Home » جاوید احمد غامدی صاحب کی طلباء کو نصیحتیں
بچوں کی تربیت تعلیم و تعلم شخصیات وافکار

جاوید احمد غامدی صاحب کی طلباء کو نصیحتیں

ڈاکٹر فرخ نوید

جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے ملائشیا میں ایک نشست کے دوران طلباء کو کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
١- آپ عامی ہیں یا عالم ہیں ہر حال میں طالبعلمانہ رویہ اپنائیں۔ جس دن انسان اپنے آپ کو عالم سمجھنے لگ جاتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ میں نے جو سیکھنا تھا سیکھ لیا ہے تو علم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

٢-آپ دین کے سچا طالب علم بنیں۔ سچا طالبعلم وہ ہے جو علم کا استقبال کرتا ہے۔ علم کا استقبال وہ شخص کرتا ہے جو اختلاف کا استقبال کرتا ہے۔ استقبال کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہر بات کو قبول کر لیں۔ قبولیت بالکل ایک الگ چیز ہے۔

٣۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ کسی مختلف فیہ معاملے میں ان کے ساتھ شائستگی سے گفتگو کرنا عموما مشکل ہوتا ہے۔

٣- آپ کسی مسئلے پہ (سیاسی معاشی و دینی مسئلہ وغیرہ) کسی سے گفتگو کر کے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پہلے سے بنے بنائے نظریات پہ لوگ کتنا جذباتی ہو جاتے ہیں اور ہر اس بات کو رد کرنے کے در پہ ہوتے ہیں جو انکے نظریات کے خلاف ہو۔

۴- کسی پہ تنقید کا مطلب ہرگز تنقیص نہیں ہوتا بلکہ critical analysis کرنا ہوتا ہے۔ تنقید اور چیز ہے اور تنقیص بالکل دوسری چیز۔ تنقید کا مطلب ہے دوسرے کی بات کو پرکھنا ، اسکا جائزہ لینااور تجزیہ کر کے یہ بتانا کہ اس بات کا فلاں پہلو درست نہیں۔ یہ بالکل علمی نوعیت کی چیز ہے۔

۵- آپ مختلف موضوعات پہ لکھی جانے والی تنقیدات ضرور پڑھیں۔ اگر کسی طالب علم میں اپنے نظریات پہ ہونے والی تنقید سے بیزاری پیدا ہو گئی ہے تو وہ سچا طالبعلم نہیں رہا۔ آپ تنقید کا استقبال کریں۔ تنقید کا استقبال علم کا استقبال ہے۔ جیسے ہی آپ تنقید کو ایک طالبعلم کے طور پہ پڑھیں گے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو آپ کی بات درست ہو گی اور تنقید بے جا ہو گی اس صورت میں آپ کے اندر اعتماد پیدا ہو گا۔ اور اگر تنقید درست ہو گی تو آپ کو اپنی فکر کی اصلاح کا موقع ملے گا اور کوئی نئی حقیقت آپ پہ واضح ہو جائے گی۔ تو آپ ناقد کے مشکور ہوں گے اس کی بدولت ایک نئی علمی حقیقت سے آپ مطلع ہوئے ہیں۔ ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب تنقیدی فضا کا نہ ہونا ہے۔

٦- ہم طالبعلموں کو مناظرہ سیکھاتے ہیں لیکن مکالمہ نہیں سیکھاتے۔ تنقیدی جائزہ لینا نہیں سیکھاتے۔ تنقیدی جائزے میں سب سے پہلا کام یہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے کا موقف اس طرح سمجھا اور بیان کیا جائے کہ آپ کا مخالف خود یہ کہ اٹھے کہ ہاں میری بات کا مدعا بھی وہی ہے جو آپ نے سمجھا ہے (نہ کہ میرے موقف کی غلط ترجمانی کی ہے)۔ جب آپ دوسرے کا موقف درست بیان کرنے پہ قادر ہو جائیں گے اس وقت آپ کی تنقید بھی کمال کی تنقید ہو گی۔ ورنہ ہوتا کیا ہے کہ ہم دوسرے کا موقف پہلے اپنے ذہن میں ترتیب دیتے ہیں اور اسی کو درست سمجھ کر دوسرے پہ تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں یہ جانے بغیر کہ مخالف کی بات کا مفہوم بھی واقعتا وہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔

٧-تنقیدی عمل میں بعض اوقات اس بات سے سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ دوسرا آدمی آپ کے خلاف نامناسب لب و لہجہ میں بات کرے اور آپ کا استخفاف کرے۔ وہ آپ کا علم ماپنے کے لئے بیٹھ جائے۔ اس طرح کے رویہ سے اعراض کریں اور اس پہ react نہ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب نے مینجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ہے ائیر یونیورسٹی اسلام آباد سے۔ ان کے تخصص کا میدان فنانس ہے خصوصا اسلامک و کارپوریٹ فنانس اور اس میں مختلف مقالات بھی تحریر فرمائے چکے ہیں جو موقر بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں شائع ہوئے ہیں۔ علوم اسلامیہ میں درس نظامی کے بھی فاضل ہیں۔ آج کل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد میں مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں