ابو الحسین آزاد
موجودہ تصادم کے علاوہ بھی ہمارے پاس تاریخ میں کم از کم دو اورایسے مرحلے موجود ہیں جن میں مذہب اور عقل کے تصادم کا امکان پیدا ہوا۔ٹوئن بی کی نشان دہی کے مطابق پہلا موقعہ تو وہ تھا جب انسانی تمدن نے نئی نئی آنکھیں کھولی تھیں۔ تب سادہ قبائلی مذاہب اور ابتدائی انسانی فلسفوں کےمابین تصادم کا خطرہ تھا۔ مثال کے طور پر یونان میں ایک طرف زیئس دیوتا(Zeus) اور اُس کی اساطیر کا پورا مذہبی نظام موجود تھا اور دوسری طرف طالیس (Thales)سے ارسطو تک فلسفے کی عقلی روایت بھی چل رہی تھی۔یہ باہم ٹکرا سکتے تھے ۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔
دراصل اُس دور کے مذاہب میں عقیدے یا نظریے کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ بس کچھ دینی مراسم تھے جنھیں آپ نے ادا کرنا ہوتا تھا۔ یہ ایک طرح کے ثقافتی میلے تھے۔ فلسفہ اورعقل جنھیں نظریے سے بحث کرنا تھی اُنھیں یہ مراسم و روایات اپنی راہ کا کانٹا محسوس نہیں ہوئیں۔ چناں چہ اِنھوں نے ایک دوسرے کی راہ نہیں کاٹی۔ہم سقراط جیسے انقلابی فلسفی کو بھی دیکھتے ہیں کہ وہ مرنے سے پہلے وصیت کرتا ہے کہ فلاں مندر میں میرے دوست کی شفایابی کے لیے مرغ کا نذرانہ دے دینا۔
دوسرا تصادم اُس موقع پر ہوا جب عالمی مذاہب ظہور پذیر ہوئے ۔ یہ بڑے اور ہمہ گیر مذہبی نظام تھے اِن میں عقائد کی مرکزی اہمیت تھی، اِن کی کتابیں تھیں، پیغمبر تھے اور پورا نظامِ علم تھا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر فلسفہ بھی پوری پوری اجارہ داری جتاتا ہے۔ چناں چہ اِن مذاہب کی اپنی معاصر عقلیات کے ساتھ صحیح طرح سے مڈبھیڑ ہوئی۔ اسلام اور مسیحیت کو یونانی فلسفے جب کہ ہندو مت اور بدھ مت کو ہندی فلسفے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مزاحمت بہت شدید تھی اور بظاہر صلح کے امکانات نہیں تھے۔
یہ بہت مشکل تھا کہ ارسطو کا محرّکِ اول (Prime Mover) جومادے کو ایک دفعہ حرکت دینے کے بعد اب اُس سے یکسر لاتعلق ہو کر بیٹھا ہے، وہ بائبل کے بولنے والے، پیغمبر بھیجنے والے، کتابیں اتارنے والے اور انسانوں کے معاملات میں پوری پوری دلچسپی لینے والے یہواہ (Yahweh) کے ساتھ مطابقت استوار کر لیتا۔ لیکن ایسا ہوا۔ مذہب اور عقل کے تصادم کا یہ سادہ سا حل نکالا گیا کہ مذہب کے حقائق،جو غالباً دماغ سے زیادہ دل کی زبان میں اترے تھے، اُنھیں عقلیات کا جامہ پہنا دیا جائے۔ مسیحیت میں یہ کام آگسٹائن اور پھر ایکویناس (Aquinas) نے کیا کہ مسیحیت کو پوری طرح یونانی منطق سے گوندھ ڈالا جب کہ اسلام میں امام غزالی اور دیگر بہت سے مفکرین نے مذہبی حقائق کو منطقی اصطلاحات کی شکل میں مرتب کیا۔ یہی سب کچھ بدھ مت اور ہندو مت کے ساتھ بھی ہوا۔ ہر جگہ مذہب نے وہ چغہ پہن لیا جس کے بعد وہ فلسفے کے لیے اجنبی اور انجان نہیں رہا بلکہ الٹا فلسفہ اُسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس طرح سے ایک بہت بڑا تصادم ٹل تو گیا لیکن یہ حل کوئی زیادہ مثالی حل نہیں تھا اِس کی قلعی جلد یا بدیر کھلنا ہی تھی۔
تیسرا اور موجودہ تصادم مغربی سائنس کے ظہور کےساتھ شروع ہوا ہے اور اِس میں بظاہر سائنس نے ہر طرف اپنی فتح اور کامرانی کے جھنڈے گاڑ لیے ہیں۔ مسیحیت نے اپنی ساری عمارت یونانی منطق اور فلسفے پر استوار کر رکھی تھی جسے نئے علم نے بری طرح سے مسمار کردیا۔ مشاہدے، تجربے اور استقرا کا دور شروع ہوا تو یونانی قیاسی استدلال تسلسل کے ساتھ بے قیمت ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہمارے اعلیٰ حضرت نے جب 105 قیاسی دلائل اکٹھے کر دیے اور مقدس نصوص سے بیسیوں استدلالات جمع کردیے کہ زمین ساکن ہے اور نیوٹن جھوٹا ہے تب بھی کرۂ ارضی کی گردش پر کوئی فرق نہیں پڑا۔کیوں کہ وہ جس نظامِ استدلال کی پونجی لے کر بازار میں آئے تھے اصحابِ کہف کے سکوں کی طرح اُس کا زمانہ تین صدیاں پہلے گزر چکا تھا۔یہی طبع آزمائی پھر ڈارون کے ساتھ بھی کی گئی۔ ہمارے اردو فتاویٰ کے شاید ہی کسی مجموعے میں ”اصل الانواع“ (On the Origin of Species) کے رد کا باب نہ ہو۔
ہم اپنے کلامی اور فقہی نظام میں اِن تردیدات کو جو بھی مقام دیں ہماری مرضی، لیکن اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں بھی ہم جتنی جلدی کرلیں اُتنا ہی اچھا ہو گا کہ آئندہ علم اپنی کسی بھی حالت اور کسی بھی زمانے میں ارتقا کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اِن فتاویٰ سے راہنمائی نہیں لے گا۔
سائنس نے ایک ایک کر کےہر ادارہ اور علم کا ہر شعبہ مذہب(یعنی مذہبی اتھارٹیوں) کے ہاتھ سے لے لیا: ہیئت، حیاتیات، طب، سیاسیات، قانون، فن اور آخرِ کار نفسیات۔ نفسیات پر سائنس کی اجارہ داری مذہب کے لیے بڑا صدمہ ہے کہ اس نے شخصی مذہبی تجربے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب نئی دنیا میں جو شخص کسی مافوق الفطرت اور ماورائی روحانی تجربے کی بات کرتا ہے تو قبل ازیں کہ مذہب اس میں اپنے لیے تائیدی دلیل ڈھونڈے نفسیات اسے اچک کر لے جاتی ہے اور بتانے لگتی ہے کہ دراصل یہ آپ کے لاشعور کی اِن اور اِن حرکات کا نتیجہ تھا۔
اداروں اور علم کی شاخوں پر سائنس کے مسلسل قبضوں اور مذہب کی پسپائی کے اس تسلسل میں اب تک کی آخری اندوہ ناک اطلاعات ہمیں یہ پہنچی ہیں کہ اخلاقیات اور روحانیت پر بھی مذہب کا اجارہ باقی نہیں رہا۔ مذہب ابھی نفسیاتی صدمے کی سینہ کوبی سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ اس پر اچانک یہ افتاد بھی آپڑی ہے کہ روحانی قوت کے حصول یا اخلاقی طور پر ایک اچھا اور دیانت دار انسان بننے کے لیے آپ کا مذہبی ہونا ضروری نہیں۔ آج بہت سے ملحدین بھی روحانیت(Spiritualism) کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گیان، نروان اور مراقبہ وغیرہ کے تذکرے آپ کو نوح ہراری کی کتابوں میں بھی مل جاتے ہیں۔ بعض مذہبی نمائندے خود کو اور اپنے ماننے والوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ یہ دراصل شیطانی طاقتوں کے اثرات ہوتے ہیں۔ وہ اسے ”روحانی الحاد“ کا مضحکہ خیز نام دیتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ مذہب آج بھی ایک زبردست قوت ہے۔ پاکستان کی غالب آبادی کی دلچسپی کا محور آج بھی چند تاریخی سیاسی شخصیات کی مذہبی حیثیت کے متعلق ”عقائد“ کا پرجوش اظہار ہے، امریکہ کی نوے فی صد آبادی مذہب سے وابستگی رکھتی ہے اور وہاں کسی سیاسی راہنما کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ اپنے ملحد ہونے کا اعلان کرنے کے بعد اپنے سیاسی کیریئر کو محفوظ رکھ پائے۔ لیکن اسے مذہب کے لیے امید افزا صورتِ حال سمجھنا ایسے ہی ہوگا جیسے سیلاب کی دس دس فٹ اونچی لہریں کسی قلعے کی بیرونی دیواروں سے ٹکرا رہی ہوں لیکن اندر کی ساری آبادی کو بے فکر انداز میں سرکس میں آگ سے چھلانگیں لگانے کا تماشا انجوائے کرتے دیکھ کر آپ یہ تبصرہ کریں کہ ”یہاں زندگی کی بڑی چہل پہل ہے۔“
بہر طور، یہ ایک اندوہ ناک صورتِ حال ہے کہ مذہب، جو انسانی شعور کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، نئی دنیا میں شناخت اوربقا کے بحران میں مبتلا ہے۔ یہ دیکھنا کیسا صبر آزما ہے کہ ایمان اپنے دفاع کے لیے سائنس کی چوکھٹ سے ٹھیکریاں جمع کر رہا ہے! جس طرح ہانڈی میں کھرچن کی آواز سالن کے ختم ہونے کا اشارہ دیتی ہے بالکل اسی طرح مذہب کا جدید علوم اور جدید شخصیات میں اپنی تائیدیں تلاش کرنا اس کےاپنے نظامِ علم اور تاثیر کے بانجھ پن کا اعلان ہے؟ ایک کائنات خدا کے بغیرکیسی ہوگی!
علم کا رخ مستقبل کی جانب ہے جب کہ مذہب کے پاس ایک کھویا ہوا ماضی ہے جس کے دفاع میں شاید یہ خود کشی کر لے۔لیکن علم اور عقیدے کی اس جنگ میں شکست ہمیشہ تہذیب کی ہوتی ہے۔ انسان Homo Sapiens ہونے کے ساتھ ساتھHomo Religiosus بھی ہے۔ یہ محض حیوانِ ناطق نہیں حیوانِ عابد اور حیوانِ عبد بھی ہے۔ عبدیت اور بندگی کے بغیر اس کا وجود محض شرمندگی ہوگا۔ایک ایسی شرمندگی جو بالآخر اس کے لیے کفن اور کافور بن جائے گی۔ شاید وہی دن قیامت کا دن ہوگا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوالحسین آزاد صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔آج کل مختلف عربی کتب کے تراجم کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے