ایک وٹس ایپ گروپ میں جماعت اسلامی کے ایک دوست تصوف کے خلاف فرماتے رہے کہ کسی کے ہاتھ پہ بیعت کر کے جب ایک شخص کسی کو پیر مان کر خود مرید ہوجاتا ہے تو یہ نظام دراصل انسان کی علمی و ذہنی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے رکھ دینے کے مترادف ہے۔ آپ کو چاہئے کہ تصوف پر مولانا مودودی کی تنقید کا مطالعہ کریں۔
تبصرہ:
عرض ہے کہ اس کے دو جواب ہیں، اصولی و الزامی۔ دونوں پیش خدمت ہیں۔
– اصولی جواب یہ ہے کہ یہ بات تاریخی حقائق سے کوسوں دور ہے کہ صوفی بند دماغ و غیر ناقد ہوتے ہیں۔ صوفیا کے لٹریچر میں داخلی گمراہ گروہوں و خیالات پر تفصیلی نقد موجود ہے اور یہ سلسلہ ابتدا سے جاری ہے۔ صوفی لٹریچر کی تقریبا ہر نمائندہ کتاب میں اس پر باقاعدہ باب یا فصل ہوتی ہے۔ مثلا درج ذیل کتب ملاحظہ کیجئے:
• ابو نصر سراج طوسی (م 377 ھ) کی اللمع
• ابو بکر الکلابازی (م 380 ھ) کی التعرف لمذھب اہل التصوف
• ابو القاسم القشیری (م 465 ھ) کی رسالہ قشیریۃ
• ابو الحسن الھجویری (م تقریبا 470 ھ) کی کشف المحجوب
• ابو حامد الغزالی (م 505 ھ) کی احیاء العلوم
• شھاب الدین السھرودری (632 ھ) کی عوارف المعارف
• شیخ الاکبر ابن العربی (م 638 ھ) کی الفتوحات المکیۃ
• ابو العباس احمد البرنسی الفاسی (م 899 ھ) کی قواعد التصوف
الغرض اہل تصوف کی جانب سے اپنی روایت کے داخلی تنقیح و نقد کا یہ سلسلہ ابتدائی ہزار سالہ تاریخ میں کبھی نہیں رکا یہاں تک آپ شیخ احمد سرھندی (م 1033 ھ) تک آجائیے۔ ہمارے ایک استاد جناب ڈاکٹر مصعب الخیر ادریس نے “اتجاھات نقد التصوف عند المسلمین” نامی ایک کتاب میں تصوف کے داخلی و خارجی ناقدین کے خیالات کو جمع کردیا ہے۔ چنانچہ صوفیا کے بارے میں جو یہ تصور بنا لیا گیا ہے کہ یہ بھنگ پی کر مست رہنے والے ایسے لوگ ہیں جنہیں علم و فکر سے کوئی یارانہ نہیں اور اس لئے انہیں جگانے کے لئے باہر سے کسی کو نقد کرنا پڑتا ہے، یہ بالکل فرضی منظر کشی ہے۔ تصوف کے خارجی ناقدین جن بنیادوں پر اس پر نقد کرتے ہیں، ظاہر ہے وہ نقد اہل تصوف کے معیارات کے لحاظ سے غلط ہے، تو وہ کیوں اسے ماننے لگے؟ مثلاً اگر کوئی بدعت کا اپنا تصور فرض کرکے ان پر یہ نقد کرتا رہے کہ تمہارا فلاں کام بدعت ہے اور صوفی اس نقد کو نہ مانے تو یہ اختلاف ویسا ہی ہے جیسے فقہا ایک دوسرے سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرتے ہیں۔ ایسے اختلاف کو نہ ماننے کو ذھنی صلاحتیں ماؤوف ہونے پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے مولانا مودودی صاحب کی سیاسی فکر پر سخت تنقید کی، لیکن جماعت والے اسے نہیں مانتے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ مولانا مودودی نے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤوف کردی ہے؟ رہی بات تصوف پر مولانا مودودی کی تنقید کو پڑھنے کی، تو ان کی تنقید کا واحد کنٹریبیوشن یہ ہے کہ انہوں نے یہ باتیں آسان اردو میں لکھیں۔
– الزامی جواب یہ ہے کہ کسی صوفی کا مرید بن کے انسان کی ذہنی صلاحتیں اتنی ہی ماؤوف ہوتی ہیں جتنی مولانا مودودی کی تنظیم کا رکن بننے کے بعد ہوجاتی ہیں، یعنی جیسے جماعت اسلامی کا عام ورکر مولانا کی کتاب میں لکھی بات پر تنقید گوارا نہیں کرتا اسی طرح عام مرید بھی اپنے پیر پر تنقید گوارا نہیں کرتا۔ مولانا مودودی کا انتقال ہوئے لگ بھگ پنتالیس سال ہونے کو ہیں اور ان کی فکر پر قائم “تحریک اسلامی” کو اسی سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ اس دوران ان کی فکر پر اندرون سے متعدد اہل علم نے تنقیدات کیں جیسے کہ مولانا وحید الدین خان صاحب، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب، ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب۔ کیا جماعت اسلامی کے لوگوں نے ان کی تنقید کو درست مان لیا؟ حاشا وکلا بلکہ ان میں سے بعض کو خود ہی جماعت سے خارج قرار دیا۔ چنانچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اتنی تنقید تو جماعت اسلامی والوں نے مولانا مودودی کے افکار کی نہ کی ہوگی جتنی صوفی فکر سے وابستہ علما نے اپنے منہج والوں پر کی۔
کمنت کیجے