Home » کیا حدوث عالم پر متکلمین کی بحث لایعنی ہے؟
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

کیا حدوث عالم پر متکلمین کی بحث لایعنی ہے؟

 

ایک بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ ایک صاحب کا علم کلام پر نقد کرتے ہوئےکہنا ہے کہ وجود خداوندی پر متکلمین کی دلیل حدوث اس مفروضے پر قائم ہے کہ عقلا اس بات کا تعین کرنا ممکن ہے کہ یہ عالم حادث ہے یا نہیں، جبکہ ان ناقد کے مطابق یہ مفروضہ لغو ہے کیونکہ یہ عالم اس قدر وسیع ہے کہ انسان اس کی وسعتوں کا نہایت محدود تجربہ رکھتا ہے، ایسے میں بعض اشیاء پر تبدیلی کا اصول لاحق دیکھ کر یہ کیسے طے کیا جاسکتا ہے کہ یہ پورا عالم حادث ہے جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ عالم متناہی ہے یا غیر متناہی؟ اس سے ثابت ہوا کہ متکلمین اس مقصد کے لئے عقل کے نام پر خوامخواہ کی لغو بحث کرتے رہے۔

نوٹ: دلیل حدوث کی ساخت یہ ہے:

  • ہر حادث کے لئے محدث ہے
  • عالم حادث ہے
  • لہذا عالم کے لئے محدث ہے

ناقد دراصل اس کے  دوسرے مقدمے پر نقد کررہے ہیں

تبصرہ

 ان محترم موصوف ناقد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مبہم گفتگو کرنے کے عادی ہیں اور علم کلام پر اپنے اسی مبہم فہم کی وجہ سے متکلمین کے موقف پر بے معنی نقد فرما رہے ہیں۔ آئیے متکلمین سے پوچھتے ہیں کہ “وہ عالم حادث ہے کیونکہ یہاں چیزیں تبدیلی سے دوچار ہیں” میں عالم اور تبدیلی سے کیا مراد لیتے ہیں ۔ متکلمین کہتے ہیں کہ عالم میں جو کچھ ہے وہ یا جوھر ہے اور یا عرض۔

  • جوہر (atom) کا مطلب وہ چھوٹی سے چھوٹی قابل تصور شے جو کسی مکان میں کسی مکانی شے کی احتیاج کے بغیر اس طرح پائی جائے کہ کوئی دوسرا جوہر اس مکان میں نہ سما سکے۔ کسی جوہر کے مکان میں پائے جانے کا جو کم از کم زمانی دور ہے، اسے “آن” (moment) کہہ لیجئے (چاہے اسے آپ سیکنڈ میں ماپیں یا نینو سیکنڈ سے بھی کسی چھوٹے لمحے میں)
  • ایسے چند جواہر کے مجموعے کو جسم (extended substance) کہتے ہیں (چاہے وہ مجموعہ ایک ڈائیمنشل یعنی سطح ہی ہو)
  • عرض (mode or accident) وہ شے جو وجود کے لئے جوہر کی محتاج ہو (جیسے رنگ خوشبو وغیرہ) ۔ “عرض” از خود مکانی تصور نہیں بلکہ مکانی شے (جوہر و جسم) کو لاحق ہونے والی کیفیات ہیں

لہذا عالم کا مطلب وہ سب کچھ ہے جو مکان (space) سے متصف یعنی متحیز ہے۔ کسی شے کے وجود کا تسلسل دو زمانوں میں اس کے موجود ہونے کے واقعے سے عبارت ہے اور دو لمحوں میں یہ وجود متحقق ہونے کے دو ہی امکانات ہیں:

  • دو زمانوں میں ایک مقام پر ہونا، اور یا
  • دو زمانوں میں دو الگ مقامات پر ہونا

اول الذکر کو سکون کہتے ہیں اور مؤخر الذکر کو حرکت۔ مسلسل موجود شے حرکت (movement) یا سکون (rest) میں سے لازماً کسی ایک سے دوچار ہوگی، بصورت دیگر وہ کسی ایک لمحے میں وجود میں آکر معدوم ہوچکی ہوگی۔ وہ موجودات جو جوہر، عرض و جسم ہونے سے متعلق ہیں، ان کا علم حسی مشاھدے (sensory experience) سے متعلق ہے، یعنی متکلمین کے مطابق حواس کا تعلق ان موجودات سے ہے جو زمانی و مکانی ہیں۔ امام غزالی کتاب “الاقتصاد”  میں موجودات کی تقسیم اس طرح کرتے ہیں:

  • موجود یا متحیز (مکانی) ہوگا اور یا غیر متحیز
  • جو متحیز ہے وہ یا سادہ ہوگا اور یا مرکب۔ اول الذکر جوہر ہے اور موخر الذکر جسم
  • وہ موجود جو غیر متحیز ہے وہ یا متحیز کا محتاج ہوگا اور یا نہیں۔ اول الذکر کو عرض کہتے ہیں اور موخر الذکر درحقیقت ذات باری تعالی ہے۔
  • اجسام اور ان کی اعراض کا ثبوت مشاھدے سے متعلق ہے

آپ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

أن كل موجود اما متحيزاً أو غير متحيز، وأن كل متحيز إن لم يكن فيه ائتلاف فنسميه جوهراً فرداً، وإن ائتلف إلى غيره سميناه جسماً، وإن غير المتحيز أما أن يستدعي وجوده جسماً يقوم به ونسميه الأعراض، أو لا يستدعيه وهو الله سبحانه وتعالى، فأما ثبوت الأجسام وأعراضها، فمعلوم بالمشاهدة

امام رازی اس تقسیم کو ذرا مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ موجود ہونے کے تین عقلی امکانات ہیں:

  • متحیز ہونا، یہ موجود یا سادہ ہوگا اور یا مرکب، اول الذکر جوہر و موخر الذکر جسم ہے
  • متحیز میں حال (یا اس کی کیفیت) ہونا ، یہ عرض ہے
  • نہ متحیز ہونا اور نہ اس کا حال ہونا، یہ ذات باری تعالی ہے

فی الحال ہمیں ذات باری کے مفہوم و دلیل پر گفتگو نہیں کرنا، اصل بات کی جانب واپس چلتے ہیں جس سے ہمیں عالم، حرکت و سکون کا مفہوم واضح ہوا۔ حرکت و سکون میں سے ہر تصور دراصل دو حوادث (instances or occurrences) یا تبدیلی کا نام ہے، یعنی ہر شے جو حرکت و سکون سے دو چار ہے وہ لازما حوادثات (“عدم سے ہونے “اور پھر “ہونے کے بعد عدم کے بجائے ہونے”) سے دوچار ہے ۔ کسی شے کو لاحق ہونے والا ایسا ہر حادثہ (occurrence) ایک واقعہ (event) ہے۔ چنانچہ جب متکلمین کہتے ہیں کہ عالم قدیم نہیں بلکہ حادث ہے تو وہ یہ کہتے ہیں عالم کے اندر ماضی میں ہوئے ان واقعات کی سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی بلکہ اس کا لازما آغاز ہوگا۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان واقعات کی سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی نیز عالم میں موجود ہر شے ان واقعات (یعنی حرکت و سکون) سے عبارت ہے ، تو اس سے خود بخود یہ لازم آیا کہ ہر وہ شے جس پر اس علت (یعنی واقعہ ہونے) کا اطلاق ہو اس پر لازما یہ حکم بھی جاری ہوگا کہ وہ حادث ہے۔ اور چونکہ یہ علت پورے عالم پر جاری ہے لہذا اس سے ثابت ہونے والا نتیجہ اس پورے عالم کے بارے میں درست ہے۔ گویا عموم حکم کی وجہ عموم علت ہے۔

بامعنی نقد کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے آپ سامنے والے کے نزدیک اصطلاح کا مفہوم معلوم کرکے اسے متعین کریں اور پھر دلیل کا تجزیہ کرتے ہوئے اس پر نقد کریں۔ الفاظ سے اپنی جانب سے کوئی فرضی و مبہم مفہوم مراد لے کر نقد کرتے رہنا کوئی علمی طریقہ بحث نہیں۔ اگر ایک شخص عالم سے کوئی ایسی شے مراد لے کر گفتگو کرے جو متکلمین کے نزدیک عالم کی مراد نہ ہو تو ایسا سارا نقد ہوائی فائرنگ ہے۔

 

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں