عمران شاہد بھنڈر
ہیگل کے فلسفے کی کسی بھی جہت کو غیر منطقی تو کبھی کسی نے نہیں کہا، البتہ ہیگل کا سرسری مطالعہ کرنے والے اس کے فلسفے پر مسیحیت کی چھاپ ضرور لگاتے رہے ہیں۔ لیکن مسیحی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہیگل کا فلسفہ مسیحیت کی نفی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی علما ایسے کوئی متوازی خطوط کھینچنے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہیگل کے فوراََ بعد بھی دائیں اور بائیں بازو کے ہیگلیائی مفکر وجود میں آئے تھے، جو اپنے نظریات کو تقویت دینے کے لیے ہیگل کی تشریحات کرتے تھے۔فیورباخ نے ہیگل کے فلسفے پر مذہبیت کا الزام لگایا، جسے ابتدا میں کارل مارکس نے قبول کر لیا۔ تاہم بعد ازاں مارکس نے لکھا کہ ہیگل کے مقابلے میں فیورباخ کا فلسفہ بہت”مفلس“ ہے۔
مختلف مفکر جونہی ہیگل کے فلسفے کی گہرائی میں اترتے ہیں تو ان کی سمجھ میں یہ نکتہ آنے لگتا ہے کہ ہیگل کسی بھی تصور کو جدلیاتی بنیادوں پر قبول یا رد کرتا ہے۔ سچ اس کے لیے وہی ہے جو ’مکمل‘ ہے اور ’کلیت‘ اس کے فلسفے کی ایسی جہت ہے جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی بھی جُز اس کُل سے باہر نہیں رہتا، بصورتِ دیگر ’کلیت‘ کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ کُل سے باہر کوئی جُز رہ گیا ہے تو اسے اس جُز کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
ہیگل کے بیشتر قارئین اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ سپرٹ کا مطلب ایک مذہبی خدا ہے جبکہ حقیقت میں یہ ایک ایسی قوت ہے جو فطرت اور انسان میں پائی جاتی ہے۔ ہیگل اس حوالے سے اس سطح پر چلا گیا تھا کہ وہ کائنات سے آغاز کرنے کی بجائے تاریخی کو ہی حقیقی آغاز سمجھنے لگا تھا۔ کیونکہ اس خیال تھا کہ سپرٹ کا حقیقی اظہار تاریخ میں ہوتا ہے۔ یعنی سپرٹ اپنے حقیقی شکل میں خود کو تاریخی جدلیات میں ظاہر کرتی ہے نہ کہ فطرت میں!
سپرٹ سے مراد وہ عقل ہے جسے اپنی ’مکمل‘ فعلیت کا شعور ہو چکا ہو۔ ’مکمل‘ فعلیت سے مراد یہ کہ فطرت، تاریخ اور فلسفے میں سے کوئی ایک بھی جُز ایسا نہ ہو جس کا ادراک عقل کو نہ ہوا ہو۔ فلسفہ چونکہ مقولات سے بحث کرتا ہے، اس لیے جُز کو بھی ایک مقولے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ہیگل کُلیت کی “تکمیل” کے لیے اپنے فلسفے کا آغاز ایک تجریدی وجود سے کرتا ہے۔ ایسا تجریدی وجود جو ہر طرح کے خصائص متعین کیے جانے سے پہلے ہے۔ وہ صرف یہ بتانا چاہتا ہے کہ اگر ہم کلی تجریدی وجود سے آغاز کریں تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ آغاز میں تجریدی وجود ایک یونیورسل یا کُلی وجود ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کُلی وجود سپرٹ بھی ہو سکتی ہے اور فطرت بھی۔ تاہم انہیں اس کُلیت کو ابھی خصائص یا مقولات کے سلسلہ وار استخراج سے ثابت کرنا ہے۔ فی الوقت اس کُلیت میں جُز شامل نہیں کیا ہے۔ ایک تجریدی کُلی وجود (سپرٹ) اس وقت تک تجریدی رہتا ہے جب تک اسے جُز دستیاب نہیں ہوتا۔ کُل یہ جُز خارج سے مستعار نہیں لیتا، بلکہ یہ جُز بطور خارج اس کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ کوئی بھی رنگ ایک کُلی شے ہے۔ لیکن جب تک ایک اور رنگ اس کے مقابل نہیں ہوتا، وہ ایک لاشے ہے۔ کیونکہ اس کی صفت متعین نہیں ہوئی ہے۔ پہلا رنگ ایک تجریدی کُلی شے ہی رہتی ہے اور کُلی تجریدی شے کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ رنگ اپنے جداگانہ وجود سے اپنی شناخت برقرار رکھ سکتا تھا تو اسے دوسرے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ لہذا ان معنوں میں دوسرا رنگ اس کمی کو پورا کرتا ہے جو کہ پہلے کُلی تجریدی رنگ میں موجود ہوتی ہے۔ ان معنوں میں یہ کمی اس کُلی تجریدی وجود کے اندر ہوتی ہے۔ رنگ کی نفی اس کے اندر سے ہوئی، باہر سے نہیں!
ہیگل جب مسیحیت کا تجزیہ کرتا ہے تو اسی منطقی اصول کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر صرف سپرٹ (خدا) موجود ہو تو وہ ایک کُلی تجریدی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے لیے ایک مقرونی وجود کی ضرورت ہے، جس میں سپرٹ خود کی فعلیت کو دیکھ سکے۔ ہیگل کے فلسفے کے مطابق خود شعوری کی حامل اس عقل کا معروض (فطرت، کائنات) اس سے خارج میں نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر ہے، جس سے کہ وہ جدلیاتی رشتہ رکھتی ہے۔ اگر فطرت نہ ہو تو سپرٹ لاشے ہے، اور اگر سپرٹ نہ ہو تو فطرت لاشے ہے، کیونکہ یہ سپرٹ فطرت کی قوت ہے جو فطرت کے اندر موجود ہے اور یہ فطرت خود میں پنہاں سپرٹ کی اس فعلیت سے خود کو ظاہر کرتی ہے۔
اس نکتے کی مختصر وضاحت کے بعد اب ہم ہیگل کے فلسفہ مذہب کی طرف آتے ہیں۔ ہیگل کسی بھی صورت میں کسی بھی خیال یا تصور کو ان تمام مراحل سے گزارے بغیر قبول نہیں کرتا جو “کلیت” کی تشکیل نہ کرے۔ جونہی وہ سپرٹ اور فطرت کی جدلیات سے تاریخ میں قدم رکھتا ہے جو کہ ہیگل کا حقیقی مطمع نظر تھا، وہ فطرت میں مضمر جدلیات کو فرد کی سطح پر لاکر فرد کی عملی فعلیت سے تشکیل دیتا ہے۔ فطرت اور سپرٹ کی جدلیات میں تین لمحات تھے۔ جیسا کہ سپرٹ اور فطرت کا کُلی تجریدی وجود اور ان دونوں کی جدلیات، جس میں ظاہر ہوا کہ فطرت سپرٹ میں اور سپرٹ فطرت میں موجود ہے۔ تاریخ کے تجزیے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سپرٹ فطرت سے فرد میں نمو کر گئی ہے۔ چونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سپرٹ خود شعوری کی حامل عقل ہے، جو کہ فرد میں نمو پا چکی ہے۔ فطرت کی مقرونی شکل فرد کا وجود ہے جس میں کہ سپرٹ موجود ہے۔ لہذا فرد میں موجود سپرٹ فطرت کے ساتھ فرد کی عملی فعلیت سے ربط میں آتی ہے۔ ہیگل جب یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح سپرٹ کا مقرونی اظہار ہیں تو اس کی مراد صرف حضرت مسیح سے نہیں، بلکہ بحیثیت کُل بنی نوع انسان سے ہے۔ کیونکہ یہ سپرٹ (خود شعوری کی حامل عقل) ہر انسان میں موجود ہے۔ ہیگل یہ کہتا ہے کہ مسیحیت کا خدا (سپرٹ) اگر انسانی روپ نہ دھارتا تو وہ ایک تجریدی کُلی وجود رہتا جو کہ لاشے تھی۔ ہیگل کا یہی وہ باکمال نتیجہ ہے جس سے مسیحی متکلمین ہیگل کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور یہی وہ نتیجہ ہے جو ہیگلیائی جدلیات کی خصوصیت ہے جس کے مطابق جناب مسیح ہوں یا کوئی بھی زید بکر، انہیں اپنی شناخت کے لیے تاریخی عمل سے گزرنا ہے، بصورتِ دیگر وہ تجریدی کُلی وجود سے آگے نہیں بڑھتے۔ ہیگل کی عظمت یہ ہےکہ اس نے انسان کو خدا اور خدا کو انسان میں تبدیل کرتے ہوئے خدا کا ایک ایسا سیکولر تصور تشکیل دیتا ہے کہ جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی مسیحی پادری کتراتے ہیں۔ کیونکہ خود شعوری کی حامل عقلیت دنیا میں موجود ہے اور اس کا اعلیٰ اظہار ہیگل کا فلسفہ ہے۔ اس لیے الگ سے کسی خدا کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہیگل نے ’’مطلق‘‘ کا ایک جداگانہ تصور پیش کیا جس کے تحت فلسفہ ہی مذہب اور فن کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ یہ خود شعوری کی حامل عقلیت کی برتری ہے کہ ’مطلق‘ (فلسفہ، مذہب یا سپرٹ، آرٹ) کا تصور ممکن ہو پایا ہے۔
یہودیت کے خدائی تصور میں خدا خود کو ظاہر نہیں کرتا۔ بائبل کی پہلی آیت کچھ یوں ہے کہ ابتدا میں ”خدا کا روح پانی پر جنبش کرتا تھا۔“ اس سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ خدا سپرٹ ہے، لیکن یہ سپرٹ لاشے ہے جب تک وہ مقرونی کائنات میں خود کو ظاہر نہیں کرتی۔ چونکہ یہودیوں کے تصورِ خدا میں سپرٹ نے خود کو کائنات میں تو ظاہر کر دیا، تاہم وہ تاریخ میں خود کو ایک فرد کی صورت ظاہر نہ کر سکی۔ ہیگلیائی منطق میں اسے یوں لکھا جائے گا کہ سپرٹ (کُلی) انسان (جزئی) اور فرد (مسیح یا زید، بکر) کی تثلیث قائم نہیں ہو سکی۔ اس لیے یہودیت کا تصورِ خدا اس کُلیت کی تشکیل قائم نہیں کر پایا جو کہ مسیحیت میں قائم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہودیت کا تصور خدا ایک تجریدی کلی وجود سے آگے نہیں آیا۔ چونکہ ہیگل کا تمام فلسفہ کانٹین تصور دوئی کا خاتمہ کرتا ہے، اس وجہ سے اس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے کُلیت کے حامل فلسفے میں یہودی تصورِ خدا کے تحت اس ثنویت کو برقرار رکھتا جس کا خاتمہ اس کی اولین ترجیح تھی۔
اگر ہیگل کے اٹھارہ سو اکتیس کے لیکچرز پڑھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ اس نے اپنے اسی فلسفے کے تحت مسیحی پادریوں کے پارسائی کے تصور کی دھجیاں بکھیر دی تھیں جس کے تحت جناب مسیح دنیا کی زندگی میں عملی شمولیت کے بغیر ہی واپس چلے گئے تھے اس لیے دنیا سے احتراز نیکی کی شرط ہے۔ ہیگل یہ وضاحت کرتا ہے کہ فرد کی بطور فرد تشکیل اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہے جب تک وہ معاشرے کا حصہ نہ بنے، اور اپنی عملی فعلیت کے ذریعے خود کو معاشرے میں معروضی شکل نہ دے۔ فرد کی وہ فعلیت جو اس میں مضمر سپرٹ (خود شعوری کی حامل عقل) کے تابع ہو اور وہی فعلیت معروضی سطح پر استوار ہو۔ وہ ہی معروضی سپرٹ کہلاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں۔
کمنت کیجے