ڈاکٹر ساجد علی
وجاہت مسعود صاحب نے کچھ عرصہ قبل دو قومی نظریہ کے بارے میں چودہ سوالات اٹھائے تھے۔ یہ سوالات چودہ تو نہیں ہیں کیونکہ زیادہ تر سوالات overlap کرتے ہیں ،تاہم ان سے تعرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سوالات سے پہلے اولین پیراگراف میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ مسلم لیگ نے دو قوموں کا ذکر کیوں کیا تھا؟ سکھ، پارسی اور مسیحی کیوں الگ اقوام نہیں تھیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سکھ، پارسی اور مسیحی اس لیے الگ قوم ہونے کا دعوی نہ کر سکے کہ ان کے پاس کسی علاقے میں اکثریت نہیں تھی۔ اگر مسلمان بھی اسی طرح ہندوستان میں بکھرے ہوتے اور وہ کسی علاقے میں اکثریت کے حامل نہ ہوتے تو وہ بھی علیحدہ قوم ہونے کا دعوی نہ کر سکتے۔ تقسیم ہند کے وقت کے مقابلے پر آج ہندوستان میں مسلمان دوگنی تعداد میں موجود ہیں لیکن وہ خود کو الگ قوم قرار نہیں دیتے کیونکہ ان کے پاس کہیں اکثریت موجود نہیں۔ سکھوں کا بھی یہی معاملہ تھا۔ اس وقت انہوں نے بہت کوشش کی تھی کہ انہیں الگ قوم شمار کیا جائے مگر پنجاب کے شاید کسی ایک ضلع میں بھی ان کی اکثریت نہیں تھی۔ اسی بنا پر وہ اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ کوئی انسانی گروہ اپنے قوم ہونے کا مطالبہ اسی وقت منوا سکتا ہے جب اسے کسی خطہ ارض میں اکثریت حاصل ہو اور وہ خطہ ارض اتنا وسیع ہو کہ وہاں ایک قابل عمل، پائیدار ریاست تشکیل پا سکتی ہو۔ منطق کی زبان میں اسے لازمی شرط قرار دیا جاتا ہے۔اگر الف ب کے لیے لازمی شرط ہے تو اس کا مطلب ہے کہ الف کی عدم موجودگی میں ب بھی واقع نہیں ہو سکتا۔ آکسیجن آگ کے جلنے کی لازمی شرط ہے۔ اگر آکسیجن نہیں ہو گی تو آگ بھی نہیں جلے گی۔ چنانچہ قوم بننے کے لیے کسی خطہءارض کا ہونا لازمی شرط ہے۔
محترم امجد سلیم علوی صاحب کی عنایت سے روزنامہ انقلاب کے صفحات کی زیارت نصیب ہو جاتی ہے۔ اسی روزنامہ کی 20 نومبر 1942 ء کی اشاعت میں لائل پور میں 18 نومبر 1942 کو منعقد ہونے والی پہلی پنجاب پراونشل مسلم لیگ کانفرنس کی روداد شائع ہوئی تھی۔ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے اس سوال کہ کیا پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو بھی حق خود اختیاری دیا جائے گا، کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا: آئینی نقطہءنظر سے حق خود اختیاری قوموں کو ملتا ہے چھوٹے گروہوں کو نہیں۔مسلمان دس کروڑ ہیں، قوم ہیں، ان کا مستقل کلچر ہے۔ علیحدہ تہذیب ہے، جدا مذہب ہے۔ ایک خاص علاقے میں ان کی اکثریت ہے۔وہاں وہ اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گروہ قوم نہیں،کسی علاقے میں ان کی اکثریت نہیں ہے۔ انہیں کس طرح حق خود اختیاری دیا جا سکتا ہے۔
یہ الگ قصہ کہانی ہے کہ دانش وروں، صحافیوں اور واعظوں نے مسلمانوں کی الگ مذہبی شناخت پر اتنا زور دیا ہے کہ ایک خاص علاقے میں اکثریت والی بات کو گول ہی کر دیا ہے۔
1۔ اگر پاکستان ایک قوم ہے تو اس کا اب دو قومی نظریے سے کیا تعلق ہے؟
اوپر والی بحث سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد دو قومی نظریے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی تھی، بلکہ وہ ختم ہو گیا تھا۔ پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ کسی تشویش کا باعث نہیں ہو سکتی تھی۔ پاکستان بن جانے کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس وقت تو یہ سوال اہمیت کا حامل تھا کہ مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان کے مابین حقوق و فرائض کا توازن کیسے قائم کیا جائے۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس پر دستور ساز اسمبلی میں اتنے برس بحث ہوتی رہی تھی۔ یہ بات درست ہے کہ ہم نے ایک عدد قرارداد مقاصد بھی منظور کرلی تھی مگر اس کی کسی شق سے یہ نتیجہ برآمد نہیں کیا جا سکتا کہ غیر مسلم دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ ہماری دستوری تاریخ میں اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں؛ نہ اس کی بنا پر کبھی کوئی قانون سازی ہوئی۔ اس کو مولانا مودودی صاحب نے بجا طور پر ایک ایسی بارش قرار دیا تھا جس سے پہلے نہ کوئی گھٹا اٹھی اور نہ جس کے بعد کوئی روئیدگی ہوئی۔ اور اس بات پر اہل پاکستان کا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ قرارداد مقاصد پر اپنی معروضات جلد ہی پیش کروں گا۔
2۔ اگر پاکستانی قوم کی تشکیل عقیدے کی بنا پر ہونا ہے تو کیا پاکستان کے غیر مسلم باشندے ایک آزاد ملک کے شہری اور برابر کے شہری ہیں؟ یا ان کی حیثیت مسلمانوں سے الگ ہے؟
جہاں تک پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا سوال ہے تو اس ضمن میں بانی پاکستان نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں جو کہا تھا وہ تمام پاکستانیوں کے لیے دستور العمل کا درجہ رکھتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پہلی بار نہیں کیا تھا بلکہ تحریک پاکستان کے دوران بھی متعدد مرتبہ انہوں نے زور دے کر اس امر کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ پاکستانی ریاست کسی مغل سلطنت کی وارث نہیں ہے بلکہ یہ برطانوی دور میں قائم ہونے والی ریاست کا تسلسل ہے۔ ہماری افواج نے کبھی برٹش دور کی روایات سے انکار نہیں کیا۔ اس کی رجمنٹیں اپنے صد سالہ اور ڈیڑھ سو سالہ جشن مناتی ہیں۔ ہماری لاہور کی عدالت عالیہ اپنے قیام کے ڈیڑھ سو سال مکمل ہونے کا جشن منانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ ہمارے انتظامی اور قانون ساز ادارے بھی انہی روایات کی پیروی کر رہے ہیں۔ ہمارے دساتیر، ہمارے دیوانی اور فوجداری قوانین بھی زیادہ تر اسی دور کا تسلسل ہے۔ چنانچہ پاکستان کوئی ازمنہ وسطیٰ کی مذہبی ریاست نہیں بلکہ ایک جدید جمہوری ریاست ہے۔ اس خطرے کا انکار البتہ ممکن نہیں کہ ہمارے ہاں بعض لوگوں کی یہ خواہش ضرور ہے کہ ہم منہ موڑ کر ایک بار پھر ازمنہ وسطیٰ کی طرف سفر شروع کر دیں۔ تاہم پاکستان عوام کے سیاسی شعور کو داد دینی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو ہمیشہ رد کر دیتے ہیں۔قیام پاکستان کے اعلان کے بعد بھی قائد اعظم نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے ملک کے وفادار بن کر رہیں کیونکہ کوئی ملک اپنے اندر غیر وفاداروں کے وجود کو برداشت نہیں کرتا۔
3۔ ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ ایک سیاسی موقف تھا یا عقیدے کا حصہ تھا؟ اگر یہ عقیدے کا حصہ تھا تو اس عقیدے کا اطلاق ہندوستان اور پاکستان کے حصے میں آنے والے مسلمانوں پر الگ الگ کیوں ہوا؟
ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ خالصتاً ایک سیاسی موقف تھا۔ اس موقف کی بنا اس دلیل پر نہیں تھی کہ مسلمانوں کا مذہب اور عقیدہ انہیں دوسرے مذاہب کے ساتھ مل کر رہنے سے منع کرتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مذہبی لوگ، مثلاً اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اس قسم کے دلائل ضرور دیا کرتے تھے مگر قائد اعظم اور مسلم لیگ کے دیگر اکابرین نے کبھی اس دلیل کو استعمال نہیں کیا تھا۔ ان کا موقف نیشنل ازم کے جدید مغربی نظریے پر مبنی تھا جس کے مطابق ایک قوم کو اپنی حکومت قائم کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ پڑا کہ ہندوستان کے مخصوص حالات میں قوم کی اساس مذہبی اختلاف قرار پائی۔ یہ تصور کسی مفکر کے ذہن کی اختراع نہیں تھی بلکہ ایک موجود زمینی حقیقت تھی جس سے آنکھیں چرانا کسی سیاست دان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ دو قومی نظریے کا اصل مفہوم یہ تھا کہ شمال مشرق اور شمال مغرب کے علاقوں میں بسنے والے مسلمان، جہاں وہ اکثریت میں ہیں، ایک قوم ہیں اور وہ قوم ہونے کی ہر جدید تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ اکثریتی علاقوں کے مسلمان اس بنا پر قوم کہلانے کے دعوے دار تھے کہ ان کے پاس دو وسیع جغرافیائی علاقے تھے، ساحل سمندر تھا، جہاں وہ اپنی حکومت قائم کر سکتے تھے۔
رہ گئے ان علاقوں کے مسلمان، جہاں وہ اقلیت میں تھے، ان کے بارے میں قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل اپنی تقریروں میں یہ واضح کیا تھا کہ وہ قوم نہیں ہیں بلکہ مینارٹی ہیں۔ جو اصول اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں پر عاید ہوتا تھا وہی پاکستان میں بسنے والے غیر مسلموں پر لاگو ہوتا تھا کہ وہ الگ قوم نہیں بلکہ اقلیت ہیں۔ تاہم جدید جمہوری ریاست میں اقلیت ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ انہیں شہریت کے تمام حقوق برابری کی بنیاد پر حاصل ہوتے ہیں بلکہ اقلیت ہونے کے ناتے وہ کچھ اضافی حقوق کے بھی حق دار ہوتے ہیں۔
ہمارے سیکولر اور لبرل حضرات کو یہ سوال پریشان کرتا ہے کہ مسلمانوں نے آخر مذہب کو ہی اپنی شناخت کی بنیاد کیوں بنایا۔ اس کا جواب یہی ہے کہ قوم بنانے کا کوئی منطقی اصول موجود نہیں ہے۔ شناخت کے تعین پر بھی آپ کا اپنا اختیار نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کا مقابل فریق کس بات کو اپنی شناخت قرار دے رہا ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندووں میں رفتہ رفتہ ایک قوم ہونے کا شعور پید اہونے لگا تھا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں نہ مسلمان کوئی قوم ہوتے تھے اورنہ ہندو۔ مغلوں نے اگر کچھ معاہدے کیے تھے تو وہ زیادہ تر راجپوتوں سے کیے تھے۔ ان کا ہندو ہونا قابل ذکر نہیں تھا۔ ازمنہ وسطیٰ کی سلطنتوں اور بادشاہتوں میں قومیت نام کا کوئی تصور موجود نہیں ہوتا تھا۔ دور جدید کی حکومتوں میں، جہاں عوام بھی کسی حد تک کاروبار حکومت میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی شرکت کا پیمانہ بالعموم ان کا تعلیمی معیار ہوتا ہے نہ کہ خاندانی جاہ و حشمت۔ ایسے موقع پر جو گروہ زیادہ تعلیم یافتہ ہو گا حکومتی ملازمتوں کا زیادہ حصہ بھی اسے ہی ملے گا۔ اب اگر کوئی گروہ تعلیمی پسماندگی کا شکار ہو تو اسے ملازمتوں میں بھی کم حصہ ملے گا۔ یا اقلیتی گروہ کے تعلیم یافتہ افراد اپنے تعلیمی معیار میں اکثریتی گروہ سے فروتر ہوں ،تو وہ اپنے تعلیمی معیار کو بہتربنانے کی بجائے یہ شکایت شروع کر دیتے ہیں کہ انہیں اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے کی بنا پر تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہی احساس محرومی اکثر و بیشتر قومیت کے تصور کی آبیاری کرتا ہے۔
جب ہندووں میں ایک قوم ہونے کا احساس پروان چڑھنے لگا تو ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا میں مدراس کے برہمنوں نے کانگرس کی بالادستی کو قبول کرنے کی بڑی مزاحمت کی تھی۔ بنگالیوں میں بنگالی نیشنل ازم کا بڑا چرچا تھا۔ مگر تاریخی حقیقت یہی ہے کہ ہندووں میں ایک قوم ہونے کا احساس اس شدت کے ساتھ ابھرا تھا کہ نہ مدراسی برہمن اس کے سامنے ٹھہر سکے اور نہ بنگالی نیشنل ازم۔ ہندووں کو تقریباً ایک ہزار برس بعد یہ موقع نظر آ رہا تھا کہ وشال بھارت پر ان کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ اس نے ان کے اندر حد درجہ جارحیت پیدا کر دی تھی اور مسلمانوں سے بدلہ لینے کا جذبہ زوروں پر تھا۔ شدھی اور سنگھٹن تحریکوں کی بنیاد یہی جذبہ تھا۔ جب کانگرس کو انگریزی اقتدار کے سائے میں صوبائی حکومتیں قائم کرنے کا موقع میسر آیا تو انہوں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا تھا اس نے مسلمانوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اگر پنڈت جواہر لال نہرو جیسے سیکولر، نیشلسٹ اور سوشلسٹ کو بندے ماترم کے ترانے میں کوئی حرج دکھائی نہیں دیتا تھا تو پھر مسلمانوں کے لیے کیا چارہ کار رہ جاتا تھا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے تمام تر دعووں کے باوصف کانگرس اصلاً ایک فرقہ پرست جماعت تھی، جس کا مقصد رام راج کا قیام تھا۔ علامہ اقبال جب ہندو مہاسبھا کو ہندووں کی اصل نمائندہ جماعت کہتے تھے تو وہ کچھ غلط نہیں کہتے تھے کیونکہ کانگرس میں بھی اصل طاقت مہاسبھائی ذہنیت کے حامل پٹیل کے ہاتھ میں تھی۔ جب پنڈت نہرو علامہ اقبال سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے تو علامہ نے پنڈت نہرو سے پوچھا کہ سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے لیڈر ان کے ہم خیال تھے ۔ پنڈت نہرو نے جواب دیا کہ تقریباً چھ۔ اس پر اقبال نے کہا کہ اگر ان کے ہم خیالوں کی تعداد اس قدر قلیل ہے تو وہ دس کروڑ مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے کا مشورہ کیونکر دے سکتے ہیں۔
پنڈت نہرو نے اپنی خود نوشت میں اس بات کا اقرار کیا ہوا ہے کہ انڈین نیشنل کانگرس میں کمٹڈ سیکولر گروپ کی تعداد بہت کم تھی۔ جب 1951ء میں سومنات مندر کی از سر نو تعمیر کی گئی تو پنڈت جی نے اپنے سیکولر ازم کی بنا پر کوشش کی تھی کہ حکومت کا اس سرگرمی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ انہوں نے اس وقت کے صدر بابو راجندر پرشاد کو بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ مندر کی افتتاحی تقریبات میں شرکت نہ کریں، لیکن انہوں نے پنڈت جی کے مشورے کو رد کرتے ہوئے ان تقریبات میں شرکت کی تھی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ لیڈروں کی ذاتی خصوصیات زمینی حقائق کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اس وقت کی فضا فرقہ واریت سے مسموم ہو چکی تھی، اسباب خواہ کچھ بھی ہوں ۔ اس قسم کی صورت حال میں کوئی آئیڈیل حل دستیاب نہیں ہوتا۔ تقسیم ہند اس کا ایک ممکنہ حل تھا جو وقوع پذیر ہو گیا۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ ماضی پر نوحہ کناں ہونے کی بجائے مستقبل کی تعمیر کی فکر زیادہ ضروری ہے۔ فہیم اور باشعور طبقات پر یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ بانی پاکستان کے تصور کے مطابق پاکستان کو بہتر سے بہتر جدید جمہوری ریاست بنانے کی سعی کرتے رہیں کہ اسی میں ہماری فلاح اور بقا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ساجد علی صاحب پنچاب یونیورسٹی کے شعبہء فلسفہ میں تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے