ڈاکٹر سید جواد ہادی اہل تشیع عالم ہیں۔ آپ نے نجف اشرف اور قم سے سے تعلیم حاصل کی۔ آپ مرحوم عارف الحسینی کے قریبی لوگوں میں سے ہیں۔ ڈاکٹر ہادی سینیٹر بھی رہے چکے ہیں۔ ان کا تعلق پارا چنار کرم ایجنسی سے ہے۔ ڈاکٹر ہادی نے شیعہ و سنی روایات کی روشنی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ضخیم کتاب لکھی ہے۔ یہ دراصل ڈاکٹر ہادی صاحب کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ خانہ فرہنگ ایران پشاور نے اس مقالے کو ساڑھے نو صفحات سے زائد کتابی صورت میں شائع کیا ہے.
ڈاکٹر ہادی نے اہداف تحقیق کے عنوان سے لکھا ہے کہ ایسا کام جس میں دونوں مکاتب فکر کی متفقہ روایات کی روشنی میں سیرت مقدسہ کا مطالعہ کیا جائے کی عرصے سے ضرورت تھی، اور ایسا کام اس سے پہلے نہیں ہوا لہذا انہوں نے یہ تحقیق کرکے اس ضرورت کو پورا کیا۔ ڈاکٹر ہادی نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایسی روایات سے اجتناب کیا جو شیعہ و سنّی مصادر میں موجود نہ ہوں۔ یہ بات تو درست ہے کہ ڈاکٹر ہادی نے اس کا زیادہ تر خیال رکھا ہے مگر کسی بات کا کسی مصدر میں آ جانا اس کے مستند ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ بہت سی بے سند اور موضوع روایات ایک کتاب میں ہو سکتی ہیں۔ پھر سنی مصادر میں شیعی روایات کا آنا بھی ایک حقیقت ہے۔ اس لیے کسی بات کا کسی کتاب میں آنا اس کے مستند ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ ڈاکٹر ہادی نے میرے خیال سے اس جانب توجہ نہیں کی جس کی وضاحت ضروری تھی۔
تمہید میں ڈاکٹر ہادی نے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات اور ہدایت کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ انسانی معاشرے میں انسانی اور اخلاقی اقدار انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی وجہ سے ہیں اور ان تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے لہذا انبیاء علیہم السلام کی ہدایات انسان کا قیمتی اثاثہ ہیں اور یہ ہی انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔
ڈاکٹر ہادی نے لکھا ہے کہ کسی سیاسی شخصیت کی اگر زندگی پر کتاب لکھنی ہو تو اس کی سیاسی جدوجہد پر خصوصیت سے بات ہوگی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر کتاب لکھنی ہو تو پھر اس میں متعدد موضوعات پر بات ہو گی۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و بندگی ،عبادت سے لیکر حسن سلوک ، شجاعت ، صلہ رحمی سمیت بے شمار موضوعات سامنے آئیں گے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کسی دوسرے شخص کی سیرت کے مقابلے میں ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے۔ بلکہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے اس کے لیے بہت درست بات کی ہے کہ مطالعہ سیرت النبی ایک شخصیت کا نہیں بلکہ ایک تہذیب کا مطالعہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ چودہ صدیوں سے اس موضوع پر لگاتار لکھا جا رہا ہے اور اب تک اس میں وسعت ہی آتی جا رہی ہے اور نئی جہات سے اس موضوع پر مطالعہ کیا جا رہا ہے اور حیران کن طور پر ہر نئی جہت سے مطالعہ کرنے والے کو اس حوالے سے کثیر مواد مل جاتا ہے اور اس کے لیے راہنمائی موجود ہوتی ہے۔ویسے بھی ایک مسلمان کے لئے سیرت مقدسہ کا مطالعہ بہت ضروری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ معمول رہا ہے۔ اس بارے میں مصنف نے سیدنا علی بن حسین المعروف امام زین العابدین رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ ہم اپنے بڑوں سے سیرت رسول کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ایسا ہی ایک قول سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے محمد بن سعد کے بارے میں بھی ملتا ہے کہ ان کے والد انہیں مغازی اور سرایا کی تعلیم دیتے تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مطالعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت شروع سے ہے اور امید ہے یہ تاقیامت جاری رہے گی۔
ڈاکٹر ہادی نے مختصر طور پر تاریخ علم سیرت پر بھی بات کی ہے اور اولین سیرت نگاروں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے سب سے اول امام زہری رحمہ اللہ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی جبکہ آگے بتایا ہے کہ امام زہری سے پہلے حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے اس موضوع پر کتاب لکھی تھی۔ ایسے ہی ڈاکٹر ہادی نے وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایک اہم نام حضرت ابان بن عثمان رحمہ اللہ کا بھی ہے جس کا یہاں ڈاکٹر ہادی نے تو ذکر نہیں کیا مگر تھوڑا آگے اور کتاب کے آخر میں ذکر کیا ہے اور بتایا کہ سیلمان بن عبد الملک اموی نے اس کتاب کے نسخے تیار کروائے لیکن جب اس نے اس میں انصار کے فضائل دیکھے تو اس کو برا لگا اور اس نے تلف کروا دئیے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ہادی نے محمد بن اسحاق ، واقدی سمیت کچھ مزید سیرت نگاروں کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر ہادی نے سیرت نویسی کے بارے میں لکھا کہ اس کا آغاز مدینہ منورہ سے ہوا۔ اہل مدینہ میں شیخین رضی اللہ عنہم کی کثرت تھی اس لیے ان کی سیرت نویسی پر بھی اس کے اثرات ہے۔ اس کے ساتھ بصرہ میں بھی سیرت نویسی کا کام ہوا، بصرہ سیاسی لحاظ عثمانی رجحان رکھتا تھا جبکہ کوفہ میں علوی رجحان تھا۔ اس رجحان کے اثرات ان کے سیرت نویسی پر بھی پڑے۔ یہاں پر شیعہ سیرت نگاروں کا بھی مصنف نے ذکر کیا لیکن ابتداء میں بہت عجیب بات کی کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت میں شک کرنے والا شیعہ مکتب میں کوئی نہیں گزرا اگر کسی دوسرے مکتب فکر نے اس پر شک کا اظہار کیا تو شیعہ علماء نے اس کا رد کیا۔ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے حوالے سے اہلسنت کا موقف بہت واضح ہے بلکہ یہ ضروریات ایمان میں سے ہے۔اس کو شیعہ مکتب کی خصوصیت قرار دینا غلط ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی مسلمان کو عصمت انبیاء کے بارے میں کوئی شک ہو۔ شیعہ سیرت نگاروں میں سب سے اول شیخ علی بن ابراہیم قمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ حالانکہ مکتب تشیع کی روایت ان سے پہلے بھی ہے۔ بہتر ہوتا کہ شیعہ سیرت نگاری کے اولین مآخذ کی جانب ڈاکٹر صاحب اشارہ کرتے۔ شیخ قمی کے علاوہ بھی کئی متقدمین شیعہ کی کتابوں کا ڈاکٹر ہادی نے ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر ہادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات کا ذکر کیا ہے کہ کس خشوع و خضوع کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ جس میں نماز ، روزہ ، استغفار ، ذکر و دعا، حمد و شکر ، زہد و تقویٰ اور توکل علی اللہ کو بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری و باطنی اوصاف پر گفتگو بھی کی ہے۔ ڈاکٹر ہادی نے بتایا ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہیں بیشتر اوقات زمین کی طرف جھکی رہتیں تھیں ، کسی کو گھور کر نہیں دیکھا کرتے تھے ، صرف بوقت ضرورت کلام کرتے اور وہ بھی مختصر اور بامقصد بات کرتے، اکثر متفکر رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوقات تین حصوں میں تقسیم تھے ایک حصہ عبودیت و بندگی کے لیے ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے اور ایک حصہ اپنی ذمہ داریوں اور ضروری امور کے لیے مختص تھا جس میں آپ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت فرماتے۔ جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس سے پہلے اٹھ کر نہ جاتے ، کوئی شخص اپنی حاجت پیش کرتا تو حتی المقدور پوری کرنے کی کوشش کرتے، آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مجلس حیا ، صداقت ، امانتداری ، تحمل اور برداشت کی مجلس ہوتی۔ آپ کا طرزِ تکلم بھی نرم تھا کسی کی گفتگو کے درمیان میں کلام نہیں کرتے تھے،اپنے ساتھیوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فصیح اور جامع کلام فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غصہ بہت کم آتا تھا فقط اللہ تعالیٰ کے لیے غضب ناک ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رویہ بھی بہت مشفقانہ تھا، اگر کسی کو تین دن تک نہ دیکھتے تو اس کے بارے میں دریافت فرماتے، اگر گھر ہوتا تو اس کے گھر تشریف لے جاتے اگر بیمار ہوتا تو عیادت فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سے اس طاقت اور دنیاوی منصب کی وجہ سے مرعوب نہیں ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی اور مختلف انواع کی خوشبوئیں استعمال کرتے۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کی تربیت میں علم کے اوپر خصوصی زور دیا اور حصولِ علم کے لیے بشارتیں دیں اور اس کی فضیلت بیان کی۔ تعلیم کو عام کرنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھرپور اقدامات اٹھائے ، جن مقامات پر لوگ مسلمان ہوتے ان کے پاس مبلغ روانہ کرتے۔ معلمین و مبلغین کو روانے کرتے ہوئے بھی ان لوگوں کا انتخاب کیا جاتا جو اہل ہوتے، جیسے حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے سوال کیے۔ نیز تعلیم کو عام کرنے کے پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوب توجہ کی۔ اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف میں سے ڈاکٹر ہادی نے عفو و درگزر کا بھی ذکر کیا ہے اس کے ساتھ اصلاح بین المومنین کا کام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوتا۔ مومنین کے درمیان صلح صفائی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور اس کی تحسین بیان فرمائی۔ اس کے ساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون اور ان کی مدد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے اور ساتھ ہی اس کی ترغیب بھی دی۔ ڈاکٹر ہادی نے بہت عمدگی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف پر یہاں گفتگو کی ہے جس سے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اوصاف جمیلہ کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر ہادی نے زمانہ جاہلیت اور اس دور میں عربوں کی رسومات پر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ جاہلی معاشرے میں چند اچھائیاں بھی تھیں جیسے کہ سچ بولنا، ایفائے عہد اور مہمان نوازی وغیرہ اس کے ساتھ اس معاشرے میں برائیاں بھی بہت تھیں جس میں حرام و حلال کی تمیز نہ ہونا، طبقاتی تقسیم ، صنفی مساوات ، قتل و غارت، بدکاری وغیرہ۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی برائی شرک اور بت پرستی تھی۔ ڈاکٹر ہادی نے ہبل ، عزی، لات ،منات، ایساف ، نائلہ وغیرہ کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ان کے بارے میں گراں قدر معلومات فراہم کی ہیں۔ دنیا میں بت پرستی کا آغاز کب ہوا؟ یہ تو کوئی حتمی طور پر نہیں بتایا جا سکتا البتہ پہلی بار غیر اللہ کی عبادت بارے میں ڈاکٹر ہادی نے لکھا ہے کہ اس کی ابتداء قابیل سے ہوئی، جب اس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تو وہ عدن چلا گیا اور وہاں شیطان نے اس کو وسوسہ ڈالا کہ ہابیل کی قربانی اس لیے قبول ہوئی کیونکہ وہ آگ کی پرستش کرتے تھے یوں قابیل نے آگ کی پوجا شروع کی۔ عرب میں بت پرستی کی بنیاد عمرو بن لحی سے شروع ہوئی وہ بیمار ہوا تو اسے کسی نے شام کے علاقے بلقاء میں ایک چشمے میں نہانے کا مشورہ دیا۔ عمرو وہاں گیا اور صحت یاب ہو گیا۔ اس نے دیکھا وہاں لوگ بت پرستی کرتے ہیں تو وہ ان سے ایک بت لیکر مکہ آ گیا اور اسے کعبہ کے ساتھ رکھ دیا۔ یوں مکہ میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔
ڈاکٹر ہادی نے عہد جاہلیت پر بات کرتے ہوئے قریش کے دو بڑے قبائل بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان تعلقات پر الگ سے بات کی ہے۔ ڈاکٹر ہادی لکھتے ہیں کہ ہاشم جن کی شخصیت بہت محترم تھی۔ ان کی مقبولیت ان کے بھتیجے امیہ کے لیے پریشان کن بنی۔ یوں بنو ہاشم سے بنو امیہ کی مخاصمت کا آغاز ہوا جو آگے بھی چلتا رہا۔ ڈاکٹر ہادی نے کہا ہے کہ بنو امیہ کی یہی مخاصمت قریش کی اسلام سے مخالفت کی وجہ تھی، پھر بدر و احد میں بھی یہی مخاصمت تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مخاصمت کے مرکزی کردار حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ مکمل طور پر شیعی نظریہ ہے، یہ درست ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کفار کے بڑے سرداروں میں سے تھے مگر اس مخالفت کا مرکزی کردار انہیں قرار دینا قرین انصاف نہیں بلکہ ہمیں وہ ابو جہل ، ابو لہب ، امیہ بن خلف سمیت کئی سرداروں کے مقابلے میں کم مخالف نظر آتے ہیں۔ حالات کفر میں ان کے منفی کردار پر کوئی دو رائے نہیں مگر اس کو مرکزی اور بنیادی کردار کہنا درست نہیں۔ پھر مصنف نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بھی کافی غصہ نکالا ہے اور جنگ جمل کا مرکزی موجب انہیں قرار دیا ہے۔ یہاں بھی ڈاکٹر جواد ہادی نے فقط اپنے نظریے کی ترجمانی کی ہے جس کے حقیقت ہونے سے ہمیں انکار ہے۔ اس کے بعد سانحہ کربلا کو بھی بنو امیہ کی مخاصمت کی وجہ قرار دیا ہے۔ بنو امیہ اور بنو ہاشم کی مخاصمت کے بارے میں ڈاکٹر ہادی نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے لیکن ایک خوش آئند بات ہے کہ ڈاکٹر ہادی نے امیہ کو عبدشمس کا بیٹا مانا ہے جبکہ کچھ غالی شیعہ کہتے ہیں کہ عبدشمس کی کوئی اولاد نہ تھی اور امیہ ان کا غلام تھا۔
اس ہی فصل میں ڈاکٹر ہادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابتدائی احوال میں سے معاہدہ حلف الفضول ، تنصیب حجر اسود اور سفر شام کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ حرب الفجار کا بھی ذکر ہے۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ شیعہ مصدر کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس کے برعکس سنی سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ نے اپنے چچا کو تیر پکڑائے تھے۔
ڈاکٹر ہادی نے اس سوال پر کافی تفصیل سے بحث کی ہے کہ بعثت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شریعت کے تابع تھے؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعتِ ابراہیمی کے تابع تھے اور بعض لوگ نے شریعتِ عیسوی کے تابع کی بات کی ہے۔ جبکہ علماء میں سے ایک بڑی تعداد جن میں شیخ مرتضی رضی اور شیخ باقر مجلسی بھی شامل ہیں ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سابقہ شریعت کے تابع نہیں تھے۔ مصنف کا اپنا رجحان بھی اس طرف ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کسی سابقہ شریعت کی اتباع کی ہے تو یہ افضل کی مفضول کی اتباع ہے جو کہ درست نہیں ، دوسرا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اگر کسی سابقہ شریعت کی اتباع کی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا علم انہوں نے کہاں سے حاصل کیا۔ یقیناً اس کے متبعین سے انہوں نے ملاقاتیں کی ہوں گے۔ اس بارے میں قائلین کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ رہا سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عبادت کرنا تو ان علماء کا کہنا ہے کہ اس سے لازم نہیں آتا کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کسی سابقہ شریعت کے پابند ہوں بلکہ اس حوالے سے نہج البلاغہ سے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول بطور دلیل نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ میں سے ایک عظیم فرشتے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راہنمائی دی۔ اس معاملے پر ڈاکٹر ہادی نے کافی علمی گفتگو کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ڈاکٹر ہادی نے واقعہ غرانیق پر بھی تفصیل سے بات کی ہے اور اس کے من گھڑت ہونے کو ثابت کیا ہے اور اس کو یہودی ذہن کی اختراع قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ اہل علم نے اس بارے میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور اس کو درست مان لیا جن میں علامہ طبری ایک اہم نام ہیں اور ان کی اتباع میں بعد میں بھی کئی لوگ اس واقعے کو درست مانتے رہے۔ ڈاکٹر ہادی نے یہاں بہت زبردست انداز میں اس من گھڑت قصے کو بے اصل ثابت کیا ہے۔
واقعہ معراج کے حوالے سے ڈاکٹر ہادی نے لکھا ہے کہ شیعہ علماء کا اس بارے میں واضح موقف ہے کہ معراج جسمانی ہوئی تھی البتہ رؤیت باری تعالیٰ کا شیعہ علماء انکار کرتے ہیں اور اس کتاب میں بھی ڈاکٹر ہادی نے کہا کہ اس حوالے سے جو روایات نقل ہوئی ہیں وہ من گھڑت ہیں۔ رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں اہلسنت کے ہاں دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ہادی نے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آبا و اجداد میں سے جناب قصی جنہوں نے قریش کو اکٹھا کیا اور قریش کو سیادت دی، جناب عبد مناف جو لوگوں کو نیکی اور خوش اخلاقی کی تلقین کرتے تھے ، جناب ہاشم جنہوں نے قحط میں اہل مکہ کو کھانا کھلایا، جناب عبد المطلب جو جود و سخا اور بے سرو کی سرپرستی، صلہ رحمی جیسی صفات سے متصف تھے۔ حضرت عبداللہ جو کہ ایک شریف النفس اور پاک دامن شخص تھی جن کے نکاح میں ایک پاک دامن عورت حضرت آمنہ آئیں کے چند احوال ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی بابت لکھا ہے اور بتایا ہے کہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنا مال مضاربہ کے طور پر دیا کرتی تھی اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مضاربہ کے طور پر کاروبار کیا۔ یہاں انہوں نے اس خیال کی نفی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجیر مقرر ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ہادی کی یہ بات درست ہے یا تو یہ شراکت داری تھی یا پھر مضاربہ، اس میں اجرت والی بات درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر ہادی نے ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ایک خواب کا ذکر کیا کہ سورج مکہ میں گھوم رہا ہے اور ان کے گھر اتر رہا ہے۔ اس کی تعبیر حضرت ورقہ بن نوفل نے یہ بتائی کہ عنقریب ان کی شادی عالمی شہرت یافتہ شخص سے ہو گی۔
ڈاکٹر ہادی نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سب سے پہلے ایمان لانے پر بھی لکھا ہے اور اس کے حق میں مختلف کتب سے اقتباسات نقل کیے ہیں۔ بیشک حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اولین اہل ایمان میں سے ہیں۔ اس طرح حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار بھی اولین اہل ایمان میں سے ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر ہادی نے حضرت سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ان سے پہلے ایمان لانے والوں میں شمار کیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ہادی نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام کو بعد میں ثابت کرنے کے لیے یہ بیانیہ بنایا ہے۔ اس حوالے سے سنی سیرت نگاروں کی آراء میں بھی ابہام ہے کیونکہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے سب سے پہلے یہ معاملہ پیش آیا ، جناب ورقہ بن نوفل پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاروں بیٹیاں اور پھر ربائب کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے محتاط انداز یہی ہے کہ اولین اہل ایمان کا ذکر کیا جائے ان میں درجہ بندی سے گریز کیا جائے۔ بیشک حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اولین لوگوں میں سے اس شرف سے متصف ہوئے ایسے ہی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب بھی اولین اہل ایمان میں سے ہیں۔ ڈاکٹر ہادی نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کردار کو بیان کرتے ہوئے انصاف سے کام نہیں لیا بالخصوص ان کی تبلیغ سے ایمان لانے والوں حضرت سیدنا عبدالرحمان بن عوف ، حضرت سیدنا عثمان بن عفان ، حضرت سیدنا طلحہٰ بن عبید اللہ ، حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص اور حضرت سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر اصحاب کے بارے میں نہیں لکھا۔ ان اصحاب کی شمولیت بھی اسلام کی تقویت کا باعث بنی۔ ایسے ہی حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعے کو سنی سیرت نگاروں نے غیر معمولی اہمیت دی ہے اور یہ درست بھی ہے لیکن ڈاکٹر ہادی نے اس پر بھی کچھ نہیں لکھا۔ یقیناً ڈاکٹر ہادی کو اپنے مسلک کی ترجمانی کا حق حاصل ہے لیکن جب وہ اپنے مقالے میں سنی مصادر کی روایات کو بھی لے رہے ہیں تو انہیں اس کا ذکر کرنا چاہیے تھا.
ڈاکٹر ہادی نے ہجرت حبشہ اور پھر قریش کے مقاطعے پر بھی لکھا اور اس دونوں مواقع کی بابت جناب ابو طالب کے اشعار درج کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر جناب ابو طالب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کا ذکر اور اس کی تفصیلات ذکر کی ہیں۔ قریش کے مقاطعے کی تفصیل میں انہوں نے داماد رسول حضرت سیدنا ابو العاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے بنو ہاشم کی مدد کی، ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتے دار تھے مگر رشتہ کیا تھا اس کا ذکر نہیں کیا۔
اوس و خزرج کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رابطے کی ابتداء کے بارے میں بھی ڈاکٹر ہادی نے کچھ قیمتی معلومات دیں ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ خزرج کا وفد مکہ مکرمہ میں اوس کے خلاف اپنے اتحادیوں کی تلاش میں تھا کہ عتبہ بن ربیعہ سے معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کیا ہے جس کی وجہ سے قریش مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں، انہوں نے یہود سے آخری نبی کے بارے میں سن رکھا تھا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی اور ایمان لے آئے اور پھر بجائے اوس کے خلاف اتحاد قائم کرنے کے انہوں نے درخواست کی کہ دونوں قبائل میں صلح قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یوں ایمان اہل یثرب میں داخل ہوا۔ اس کے بعد بیعت عقبہ اولی ، بیعت عقبہ ثانیہ اور بیعت عقبہ ثالثہ میں اہل ایمان کی تعداد بڑھتی گئی۔یثرب کے ان لوگوں سے ایمان میں داخلے کے لئے اقرار توحید و رسالت اور آخرت کا عہد لیا جاتا تھا اس کے ساتھ عبادات اور پھر معاملات و اخلاق میں حق راستگی کا عہد لیا جاتا۔ جن چیزوں پر عہد و پیمان لیا جاتا تھا ڈاکٹر ہادی نے ان کا ذکر کیا۔ اس میں اہم بات یہ کہ اس عہد میں کہیں بھی امامت کا عہد شامل نہیں ، اس کا ذکر میں اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کا آخری باب ڈاکٹر صاحب نے عقیدہ امامت کی اہمیت پر لکھا ہے اور بتایا ہے کہ اس کا ابلاغ انبیائے سابقین علیہم السلام بھی کرتے رہے اور دعوت ذوالعشیرہ سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ کا بھی حصہ تھا۔ یہ عہد ان کے اس خیال کی تردید کر رہا ہے جو انہوں نے امامت کے حق میں لکھا ہے ۔ اس آخری باب میں ڈاکٹر ہادی نے انتخاب خلافت کے حوالے سے اہلسنت کے نظریے پر تنقید بھی کی ہے اور اس کو اہل حل و عقد کے اوپر چھوڑنے کا رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ درست نظریہ منصوص من اللہ ہونے کا ہے۔ حالانکہ منصوص من اللہ ہونے کی ممکنہ صورتحال کو بیان نہیں کر سکے۔ خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے انتخاب پر ڈاکٹر ہادی نے تحفظات اور اشکالات پیش کیے ہیں ان کی بنیادی وجہ ان کا عقیدہ امامت ہی ہے۔ اس لیے اس تمام بحث کو اس ہی پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے. اس فصل میں ڈاکٹر ہادی نے اوس و خزرج کی باہمی کشمکش اور یہود کا ان کو اپنے سے کمتر سمجھنے کو بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ مدینہ منورہ میں آباد یہود خود کو عربوں سے الگ سمجھتے تھے اور وہ آپس میں بھی عبرانی زبان بولتے تھے۔سیرت نگاروں نے بھی یہود کو عربوں میں شمار نہیں کیا۔ اوس و خزرج اسلام سے پہلے بت پرست تھے۔ وہاں پر اسلام کے پھیلنے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی ہیں اور ساتھ ہی اس پر بھی بحث کی ہے کہ مدینہ میں سب سے پہلے اسلام کس نے قبول کیا ان میں حضرت سیدنا اسعد بن زرارہ اور سیدنا ذکوان بن قیس رضی اللہ عنہم کا نام ملتا اس کے علاوہ بھی دیگر اصحاب کے بارے میں مختلف اقوال کا ذکر کیا ہے۔
ہجرت کے بارے میں بھی مصنف نے تفصیل سے لکھا ہے اور اس میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بستر رسالت پر سونے کے اوپر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ بیشک یہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جانثاری کی ایک مثال ہے اور اس کے ساتھ یہ آپ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت بھی ہے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اس مقصد کے لیے انتخاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آپ رضی اللہ عنہ کی صلاحیت اور شجاعت پر اعتماد کا اظہار بھی ہے۔
ہجرت کی تفصیلات میں مصنف نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کردار کو اس طرح بیان نہیں کیا جو کہ ان کا حق ہے۔ بلکہ مصنف کے بیان کردہ واقعات کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اتفاقی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات ہوئی جس کے بعد وہ بھی ہجرت کے سفر میں ان کے ساتھ شریک ہوئے۔ مصنف کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق محسوس ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ایسا اعتماد نہیں تھا جیسا کہ سنی روایات میں ذکر ہوا ہے۔ اس پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے انصاف سے کام نہیں لیا۔
اس کے بعد ڈاکٹر ہادی نے ہجری سال کی ترتیب کے لحاظ سے واقعات کو ذکر کیا ہے۔ مہاجرین کی مدینہ آمد اور پھر انصار کی جانب سے ان کے حسنِ سلوک کو ذکر تو کیا ہے مگر مواخات مدینہ جیسے اہم واقعے کو بیان نہیں کیا۔ البتہ میثاق مدینہ کے حوالے سے قدرے تفصیل سے گفتگو کی گئی اور اس کی مختلف شقوں کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کافی عمدہ مواد ڈاکٹر ہادی نے فراہم کیا ہے۔
ہجری کلینڈر کی ابتداء کے بارے میں بھی ڈاکٹر ہادی نے لکھا ہے کہ اس کا آغاز حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے ہوا لیکن ساتھ ہی دوسری معلومات فراہم کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہجری تقویم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی موجود تھی۔ اس پر بحث کی گنجائش ہے اور یہاں پر ڈاکٹر ہادی کی دی ہوئی تفصیلات قابلِ غور ہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ اس کی روایت پہلے سے موجود تھی۔
ڈاکٹر ہادی نے تصور جہاد کے اوپر بھی تفصیل سے لکھا ہے اور اس کی دو قسمیں ذکر کی ہے ۔ پہلا ابتدائی جہاد جو کہ کسی قوم یا معاشرے کو غیر اللہ کی بندگی سے آزادی کے لیے لڑا جاتا ہے۔ اس کا مقصد فقط دین کا غلبہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہادی نے بتایا ہے کہ جہاد ابتدائی کے لیے پیغمبر یا معصوم کا حکم شرط ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امام مہدی کے آنے سے پہلے تک اس جہاد کی گنجائش نہیں
دوسری قسم جہاد دفاعی اس میں امام معصوم کی شرط نہیں ہے اور کیونکہ اس کی ابتداء دشمن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیے اس جہاد کے لیے امیر کی بھی شرط نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی جہاد کی فضیلت اور احکامات کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو الگ سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد غزوہ بدر کے احوال کو بیان کیا ہے۔ اس کے حوالے سے بھی کافی اچھی چیزیں پڑھنے کو مل سکتی ہیں۔ اس غزوہ میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت پر الگ سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے ساتھ کفار کے پچاس سے زائد مقتولین کی فہرست دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ لشکر اسلام میں سے وہ کس کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان میں اکثریت کو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ ڈاکٹر ہادی نے لکھا ہے کہ کچھ اصحاب جو بنفس نفیس میدان جنگ میں موجود نہیں تھے لیکن ان کو مال غنیمت سے پورا حصہ ملا ان میں حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور اپنی زوجہ حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کے باعث شریک نہ ہو سکے۔ ڈاکٹر ہادی نے سیدہ زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی کرتے ہوئے ان کا بنت رسول ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ان کو ربائب میں شمار نہیں کیا۔ اس حقیقت پسندی پر ڈاکٹر ہادی داد کے مستحق ہیں۔ غزوہ بدر کے ضمن میں ڈاکٹر ہادی نے بتایا ہے کہ عتبہ اس جنگ کے وقوع کو روکنا چاہتا تھا مگر ابو جہل کی ہٹ دھرمی اور طعنوں کی وجہ سے کودا اور سب سے پہلے قتل ہوا۔
غزوہ بدر کے بعد غزوہ احد کا ذکر ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے بھی کافی تفصیل سے بات کی گئی ہے اور یہاں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اس کو بھی ذکر کیا گیا ہے اور چند اصحاب میدان چھوڑ گئے اس کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ میرے خیال سے جب اللہ تعالٰی نے اس لغزش کو معاف کر دیا تو اس پر زیادہ بات نہیں ہونی چاہیے اور پھر ان ناموں کا تعین کرنے کی کوشش بھی کوئی مفید بات نہیں۔ اس میں حقیقت سے زیادہ پسند و نا پسندیدگی سے کام لیا جاتا ہے۔ احد میں شریک حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی جانثاروں کی بہادری کا ذکر بھی ہے جن میں ایک حضرت سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی شہادت کے احوال کا ذکر ہے۔ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا کہ ان کی شدید خواہش تھی کے وہ اپنے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کو قتل کریں کیونکہ اس نے پتھر مار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی کیا تھا۔ غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت شہید ہونے کا ذکر اکثر مصنفین کرتے ہیں ڈاکٹر ہادی نے وضاحت کی ہے کہ یہ بات درست نہیں کیونکہ بوقت وصال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک صیح و سلامت تھے ، ڈاکٹر ہادی کی بات درست معلوم ہوتی ہے
سیدنا عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے جو صفوان بن امیہ کی طرف سے قرض کی ادائیگی کی یقین دھانی کے بعد مکہ سے اس نیت سے آئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کریں گے لیکن جب مدینہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ان کے ارادے اور صفوان سے ہوئی گفتگو کے بارے میں بتایا تو ایمان لے آئے کیونکہ ان کی گفتگو میں کوئی تیسرا موجود نہیں تھا۔ سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ بعد میں مکہ میں اسلام کی دعوت دیتے رہے اور کئی لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا
غزوہ خندق کے بارے میں بھی مفصل کلام ہے۔ اس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عمرو بن عبدود کے مقابلے کو خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے۔ نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہادری کو ایک دفعہ پھر ذکر کیا گیا ہے اور عمرو کے قتل کے بارے میں ایک روایت کہ یہ افضل ترین عبادت سے بڑھ کر ہے پر شیخ ابنِ تیمیہ کے اعتراض کو علامہ حلبیؒ کے ذریعے رد کیا ہے۔ غزوہ بنی قریظہ کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس میں ان کے جنگجووں کو مارا گیا جنہوں نے غزوہ خندق میں لشکر اسلام کے خلاف لشکر کشی کی۔
غزوہ بنی المصطلق کے بارے میں بھی ڈاکٹر ہادی نے مختصر گفتگو کی ہے اور اس میں واقعہ افک کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ شیعہ میں سے شیخ علی بن ابراہیم قمی واحد شخص ہیں جنہوں نے کہا کہ واقعہ افک ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نہیں بلکہ سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیش آیا ۔ یقیناً یہ بات درست نہیں ہے بلکہ اس وقت سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں بھی نہیں جیسے کے خود مصنف نے ان کا ذکر بعد میں پیش آنے والے واقعات میں کیا ہے۔
مصنف نے حضرت سیدنا ابو العاص بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعے کو ذکر کیا ہے۔ جب وہ حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ان کے قافلے کے خلاف کاروائی کی تو ان کو مدینہ منورہ میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے پناہ دی۔ اس کے بعد انہوں نے وہ مال مکہ والوں کو واپس کیا اور اسلام لے آئے اور بتایا کہ انہوں نے مدینہ میں یہ اعلان اس لیے نہیں کیا تھا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں مال کو ہڑپ کرنے کی وجہ سے مسلمان ہوا ہوں پھر آپ رضی اللہ عنہ مدینہ آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے ان کا نکاح دوبارہ پڑھایا۔
صلح حدیبیہ کے واقعات کے بیان میں سیدنا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانثاری اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے محبت دیکھی اس کو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ بھیجا اور پھر ان کی شہادت کی خبر پر بدلہ لینے کے لیے بیعت رضوان ہوئی۔ اس صلح کی شرائط پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عدم اطمینان کو بھی مصنف نے بیان کیا ہے۔ مصنف نے یہ بھی لکھا کہ جب صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا رہی تھیں تو سہیل بن عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ اس معاہدے کو یا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ لکھیں یا سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔ اس جگہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب بھی ان کے قابلِ فخر فضائل میں سے ہے۔ ڈاکٹر ہادی نے یہاں بھی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایمان افروز واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ جب انہوں نے معاہدے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مٹانے سے انکار کر دیا۔ صلح کے وقت حضرت سیدنا ابو جندل رضی اللہ عنہ کا کفار کی قید سے بھاگ کر آنے کی بابت لکھا کہ انہیں مدینے جانے سے ان کے والد سہیل نے روک دیا تو کفار کے وفد میں موجود مکرز بن حفص اور حویطب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین دہانی کرائی کہ ہم ان کو اپنی پناہ میں لیتے ہیں۔ سیدنا ابو بصیر رضی اللہ عنہ کی چھاپا مار کارروائیوں کے احوال بھی مصنف نے لکھے ہیں جس کے نتیجے میں وہ شرائط جس پر مشرکین کو غالب ہونے کا گمان تھا ان کی جانب سے خود ہی ختم کر دی گئیں۔
مصنف نے غزوہ خیبر کو بھی قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کے مختلف قلعے تھے جن میں سے کچھ جلد فتح ہو گئے ، قموص کا قلعہ بہت اہم تھا جس کو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ مرحب کے ساتھ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی لڑائی کو بھی ذکر کیا ہے اور اس میں واقدی کا قول بھی نقل کیا کہ اس کو حضرت سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا اسلام میں داخل ہونا ایک بڑا واقعہ ہے اس کو بھی مصنف نے ذکر کیا ہے۔
جنگ موتہ پر بھی مصنف نے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ شام کے حاکم شرجیل بن عمرو غسانی نے جب سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفیر سیدنا حارث بن عمری ازدی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تو یہ جنگ اس وجہ سے ہوئی۔ اس جنگ میں حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب اور حضرت سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ ڈاکٹر جواد ہادی نے لکھا کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکر کو دوبارہ منظم نہ کر سکے۔ جب یہ لشکر واپس مدینہ پہنچا تو ان کے بھاگنے پر ان کو طعنے دئیے۔ اس کے برعکس پیر کرم شاہ الازہریؒ نے ضیاء النبی میں وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ جنگ موتہ میں مسلمانوں کی شکست والی بات درست نہیں، ایسے ہی بھاگنے کے طعنے پورے لشکر کو نہیں ملے تھے بلکہ جب حضرت سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اس وقت مسلمانوں کا پرچم کسی نے نہیں تھاما تھا تو چند لوگوں لشکر سے الگ ہو گئے۔ وہ باقی لشکر سے پہلے مدینہ پہنچے تھے ان لوگوں پر تنقید کی گئی کہ وہ اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر آ گئے ہیں۔ یہ بات ہی زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔ نیز ڈاکٹر ہادی کا اس جنگ کو شکست کہنا بھی درست نہیں۔ اس جنگ نے دشمن کے دلوں میں رعب ڈالنے کا اہم مقصد حاصل کیا تھا۔ اس لیے وہ تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود لشکر اسلام کی طرف نہیں بڑھ سکے۔
اس کے بعد فتح مکہ اور حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنے کے واقعات کو ذکر کیا ہے۔ فتح مکہ ویسے تو بغیر لڑائی کے ہوئی لیکن ایک دو جگہ کفار نے چھیڑ چھاڑ کی تو حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا۔ صفوان بن امیہ کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے قبول اسلام کا فیصلہ کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت لی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منظور کر لی۔ فتح مکہ کے بعد حضرت سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ کا حاکم مقرر کیا گیا حالانکہ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا۔ اہل مکہ کی تعلیم کے لیے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تعینات کیا گیا۔ حضرت سیدنا عتاب رضی اللہ عنہ کی تقرری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والوں کے اسلام کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے شرف قبولیت بخشا ۔ فتح مکہ کے بعد بنی خذیمہ کی طرف حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا جانا اور ان کے قتال پر مصنف نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ پر تنقید کی ہے کہ وہ لوگ مسلمان تھے اور بتایا کہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم بھی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے راضی نہیں تھے۔ ہم سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سے حسن ظن رکھتے ہیں کہ ان کا یہ فعل غلط فہمی پر مبنی تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بنی خذیمہ کی دلجوئی کے لیے بہت سے مال کے ساتھ بھیجا جس سے وہ راضی ہوئے۔ غزوہ حنین کے ذکر میں اہل اسلام کے پاؤں اکھڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت استقامت دیکھانے والے اصحاب میں سے مصنف نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نام بھی ذکر کیے ہیں۔ اس غزوہ میں بھی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت بے مثال تھی اس کو خصوصیت سے ذکر بھی کیا گیا ہے
تبوک کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے مصنف نے بتایا کہ اس وقت قحط سالی کا دور تھا اور اس لشکر کو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر ، حضرت سیدنا عثمان ، حضرت سیدنا عبدالرحمان بن عوف ، حضرت سیدنا طلحہٰ بن عبید اللہ ، حضرت سیدنا زبیر بن العوام ، حضرت سیدنا سعد بن عبادہ اور حضرت سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم مال سے نوازا۔ یقیناً یہ ان اصحاب رضی اللہ عنہم کی عظیم خدمت تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے اس سخاوت کی تحسین فرمائی۔
مختلف وفود کی آمد اور ان کے قبول اسلام کی بابت بھی ڈاکٹر صاحب نے معلومات فراہم کی ہیں۔ اس کے ساتھ نجران سے آئے نصاریٰ کے وفد کے احوال کو زیادہ تفصیل سے لکھا ہے کیونکہ ان سے مباہلے کی نوبت آ گئی تھی تو مباہلے کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رض اللہ عنہ کو دیکھ کر نصاریٰ نے مباہلے سے انکار اور جزیہ دینے پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔ مباہلے کے ضمن میں اہلسنت کی روایات بھی پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مقدس ہستیاں شامل تھیں۔ ویسے بھی یہ کوئی اختلافی بات نہیں ہے۔
اس کے آگے حجتہ الوداع کے بارے میں مختصر گفتگو ہے ساتھ ہی اس کے بعد غدیر خم کے حوالے سے زیادہ تفصیل سے بات کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بارے میں لکھا کہ آپ کا سر انور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا کہ روح نے قفس عنصری سے پرواز کی جبکہ اہلسنت کے نزدیک بوقت وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا۔ مرض اور وصال کے درمیان کے واقعات کو تفصیل سے ذکر نہیں کیا نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس وقت آخری نماز کی امامت کی اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کس کو یہ ذمہ داری سونپی۔
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے ذکر پر ایک باب ہے۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذکر میں بتایا کہ ایک قول یہ بھی کہ ان کی سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلی شادی تھی۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ کہا کہ ایک قول کے مطابق یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بیٹیاں نہیں بھانجیاں تھیں جنہوں آپ رضی اللہ عنہا نے پالا تھا۔ البتہ آگے مصنف نے ذکر کیا ہے کہ دوسرے قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے اور اس پر کوئی رد نہیں کیا۔ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر کا نام عبیداللہ بن جحش کی جگہ عبداللہ بن جحش لکھا گیا ہے جو کہ شاید کتابت کی غلطی ہے۔ ان کی وفات کا ذکر ہے لیکن ان کے ارتداد کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ۔ ان کے ارتداد کو کئی سنی سیرت نگاروں نے ذکر کیا ہے لیکن یہ معتبر نہیں لگتا۔ ازواج کے ذکر میں ایسی خواتین کا بھی ذکر کیا ہے جن سے نکاح تو طے ہوا مگر رخصتی نہیں ہوئی۔ ایک خاتون فاطمہ بنت ضحاک کا ذکر ہے جنہوں نے سورہ الاحزاب کے نزول کے بعد مال لیکر علیحدگی اختیار کر لی بعد میں وہ مینگنیاں چنا کرتی تھیں اور کہتی تھی کہ میں وہ بدقسمت خاتون ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے دنیا کو اختیار کیا۔
ازواج مطہرات کے بارے میں لکھا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مائیں قرار دیا جو کہ بڑا اعزاز ہے اس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت از خود ایک بہت بڑا شرف ہے جس کو مصنف نے پہلے ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کے بعد ازواج مطہرات کی باہمی رنجشوں اور ان کے سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان جھگڑوں کے ذکر کو مصنف نے ذکر کیا ہے۔ بیشک اس میں کچھ باتیں درست بھی ہیں لیکن یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ زوجین کے درمیان اختلافات معمولی بات ہے اور پھر سوکنوں کے درمیان تو اس سے بھی زیادہ عام ہے۔ جب شریک حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا ہو تو رشک مزید بڑھ جاتا ہے۔ مصنف کا یوں ان باتوں کو ذکر کرنا اور اس کو تلخ حقائق کا نام دینا نامناسب بات ہے جس سے کسی صورت درست نہیں کہا جا سکتا۔
ایک فصل اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے مصنف نے لکھا کہ صحابہ کا درجہ کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام اور مقصد آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے تکالیف برداشت کیں ، اپنی جان و مال کی قربان دی۔ اسلام کا پھیلاؤ ان ہی کی برکت سے پھیلا ۔ صحابی کی تعریف بھی مصنف نے کی کہ جس نے صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اٹھایا ہو اور ایمان کی حالت میں دنیا سے گیا ہو۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے صحابہ کے متعلق دو نظریات بیان کیے ہیں پہلا نظریہ اہلسنت کا جو تمام صحابہ کے احترام اور ان کی عدالت کے قائل ہیں۔ دوسرا نظریہ شیعہ کا ہے جس کے مطابق اصحاب میں درجہ بندی ہے (حالانکہ اہلسنت بھی اس درجہ بندی کے قائل ہیں)۔ ان میں کچھ نیک جبکہ کئی منافقین بھی تھے۔ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے ناموسِ رسالت پر تہمت باندھی۔
اس پر میں یہی عرض کروں گا کہ ڈاکٹر ہادی نے یہاں انصاف سے کام نہیں لیا۔ منافقین کسی طرح بھی صحابہ کرام میں شامل نہیں تھے۔ ایمان نفاق سے الگ ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ہادی نے اپنے نظریے کے حق میں حوض کوثر سے پلٹائے جانے کی حدیث میں لفظ اصحابی سے استدلال کیا ہے یہ بھی غلط استدلال ہے یہاں اصحابی لغوی معانی میں ہے نہ کہ اصطلاحی معنوں میں۔ مومن اور منافقین کی پہچان کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی محبت والی روایت ذکر کی ہے ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ مصنف نے اور بھی چند جگہ اہلسنت کے عدالت صحابہ کے نظریے پر تنقید کی ہے۔
صحابہ کے بعد اہلبیت کا ذکر ہے اور ان کی شان بیان کی گئی ہے۔ اہلبیت کی محبت اہلسنت کے ہاں ایمان کی لوازمات میں سے ہے۔ اس پر احادیث شاہد ہیں ۔لیکن اہلبیت میں کون کون شمار ہوتا ہے اس پر ڈاکٹر ہادی نے کھل کر بات نہیں کی۔ ساتھ ہی اہلبیت کی محبت کے لازم و واجب ہونے پر سورہ الشوری کی آیت مودۃ فی القربی سے استدلال کیا ہے اور اس پر اہلسنت علماء کی تفاسیر کے حوالے بھی پیش کیے ہیں کہ اس سے مراد سیدنا علی، سیدہ نساء العالمین ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔لیکن یہ دلیل کمزور ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے، جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا سے نکاح مدینہ منورہ میں ہوا۔ اہلبیت کے مصداق کے حوالے سے اہلسنت اور اہل تشیع کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ باقی ان کے لیے احترام اور مودت پر کوئی دو رائے نہیں ہیں
ایک فصل احادیث کے بارے میں علمائے امامیہ کے نظریہ پر ہیں۔ ڈاکٹر ہادی نے بتایا ہے کہ احادیث کی تدوین کا کام حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور سے شروع ہوا اور گیارہویں امام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔اس پر انہوں نے شیعہ روایات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی بتایا ہے کہ علماء امامیہ احادیث کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں پہلی قسم فقہی و احکامات کے متعلق احادیث ہیں اس بارے میں تحقیق کا پیمانہ سخت ہے۔ اس کی متن اور سند دونوں کا محققانہ اور محتاط جائزہ لیا جاتا اور پھر اس کو قبول کیا جاتا ہے جبکہ غیر فقہی احادیث کے معاملے میں احتیاط و تحقیق کا معیار وہ نہیں جو فقہی احادیث میں ہوتا ہے۔ تاریخی روایات اور فضائل اس ہی میں آتے ہیں۔ اس کے بعد مصنف نے شیعہ کتب احادیث کا بھی مختصر تعارف کروایا ہے اور لکھا ہے کہ اصول کافی جس میں ۱۶۱۹۹ احادیث ہیں کی ۱۱۴۸۵ احادیث پر شبہ کا اظہار کیا گیا اور ان کو ناقابلِ اعتبار ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کو امام زمانہ نے کافی کہا درست نہیں۔ اصول کافی کے بارے میں ڈاکٹر ہادی کی یہ رائے اہل تشیع کی متفقہ نہیں اور نہ ہی اس کی دو تہائی روایات کا باقی شیعہ انکار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہادی نے شیعہ محدث شیخ کلینی جو کہ اصول کافی کے مصنف ہیں کے حالات پر بھی اختصار سے روشنی ڈالی ہے۔احادیث کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے ایک بہت عجیب بات اہلسنت کے حوالے سے کی کہ وہ صحاح ستہ اور بالخصوص صحیحین کو شک و شبہ اور تنقید سے بالاتر جانتے ہیں۔ یہ اہلسنت کے نظریے سے قطعاً لاعلمی ہے۔ صحیحین کی کئی روایات پر اہلسنت محدثین نے جرح کی ہے۔ پھر باقی کتابوں میں ضعیف احادیث کی نشاندھی کی ہے۔
آخری فصل عقیدہ امامت کے اثبات اور اہلسنت کے نظریہ خلافت کی تردید میں ہے جس پر پہلے بات ہو چکی ہے اور ویسے بھی یہ براہ راست سیرت کا موضوع نہیں یہ نظری اور کلامی بحث ہے اس پر اتفاق ممکن بھی نہیں۔
ڈاکٹر جواد ہادی نے بہت محنت سے یہ مقالہ لکھا ہے۔ گو کہ کئی جگہ تشنگی محسوس ہوئی ہے لیکن سیرت کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ باقی مصنف کے نظریے سے ہمیں اختلاف بھی ہے اور جہاں انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے اس کی کمزوری بھی واضح کرنی کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود مصنف کا تعلق شیعہ عقیدے و نظریہ سے ہے اور اپنے عقیدے کی ترجمانی کرنا ان کا مکمل حق بنتا ہے۔ اس معاملے میں ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی اور ان معاملات کا تصفیہ ہونا آسان بھی نہیں۔ہم مصنف کو اپنی مرضی کا پابند تو نہیں کر سکتے اس لیے اس کی کوئی بات کمزور لگے تو کھل کر اس کا ذکر بھی کر دیتے ہیں۔ اس کے کتاب کی افادیت اس کی کمزوریوں کی نسبت زیادہ ہے اور یہ کتاب ہمیں سیرت مقدسہ کو سمجھنے میں کافی مدد دیتی ہے
کمنت کیجے