گزشتہ دنوں کچھ دیوبندی احباب کے گروپ میں اس طرح کی گفتگو چل رہی تھی کہ دیوبندی روایت شکست وریخت کا شکار اور بکھر جانے کے قریب ہے۔ نمایاں استدلال یہ تھا، جس کی بازگشت گزشتہ برسوں میں متعدد اطراف سے سننے میں آ رہی ہے، کہ غامدی اسکول آف تھاٹ نے اس کو بری طرح متاثر کیا ہے اور مدرسہ ڈسکورسز کے پلیٹ فارم نے بھی یہی کردار ادا کیا ہے۔ (ان دونوں حوالوں سے فطری طور پر ناچیز کا ذکر خیر بھی ہوا)۔ میں نے وہاں یہ عرض کیا تھا کہ یہ تاثر مجھے درست دکھائی نہیں دیتا اور میں صورت حال کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتا ہوں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے نقطہ نظر کی کسی قدر تفصیل پیش کر دی جائے۔
اس سوال کی جہت اگر تو یہ ہے کہ دیوبندی روایت جدیدیت کے احوال اور نظریات کے تعلق سے کوئی ایسا مزاحمانہ کردار ادا نہیں کر سکی جس سے قدیم دینی روایت کی بحالی کی کوئی راہ کھل سکے تو یہ کافی حد تک درست ہے، لیکن اس کو صرف دیوبندی روایت کا مسئلہ کہنا درست نہیں۔ یہ بحیثیت مجموعی پوری دینی روایت کا مسئلہ ہے اور اس میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث وغیرہ میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ روایت کے ساتھ وابستگی کے تصور پر قائم ان سب مکاتب فکر نے اپنی شناخت کے کچھ بنیادی لوازم پر اصرار کرتے ہوئے جدیدیت کے تعلق سے، بنیادی طور پر دینی افکار واحکام کی تعبیر نو کا ہی راستہ اختیار کیا ہے۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کے ساتھ تعامل اور فکر کے نئے اطوار کی قبولیت کے پہلو سے بریلوی مکتب فکر کی رفتار مقابلتاً سب سے سست ہے، جبکہ دیوبندی مکتب فکر میں اس تعامل کی آمادگی سب سے زیادہ رہی ہے۔
اس تعامل کے لیے openness کی وجہ سے دیوبندی روایت کے لیے خود کو ڈیفائن کرنے کا مسئلہ بھی ابتدا سے موجود رہا ہے جس کے کچھ اہم مظاہر ہمارے پیش نظر ہونے چاہییں۔
جن اکابر اہل علم (مثلاً مولانا نانوتویؒ، مولانا گنگوہیؒ، شیخ الہندؒ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ، مولانا تھانویؒ وغیرہم) کو دیوبندی مکتب فکر کی بنیادی یا بانی شخصیات کہا جا سکتا ہے، دیکھا جائے تو وہ ایک طرف حنفی فقہ اور تصوف کی روایت سے وابستہ اور شاہ ولی اللہؒ کی علمی واصلاحی تحریک کے منتسبین میں سے تھے، اور دوسری طرف خود اپنی جگہ دینی روایت پر استقلالاً غور کرنے اور اس سے اخذ وترک کے اپنے معیارات رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ حضرات، ایک نئے انداز فکر کے pioneer ہونے کی وجہ سے، اس طرح کی فکری تحدیدات کی گرفت میں نہیں تھے جو ایک گروہی شناخت بن جانے کے بعد وجود میں آ جاتی ہیں۔ بالفاظ دیگر، یہ سب لوگ خود ’’اکابر’’ تھے، اور ان پر کچھ مخصوص ’’اکابر’’ کی کھینچی ہوئی لکیروں کی پابندی کا فکری دباو موجود نہیں تھا۔
جو مختصر پس منظر عرض کیا گیا، اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دیوبندی روایت میں دو طرح کی tensions کا موجود ہونا اور مستقلاً موجود رہنا اس مکتب فکر کی بنت میں شامل ہے۔ دیوبندی روایت کو ان کے ساتھ ہی جینا اور آگے بڑھنا ہے۔ ان کی موجودگی دیوبندی روایت کے لیے ایک ایسا چیلنج ہے جو اس کی ساخت کا تقاضا ہے۔ دراصل دیوبندی روایت اس وقت اپنے خاتمے کا فیصلہ کرے گی جب وہ بحیثیت مجموعی یہ طے کر لے گی کہ اسے ان tensions کو حتمی اور قطعی طور پر تحلیل کر دینا ہے:
پہلی یہ کہ روایت (فقہ حنفی، ماتریدی علم کلام اور تصوف) کے ساتھ وابستگی رکھتے ہوئے جدیدیت اور جدید معاشرے کے ساتھ بھی تعامل کرنا ہے جو بنیادی طور پر مثبت اور accommodating ہوگا۔
دوسری یہ کہ بحیثیت مجموعی ماضی کی پوری روایت کو own کرتے ہوئے ’’دیوبندی اکابر’’ کی تعبیرات وترجیحات کو اپنی شناخت کا نمایاں حصہ بنانا ہے۔
ان دونوں میں توازن کو قائم رکھنے اور ان کے ساتھ آگے بڑھنے میں ہی دیوبندی شناخت کی بقا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی اگر تحلیل کرنے کی کوشش کی جائے، مثلاً فقہ حنفی اور تصوف کو تو بنیاد بنایا جائے، لیکن جدیدیت اور جدید معاشرے کے ساتھ تعامل کو منفی کر دیا جائے تو دیوبندی شناخت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ماضی کی روایت کے ساتھ اگر دیوبندی اکابر کی تعبیرات کو خصوصی اہمیت نہ دی جائے یا، اس کے برعکس، صرف دیوبندی اکابر کی تعبیرات کو حرف آخر مان کر ماضی کی روایت سے بے اعتنائی اختیار کر لی جائے تو بھی ان میں سے ہر ایک طریقہ دیوبندی شناخت کے لیے death knell یعنی موت کا پیغام ثابت ہوگا۔
کمنت کیجے