ابو الحسین آزاد
مغربی الحاد نے جس فکر کی کوکھ سے جنم لیا ہے، اس فکر کے تخلیق کار بذاتِ خود مذہبی عقیدے کے منکر ہرگز نہ تھے۔ باباے طبیعیات نیوٹن کو کلیسا کی بالادستی سے اختلاف ضرور تھا لیکن مجموعی طور پر اس نے اپنی عالی ذہانت کو فزکس سے زیادہ بائبل کی صداقت کے اظہارِ جدید میں صرف کیا۔ فرانسس بیکن، جسے آپ نشاۃ ثانیہ اور سائنسی طرزِ فکر کا باوا آدم کہہ لیں، وہ برملا کہا کرتا کہ حکایات، تورات اور قرآن میں جو کچھ لکھا ہے اسے مکمل طور پر حق سچ مان لینا میرے لیے زیادہ آسان ہے بجاے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ کائنات بغیر کسی خالق کے وجود میں آگئی۔ ڈیکارٹ تشکیک و ارتیابیت کا امام ہے، وہ اپنے آپ کو بھی ٹٹولتا رہتا تھا کہ پتہ نہیں میں ہوں یا نہیں؟ پھر خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ I think, therefore I am، مگر بایں ہمہ شکِ عظیم اسے خدا کے وجود میں ادنی برابر بھی تردد نہ تھا۔ کانٹ بھی مجموعی طور پر ایک اچھا مسیحی تھا، اس کی فکر کے ایک سے زائد احتمالات کے باوجود یہ طے ہے کہ وہ مذہب کی اہمیت و ضرورت کا بصدقِ دل قائل تھا۔ والٹیئر فرانسیسی روشن خیالی اور نئے جمہوری سماج کا بانی ہے۔ اس نے عمر کے ایک خاص مرحلے پر کلیسا کے جبر کے خلاف فاتحانہ جنگ ضرور لڑی، بسترِ مرگ پر پادری سے یہ بھی کہا کہ خدا کے ہاں سے آئے ہو تو اسناد پیش کرو، کیتھولک عقائد کی کامل تقلید کا تحریری بیان دینے سے بھی انکار کیا مگر مرتے سمے یہ بہر طور لکھوایا کہ “میں اس حال میں مر رہا ہوں کہ خدا دل میں بس رہا ہے۔” ڈارون نے “اصل الانواع” کے آخر میں کیا کہا؟ یہی کہ حیات کا اولین تخم جو خالق نے پھونکا ہے۔۔۔۔” اپنے دوست کو خط میں کیا لکھا؟ یہی کہ مور کا ایک پر دیکھ کر بھی مجھے بخار سا ہونے لگتا ہے (کہ یہ خود بخود تو نہ بنا ہوگا۔)
ایک نطشے اینڈ کو کو نکال دو تو اسپنوزا سے آئن سٹائن تک خدا کا مکمل انکار کرنے کی جرات کسے ہو سکی؟ مگر یہ حیرت انگیز نہیں کہ فکر کا یہی دھارا، اپنے اسی علمی مواد اور انہیں مفکرین کی روشنئ طبع کے جلو میں سفر کرتا ہوا جب ہم تک پہنچا ہے تو حال یہ ہے کہ اسی خادمِ بائبل نیوٹن کی کرسی پر بیٹھا ہوا اپاہج سائنس دان اپنی گونگی اشاراتی زبان سے “بآوازِ بلند” نعرہ لگا رہا تھا:
By God, there is no God.
اور مسیح کی عظمت کے معترف ڈیکارٹ کی تشکیکت اور بارکلے کی تصوریت کا وارثِ عظیم برٹرینڈ رسل سرے سے اس بات سے بھی انکاری ہے کہ مسیح نام کی کوئی شخصیت تاریخ میں گزری ہے۔
ٹھیک ہے مان لیا کہ الحاد کا یہ ارتقا ایک تسلسل کے ساتھ ہوا ہے، سب کچھ اچانک سے نمودار نہیں ہوا، دوارنِ سفر مارکس، فرائیڈ اور نطشے جیسے بہت سے ایکسلیریٹر آئے۔ جنہوں نے قافلۂ حیات کو خدا سے کوسوں دور جا پھینکا۔ لیکن یہ سب جن کی کاوشِ فکر کا ثمرہ ہے وہ خود تو یہ نہیں چاہتے تھے۔ کیا لوتھر نے اسی لیے اصلاح مذہب کی تحریک چلائی اور خدا اور بندے کے درمیان سے چرچ کے ٹھیکیداروں کو اس لیے ہٹایا کہ ایک دن اس کی دی ہوئی حریتِ فکر کے بّل پر لوگ خود خدا کو بھی مسندِ اقتدار سے ہٹا دیں؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر پہلی اینٹ سیدھی رکھی گئی تھی تو عمارت ثریا تک ٹیڑھی کیوں چلی گئی؟ الیگزینڈر پوپ نے تو کہا تھا کہ “خدا نے کہا: جب نیوٹن آئے گا تو ہر چیز روشن ہو جائے گی۔” لیکن یہ کیا؟ ہر چیز روشن کیا ہوئی خدا خود ہی اندھیروں میں چلا گیا؟ آخر کیوں؟ اگراولین مقدمات ایسے نہ تھے تو نتائج ایسے کیوں برآمد ہوئے؟
اس کا ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ سائنسی طرزِ فکر کے بانی بھلے خدا کے ماننے والے ہوں گے لیکن انہوں نے کائنات پر تدبر کا جو طریقۂ کار وضع کیا اس میں خدا سے مکمل طور پر صرف نظر کر لیا گیا تھا۔ یعنی یہ مطالعہ کہ کائنات بذاتِ خود کیسے کام کرتی ہے۔ چنانچہ چند نسلوں تک تو نسلی اثرات نے مذہب کو زندہ رکھا لیکن جب یہ محسوس ہوا کہ کائنات خدا کے بغیر بھی قابلِ فہم ہو سکتی ہے تو خود بخود اُس کی ضرورت اور اُس کے ہونے کے امکانات کم ہوتے چلے گئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سائنسی طرزِ فکر کے لیے عملا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرنا ممکن بھی تھا؟ اگر نہیں، تو پھر تو الحاد ایک حتمی انجام ہوا جس سے بہرطور ایک دن انسانی شعور نے دوچار ہونا تھا۔
دوسرا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ دراصل یہ مفکرین جس مذہب کے قائل تھے اور خدا کا جو تصور ان کے یہاں تھا وہ معروف معنوں میں مذہب تھا ہی نہیں۔ روایتی کلیسائی مسیحیت سے تو یہ ویسے بیزار تھے کہ اس کی کوئی چول عقل و شعور رکھنے والے کے شخص کے دل و دماغ میں بیٹھتی ہی نہ تھی۔ اپنے تفکر کے بل پر انہوں نے جو تصورِ خدا گھڑا آگے چل کر اس کا پول بہر طور کھل ہی گیا:
کانٹ نے “تنقید عقل محض” لکھی تو کلیسا والوں نے خوب بغلیں بجائیں کہ دیکھو فلسفی نے ثابت کردیا کہ خدا اور مذہب کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا غلط ہے، یہ عقل کے بس کی بات ہی نہیں، وحی کی ضرورت ثابت ہوگئی۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وِل ڈیورانٹ کہتا ہے کہ بے چارے جرمن پادریوں کو پتہ بھی نہ چل سکا کہ فلسفے کا یہ منحنی پروفیسر ان کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ کر گیا ہے۔ انہوں نے ذرا برابر بھی غور نہ کیا کہ کیا آنے والی عقل پرست اور مشاہدہ پسند نسلیں ایسے خدا کو مانیں گی جس کے وجود کی ضرورت سرے سے عقل کے کسی مطالبے میں آتی ہی نہ ہو؟
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر سائنس اور فلسفے کی یہ روایت مغرب کی بجائے اسلامی تہذیب میں پروان چڑھتی اور ابن نفیس، ابن سینا اور ابن خلدون کی وراثت ہاروے، بیکن اور گبن کی بجائے کسی عمرو، بکر اور خالد کے پاس جاتی تو کیا نتائج سامنے آتے؟ کیا مسلم ذہن کو بھی کائنات پر آزادانہ تفکر کرنے سے پہلے اسلام میں طرح طرح کی اصلاحات کا تکلف اٹھانا پڑتا؟ والٹیئر کی جگہ کوئی مسلمان جمہوریت و مساوات کا نقیب ہوتا تو وہ منبر و محراب سے جھگڑتا یا اسی کو اظہارِ حریت کا پلیٹ فارم بناتا؟ “معاہدۂ عمرانی” کی اولین سطر اگر عربی میں لکھی جاتی تو وہ عمر بن خطاب کے ان الفاظ کے سوا کیا ہوسکتی کہ “متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرار؟” اگر ایسا ہوتا تو کیا پھر بھی سائنس کی کوکھ سے ملحدین ہی پیدا ہوتے؟
پسِ نوشت: شاید آپ کہیں کہ الفارابی، الکندی اور ابنِ سینا کی کیا کم تکفیر و تضلیل ہوئی ہے؟ بالکل ہوئی ہے۔لیکن اس کی وجہ ان کے سائنسی تفکرات نہیں تھے وہ کچھ اور غلط فہمیاں تھیں (دونوں طرف سے)۔ نیز مسلم تہذیب کے یہ “سیکولر اورگمراہ” مفکرین بھی اپنے مذہبی جذبات و احساسات، ذوقِ عبادت و زہد اور حبِ الہی میں مسیحیت کے ائمۂ اجلہ اور عظیم مذہبی پیشواؤں آگسٹائن اور ایکویناس وغیرہ سے سینکڑوں درجے زیادہ آگے تھے۔
ابو الحسین آزاد جامعہ دار العلوم کراچی میں شریک دورہ حدیث ہیں۔
زبردست