علامہ شبلی نعمانی نے اپنے ایک مضمون میں عربی اور فارسی شاعری کا تقابل پیش کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ عربی شاعری یقینا اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے لیکن فارسی شاعری بہت سے پہلوؤں سے ممتاز ہے ۔شبلی کہتے ہیں کہ مثنوی ،فلسفہ ،تصوف اور جدت خیال ،ان میں فارسی شاعری نہ صرف منفرد ہے بلکہ عربی کا شعری ذخیرہ اس صنف سے محروم بھی ہے ۔اس نقطئہ نظر کی تائید میں وہ چند مثالیں پیش کرتے ہیں کہ جب عرب شاعر محبوب کے جمال کو آخری انتہا تک پہنچانا چاہتا ہے تو زیادہ سے زیادہ انگھوٹھی کے حلقے سے تشبیہ دے دیتا ہے ،اس کے برعکس فارسی شاعری کی قوت تخیل اسے بندرج ،گوہر ،چشمہ نوش,پستہ ،غنچہ،ذرہ جوہر جیسی علامات سے ظاہر کرتا ہے لیکن اس کا خزانئہ تشبیہ خالی نہیں ہوتا ۔
دور حاضر میں عربی زبان وبیان پر نظر رکھنے والے ایک بڑے عالم ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے اردو اور عربی شاعری کی ساخت اور اسلوب بیان میں تقابل کو ایک اور مثال سے واضح کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں اردو زبان میں الفت کے تعلق کو بیان کیا جائے تو اسے محبت کے “دھاگوں” میں بندھنے سے تشبیہ دی جاتی ہے، وہیں عربی زبان میں یہی معاملہ دھاگے کے بجائے “رسی” میں ڈھل جائے گا، جس سے اردو کی نزاکت اور لطافت جبکہ عربی زبان میں موجود شدت و کثافت واضح ہوتی ہے۔
راقم نے چند سال پہلے شبلی کے اس مضمون کا عربی ترجمہ کیا جو مدینہ یونیورسٹی کے مجلے میں شایع ہوا تو اسے پڑھ کر ہمارے ایک استاد دکتور محمود مصری (جامعہ اظہر کلیہ ادب کے سابق سربراہ )نے شبلی کی اس بات کو محل نظر قرار دیتے ہوئے کہا کہ عرب شاعری کا وہ حصہ جو غیر متمدن عہد کا ہے، لوگ اس جانب زیادہ التفات کرتے ہیں,اس خطے میں زندگی دشوار تھی ,وسائل محدود تھے ،اور طبیعتیں سخت تھیں. جبکہ ندرت خیال کا ایک اہم عنصر ماحول اور معیشت ہوتی ہے۔ عرب جب مغرب میں پہنچے ہیں ،جہاں خدا کی تخلیق کا حسن اور کائنات کی کرشمہ سازیاں جلوہ افروز تھیں ،ہر جانب بچھے ہریاول سبزہ زار ،نیلی ندیاں، بہتے پانی کا شور،موسم بہار، میٹھے میوے ،جنگلوں کا دل چیرتے جھرمٹ، بل کھاتی چراہ گاہیں،مھتشم جامہ زیبی،آباد شہر اور متمدن سلطنت ۔۔۔۔ایسے میں وہاں کی شاعری کا رنگ ہی مختلف نظر آتا ہے۔چنانچہ وہاں نہ صرف خیال کی ندرت ہے بلکہ الفاظ کی تراکیب، محاورے اور اسلوب بیان بھی جدید ہے۔عرب جو مغرب یعنی اندلس میں آباد ہوئے ان کے زیر اثر شاعری سے فارسی شاعری کا موازنہ تو قابل فہم ہے لیکن مشرقی عرب کی شعری روایت سے یہ موازنہ نہیں بنتا۔
غور کیا جائے تو دکتور محمود مصری کی یہ بات قابل غور ہے کہ عرب شاعری کی تاریخ کو بے آب و گیاہ خطہ تک محدود کر کے دیکھا جائے تو علامہ شبلی کی بات ٹھیک نظر آتی ہے لیکن اگر دور متوسط خصوصا اندلیس میں مسلمانوں کے جانے کے بعد کے ادب کا استقصاء کیا جائے تو ندرت خیال کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جس سے عرب شاعری دور ہو۔اس بات کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ جزیرہ نما کے ادب میں بیان اوصاف کے اسالیب بہت محدود ہیں ،جسے شاعر شدت بیان اور قوت الفاظ سے نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اہل عرب اس پہلو کو بھی اپنا امتیاز بتاتے ہیں کہ لغات کا ذخیرہ اتنا وسیع ہے کہ ایک ایک چیز کے لیے سو سو نام ہیں.لیکن یہ بات زبان کی ابانت نہیں ہے, کیونکہ مشرقی عرب کی بدوی زندگی میں اشیا کا ذخیرہ ہی محدود ہے, اس میں یہ بات فطری ہے کہ ایک چیز کے کئی کئی نام ہوں.
یہی وجہ ہے کہ مشرقی عرب کی شعری تالیف,قافیہ بندی، الفاظ کا چناو اور صوتی آہنگ تو متاثر کرتا ہے, لیکن اس کامفہوم و خیال، جنگ و جدال میں غارت گری کی داستان، جانوروں کے اعضاء کی تحسین، محبوبہ کے مسکن و آثار اور وصال کی نوحہ گری کے بیان سے طبعیت کو بوجھل کردینے والے قصوں کے سوا کچھ نہیں۔اسی زاویے سے عرب شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو یہ پہلو مزید واضح ہوتا ہے۔ہم یہاں دو مثالوں سے اس فرق کو پیش کرتے ہیں:
پہلی جود و سخا پر مبنی ان چند عربی اشعاد کو جمع کر کے ترجمہ کیا گیا ہے جو مشروقی عرب کی شعری روایت کے اس پہلو کو نمایاں کرتے ہیں.
اس کے مقابل میں دوسری غزل معروف شاعر سید جعفر الحلی ہے۔ان کے تقابل سے زبان کی ابانت اور اسلوب کی ندرت کا تقابل کیا جا سکتا پے۔
“پہلی مثال”:
-أبي أحَدُ الغَيْثَينِ صَعْصَعةُ الّذِي،, متى تُخِلفِ الجَوْزَاءُ وَالنّجمُ يُمطِرِ
میرے والد کی سخا کا بادل اس بادل کی طرح نہیں جو جوزا و نجم کے موسم کے علاوہ نہ برسے
وما یکی فی من عیب فانی
جبان الکلب مھزول الفصیل
مجھ میں اس کے سوا اور کیا کمی ہے کہ مہمانوں کی آمد سے کتے بھونکتے رہتے ہیں اور اونٹنیوں کو ضیافت میں ذبح کر کے ان کے بچھڑے بچے ہی ہمارا سرمایہ ہوتے ہیں ۔
و صاعقہ من نصلہ تنکفی بھا
علی اروس الاقران خمس سحاب
اس کی انگلیاں نھیں پانچ بادل ہیں ،جو دشمنوں پر بجلیاں گراتی ہیں اور دوستوں پر پانی ۔
طویل نجاد ،رفیع العماد ،
کثیر رماد اذا ما شتی
اونچی نیام والا ،بلند مکان والا ہے وہ ،
کھانے پکانے سے راکھ کے ڈھیر لگانے والا ہے وہ جب سردی سے لوگ بھوکے ہوں.
ان سحاب لتستحیی اذا نظرت
الی نداک فقاستہ بما فیھا
بادل جب تیری سخاوت کو دیکھ کر موازنہ کرتے ہیں تو شرما جاتے ہیں کیا تیری پرواز ہے اور کیا ان کے پاس۔
وکنت اذا کف اتتک عدیمۃ
ترجی نوالا من سحابک بلت
خالی ہاتھوں کو تیری سخا کے بادل تر کر دیتے ہیں.
فما جازہ جود ولا حل دونہ
ولکن یصیر الجود حیث یصیر
سخاوت تیرا جز لا ینفک ہے, نہ تجھ سے دور ہوتی ہے نہ فاقد ,تیرا پیچھا ہی کرتی رہتی ہے .
دوسری مثال:
اےغزال بے اعتناء
يا قامة الرَشأ المهفهف ميلي بِظماي مِنك لِموضع التَقبيل
اے غزال نحیفِ عشق متوجہ ہو !
میری تڑپ کیا ہے فقط اک بوسہ جاناں اور !
رَشاء أَطلَّ دَمي وَفي وَجَناته وَبَنانه أَثر الدَم المَطلول
تجھ غزالِ بےرحم کے فراق میں خون جگر ہوا
دیکھ لواس کے قاتل رخسار اور بےرحم انگشت پر میرے دم جاری کےسراغ ہیں
يا قاتلي بِاللَحظ أَول مَرة أَجهز بِثانية عَلى المَقتول
سنو !تمھیں معلوم ہے تمھارے عشق کی پہلی نظر ہی قاتل تھی
مگر تمھیں کیا ,غم فراق سے چور عاشقوں پر ھنوز قہر ڈهاتی ہو.
فَالظُلم مِنكَ عليّ غَير مذمم وَالصَبر مني عَنكَ غَير جَميل
ہمارے لیے تو تیری بےرخی کا تعلق بھی غنیمت ہے .
اور اتنی بے اعتنائی کہ تمھیں اس بے رخی پر ہمارا صبر تک بھی گوارہ نھیں.
أَتلو صَحايف وَجنتيك وَأَنتَ في سكر الصبا لَم تَدر بِالإِنجيل
دل لگانے کے بعد اب ہمارا مقصد حیات اور کچھ نہیں کہ تمھارے رخسار کی صفات ہی کی تلاوت کیا کریں
ہماری تلاوت خاک سنتی تم .شباب حسن و عمر کے خمار میں انجیل بھی بھلا بیٹھی ہو.
أفهل نظمت لئالئا من أدمعي سمطين حول رضابك المعسول
پتا ہے تمھارے آنسو نہیں لڑیاں ہیں موتیوں کی.
ایسے ہی ہیرو کو جڑ دیا گیا ہے شہد کے سے چاشنی لعاب لب کے گرد
أَشكو إِلى عَينيك من سقمي بها شكوى عَليل في الهَوى لعليل
شکوہ کناں ہوں آپ سے نہیں آپ کے نشیلے نینوں سے کہ ڈبو ڈالا
ہائے کس سے شکوہ کر بیٹھا وہ نین توخود ہی علیل جنہیں میری تڑپ کا احساس نھیں.
فعليك من ليل الصدود شباهة لكنها في خصرك المهزول
ایسی بےاعتنائی روشن دن کو بھی گھٹاٹوپ رات بنا ڈالے
کہنے دو مجھے ،مجھ سے تعلق تمھارے پتهر جگر کی طرح نحیف ہو چکا ہے.
لي حاجة عِندَ البَخيل بِنيله ما أَصعب الحاجات عِندَ بَخيل
عاشق ہوں میں پر کتنا نہ سمجھ کہ اندھیری رات میں ایک خودغرض پر بھروسہ ہے
اورکتنا مشکل ہے عشق کا یہ سفر کہ ہم اس خود غرض سے بھی پر امید ہیں…..
کمنت کیجے