Home » توہینِ صحابہ کی سزا میں اضافے کا نیا قانون
فقہ وقانون کلام

توہینِ صحابہ کی سزا میں اضافے کا نیا قانون

 

جماعتِ اسلامی کے رکن قومی اسمبلی جناب مولانا عبد الاکبر چترالی صاحب کا پیش کردہ مسودہ قومی اسمبلی نے منظور کرلیا ہے جس کے بعد یہ مسودہ سینیٹ میں جائے گا۔ اگر سینیٹ بھی اسے منظور کرلے اور پھر صدر اس پر دستخط کرلیں، تو اس کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔

رائج الوقت قانون کیا ہے؟

ابھی یہ نیا قانون بنا نہیں ہے اور اس وقت رائج الوقت قانون وہی ہے جو 1980ء میں جنرل ضیاء الحق نے ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے نافذ کیا تھا اور جو اب مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298-اے میں درج ہے۔ اس قانون میں قرار دیا گیا ہے کہ امہات المؤمنین، اہل بیت رسول اللہ ﷺ، خلفاے راشدین یا صحابۂ کرام میں کسی کی شان میں گستاخی، خواہ زبانی ہو یا تحریری یا کسی اور صورت میں، اور خواہ براہِ راست یا بالواسطہ، اور خواہ صراحتاً ہو یا کنایتاً، تو اس پر تین سال تک کی قید کی سزا یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

اس جرم کےلیے ضابطے کی تفصیلات کےلیے مجموعۂ ضابطۂ فوجداری کا رخ کرنا پڑے گا جہاں قرار دیا گیا ہے کہ یہ جرم قابلِ دست اندازیِ پولیس ہے، یعنی پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس جرم میں وہ کسی کو بغیر عدالتی وارنٹ کے بھی گرفتار کرسکتی ہے۔ تاہم اگر عدالت میں شکایت کی جائے، تو عدالت ابتدائی مرحلے پر وارنٹ جاری کرنے کے بجاے سمن جاری کرتی ہے، یعنی پولیس کو حکم دینے کے بجاے کہ اس شخص کو گرفتار کرکے لایا جائے، اس شخص کو ہی کہتی ہے کہ وہ عدالت آجائے۔ نیز یہ جرم قابلِ ضمانت ہے، یعنی مقدمے کی سماعت کے دوران میں فیصلہ ہونے سے پہلے تک ملزم اس میں ضمانت پر رہائی کا حق رکھتا ہے، الا یہ کہ اسے تحویل میں لینا ضروری ہو۔ مزید یہ کہ یہ جرم ناقابلِ صلح ہے، یعنی خواہ شکایت کنندہ اور ملزم آپس میں صلح کرلیں، مقدمہ ختم نہیں ہوسکتا جب تک عدالت اسے ختم کرنے کا حکم نہ دے۔ عدالت سے مراد مجسٹریٹ درجۂ اول یا درجۂ دوم ہے۔

کیا تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں؟

مولانا چترالی کی مجوزہ ترامیم اگر قانون کی حیثیت اختیار کرلیں گی، تو درج ذیل تبدیلیاں آئیں گی:

  • ایک یہ کہ سزاے قید کی مقدار تین سال سے بڑھ جائے گی اور پھر کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید ہوجائے گی؛
  • دوسری یہ کہ عدالت پہلے مرحلے میں ہی وارنٹ جاری کرکے پولیس کو گرفتاری کا حکم دے سکے گی؛
  • تیسری یہ کہ یہ جرم ناقابلِ ضمانت ہوجائے گا، یعنی پھر ملزم کو تحویل میں رکھنا لازم ہوگا، الا یہ کہ اسے ضمانت پر رہا کرنا ضروری ہوجائے؛
  • چوتھی یہ کہ اس جرم کی سماعت مجسٹریٹ کے بجاے سیشنز جج کرے گا۔

نیز جرم بدستور قابلِ دست اندازیِ پولیس اور ناقابلِ صلح رہے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون میں یہ تبدیلیاں ہونی چاہئیں؟

نئے قانون کی ضرورت؟

قانون میں ان تبدیلیوں کے حق میں بات کرنے والے کچھ تو وہ ہیں جنھیں علم ہی نہیں ہے کہ اس موضوع پر پہلے سے قانون موجود ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی دفعہ توہینِ صحابہ کے فعل کو جرم قرار دے کر اس پر سزا مقرر کی جارہی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں معلوم ہے کہ پہلے سے قانون موجود ہے جسے مزید سخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کوشش کے حق میں وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ موجودہ قانون اس جرم کی روک تھام میں ناکام رہا ہے کیونکہ اس قانون کے تحت اس جرم پر 3 سال قید کی سزا ہے جو ناکافی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سزا بڑھانے پر لوگ ڈر جائیں گے اور اس جرم کے ارتکاب سے باز آئیں گے۔

یہ بات درست ہے کہ سزا کا خوف جرم کے ارتکاب سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن شاید یہ بات کہنے والوں کی توجہ اس طرف نہیں گئی کہ کڑی سے کڑی سزا بھی قانون میں رکھی جائے، تو وہ لوگوں کو جرم سے باز نہیں رکھ سکے گی، اگر انھیں سزا سے بچ جانے کا یقین ہو۔ دوسری طرف سزا خواہ شدت میں کم ہو، لیکن اگر اس کا وقوع یقینی ہو، تو وہ جرم کی روک تھام میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے توجہ سزا کی شدت میں اضافے کے بجاے سزا کے نفاذ کو یقینی بنانے کی طرف کرنی چاہیے۔ تبھی یہ توقع رکھی جاسکے گی کہ لوگ یہ جرم نہیں کریں گے۔

تاہم جب سزا کا نفاذ یقینی بنانے کی بات کی جاتی ہے، تو اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ ضروری ہے کہ سزا صرف اسی صورت میں دی جاسکتی ہے جب ملزم کا جرم عدالت میں اس طور پر ثابت کیا جائے کہ اس میں کوئی معقول شک باقی نہ رہے۔ اس مقصد کےلیے شواہد عدالت میں پیش کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس ضمن میں گواہوں کے علاوہ پولیس کے تفتیشی افسران کا کردار بھی اہم ہوتا ہے اور عدالت میں استغاثہ کے وکیل کا بھی۔ اگر گواہ آگے نہ آئیں، اگر تفتیشی افسر اپنا کام صحیح طریقے سے نہ کریں، اگر چالان کمزور بنایا جائے، اگر استغاثہ جرم ثابت کرنے میں دلچسپی نہ لے یا اس میں اس کی صلاحیت نہ ہو، تو عدالت ملزم کو سزا نہیں دے سکتی اور اس پر لازم ہوتا ہے کہ ملزم کو باعزت طور پر، یا شک کا فائدہ دے کر، بری کرے۔

ایک اور پہلو اس معاملے کا یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ معروف امر ہے کہ لوگ فرقہ وارانہ بنیادوں پر یا جائیداد کے تنازعات کی وجہ سے یا ذاتی دشمنی کے سبب سے ایک دوسرے کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں جب مقدمات کا فیصلہ ہونے میں بھی طویل عرصہ لگے اور آخر میں ثابت ہو کہ ملزم بے قصور تھا، تو اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کی ذمہ داری کیا ان لوگوں پر نہیں ہوگی جنھوں نے سزا کی مقدار میں اضافہ کرنے اور اس فعل کو ناقابلِ ضمانت بنانے پر تو پورا زور دیا لیکن بے قصور لوگوں کو اس قانون کے غلط استعمال کے اثرات سے بچانے کی طرف توجہ نہیں کی؟

سوال یہ ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟

رائج الوقت قانون میں موجود سنگین مسائل

توہینِ صحابہ کے متعلق ہمارے ہاں رائج الوقت قانون کے غلط استعمال کو روکنے کےلیے کچھ اقدامات تو تفتیش، استغاثہ اور عدالتی نظام کی بہتری کےلیے اٹھانے ہوں گے لیکن ان سے کہیں زیادہ اہم مسائل خود اس قانون کے متن اور مغز میں ہیں جن کی طرف عموماً ناقدین بھی توجہ نہیں کرتے۔

مثلاً اس قانون میں “توہین” کی تعریف ہی مذکور نہیں ہے۔ یہاں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص امہات المؤمنین، اہل بیت رسول اللہ ﷺ، خلفاے راشدین یا صحابۂ کرام میں کسی کے “مقدس نام کی بے حرمتی کرے” (defiles the sacred name)، تو اسے یہ سزا دی جائے گی، لیکن “مقدس نام کی بے حرمتی” سے مراد کیا ہے اور اس کے زمرے میں کیا کچھ آتا ہے، یہ معاملہ عدالت کی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

مزید یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ “مقدس نام کی بے حرمتی” خواہ براہِ راست ہو یا بالواسطہ، اور خواہ صراحتاً ہو یا کنایتاً، ہر صورت میں اس پر یہ سزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ اگر اس بات پر بھی توجہ کریں کہ اس جرم کی تعریف میں “قصدِ مجرمانہ”(mens rea) کو ضروری عنصر (essential ingredient) نہیں گردانا گیا، تو اس معاملے کی سنگینی بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ اس بات کی اہمیت کے پیشِ نظر تھوڑی تفصیل دینی ضروری ہے۔

عام طور پر جرم کے دو ارکان سمجھے جاتے ہیں:

  • ایک، وہ فعل/act یا ترکِ فعل/omission جسے قانون نے جرم قرار دیا ہو، جیسے قتل؛ اسے “مجرمانہ فعل” یا actus reus کہا جاتا ہے؛
  • دوسرا، وہ ذہنی کیفیت جو جرم کےلیے ضروری ہوتی ہے، یعنی مجرمانہ قصد یا علم/guilty mind، جسے mens rea کہا جاتا ہے۔ اس دوسرے رکن کےلیے عموماً قانون میں ایسی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں کہ اس نے “جانتے بوجھتے”/willfully/knowingly یا قصداً/intentionally یہ کام کیا۔

توہینِ صحابہ کے جرم کے متعلق دفعہ 298-اے میں ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی نے غلطی سے بھی ایسے الفاظ کہے جنھیں توہین قرار دیا جاسکتا ہو، تو اسے یہ سزا دی جاسکتی ہے۔ توہینِ رسالت کے جرم کے متعلق 295-سی میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ہیں، البتہ توہینِ قرآن کے جرم کے متعلق دفعہ 295-بی میں willfully کا لفظ موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ توہینِ رسالت کے جرم کےلیے بھی mens rea ضروری عنصر نہیں ہے، لیکن توہینِ قرآن کے جرم کےلیے یہ ضروری عنصر ہے۔

یہ بنیادی ترین وجہ ہے اس قانون کے انتہائی سخت ہونے کی اور جب تک اس قانون میں ترمیم کرکے mens rea کو جرم کا ضروری عنصر نہ قرار دیا جائے، تب تک اس قانون کی سختی کی وجہ سے اس کا غلط استعمال نہایت آسان رہے گا۔

اسلامی اصول کیا کہتے ہیں؟

واضح رہے کہ اسلامی اصولوں کی رو سے بھی جرم کےلیے بالعموم اور توہین کے جرم کےلیے بالخصوص مجرمانہ ارادے کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ فقہاے کرام نے تفصیل سے “تاویل” پر بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ کون سی تاویل کس حد تک ملزم کو فائدہ دے سکتی ہے۔ نیز اسلامی اصولوں کی رو سے توہین کے ملزم کی توبہ سے اس کی سزا میں تخفیف بھی ہوسکتی ہے اور سزا یکسر ختم بھی کی جاسکتی ہے، اگر عدالت اس کی توبہ سے مطمئن ہو۔[1]

بدقسمتی سے وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں اسماعیل قریشی کیس میں یہ قرار دیا تھا کہ توہینِ رسالت کے ملزم کی توبہ سے اس کی دنیوی سزا ساقط نہیں ہوسکتی، حالانکہ عدالت میں مفتی غلام سرور قادری، حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا سعد الدین شیرکوٹی نے کہا تھا کہ توبہ کی صورت میں سزا نہیں دینی چاہیے۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں پیر کرم شاہ الازھری اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب موجود تھے اور اگر وہ اپیل سنتے، تو شاید اس غلطی کی تلافی ہوجاتی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ حکومت نے اپیل واپس لے لی اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کرگیا۔ یوں قانون میں یہ خلا باقی رہ گیا ہے۔[2]

جب تک اس قانون سے یہ کمزوری دور نہیں کی جائے گی، اس کا غلط استعمال نہیں روکا جاسکتا اور یہ کمزوری دور کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری جن پر عائد ہوتی ہے بدقسمتی وہ سے اپنی کلامی و فقہی روایت کے بجاے ماضیِ قریب کے فرقہ وارانہ پروپیگنڈا کے زیرِ اثر اس قانون کو مزید سخت کرنے کے حق میں بات کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔

حوالہ جات

[1]  تفصیل کےلیے دیکھیے علامہ ابن عابدین الشامی کا رسالہ تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام او احد اصحابہ الکرام۔ راقم نے اس رسالے کا انگریزی ترجمہ تفصیلی مقدمے اور حواشی کے ساتھ کیا ہے:

Muhammad Mushtaq Ahmad, Expounding the Hanfi Law on Blasphemy: Annotated Translation of the Risalah of ‘Allamah Ibn ‘Abidin al-Shami (Islamabad: Shariah Academy, 2020).

[2]  اس فیصلے پر تفصیلی تنقید راقم نے اپنے ایک مقالے میں کی ہے:

Muhammad Mushtaq Ahmad, “Pakistani Blasphemy Law between Hadd and Siyasah: A Plea for Reappraisal of the Ismail Qureshi Case,” Islamic Studies 56:1-2 (2017), 5-49.

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں