ثقلین سرفراز
سماج کی ہر شے تغیّر پذیر ہونے کے باوجود بھی معروضی سطح پر فرد کا اپنی فعلیت میں (مرکز کے تناظر میں ) قطعی طور پر آزاد نہ ہونے کا تعلق مابعد جدیدیت سے جوڑا جا سکتا ہے۔ مابعد جدیدیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ فرد کو معروضی سطح پر آزاد رہنے دیا جاٸے اور ”مرکز“ کی جکڑ بندیوں کو چیلنج کیا جاٸے۔ کسی بھی طرح کے تصورِ مرکز سے نجات تب ممکن ہے جب اس کا متبادل پیش کیا جاٸے۔ فرد کو ”لامرکز“ کرنے کی بات جہاں مابعد جدیدیت کے بنیادی اھداف میں شامل ہے وہیں فرد کے لامرکز ہونے کے حاصلات مابعدجدید عہد میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے مابعد جدیدیت میں ”تصور“ اور ”فرد“ کی دوٸی قاٸم نہیں کی جا سکتی۔
سماجی نظام ایک طرح سے خودرو ہوتا ہے یہ کوٸی طے شدہ نظام نہیں ہوتا بلکہ معاصر تقاضوں کے ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ کسی بھی سماج میں تبدیلی کا دارومدار وہاں کے افراد کے سماجی شعور سے جُڑا ہوتا ہے۔ شعور اور سماجی شعور کو دو سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ محض شعور کو انفرادی سطح پر جب کہ سماجی شعور کا جاٸزہ سماج کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جاٸے تو انفرادی شعور کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ سماجی عمل میں ظاہر نہ ہو جاٸے۔ محض شعور کا ادراک بھی سماجی عمل کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ سماجی عمل کی ابتدا ”ضرورت“ کی بنیاد پر ہوٸی بعد ازاں شراٸط پر ہونے لگی اور یہی شرطیں آہستہ آہستہ سماجی اصول و اقدار بنتی گٸیں۔ ہر دور کے اپنے سماجی اصول و اقدار رہے ہیں جیسے جیسے انسان ارتقا کرتا چلا گیا اُس کے اپنے سماجی اصول و اقدار میں بھی تبدیلیاں آتی گٸیں۔ سماجی میکانزم کے مباحث کا جاٸزہ لینے کے بعد جو نتاٸج سامنے آتے ہیں اُن میں ایک بنیادی پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ سماج کی تشکیل ہمیشہ ناگزیر تقاضوں کی بدولت ممکن ہوٸی اور یہی ہر دور کے تقاضے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حتمیت نام کا کوٸی شے یا تصور نہیں بلکہ التوا اور ارتقا کا عمل جاری ہے۔ انہی دو نکات یعنی التوا اور ارتقا کی بنیاد پر سماجی میکانزم کا تعلق مابعد جدیدیت سے قاٸم ہوتا نظر آتا ہے۔ سماج کا کوٸی بھی عمل کسی اجازت یا حکم نامے سے تشکیل نہیں پاتا بلکہ سماجی عمل اپنی بُنتر میں آزاد ہوتا ہے۔ سماجی عمل کا اپنی فعلیت میں آزاد ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ماوراٸیت نام کی کوٸی شے نہیں ہے۔ انسان اپنے سوچنے کے عمل میں آفرینش سے آزاد ہے۔ جب چاہے سوچے اور جتنا مرضی سوچے ہمہ وقت وہ آزاد ہے۔ انسان کی سوچ اس کے عمل کے ذریعے معروض پر اثر انداز ہوتی ہے اور معروض کو بھی عقل اپنے اندر جذب کرتی ہے۔
سماج کا رکن ہوتے ہوٸے معروضی سطح پر فرد کا ہر عمل لامرکز تصور کیا جاٸے گا چونکہ معروضی عمل اس کا لازمہ ہے۔ معروضی عمل کو جب وہ موضوعی سطح پر زیر بحث لاٸے گا تو یہ مباحثہ بڑے بیانیے کے داٸرہ کار میں آ جاٸے گا۔ لامرکز ہونے کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سماج سے ہی بیگانہ ہو جاٸے اور ایسا بھی ہرگز نہیں کہ مابعد جدیدیت سماجی عمل سے انکاری ہے اس کے بغیر تو فرد سماجی سطح پر مغاٸرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ مغاٸرت بھی دو سطح پر جنم لیتی ہے ایک سماجی عمل کے وسط سے اور دوسرا طبقاتی سطح پر ظاہر ہوتی ہے۔
لامرکز کو اگرچہ مابعد جدیدیت کے بنیادی اھداف میں بطورِ جُزو کے زیرِ بحث لایا جاتا ہے جب کہ مابعد جدیدیت اپنی اصل میں ایک کثیرالجہتی ثقافتی تحریک ہے۔ لامرکز کا تصور سماج کے حوالے سے جب بطورِ مقدمہ کے زیربحث لایا جاتا ہے تو فرد کو ہی مرکز کے چُنگل سے لامرکز کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مرکز کا تصور طاقت سے باہر نہیں ہوتا اور لامرکز کی تمام بحث فرد کے گرد گھومتی ہے اور فرد کا لامرکز سطح پر ہر معروضی عمل حقیقت برمبنی متصور ہوتا ہے۔
فرد کا معاشرے میں بنیادی کردار دو سطح پر ہوتا ہے ایک انفرادی یعنی خود کو سامنے رکھتے ہوٸے اور دوسرا اخلاقی (اخلاق بہ معنی معاملات کے) لحاظ سے۔ اخلاقیات کی روح کا تعلق فرد کے سماجی طرزِ عمل سے مشروط ہے اس میں فرد کے سماج میں دوسروں کے ساتھ معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ معاملات کا قضیہ بھی سماجی میکانزم کا لزوم ہوتا ہے۔ مرکز سے پہلے اور ایک ارتقا کی صورت سماج کا میکانزم متشکل ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں مرکز اور لامرکز کی بحث کو یوں بھی سمیٹا جا سکتا ہے کہ لامرکز کی دنیا فرد کی اٹل ضرورت کے تحت تشکیل پاتی ہے جب کہ وہی فرد جب بنیادی لزوم سے آگے طاقت کے نظام میں جا داخل ہوتا ہے تو مرکز کو سیاسی بنیاد پر قاٸم کرتا ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ سماج کو آپ معروضی سطح پر افراد کے مابین ایک طرح سے معاہدے کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ سماجی معاہدے ناگزیر بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ افراد کے مابین یہ کوٸی حتمی طور پر طے شدہ ہوتے ہیں بلکہ جغرافیاٸی مزاج اور موقع محل کے مطابق بھی سرانجام پاتے ہیں لیکن افراد کے اذہان میں یہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ اگر ہم آغاز دنیا سے سماجی میکانزم کا مطالعہ کریں تو سماج معروضی یعنی لامرکز سطح پر متشکل ہوٸے اور یوں آگے آگے معاصر تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں آتی گٸیں اور التوا و ارتقا کی صورت بنتی گٸی۔ مابعد جدیدیت کی تبلیغ بھی درج بالا پہلوٶں کے حوالے سے یہی ہے۔ لہذا آخری تجزیے میں ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ سماجی میکانزم اور مابعد جدیدیت کا قریب کا تعلق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثقلین سرفراز صاحب مابعد جدید نقاد ہیں اور اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور میں ڈیپارٹمنٹ آف اردو میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے