اجمل صدیقی
فلسفہ ایک یونانی لفظ ہے جو اپنے بنیادی معنی کھو چکا ہے ۔۔علوم کا ارتقاء اور انسانی ذہن کا ارتقا
ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔۔۔اس لئے ہر اصطلاح بھی ارتقاء پذیر ہے۔
شروع میں فلسفہ صرف کائناتِ کے جزو اول کی تحقیق کرنے والوں کے لئے بولا جاتا تھا ۔
کہتے ہیں اس لفظ کا بانی فیثاغورس ہے
افلاطون نے سب سے پہلے اسے باقاعدہ استعمال ہوتا ہے
افلاطون نے اخلاقیات منطق جمالیات طبعیات اور علمیات اور مابعدالطبیعیات کو نیم صوفیانہ اور نیم مذہبی آنداز میں اپنے کلی فلسفے کو مرتب کیا
اس نے فلسفے کو اشیا کے جوہر essence کا علم قرار دیا ۔۔
یہ کافی حد تک مابعدالطبیعیات کے متعلق ہے
ارسطو نے اپنے منظم ذہن کی وجہ سے پہلے حقیقت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کیا
حیاتیات ۔۔زندہ اشیا۔۔طبعیات بے جان اشیاء
اخلاقیات انسانی عمل کا مطالعہ ۔جمالیات اشیا کے حسن کا مطالعہ ۔منطق قوانین فکر کا مطالعہ
جب ارسطو ان کا مطالعہ کرچکا تو اس نے ان قوانین اور کلیات کو اخذ کیا جن کے عنوان کے تحت سب علوم کو اکٹھا لکھا جاسکے
اسے وہ first philosophy کہتا ہے
بلکہ وہ اسے theology کہتا ہے جو مابعدالطبیعیات کا مترادف ہیں
سکندر یہ کی یونیورسٹی میں
تو علوم کی مکمل فہرست اور کلاسفیکشن ہوگئی
پھر قرون وسطی میں
علوم کی نئی درجہ بندی ہوگئی فلسفہ مذہبی مفہوم میں گم ہوگیا
پھر نشاط ثانیہ میں علومِ کی نئی تقسیم ہوگئی
اب فلسفہ نیچرل ہسٹری میں بدل گیا
یہ ارتقاء عین فطری ہے کیونکہ جب علوم کا accumulated mass جمع ہوجاتا ہے
نئے ڈسپلن پیدا ہوجاتے ہیں اور پرانی hierarchy
تبدیل ہوجاتی ہے
ذہن انسانی کے نئے جزیرے دریافت ہوتے ہیں
تو نئے فیلڈر پیدا ہوجاتے ہیں
جیسے nanoparticles اور quantum physics
سے
مادی علوم میں ترقی تیز ہوتی ہے اور انسانی علوم میں سست مگر فلسفہ نئے جہات اوڑھ لیتا ہے
اس لئے فلسفہ کسی ایک حتمی مفہوم حامل نہیں رہا بلکہ فلسفے کی تعریف ہی فلسفے کا مرکزی موضوع بن چکی ہے جسے
Meta philosophy
کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل صدیقی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے اردو ہیں ۔ فیصل آباد میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ کی نظر و فکر اور دلچسپی کا دائرہ تاریخ، فلسفہ اورادب ہے ۔
کمنت کیجے