Home » عوام الناس کے لیے تقلید واستفتاء ۔ امام غزالی کی رائے
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار عربی کتب فقہ وقانون

عوام الناس کے لیے تقلید واستفتاء ۔ امام غزالی کی رائے

مولانا طلحہ نعمت ندوی

تقلید وعدم تقلید ہمارے دور کا معرکہ آراء مسئلہ رہا ہے، بلا مبالغہ ہزاروں کتابیں اس موضوع پر لکھی گئیں، اور اب بھی لکھی جارہی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے تو اس موضوع پر ایک مجتہدانہ نقطہ نظر پیش کیا تھا لیکن بعد میں اس کے جواز وعدم جواز کی بحث بالخصوص برصغیر میں بہت شدت سے اٹھی اور ڈیڑھ صدی میں اس پر اردو اور فارسی میں پورا کتب خانہ وجود میں آگیا۔۔ لیکن امام غزالی نے بالکل ابتدائی دور میں اس موضوع پر جو عالمانہ رائے دی تھی افسوس کہ بہت کم علماء اس کی طرف متوجہ ہوسکے۔ ذیل میں ان کی اصول فقہ کی مشہور کتاب المستصفی سے تقلید کی بحث کا توضیحی ترجمہ پیش خدمت ہے۔

—————————————-
“تقلید کا مطلب ہے بغیر حجت کسی چیز کو قبول کرنا، اس سے علم نہیں حاصل ہوتا نہ اصول کا نہ فروع کا ، ہاں حشویہ اور تعلیمیہ (اسماعیلیہ ) کی رائے ہے کہ معرفت حق کار استہ تقلید ہی ہے ، یہ واجب ہے ،اور غور و فکر و بحث و تحقیق حرام ہے۔
لیکن حسب ذیل شواہد کی روشنی میں ان کا یہ نظریہ بے بنیاد و باطل نظر آتا ہے۔
(۱) جس کی تقلید کی جائے اس کی سچائی وصدقت سے واقفیت کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ، بلادلیل اس کا علم ممکن نہیں ہوتا ، دلیل کے لئے معجزہ کی ضرورت ہوتی ہے ، چنانچہ رسول کی صداقت اس کے معجزہ سے ثابت ہوتی ہے، اور اللہ کے کلام کی صداقت خود نبی کے اپنے متعلق دعوائے راستی وصداقت سے ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح ارباب اجماع کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ خود رسول پاک علیہ السلام نے اجماع امت کو معصوم عن الخطا قرار دیا ہے۔ اسی طرح قاضی کو عادل (سچے اور دیندار) گواہوں کی شہادت قبول کرنا ضروری ہے اس لیے نہیں کہ اسے ان کی سچائی کا یقین ہے یا ہونا چاہیے، بلکہ اس لیے کہ اب تک یہی سننے میں آیا ہے کہ غلبہ ظن کے مطابق عمل کرنا واجب ہے،خواہ گواہ سچے یا دروغ گو۔
اسی طرح ایک عام آدمی کے لیے مفتی کی بات ماننا ضروری ہے، کیوں کہ دلیل اجماع کے مطابق ان کی اتباع عوام کے لئے ضروری ہے ، خواہ مفتی سچ بولے یا جھوٹ، اس کا قول غلط ہو یا صحیح ۔
لہذا مفتی و گواہ کی بات قبول کر نادلیل اجماع کی بنیاد پر ضروری ہوا، یہ ہے کسی قول کو حجت و دلیل کی بنیاد پر قبول کرنا، لہذا اسے تقلید نہیں کہا جاۓ گا، کیوں کہ ہمارے نزدیک تقلید کا مطلب ہے کسی قول کو بلا حجت تسلیم کر نا، لہذا جہاں نہ دلیل ہو ، نہ صداقت بدیہی طور پر معلوم ہو سکے وہاں کسی کی پیروی جہالت کو بنیاد بنانے کے مرادف ہے۔

(١) ان سے معلوم کیا جاۓ کیا تم جن کی تقلید کر رہے ہو ان سے غلطی کا صدور محال سمجھتے ہو یا ممکن ،اگر ممکن سمجھتے ہو تو گویا تم نے اس کا یہ دعوی تسلیم کرلیا ہے کہ “ان مذھبه حق” (اس کا مسلک ہی حق ہے)تو اس دعوی میں وہ کس حد تک سچا ہے ، اس کا علم تمہیں کیسے ہوا، اور کسی دوسرے کے دعوی کی بنا پر اس کی سچائی تسلیم کی ہے تو اس دوسرے آدمی کی سچائی کا یقین کیسے حاصل ہوا؟
اور اگر آپ کا یہ کہنا ہے کہ اس کی بات پر دل مطمئن ہے تو پھر آخر یہود نصاری کے دل بھی تو اپنے اپنے مسلک پر مطمئن ہیں، پھر اپنے اور ان کے اطمینان قلب میں یہ تفریق کیسی اور کس بنیاد پر؟ اور اپنے امام کے دعواۓ راستی و “انی صادق محق” اور اپنے مخالفین کے درمیان فرق کی کیابنیاد ہے ۔
پھر وجوب تقلید کے سلسلہ میں ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تقلید واجب ہے یا نہیں، اگر وجوب تقلید کا صحیح علم نہیں تو پھر کیوں تقلید کرتے ہو اور اگر اس کا علم ہے تو اس علم کی بنیاد کیا ہے ، کیا علم بد یہی ہے ، یا فکر و نظر کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی ہے یا کسی کی تقلید میں اس کا علم ہوا۔ وہ اس کے جواب میں تقلید ہی کا حوالہ دے گا کیوں کہ اس میں فکر و نظراور دلیل کی گنجائش اس کے لئے نہیں، اس لئے اب ایک ہی صورت ہے کہ خود ہی اس کا فیصلہ (تحکم) کیا ہے، اور رائے قائم کی ہے۔
اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ اس مسلک کے صحیح اور حق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اکثر لوگ اس پر عامل ہیں ، لہذا اسے ہی اختیار کر نا چاہیے۔
تو پھر ہمارا سوال یہ ہو گا کہ پھر کسی کے اس دعوی کی ترید کیوں کرتے ہوکہ حق بہت پیچیدہ اور مشکل ہے ، بہت کم لوگوں کو اس کا ادراک ہو پاتا ہے ،اکثر لوگ حق کے حصول میں در ماندہ رہ جاتے ہیں، کیوں کہ وہاں تک رسائی کی بہت سی شرطیں ہیں ، مستقل فکر و نظر اور اس کی مشق طبیعت کی جولانی اور حساسیت شعور، پھر یکسوئی اور ذہنی سکون۔
اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی حق پر تھے جب آپ کے ساتھ بہت چھوٹی سی جماعت تھی ، اور اکثر آپ کے مخالف تھے، اور اس وقت اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تھا”وان تطع اكثر من في الارض یضلوک عن سبيل الله” ۔(اگر آپ روۓ زمین پر بسنے والے اکثر لوگوں کی بات مانیں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے ہٹا کر گمراہ کر دیں گے)، پھر یہ دعوی کیوں کر درست ہو سکتا ہے،جب کہ ہمارے زمانہ میں بھی کفار زیادہ ہیں۔
پھر اس فیصلہ سے پہلے ضروری ہے کہ آپ پوری دنیا میں گھوم کر مخالفین کی تعداد کا اندازہ لگالیں ، اگر دونوں گروہوں کی تعداد برابر ہو تو خاموش رہیں ،اگر غالب ہوں تو ان کو ترجیح دینے اور ان کی تقلید کا پورا حق ہے ، لیکن ایسا کیوں کر ممکن ہے جب کہ یہ نص قرآنی کے خلاف ہے ۔اللہ تعالی کا جا بجا ارشاد ہے “وقلیل من عبادی الشکور” (میرے بندوں میں شکر گذار کم ہی ہیں) “ولكن اكثرهم لا يعلمون”(لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے) “واكثرهم للحق كارهون” (اوراکثر لوگ حق کو ناپسند کرتےہیں)۔
اگر دلیل میں یہ کہا جاۓ کہ خود رسول پاک علیہ السلام کا ارشاد ہے “علیکم بالسواد الاعظم”(سواد اعظم یعنی عام لوگوں کی راہ اختیار کرو)۔ “من سره أن یسکن بحبوحۃ الجنۃ فليلزم الجماعة” (جو جنت کے بالا خانوں کے قیام کی مسرت حاصل کر نا چاہتا ہے وہ جماعت سے وابستہ رہے) ۔ یہ روایت بھی ہے کہ ایک کے ساتھ شیطان ہوتا ہے ، لیکن دو سے دور بھاگتا ہے،الشیطان مع الواحد وھو من الاثنین ابعد”.
تو پھر ہمارا سوال ہو گا کہ یہ روایتیں تو متواتر نہیں ہیں پھر آپ نے کیسے انہیں صحیح و معتبر سمجھا،اگر کسی کی تقلید میں، تو آپ میں اور جو ان روایات کو کسی دوسرے کی تقلید میں غلط سمجھ رہاہو ، کیوں کر فرق کیا جاۓ ۔ پھر اگر صحیح بھی مان لیں تو سوداعظم کی اتباع کرنے والے کو مقلد نہیں کہا جاسکتا، بلکہ خود رسول پاک علیہ السلام کے ارشاد سے اسے معلوم ہوا کہ اس پر اتباع واجب ہے ، اور اسے تقلید نہیں کہا جا سکتا۔ گویا کسی دلیل و حجت کی بناپر ایک بات قبول کی۔
علاوہ ازیں ان روایات کا مفہوم ہم کتاب الاجماع میں ذکر کر چکے ہیں کہ تقلید نہیں بلکہ اجماع کی مخالفت یا امام کی اطاعت سے انحراف مراد ہے۔

ہمارے دعوی پر حامیان تقلید کے کچھ اعتراضات واشکالات بھی ہیں ۔ ایک اعتراض تو یہ ہے کہ مقلد کے بر عکس فکر و نظر کی راہ اختیار کر نے والا شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے ، ایسے مفکرین کی گمراہی کی سیکڑوں مثالیں ہیں، لہذا ایسی پر خطر راہ سے بچنا اور راہ سلامتی اختیار کر ناہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ اپنے اجداد کی اتباع و تقلید کرنے والے یہود نصاری بھی تو گمراہ ہیں ، پھر اپنے اور تمام کفار کی تقلید میں وجہ امتیاز کیا ہے، کیوں کہ ان کا بھی تو یہی دعوی ہے “اناوجدنا آباءنا”۔ مزید یہ کہ جب کسی چیز کی معرفت اور علمی تحقیق ضروری قرار پائی تو تقلید جہالت وضلالت ٹھہری، گویا آپ نے شبہ میں مبتلا ہونے کے خوف سے جہالت اختیار کر لی ، اس کی مثال تو یوں دی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص بھوکا پیاسارہ کر مر جاۓ اور اس خوف سے کھانا تک نہ کھائے کہ کوئی لقمہ اس کے حلق میں نہ اٹک جائے۔ یا کوئی مریض اس اندیشہ سے علاج نہ کرائے کہ کہیں اس میں غلطی ہو گئی تو مزید پریشانی کا باعث ہو گی، یا کوئی شخص غربت کے خوف سے تجارت وزراعت ہی چھوڑ بیٹھے ۔
دوسرا اعتراض : وہ اکثر قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہیں “ومايجادل فی آيات الله الا الذين كفروا”۔(اللہ کی آیتوں میں کفار ہی جھگڑتے ہیں)نیز یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ تقدیر کے باب میں بحث و مباحثہ سے منع کیا گیا ہے اور کسی مسئلہ میں غور و فکر بحث و جدال کی راہ ہموار کرتی ہے ، اور اس سے مناظرہ کا دروازہ کھلتا ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ غلط دلیل سے مناظرہ و مجادلہ ممنوع ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے “وجادلوا بالباطل لید حضو به الحق” (انہوں نے باطل سے مجادلہ کرکے حق کو غالب کرنے کی کوشش کی) اور اس کی دلیل خود قرآن پاک کی ایک آیت میں ہے ۔”وجادلهم بالتي هي أحسن” و”يانوخ قد جادلتنا فأكثرت جدالنا”(اے نوح تم بہت زیادہ بحث کرچکے)، “ولاتجادلوا أهل الكتاب إلا بالتي هي أحسن” (اہل کتاب سے بہتر بہتر سے طریقہ سے ہی بحث کیا کرو)
ہاں تقدیر میں بحث و مباحثہ سے منع کیا گیا ہے جس کی کئی وجوہات ممکن ہیں ، یا تو یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ انہیں حق سے واقفیت نص کے ذریعہ کرائی گئی تھی، اس لئے نص میں تشکیک سے منع کیا گیا، یا یہ توجیہ ممکن ہے کہ ایسا ابتدائے اسلام میں ہوا اور اس وقت اس لئے منع کیا گیا ہو گا کہ کہیں مخالف ان کے مناظروں کو دیکھ کر یہ نہ کہنے گے کہ اب تک اس دین پر ان لوگوں کے قدم جمے نہیں۔ یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ ان کو جہاد پر آمادہ اور اس کے لئے یکسو کیا جارہا ہو جو ان کے نزدیک مباحثہ و مجادلہ سے زیادہ اہم تھا۔
اس کے علاوہ ہم ان کے جواب میں حسب ذیل قرآنی آیات پیش کرتے ہیں۔ “ولا تقف ما ليس لك به علم”. “وأن تقولوا على الله ما لا تعلمون”، “و ما شهدنا إلا بما علمنا”، “قل هاتوا برهانکم” ۔ ان تمام آیات میں تقلید سے منع کرنے، غور و فکر اور علم وتدبر کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے علماء کی اہمیت و عظمت بھی بتائی گئی ہے ۔ارشاد باری ہے۔ “یرفع الله الذين آمنوا منكم والذين أوتوا العلم درجات” نیز نبی پاک علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ “يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنہ تحريف الغالين و تأويل الجاهلين و انتحال المبطلين” (ہر نسل اور دور میں اس علم کے حامل کچھ ایسے متقی و دیندار لوگ ہوں گے جو اس دین سے غلوپسندوں کی تحریف، جہلاء کی غلط تاویلات اور اہل باطل کی تلیبسات کو دور کرتے رہیں گے)۔اور یہ کام تقلید سے ممکن نہیں بلکہ علم و نظر کا محتاج ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے “لا تكونوا امعة” (امعۃ مت بنو) ان سے سوال کیا گیا کہ اس لفظ کا کیا مطلب ہے ،انہوں فرمایا کہ آدمی یہ کہے کہ میں لوگوں کے ساتھ ہوں، وہ گمراہ تو میں گمراہ، وہ صحیح تو میں بھی صحیح، جب لوگ کفر اختیار کریں تو تم میں سے کوئی کفر پر مطمئن ہو۔

ایک اہم بحث:

عامی کے لئے استفتاء اور اتباع وتقلید علماء ضروری ہے۔
منکرین تقدیر کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ان لئے بھی دلیل میں غور کر نا اور امام معصوم کی اتباع ضروری ہے ، حالاں کہ یہ رائے بالکل مستر د ہے ، اس کے دو سبب ہیں، ایک اجماع صحابہ ، صحابہ کرام عوام کو فتوی دیتے تھے لیکن اس کے ساتھ اجتہاد حاصل کرنے کا حکم نہیں فرماتے ۔ یہ بات بالکل تواتر سے ثابت ہے ۔
اگر فرقہ امامیہ کا کوئی شخص اس پر اعتراض کرے کہ ان پر حضرت علی کرم اللہ وجہ کی اتباع واجب تھی کیوں کہ وہ معصوم تھے، یہ الگ بات ہے کہ حضرت علی تقیہ کی بنا پر اور فتنہ کے خوف سے ان پر نکیر نہیں کرتے تھے۔
تو اس کے لئے ہمارا جواب یہ ہو گا کہ یہ بات کوئی جاہل ہی کہہ سکتا ہے، کیوں کہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ معصومین نے اپنے دور سیادت و ولایت میں بھی زندگی کے آخری جو ارشادات فرماۓ ان سب سے اعتماد اٹھ جائے کیوں کہ حضرت کا پورا دور اضطراب ہی کا رہا چنانچہ انہوں نے اس صورت میں جو کچھ بھی کہا ہوگا سب شاید تقیہ کی بنیاد پر کہا ہوگا، اس لیے ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہوگا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ تقریبا علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عامی احکام کا مکلف ہے، اب اس کو مرتبہ اجتہاد کے حصول کا مکلف بنانا محال ہے، کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ پھر کاروبار دنیا ختم ہوجائے، اگر سارے کے سارے لوگ طلب علم میں مشغول ہوجائیں گے تو دنیا ویران ہوجائے گی، یا پھر علماء بھی طلب معاش میں مصروف ہوں گے تو علم کو زوال ہوگا، بلکہ علماء کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا، اور جب یہ مشکل ہے تو پھر ایک ہی صورت باقی رہتی ہے کہ علماء سے معلوم کریں اور مسائل پوچھیں۔
اب اگر پھر یہ سوال ہو کہ آپ نے تقلید کو باطل کہا ہے حالاں کہ یہی تو عین تقلید ہے۔ تو ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ تقلید کہتے ہیں کسی قول کو بلا حجت قبول کرنا۔ اور ان لوگوں پر مفتی کا فتوی قبول کرنا اجماع کی بنا پر واجب ہوا، جس طرح قاضی کے لیے گواہوں کی شہادت قبول کر نا ضروری ہے اور ہمارے لیے خبر واحد قبول کرنا ضروری ہے، اور اس کی بنیاد ظن غالب پر ہے، اور ظن علم کی ایک قسم ہے، اسی طرح سماعی دلیل قطعی کی بنا پر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کسی ظنی دلیل سے بھی کوئی حکم واجب ہوتا ہے، اور تقلید تو جہالت کا نام ہے۔
اگر کوئی یہ حوالہ دیتا ہے کہ آپ تو تقلید کو منع کرتے ہیں اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ “لا یحل تقلید احد سوی النبی ﷺ” یعنی نبی پاک علیہ السلام کے علاوہ کسی کی تقلید درست نہیں، تو گویا وہ تقلید کے قائل ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے تو صراحت کردی کہ تقلید سرے سے درست نہیں، صرف نبی پاک علیہ السلام کی تقلید درست ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے استفتاء، خبر واحد کی قبولیت اور شہادت عدل (دیندار اور باوقار)کو تقلید میں شمار نہیں کیا۔ ہاں قول رسول کو تقلید توسعا کہاجاسکتا ہے، اور اس کا استثناء بھی غیر جنس کا استثناء مانا جائے گا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول گرچہ اس دلیل کی بنا پر قبول کیا جارہا ہے کہ آپ کی صداقت کی دلیل موجود ہے لیکن اس کے علاوہ کسی اور مسئلہ میں اس سے کوئی حجت نہیں طلب کی جائے گی۔ گویا کسی خاص حجت کے بغیر ہی یہ تصدیق ہے۔،ایسی صورت کو تقلید مجازا ہی کہاجاسکتا ہے۔

مسئلہ

عامی بھی اسی سے فتوی لینے کا مجاز ہے جس کے علم وعدالت(تقوی وپاکبازی)سے اچھی طرح باخبر ہو، جس کی جہالت کا اسے علم ہو اس سے باتفاق علماء اس کے لیے مسائل معلوم کرنا درست نہیں۔ اگر کسی ایسے شخص سے معلوم کیا جس کے علم وجہل کا اسے صحیح اندازہ نہیں تھا تو کچھ لوگوں کے نزدیک درست ہے اور اس لیے مزید تحقیق کرنا ضروری نہیں۔ لیکن یہ رائے درست نہیں، کیوں کہ جس کے لیے کسی دوسرے کی بات قبول کرنا ضروری ہے اس کے لیے اس کے حالات سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ اسی بنا پر امت کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ رسول کے معجزات میں غور کرکے اس کے حالات سے واقفیت حاصل کرے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہر مجہول الحال انسان جو رسالت کا دعوی کر بیٹھے اس پر ایمان لے آئے، اسی طرح قاضی کے گواہوں کے حالات کی تحقیق ضروری ہے، مفتی کے لیے راوی اور رعایا کے لیے قاضی اور خلیفہ کے حالات کی تحقیق و تفتیش بھی لازمی ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس شخص سے کیوں کر پوچھا جائے جس کے بارے میں یہ سمجھ رہا ہو کہ وہ خود سائل سے زیادہ بے بہرہ ہے۔
پھر اگر یہ سوال ہو کہ اگر مفتی کی عدالت کا علم نہیں تو کیا اس کے لیے تحقیق لازمی ہوگی۔ اب اگر آپ کہتے ہیں کہ اس کے لیے تحقیق ضروری ہے تو یہ بات عام معمول کے خلاف ہے کیوں کہ عام طور جو کسی شہر میں جاتا ہے وہ شہر کے عالم سے مسائل معلوم کرتا ہے اور اس کی عدالت کی دلیل نہیں معلوم کرتا، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ جاہل ہو تب بھی اس سے استفتاء جائز ہے تو علم کے ساتھ بھی جائز ہے۔ اس پر ہمارا کہنا یہ ہے کہ جو اس کے فسق سے باخبر ہے وہ اس سے کچھ نہیں پوچھےگا، اور جو اس کی عدالت سے واقف ہے وہ اس سے معلوم کرےگا۔ اور جس کو اس کا حال معلوم نہیں اس کے لیے دو صورتیں ہیں۔
کوئی فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ پہلے اس کی عدالت کی تحقیق کرے گا کیوں کہ اس کے نزدیک مفتی کے کذب وتلبیس کا امکان موجود ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ ایک عالم کی عام حالت یہی ہوتی ہے کہ وہ عادل ہوتا ہے خاص طور پر جب وہ فتوی کے لیے مشہور ہو۔
یہاں یہ کہنے کی گنجائش نہیں کہ لوگوں کی عام حالت یہی ہے کہ وہ علم سے متصف ہوں اور فتوی دینے کی پوزیشن میں ہوں کیوں کہ لوگوں پر جہالت غالب ہے اور چند لوگوں کو چھوڑ کر سب کے سب عوام ہی ہیں۔ نہ یہ کہنا درست ہوگا کہ مجتہدین وعلماء سب فاسق، صرف چند افراد ہی نیک ہیں، بلکہ صحیح یہ ہے ایک دو کو چھوڑ کر عام طور پر علماء عادل ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جب کسی کی عدالت و علم کی تحقیق ضروری ہے تو اس سلسلہ میں متواتر درجہ کی اطلاع ضروری ہے یا ایک عادل انسان کا بتانا یا دو گواہوں کی گواہی کافی ہوگی۔
اس سلسلہ میں ہماری رائے یہ ہے کہ متواتر روایت کے ساتھ اس کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری ہے اور ایسا ممکن ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک دو عادل انسان کے ذریعہ اگر غلبہ ظن حاصل ہوجائے تو کافی ہوگا۔ کیوں کہ علماء کی ایک تعداد نے اس اجماع پر عمل کو درست قرار دیا ہے جس کو ایک عادل راوی نے نقل کیا ہو، اور یہ مسئلہ بعض پہلو سے اس سے ملتا ہے۔
اگر شہر میں ایک ہی مفتی ہو تو ایک عامی کے لیے اسی سے رجوع کرنا ضروری ہو گا۔ اور اگر ایک تعداد موجود ہو تو پھر جس سے چاہے پوچھے ان میں سب سے بڑے عالم سے پوچھنا ضروری نہیں جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں تھا کہ بغیر کسی تفریق کے لوگ ممتاز اہل علم سے بھی معلوم کرتے تھے اور ان سے کم درجہ کے صحابہ سے بھی۔ کبھی یہ پابندی نہیں لگائی گئی کہ صرف حضرات شیخین یا حضرات خلفائے راشدین سے ہی مسائل معلوم کیے جائیں۔
کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ سب سے ممتاز عالم سے فتویٰ معلوم کرنا ضروری ہے، اگر سب ممتاز ہوں تو اس کو اختیار ہوگا۔ لیکن یہ بات اجماع صحابہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ کبھی کسی بڑے اور جلیل القدر صحابی نے اپنے سے کم درجہ کے کسی صحابی کو فتوی دینے سے نہیں روکا۔ بلکہ جس کے بارے میں عام طور پر معلوم ہو کہ وہ عادل اور عالم ہے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے، اور تمام صحابہ اس وصف سے متصف تھے۔
ہاں اگر ایک مسئلہ میں دو مفتیان کرام کی رائے الگ الگ ہوتو اگر دونوں برابر کے عالم ہوں تو دونوں سے پھر مراجعت کرے گا کہ آپ دونوں میرے علم کے مطابق بڑے ہیں لیکن دونوں کے فتاوی میں اختلاف وتناقض ہے، اب میں کس پر عمل کروں، اگر وہ اختیار دیں تو اس کو قبول کر لے ، اور اگر دونوں کا اتفاق اس پر ہو کہ احتیاط اس پہلو میں ہے یا کسی ایک پہلو کی طرف مائل ہوں تو اس کو اختیار کرے، اور دونوں اختلاف رائے پر مصر رہیں تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک کو اختیار کرلے، کیوں کہ مسئلہ کو باطل قرار دینے کی کوئی صورت نہیں اور نہ ایک عالم دوسرے سے ممتاز ہے، ائمہ کی حیثیت ستاروں کی ہے ان میں سے جس کے پیچھے چلے منزل تک رسائی حاصل کر لے گا۔ اگر ان میں سے ایک اس کے خیال میں افضل ہو تو قاضی(ابوبکر باقلانی)کی رائے ہے کہ پھر بھی اس کو اختیار ہوگا کیوں کہ کم درجہ کا عالم بھی اجتہاد کے قابل ہوسکتا ہے اگر اس کی اپنی کوئی انفرادی رائے ہو، پھر جب دوسرا بھی اس کے ساتھ ہو تب تو بدرجہ اولی ایسا ہوگا لہذا کسی کے بڑے فاضل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن میرے نزدیک درست یہ ہے کہ اس کو افضل کی اتباع کرنی چاہیے۔ لہذا اگر کسی کے خیال میں امام شافعی بڑے عالم ہیں اور ان کے مسلک میں حق غالب نظر آتا ہے تو اپنی مرضی کے مطابق کسی دوسرے کا مسلک اختیار کرنا درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح کسی عام آدمی کو بھی یہ اختیار نہیں ہوگا کہ ہر مسئلہ میں وہ مسلک اختیار کرلے جو تمام مسالک میں اس کو بہتر معلوم ہو اور مسالک کے سلسلہ میں وسعت کا نظریہ اپنائے، بلکہ اس ترجیح کی حیثیت وہی ہوگی جیسے ایک مفتی کے نزدیک ہوتی ہے کہ دو متعارض دلائل میں وہ ایک کو ترجیح دیتا ہے، اور اس سلسلہ میں وہ ظن غالب پر اعتماد کرتا ہے، یہی صورت یہاں بھی ہوگی۔ گرچہ ہم ہر مجتہد کی تصویب کرتے ہیں لیکن دلیل قطعی سے غفلت کی وجہ سے اور اجتہاد وآخری درجہ کی کوشش سے پہلے غلطی کا امکان بہر حال موجود ہے، ہاں جو بڑا عالم و مجتہد ہو اس سے لا محالہ غلطی کا امکان کم ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اعتقاد کے مطابق اللہ تعالی کی کوئی حکمت ہے کہ بندوں کو غلبہ ظن پر عمل کی تاکید فرماتے ہیں کہ وہ ہوائے نفس کی پیروی میں گمراہ نہ ہوجائیں اور بہائم و حیوانات کی طرح شتر بے مہار نہ رہیں، جن سے ہر طرح کی نکیل ہٹالی جاتی ہے اور وہ جہاں چاہتے ہیں پھرتے ہیں، ایسا نہ ہو اور وہ احکام کے مکلف رہیں اور اپنی عبودیت کی حقیقت سمجھیں، اور یہ ذہن میں رکھیں کہ ان کی ہر نقل وحرکت اللہ تعالی کے کسی حکم کی پابند ہے اور وہ آزاد نہیں۔ لہذا جس حد تک ان کو کسی حکم کاپابند رکھ سکتے ہیں اس میں کمی نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ ان کو کھلے عام اختیار دے کر جانوروں کی طرح آزاد چھوڑنا درست نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جو مفتیوں کا اختلاف رائے ہو یا دو دلیلوں میں تعارض ہو تو ہم کچھ نہیں کرسکتے اور یہ ہماری مجبوری ہے۔
اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ کہا جاسکتا تھا کہ ہر وہ مسئلہ جس میں اللہ تعالی کا کوئی حکم موجود نہ ہو یا جس میں ہر مجتہد کی تصویب ممکن ہو اس میں غور کرنا مجتہد کے لیے ضروری نہیں بلکہ اس کو اختیار ہوگا کہ جو چاہے کرے، اس لیے کہ مسئلہ کا کوئی بھی پہلو ایسا ہوسکتا ہے جس کے بارے میں مجتہد کو ظن غالب حاصل ہوجائے اور یہ اتفاقی ہے۔ یہ کہنا اس لیے درست نہیں کہ غلبہ ظن کی کوشش اور اس کے مطابق عمل اجماع کی رو سے اس کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح ایک عام آدمی کا غلبہ ظن بھی موثر ہوسکتا ہے۔
اب اگر یہ اعتراض ہو کہ مجتہد کے لیے تو مناہج استدلال معلوم کیے بغیر غلبہ ظن کی بنا پر کوئی رائے قائم کرنا درست ہی نہیں، اور عامی انسان تو اپنے وہم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا اور ممکن ہے کہ ظاہر سے دھوکہ کھا جائے اور ادنی کو افضل پر ترجیح دے، تو اگر بے بصیرت ہی اس کو رائے قایم کرنا ہے تو پھر کیوں نہ نفس مسئلہ ہی میں غور کرکے غلبہ ظن کی بنیاد پر ایک رائے اختیار کرلے، کیوں کہ کسی کے علم وفضل کو جاننے کے لیے جس نظر اور جس وسیع تحقیق کی ضرورت ہے وہ عوام کے بس کی نہیں۔
یہ سوال تو واقعی اہم ہے لیکن اس کے جواب میں ہم ایک مثال سے وضاحت کرسکتے ہیں کہ کسی کا کوئی بچہ بیمار پڑا، وہ ڈاکٹر نہیں، لیکن اس نے خود سے کوئی دوا دے دی، تو پریشانی کی صورت میں وہ ذمہ دار ہوگا اور مجرم قرار دیا جائے گا، لیکن اگر کسی ڈاکٹر سے رجوع کیا ہے تو پھر وہ غلط نہیں۔ اگر شہر میں دو ڈاکٹر ہیں اور دونوں کی رائے میں اختلاف ہو اور پھر اس نے اچھے ڈاکٹر کی بات نہ مانی تو بھی اس کی غلطی مانی جائے گی۔ سب سے اچھے ڈاکٹر کا علم عام طور پر شہرت وتواتر سے ہوجاتا ہے، اور اس سے بھی کہ اس سے کم درجہ کے اطباء اس سے رجوع کرتے ہیں یا اس کی طرف ریفر کرتے ہیں، اور اس کو اس طرح تسلیم کرکے اولیت دیتے ہیں کہ اس سے غلبہ ظن حاصل ہوجاتا ہے۔
یہی صورت علماء کے سلسلہ میں بھی ہوتی ہے کہ سب سے بڑے اور ممتاز عالم کا پتہ عام شہرت اور قرائن کی بنیاد پر چلتا ہے، نفس علم میں تحقیق کرنے سے نہیں۔ اور ایک عامی اسی کا اہل ہے، لہذا اس کو اپنی مرضی کے مطابق اور غلبہ ظن کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔
یہی ہمارے نزدیک بہتر صورت ہے اور اسی کے ذریعہ عوام کو تقوی اور تکالیف شرعیہ کا پابند رکھا جاسکتا ہے۔ والله اعلم۔


مولانا طلحہ نعمت ندوی، خدا بخش لائبریری، پٹنہ، بہار (انڈیا) کے ساتھ بطور تحقیق کار وابستہ ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں