کچھ عرصہ پہلے الشریعہ اکادمی کے ایک حلقہ درس میں کچھ شرکا کے ساتھ مسلم شریف کے منتخب ابواب کا مطالعہ کرتے ہوئے حدیثِ قرطاس بھی آئی۔ اس پر چند باتیں عرض کرنے کا موقع ملا، جو پیشِ خدمت ہیں:
حدیثِ قرطاس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے اپنے وصال سے دو چار دن قبل کچھ صحابہ کی موجودگی میں کاغذ قلم لانے کا فرمایا کہ چند باتیں انہیں لکھوا دی جائیں، تاکہ میرے بعد وہ گمراہ نہ ہوسکیں۔ حضرت عمرؓ نے حضورﷺ کی صحت کے شدید عارضے کے باعث صحابہ کو روک دیا۔ حضورﷺ نے بھی اپنے حکم پر اصرار نہیں فرمایا۔
1. حضرت عمرؓ کے اس اقدام کو ان کے شخصی کردار اور مزاج سے الگ کرکے سمجھنا مشکل ہے۔ اپنی طبیعت اور مزاج میں آپ تمام صحابہ میں “نمایاں” تھے۔ یوں لگتا تھا کہ قدرت نے آپ کا خمیر “حق” سے گوندھا تھا۔ یہ حق حضرت عمرؓ کے کردار میں ایسا ڈھل چکا تھا کہ عمر بھر حق کی تلاش، اس کی جانچ، اس کے اظہار، اس کے نفاذ اور اس کے دفاع کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن بے چین اور سرگرم رہے۔ حضورﷺ سے بے تکلفی ایسی تھی کہ یہ معلوم ہوتے بھی کہ رائے مختلف ہے، اس کے اظہار سے نہ رکتے تھے۔ اسیرانِ بدر کا معاملہ ہو، حدیبیہ کا قصہ ہو یا ابنِ ابی کے جنازہ پڑھنے کا موقف ہو آپ نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار فرمایا۔ حضرت عمرؓ کے اس مزاج کو قدرت نے بھی جابجا تائید بخشی ہے۔ اس لیے حدیثِ قرطاس میں حضرت عمرؓ کے اقدام کو کسی عام شریک مجلس کے اقدام کی طرح نہیں سمجھا جاسکتا۔ غلط فہمی کا یہیں سے آغاز ہوتا ہے۔
2. بے تکلفی کے تعلق میں ہر “انکار” بے ادبی نہیں کہلاتا۔ آپ مہمان ہوں اور میزبان کو تکلف سے روک دیں اسے مروت ہی سمجھا جاتا ہے۔ کسی بڑے کو اپنے احترام سے روک دیں اسے عین ادب سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا یہ انکار بعینہ ویسا ہی ہے جیسے صلح حدیبیہ کے وقت حضرت علیؓ نے حضورﷺ کے حکم کے باوجود “رسول اللہ” کے الفاظ پر قلم پھیرنے سے انکار فرمادیا تھا۔ کون احمق اسے بے ادبی سمجھے گا۔
3. میں، آپ یا کسی بھی نیک آدمی کے بارے میں یہ تصور ہوسکتا ہے کہ وہ مفادی مفاد، تعلق داری یا کسی خوف کے باعث حق بیان کرنے سے رک جائے۔ مگر ایک پیغمبر کی شان ایسی نہیں ہوتی۔ اس لیے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں صحابی رکاوٹ بن گئے ورنہ آپ علیہ السلام یہ فرمانا چاہتے تھے تو دراصل پیغمبر کے فریضہ تبلیغ کو ہلکے باٹ میں تول رہے ہوتے ہیں۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اس لیے حضرت عمر ہوں یا کوئی اور صحابی، پیغمبرﷺ کو بیانِ حق سے نہیں روک سکتا۔ آپ اگر رکتے ہیں تو حکمِ خداوندی سے اور اگر بولتے ہیں تو بھی حکمِ خداوندی سے۔ یہی عمرؓ تھے پردے کے باوجود حضرت سودہؓ کے باہر نکلنے پر پابندی کے خواہاں تھے مگر رسالتِ مآبﷺ نے حضرت سودہؓ کو اجازت دی۔ یہی عمرؓ تھے جو صلح حدیبیہ پر نالاں تھے مگر پیغمبرﷺ کے عزائم کو نہیں روک پائے۔
4. ذاتی طور پر میں ان محدثین کی رائے کو راجح سمجھتا ہوں جن کا خیال ہے کہ حضورﷺ جو بات بیان فرمانا چاہتے تھے اگلے دنوں آپ نے وہ بیان فرما دی تھی۔ بالخصوص “قرآن، سنت اور عترت” کی حفاظت اور ان کے ساتھ قلبی اور شعوری لگاو کی نصیحت جس انداز میں بیان فرمائی وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا حدیثِ قرطاس میں ملتا ہے، کہ ان کو تھام لو گے تو پھر کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
کمنت کیجے