر عمل کریں ۔  اس کی پھر ممکنہ صورتیں فرض کر کے امام جوینی نے طہارت ،  نماز ، عبادات کے طریقے اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں ۔

4- اگر خدانخواستہ ایسا دور آجائے کہ زمانے سے اصل شریعت بھی مفقود ہو جائے ، صرف کلمہ پڑھنے والے لوگ بچ جائیں تو پھر لوگ اتنے ہی  مکلف ہوں گے جتنا دین کا علم اس دور میں باقی رہ گیا ہوگا۔

اس کتاب میں امام جوینی نے یہ بھی بیان فرمایا کہ سب سے اچھا تو یہ ہے کہ حکمران خود عالم بھی ہوں تاکہ دنیاوی اور دینی سلطہ اس میں جمع ہو جائے ۔  لیکن اگر حکمران کو دین کے اصولوں کا پتہ نہ ہو تو پھر وہ علماء سے راہنمائی حاصل کریں ۔

انہوں نے نتیجہ یہ بھی نکالا کہ اگر کسی دور میں حکمرانوں کی طاقت کمزور پڑ جائے یا موجود نہ ہوں اور ان کی غیر موجودگی میں انارکی کی کیفیت پیدا ہونے لگے تو حکمرانوں کے اختیارات علماء کو منتقل ہو جائیں گے ۔  الغرض سیاست اور دین کے باہمی تعلق کو بیان کرنے کے لیے یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔

آخری سیشن : 31 جولائی

امام غزالی بحیثیت فقیہ :

ورکشاپ کے آخری سیشن میں ڈاکٹر ابراہیم موسی نے ( جو اس پروگرام کے ڈائریکٹر بھی ہیں ) امام غزالی کی کتاب المستصفی سے تقلید کے متعلقہ مباحث پر گفتگو کی۔   اس کتاب میں دین کے بنیادی مصادر ، فروعات اور ثمرات کا بیان کیا گیا ہے ۔

امام غزالی نے  اجتھاد اور تقلید کے متعلق یہ موقف اپنایا ہے کہ تقلید حجت و دلیل کے بغیر کسی قول کو تسلیم کرنے کا نام ہے ، اہل علم  دین کو سمجھنے والے،  پڑھے لکھے باشعور افراد کو اندھی تقلید نہیں چاہیے ۔  وہ کہتے ہیں (لیس ذالک طریقا الی العلم لا فی الأصول و لا فی الفروع) کہ مجرد تقلید حصول علم کا ذریعہ نہیں بن سکتی ، نہ اصول سمجھ میں آ سکتے ہیں نہ فروع ۔  الغرض عامۃ الناس کیونکہ خود دین کو نہیں سمجھ سکتے لہذا ان کے لیے تقلید ہی احوط اور مناسب ہے ۔

غزالی نے فرمایا کہ ان  سات چیزوں کو خوب سمجھنے کی ضرورت  ہے، فقہ ، علم ، توحید ، ذکر اللہ ، تذکیر ، حکمت اور مقاصد شریعت۔ گویا علم مقاصد شریعت کی بنیادیں ہمیں امام غزالی کی کتب میں ملتی ہیں ۔ بعد میں امام شاطبی ، امام عز الدین عبد السلام اور طاہر بن عاشور  نے اسے ایک مکمل علم کی شکل میں پیش فرمایا ۔

ان مصطلحات کی تشریح کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اجتھاد اور تقلید کے متعلق اپنا موقف بیان فرمایا ہے ۔

امام غزالی چاہتے ہیں کہ عام آدمی کو بھی دین سمجھنے کے لیے محنت کرنی چاہیے ، لوگ جب کسی نئے علاقے میں جاتے ہیں تو علاج کروانے کے لیے لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ اچھا ڈاکٹر کون ہے ، اسی طرح علماء سے علم لینے سے پہلے یہ تلاش کرنا چاہیے کہ اچھا اور مستند عالم کون ہے ۔ آپ تمام اہل اسلام کو تحقیق ، جستجو،  مطالعہ اور محنت کا درس دیتے ہیں ۔

whig-theoty of History

ڈاکٹر ابراہیم موسی نے تاریخیت پر بات جرتے ہوئے وگ تھیوری آف ہسٹری کا حوالہ   دیا اور فرمایا کہ اس تھیوری کے مطابق یہ سمجھا جاتا ہے کہ تاریخ کے قدیم حالات میں چیزیں اچھی حالت میں نہیں تھیں اور تاریخ میں بدترین سے بہترین کی طرف ترقی ہوتی ہے ۔

اس پر راقم نے یہ سوال کیا کہ یہ تصور مغربی تاریخ کے تناظر میں تو درست یو سکتا ہے لیکن  اسلامی تاریخ کے وسیع تناظر میں فٹ نہیں بیٹھتا ، کیونکہ ہمارا اعتقاد جازم یہ ہے کہ تاریخ میں جس قدر پیچھے جائیں ہماری تاریخ اتنی ہی شاندار اور عظیم دور کی طرف جاتی ہے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بہترین زمانہ ہے ( خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونھم )

ڈاکٹر ابراہیم موسی نے جواباً‌ کہا کہ اس نظریہ کو مکمل اپنی تاریخ کے لیے نہ بھی مانیں تو جزوی طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ ہمیں بہتر سے بہترین کی طرف کوشش کرنی چاہیے ، اور اس حدیث کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا : میری امت بارش کی مانند ہے ، جہاں یہ معلوم نہیں کہ خیر اس کے آغاز میں ہے یا آخر میں ہے ۔ یعنی خیر کا پہلو شروع سے آخر تک پایا جاتا ہے   ۔

ڈاکٹر صاحب نے محمد اسد کی کتاب The Road to Mecca کے صفحات سے یک اقتباس پیش کیا جہاں ایک واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد اسد نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مسلمان اپنے ماضی کے اچھے اور برے واقعات کو من  وعن تسلیم کرتے ہیں ، اور تسلیم و رضا کا طریق اپناتے ہوئے اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ

عسی أن تکرھوا شیئا وھو خیر لکم و عسی أن تحبوا شیئا وھو شر لکم

محمد اسد لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اس موقف سے بعض انگریز یہ نقد کرتے ہیں کہ مسلمان تسلیم و رضا کے نام پر جمود کا شکار ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے ماضی کے متعلق تو تسلیم کا منہج اپناتے ہیں لیکن اپنے مستقبل کے متعلق وہ محنت اور ہمت سے کاوش پر یقین رکھتے ہیں ۔

اس پر میں نے علامہ محمد اقبال کا یہ شعر عرض کیا کہ

تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

عبث ہے  شکوہ تقدیر یزداں

تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

نیپال کے سفر کی آخری شام میں شعر و سخن کی ایک مجلس منعقد ہوئی تو میں نے بھی چند اشعار موزوں کر کے پیش کیے جنہیں شرکاء اور حاضرین نے بہت پسند کیا ۔

یوں اس طویل ذہنی اور علمی مشق کے بعد ہماری یہ تحقیقی ورکشاپ اختتام کو پہنچی ۔ اللہ کریم ہمیں ہمیشہ علم و حکمت کے راستوں پر چلنے اور حق کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے ۔


ڈاکٹر نعیم الدین الازہری، جامعۃ الازہر قاہرہ سے فارغ التحصیل ہیں اور دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں دینی علوم کے استاذ ہیں۔
naeem_freed@yahoo.com

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں