Home » خبرِ واحد کی روایت کو نقل کرانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا؟
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث کلام

خبرِ واحد کی روایت کو نقل کرانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا؟

مفتی محمد زاہد

یہاں ایک سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر خبرِ واحد بھی مستقل حجت ہے تو عہدِ رسالت میں اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا اس طرح کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا جس طرح کا قرآن کے بارے میں کیا گیا ہے۔ یہ تو اتفاق ہے کہ اللہ کے نبی کی کچھ باتیں ہم تک پہنچ گئیں اور کچھ نہیں پہنچیں، جبکہ قرآن کے بارے میں ہمارا یقین ہے کہ وہ بغیر کسی کمی بیشی مکمل ہم تک پہنچا ہے اور اس چیز کا عہدِ رسالت میں اہتمام کیا گیا ہے۔اگر ان ارشادات کا مستقل بالذات کوئی درجہ ہوتا تو انھیں بھی باقاعدہ آگے پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا جیسے قرآن کے بارے میں کیا گیا ہےکہ اس کی کتابت وتدوین وغیرہ خود رسول اللہ ﷺ کی نگرانی میں ہوئی ہے۔

اس پر پہلی بات تو یہ عرض ہے کہ یہ معاملہ تو سنتِ عملیہ میں بھی پایا جاتا ہے، جسے یہ اہلِ علم بھی مستقل بالذات حجت مانتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو کام ہوتے تھے ان میں کس کو تواترِ عملی کے ساتھ جاری رکھنا ہے اور کسے نہیں رکھنا یہ عموماً خود نبی کریم ﷺ نے طے نہیں فرمایا۔ کبھی کبھا ر ایسا ہوا کہ آپ نے یہ طے فرمادیا کہ اسے سنتِ رائجہ بنانا ہے یا نہیں۔ مثلاً مغرب کی اذان کے فوراً بعد اور نماز شروع ہونے سے پہلے کئی صحابہ جلدی جلدی دو رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے تاکہ نبی کریم ﷺ کے امامت کے لیے باہر تشریف لانے سے پہلے پہلے ان دو رکعتوں سے فارغ ہوجائیں[1]، صحیح بخاری میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہراذان اور اقامت کے درمیان نماز ہوسکتی ہے، دو مرتبہ یہ فرمانے کے بعد آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا لمن شاء یعنی یہ بات اس کے لیے ہے جو پڑھنا چاہے، صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس کی وجہ بھی آتی ہے کہ آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ لوگ کہیں اس کو سنت نہ بنالیں [2]۔ یہاں اللہ کے نبی ﷺ نے خود تعیین فرمادی کہ اس کو سنت نہیں بنانا۔ مگر ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ خود تعیین فرمادیتے کہ میرے زمانے میں جو طریقہ چل رہا ہے اسے سنتِ جاریہ بنانا ہے یا نہیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عید کے دن جو طریقے چلتے تھے ان میں ایک طریقہ یا عمل تقلیس بھی تھا۔ تقلیس کا مطلب یہ ہے کہ جب امام یعنی حاکمِ وقت گزرے تو اس کے پرو ٹو کول یا اعزاز کے طور پر لڑکے اور (چھوٹی) لڑکیاں طبل [3] یا دف لے کر راستے کے کناروں پر کھڑے ہوں اور امام کے گزرنے پر یہ چیز بجائی جائے، ہوسکتا ہے اس کے ساتھ کچھ اشعار وغیرہ بھی ترنم کے ساتھ پڑھے جاتے ہوں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ گارڈ آف آنر پیش کرنے جیسی چیز ہو ، جس سے شوکتِ اسلام کا اظہار ہوتا ہو۔ حضرت قیس بن سعد جو خود بھی صحابی ہیں اور جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے لیے پولیس آفیسر جیسے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے باقی کام تو مجھے نظر آتے ہیں مگر تقلیس نظر نہیں آتی ، حالانکہ رسول اللہ کے لیے عید کے دن تقلیس کی جاتی تھی [4]۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب العیدین میں باب قائم کیا ہے ’’باب سنۃ العیدین لأھل الإسلام‘‘ ، اس میں وہ حدیث بھی ذکر کی ہے جس میں نبی کریم ﷺ کے گھر میں دو لڑکیوں یا باندیوں کے گانے کا اور حضرت ابو بکر کے ان کو ڈانٹنے اور رسول اللہ ﷺ کے یہ فرمانے کا ذکر ہے کہ انھیں کچھ نہ کہو، اس لیے کہ یہ عید کا دن ہے۔ امکان ہے کہ امام بخاری نے ’’سنۃ‘‘ کا لفظ تقلیس والی حدیث ہی کی وجہ سے ذکر کیا ہو، کیونکہ یہ حدیثیں صحیح تو ہیں مگر امام بخاری کی شرط کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے براہِ راست امام بخاری ان حدیثوں کو اپنی کتاب میں درج نہیں کرسکے، مگر عنوانِ باب کے ذریعے ان کی طرف اشارہ کردیا ، جیسا کہ امام بخاری کے اسلوب سے واقف حضرات جانتے ہیں[5]۔ بہر حال یہ کام رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ تھا، بلکہ بیہقی کی السنن الکبری کی ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہیں فإنه من السنة في العيدين يعني ضرب الدف عند الانصراف ، یعنی یہ تقلیس عیدین کی سنت میں سے ہے، مگر آج کہیں اسے سنت نہیں سمجھا جاتا، بلکہ کسی فقیہ نے بھی اسے عیدین کی سنتوں میں شمار نہیں کیا، جن معاصر اہلِ علم کی اوپر بات ہوئی ہے انھوں نے بھی سنن کی جو فہرست جاری فرمائی ہے اس میں یہ شامل نہیں ہے۔ تو بات یہ بنی کہ ایک کام رسول اللہ ﷺ کےزمانے میں مروّج تھا، مگر اسے بعد میں سنتِ جاریہ کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔ ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ نبی کریم ﷺ نے خود فرمادیا ہو کہ اسے سنتِ جاریہ کے طور پر اگلی نسلوں کی طرف منتقل نہیں کرنا، بلکہ یہ بعد کے لوگوں کا اپنا انتخاب ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بہت سے کام مروّج تھے ، بعد میں انھیں سنتِ جاریہ کا درجہ حاصل ہوا ، جسے یہ حضرات بھی دین کا حصہ سمجھتے ہیں، حالانکہ سب کے بارے میں اس طرح کا ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود تعیین فرمادی ہو کہ ان کاموں کو عملی تواتر کے ذریعے آگے تک پہنچانا ہے، یا جس طرح سے قرآن کو اہتمام کے ساتھ ضبط کرکے اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، ایسا ہی ان سنن کے بارے میں کیا گیا ہو۔ ان حضرات کے نزدیک کسی عمل کے سنت بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ امت عملی اجماع کے ساتھ اسے نقل کرے، ظاہر یہ چیز عہدِ رسالت کے بعد خود بخود ہونے والی چیز ہے، کہ کسی عمل کو سب نے دینی زندگی کا حصہ سمجھ لیا ، کسی کو نہیں سمجھا، بظاہر اس میں شارع کا کوئی عمل دخل معلوم نہیں ہوتا۔ حاصل یہ کہ جو سوال خبرِ واحد کے بارے میں ہوسکتا ہے وہی سوال سنتِ عملیہ متوارثہ کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے۔جس طرح عہدِ نبوی میں بالتعیین اہتمام کے بغیر کچھ اخبارِ آحاد چھن کر امت تک منتقل ہوگئیں ، کچھ نہیں بھی ہوئی ہوں گی ، یہی معاملہ عملی سنت کا ہے کہ عہدِ رسالت میں جو کام مروج تھے ان میں بعض کو بطور دین امت کے عملی توارث کا درجہ حاصل ہوا اور بعض کو حاصل نہیں ہوا۔ (اس گفتگو کا مقصد خبر واحد اور عملی توارث کو برابر کرنا نہیں ہے، بلکہ سوال اٹھانا ہے کہ جو بات خبرِ واحد کے بارے میں کہی گئی ہے وہ تو عملی توارث میں بھی پائی جاتی ہے)۔

اس سوال کو ذرا دوسرے انداز سے بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ دین کا واحد مصدر اللہ کے نبی ﷺ کی ذات ہے، اس ذات نے قرآن کی بہت واضح انداز سے تعیین کرکے امت کو پابند بنادیا کہ اسے بعینہ اسی طرح سے اگلی نسلوں کی طرف منتقل کرنا ہے، جبکہ بقول ان اہلِ علم کے خبرِ واحد کو یہ بات حاصل نہیں ہے، ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ بات تو سنت کو بھی حاصل نہیں ہے، حالانکہ اسے دین کا حصہ سب مانتے ہیں۔سنت ان کے ہاں سنت اس وجہ سے بنی ہے کہ امت نے عملی اجماع کے ساتھ اسے نقل کیا ہے، مگر اجماع بھی تو دین کے واحد مصدر ﷺ کے دنیا سے جانے کے بعد ہونے والا ایک واقعہ ہے ، جس طرح کون سی حدیث روایت ہونی ہے کون سی نہیں یہ بعد میں ہونے والا ایک واقعہ ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خبرِ واحد کے بارے میں ایسا نقطۂ نظر بھی موجود رہا ہے جس کے مطابق دلائلِ شرعیہ کے درجات میں خاص فرقِ مراتب ملحوظ نہیں رکھا جاتا ، تاہم یہاں پر ہم فقہا ، خصوصاً فقہائے احناف کے منہج کے مطابق بات کررہے ہیں جس میں دلائل کی درجہ بندی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مذکورہ بالا سوال کی روشنی میں خبرِ واحد اور سنت عملیہ متوارثہ میں یہ فرق باقی نہیں رہتا کہ ایک کا مستقبل خود عہدِ رسالت میں طے کردیا گیا تھا اور ایک کا بعد میں طے ہوا۔ مستقبل دونوں کا بعد میں ہی طے ہوا ، لیکن دونوں کے درجات میں قطعی اور ظنی ہونے کا فرق باقی رہ جاتا ہے، جسے فقہا نے خود ہی ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ ہر ہر حدیث میں اس طرح کا بندو بست نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود تعیین فرمادی ہو کہ میری فلاں باتیں آگے پہنچانی ہیں اور فلاں نہیں، جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ یہ بندو بست تو سنت کے بارے میں بھی نہیں ہوا ، مگر رسول اللہ ﷺ کی قولی حدیثوں کو جمع کرنے اور آگے نقل کرنے کا اہتمام خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے شروع ہوگیا تھا۔ آگے چل کر ہم عرض کریں گے کہ کس طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ خود رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ کر حدیث لکھا کرتے تھے۔حضرت ابو ہریرہ کے حدیث کو یاد کرنے کے عمل کی آپ نے کس طرح سے حوصلہ افزائی فرمائی ۔ آپ نے عمومی طور پر بھی اپنے ارشادات نقل کرنے کی ترغیب دی۔مثلاً ایک حدیث میں رسول الله ﷺ نے اس آدمی کو ترو تازگی کی دعا دی جو آپ کا کوئی ارشاد سنے اوراسے اچھی طرح یاد کرکے ہو بہو اسی طرح آگے پہنچادے۔ ایک روایت کے لفظ یہ ہیں:

عن زيد بن ثابت، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «نضر الله امرأ سمع منا حديثا، فحفظه حتى يبلغه، فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه، ورب حامل فقه ليس بفقيه»

حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا اللہ اس آدمی کو ترو تازہ رکھے جو ہماری کوئی بات سنےاور اسے یاد رکھے یہاں تک کہ اسے (آگے) پہنچادے، اس لیے کہ بعض لوگ فہمِ دین کی بات کے حامل ہوتے ہیں اور وہ آگے کسی ایسے شخص تک پہنچادیتے ہیں جو اس سے زیادہ گہری سمجھ والا ہوتا ہے۔اور بعض لوگ فہمِ دین کی بات کے حامل تو ہوتے ہیں مگر خود گہری سمجھ کے مالک نہیں ہوتے [6]۔

اس مضمون کی حدیث حضرت زید بن ثابت کے علاوہ اور متعدد صحابہ سے بھی مروی ہے ، مثلاً حضرت جبیر بن مطعم ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت أنس ، حضرت معاذ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہم [7]۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ عمومی طور پر نبی کریم ﷺ نے اپنے اقوال کو بھی آگے روایت کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔البتہ بالتعیین کون سی بات آگے پہنچنی ہے کون سی نہیں یہ بعد کا ایک واقعہ ہے، بعینہ اسی طرح جس طرح آپ کے زمانے میں جاری طریقوں میں سے کس کو امت میں عملی توارث حاصل ہونا ہے کس کو نہیں یہ عہدِ نبوی کا نہیں بلکہ بعد کا واقعہ ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ادلہ شرعیہ میں قرآن کا جو اعلی ترین اور منفرد مقام ہے، اس پر تو بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے، خصوصاً فقہائے احناف نے اس پہلو کو خاص اہمیت دی ہے، مگر اس کے علاوہ دیگر ادلہ شرعیہ کے بارے میں دو چیزوں کے عمل دخل کو تسلیم کیے بغیر بات نہیں بنتی۔ ایک اللہ تعالی کا تکوینی نظام اور تکوینی حکمتیں، قرآن کے علاوہ دیگر دینی باتیں آگے کس طرح پہنچیں گی اس کا تعلق اللہ کے اس نظام کے ساتھ بھی جوڑنا پڑے گا۔ اس کی مزید وضاحت ہم آگے چل کر وہاں کریں گے جہاں یہ بات زیرِ بحث آئے گی کہ کبارِ صحابہ اور صغارِ صحابہ میں روایتِ حدیث کے ذوق میں کیا فرق تھا، اور اس میں پوشیدہ حکمت کیا ہوسکتی ہے۔ دوسری چیز ہے ایک محدود حد تک اس امت کا عمل دخل۔ کون سا کام سنت ِ متوارثہ بننا ہے کون سا نہیں ، جیسا کہ عرض کیا یہ عہدِ رسالت کے بعد کا واقعہ ہے، اور یہ کام اس امت کے ہاتھوں سر انجام پایا ہے۔ اگر ان دو چیزوں کو مان لیا جائے تو نہ تو سنت پر کوئی اشکال باقی رہتا ہے اور نہ ہی حدیث پر۔ یعنی جو چیز سنت بن کر ہم تک پہنچ گئی یا خبرِ واحد صحیح کے ساتھ ہم تک پہنچ گئی یہ دونوں محض اتفاق نہیں ہیں، بلکہ اس کے پیچھے اللہ کی تکوینی حکمت بھی ہے اور تشریع میں اس امت کا محدود سا سہی مگر عمل دخل شامل ہے، خصوصاً خیر القرون کا۔

یہاں پر ایک اور بات عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ تفصیل تو ہم وہاں کریں گے جہاں روایتِ حدیث کے بارے میں کبارِ صحابہ اور صغارِ صحابہ کے ذوق کے فرق پر بات کریں گے۔ مگر اجمال اس کا یہ ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کے تفصیل سے بیان کردہ نظریے کے مطابق اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا اور ان کی تشریعی سکیم کا حصہ تھا کہ ہر ہر بات امت تک قطعی طریقے سے نہ پہنچے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو امت کے مجتہدین کے لیے اجتہاد اور بحث ونظر کی گنجائش باقی نہ رہتی یا بہت کم باقی رہتی ، اس لیے اللہ تعالی نے دین کے کچھ حصے کو ایسے قطعی انداز سے امت تک پہنچایا ہے کہ اس میں کسی بحث کی یا رد وقبول کی گنجائش نہیں رہتی ، مگر اللہ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ سارا دین اس طرح سے منتقل نہ ہو بلکہ ایک بڑا حصہ قطعی کی بجائے ظنی طریقے سے منتقل ہو، تاکہ وہ ہدایت وراہ نمائی کا ذریعہ تو ہو مگر ساتھ ساتھ مجتہدینِ امت کے غور وفکر کی جولان گاہ بھی بنے، جس کے نتیجے میں مختلف اجتہادات سامنے آئیں اور ان کے نتیجے میں امت کو سہولت میسر آئے۔یعنی ایک سہولت خود ثبوت کا درجہ کم ہونے اور ظنی ہونے کی وجہ سے اور دوسری سہولت مختلف آرا کے سامنے آنے کی وجہ سے۔

اصل مسئلہ در حقیقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے ہاں کسی چیز کے دین بننے کے لیے قطعیت شرط ہے، جبکہ جمہور کے ہاں ایسا نہیں ہے، وہ ظنی دلیل کو بھی دین کے جاننے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، تاہم بعض حضرات اس کے بعد دلیل کے مراتب کو نظر انداز کردیتے ہیں، جبکہ فقہا ، خصوصا حنفیہ دلیل کے مراتب پر زور دیتے ہیں۔

بات یہاں سے چلی تھی کہ اگر خبرِ واحد بھی مستقل بالذات ماخذِ دین ہے تو اسے اس طرح سے آگے نقل کرانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا جیسا قرآن کے بارے میں کیا گیا ہے۔ اپنی فہم کے مطابق اس سوال کا جواب عرض کرنے کی کوشش کی ہے۔ اصل بات اللہ کے رسول کی تشریعی اتھارٹی سے چلی تھی کہ وہی دین کا مصدر و مأخذ ہیں، ان کی بات اگر ظنی ذریعے سے پہنچی ہے تو دلیل کا درجہ تو کم کردیا جائے گا، مگر اس مصدریت کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

یہ ساری نظریاتی اور اصولی بحث ہے، البتہ اس پر الگ سے کام کی ضرورت ہے کہ اس اختلاف کے عملی نتائج کہاں مرتب ہوں گے، یعنی کیا ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں فقہا نے خبرِ واحد سے مستقل بالذات دن کا حکم ثابت کیا ہو اور وہ قرآن یا سنت توضیح یا توسیع سے تعلق نہ رکھتا ہو، اگر ایسی مثالیں ہیں تو وہ کون کون سی ہیں۔ یہاں اس پر تفصیلی بات اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ یہاں اصل موضوعِ بیان رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حیثیت ہے۔ اس پر بقدرِ ضرورت گفتگو ہوچکی ہے۔

[1] – صحيح البخاري : كتاب الصلاة : باب الصلاة إلى الأسطوانة رقم: 503 عن أنس بن مالك، قال: لقد رأيت كبار أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يبتدرون السواري عند المغرب، وزاد شعبة، عن عمرو، عن أنس، حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم

اس سے یہ بھی پتا چلا کہ اگر یہ رکعتیں پڑھنی ہوں تو اس صورت میں پڑھنی چاہیے جب امام کی طرف سے نماز میں تھوڑی سی تاخیر ہو، وگرنہ امام کے ساتھ شروع سے شریک ہونا زیادہ اہم ہے۔

[2] صحيح البخاري ، كتاب الصلاة : باب الصلاة قبل المغرب ، رقم: 1183 حدثني عبد الله المزني، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «صلوا قبل صلاة المغرب»، قال: «في الثالثة لمن شاء» كراهية أن يتخذها الناس سنة.

[3] – یہ بھی ذہن میں رہے کہ طبل الغازی ، یعنی جس سے شوکتِ اسلام کا اظہار ہوتا ہو اور بہادری کے جذبات بنتے ہوں حنفیہ کے نزدیک بھی جائز ہے، حالانکہ اس طرح کے مسائل میں حنفیہ سب سے سخت ہیں۔

[4] – سنن ابن ماجه ، كتاب الصلاة : باب يوم العيد

[5] – مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : تکملۃ معارف السنن ۲/۱۵۸

[6] – سنن أبي داود ، كتاب العلم : باب فضل نشر العلم، رقم: 3660.

[7] – تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: نزهة الألباب في قول الترمذي وفي الباب ۶/۳۳۲۴

مولانا مفتی محمد زاہد

مولانا مفتی محمد زاہد، ممتاز عالم دین ہیں اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث کے منصب پر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
zahidmdadia@outlook.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں