ہمارے بعض معاصرین کو یہ غلط فہمی لگ گئی ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے ترجمے کو کلام اللہ کا بایں معنی متبادل سمجھتے ہیں کہ جو احکام کلام اللہ کے ہیں وہی ان کے ترجمے کے ہیں نیز قرآن کی تفسیر کرنے والے قرآن کو مبہم کلام سمجھتے ہیں اور اس ابہام کے ازالے کے لئے وہ تفسیر لکھتے ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان کے چند دلائل پر ایسی گفتگو کے انداز میں تبصرہ کیا جاتا ہے جو ان کے منہج سے قریب ہے۔
پہلی دلیل
• مدعی: قرآن کا ترجمہ و تفسیر کرنا ناممکن و کفر ہے کیونکہ تفسیر کلام کے نقص ابلاغ کے ازالے کے لئے کی جاتی ہے اور قرآن اس عیب سے پاک ہے
• مبصر : اچھا تو آپ اپنی تحریروں میں اور لیکچرز میں آیات کا ترجمہ و مفہوم کیوں بیان کررہے ہوتے ہیں، وہ بھی اردو میں؟
• مدعی: ہم تعلیم و تفہیم کے لئے کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے یہ کرنا جائز ہے
• مبصر: لیکن مفسرین بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن پڑھ کر جو سمجھ آیا ہے ہم اسے دوسروں کی تعلیم و تفہیم کے لئے بیان کررہے ہیں۔ یہ بات کس مفسر نے کہی ہے کہ میں تفسیر اس لئے لکھ رہا ہوں کیونکہ قرآن واضح نہیں؟ بھائی اگر واضح نہیں تو مفسر کو سمجھ کیسے آیا؟ اسے سمجھ آیا ہے تبھی تفسیر لکھ رہا ہے
• مدعی: تفسیر لکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مفروضہ ہے قرآن سب کے لئے واضح نہیں اور اب میں مطلب بتاؤں گا
• مبصر: تو آپ کا تعلیم دینا بھی کیا اسی مفروضے پر مبنی نہیں کہ لوگوں کو بات سمجھ نہیں آئی، لہذا اب مجھے لیکچرز ریکارڈ کرا کے یوٹوب پر اپ لوڈ کرنا چاہئے؟ اگر سب پر سب کچھ یکساں طور پر واضح ہے تو آپ نے حلقہ درس کیوں قائم کیا ہے؟ اچھا ویسے وہ آیت بتائیں جس کی رو سے ترجمہ و تفسیر کرنا اس حد تک حرام ہے کہ اسے کرنے والا کفر تک پہنچ جائے کہ آپ کے نزدیک حلال و حرام بس وہی ہے جو قرآن میں بیان ہوا؟
• مدعی: یہ ایمانی مقدمات ہیں، اس کے لئے آیت کی ضرورت نہیں
الغرض یہ استدلال تحکمات پر مبنی ہے
دوسری دلیل
• مدعی: کلام کی تفہییم کے لئے لازم ہے کہ متکلم کے نکتہ نظر سے اس پر غور کیا جائے، نیز یہ کہ اس کی تفہییم متن پر مرتکز ہونا چاھئے اور جس قدر بات متن میں بیان ہوئی اسی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ مفسر قرآن کے متن پر باہر سے اپنے نکتہ نگاہ کو مسلط کرتا ہے، اسے خود مکتفی نہیں بلکہ مبھم سمجھتا ہے۔ اس لئے تفسیر جائز نہیں
• مبصر: کونسا مفہوم متن کے اندر مراد ہے اور کونسا متن کے باہر سے لایا گیا ہے، اس کا تعین آپ کس اصول سے کرتے ہیں؟ بات کو مزید کھول کر پوچھا جائے تو یوں ہے کہ آپ کی تھیوری آف لینگویج کیا ہے؟ اصولیین نے نہایت تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ کلام کے الفاظ سے کن طرق سے استدلال کیا جائے تو اسے کلام کا داخل مانا جائے گا اور کونسے طرق سے حاصل شدہ معنی کو متکلم کی مراد قرار دینا غیر معتبر ہے۔ اسی طرح وہ بتاتے ہیں کہ ایک طویل و مفصل کلام سے ماخوذ معنی میں کس کس قسم کے احتمالات ہوسکتے ہیں اور انہیں رفع کرنے کے لئے بیان کی کونسی اقسام ضروری ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان احتمالات کے اعتبار سے الفاظ کے معنی آٹھ شیڈز میں ہوسکتے ہیں، صرف متشابہ وہ درجہ ہے جس کے معنی کے ادراک کے ذرائع انسانی سطح پر مفقود ہوجاتے ہیں۔ اس سے قبل ساتھ درجات (محکم، مفسر، نص، ظاہر، خفی، مشکل و مجمل) میں سے وہ کسی کو بھی “مبھم” نہیں کہتے، آپ نے یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے کہ اصولیین کلام اللہ کو “مبھم” کہتے ہیں؟ تو آپ بتائیں کہ آپ کے نزدیک کلام کا خارج و داخل کیسے طے ہوتا ہے نیز لفظ مبھم سے آپ کی کیا مراد ہے؟
• مدعی: قرآن کے معنی غیر واضح نہیں بلکہ امۃ من حیث الامۃ پر واضح ہیں اور امۃ من حیث الامۃ کا مجمع علیہ ہی دین ہے، تم لوگ قرآن کو مبہم مانتے ہو اس لئے حنفیت شافعیت کی بیان کردہ تشریحات کو نبوت کی توسیع قرار دیتے ہوئے قرآن کی تفسیر کہتے ہو (نوٹ: اصل سوالات کا جواب غائب ہے)
• مبصر: ایک منٹ، آپ لوگ تو دین اور قرآنی آیات سے متعلق متعدد بنیادی امور تک میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو آپ اور آپ کے چند متبعین کے سوا اس امت میں کوئی نہیں مانتا۔ تو امۃ من حیث الامۃ کا مجمع علیہ دین کا ماخذ کہاں ہوا، ماخذ تو آپ چند لوگ ہوئے اور یا آپ چند لوگ ہی امت ہوئے
• مدعی: آپ کو امۃ من حیث الامۃ کا ادراک ہی نہیں ہے اور اس کی وجہ نبوت کما ھی کا ادراک مفقود ہوجانا ہے۔ نبوت کما ھی پر قناعت کرو!
الغرض جسے استدلال کہتے ہیں وہ اس پورے مقدمے میں مفقود ہے، چند غیر واضح الفاظ کو پرو کر ایک مقدمہ بنالیا گیا ہے۔
تیسری دلیل
• مدعی: تفسیر اگر قرآن مجید کا تسلسل اور توسیع نہیں ہے بلکہ توضیح ہے تو اس کا انکار قرآن مجید کا انکار متصور ہونا چاہئے۔
• مبصر: یعنی آپ کے نزدیک کلام اللہ کے معانی بس اسی قدر ہیں جن کے انکار اور جن سے اختلاف پر کسی پر کفر کا فتوی لگایا جاسکے، اس درجہ قطعیت سے کم تر ہر شے کلام کا مفہوم ہو ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ ہے ہمارے محترم کی تھیوری آف لینگویج۔ اس کے ساتھ ان کا دعوی یہ بھی ہے کہ قرآن کا مطلب وہ ہے جو امت کا مجمع علیہ ہے۔ ہم ان سے یہ سوال نہیں پوچھیں گے کہ ہر ہر آیت کا وہ کونسا مفہوم ہے جو اس درجے تک ثابت ہے کہ اس میں اختلاف سے کفر لازم آئے (بس “ثلاثۃ قروء” پر ہی ہماری راھنمائی کریں کہ فریقین میں سے کافر کون ہے)۔ نجانے صحابہ کے دور سے لے کر آج تک وہ کونسی امت ہے جس نے کلام اللہ کو اس تھیوری آف لینگویج کے مطابق سمجھا اور اسی میں محصور کیا۔ موصوف نے تو ربا کی بھی ایسی تعریف کی ہے جو پوری امت میں کسی نے نہیں کی۔ اب مطلب یہ ہوا کہ ربا کی جو ان کی تعریف نہیں مان رہا وہ کافر ہے کیونکہ یہ قرآن کا “صرف وہ مفہوم” بیان کرتے ہیں جس کا انکار کفر ہوتا ہے۔ اب اگر یہ کہیں کہ میری رائے سے اختلاف کفر نہیں تو مطلب یہ ہوا کہ ان کی رائے قرآن کی توسیع ہے کہ ان کے بقول جس بات سے اختلاف پر تکفیر نہ ہوسکے وہ کلام کی توضیح نہیں توسیع ہے۔
ہم یہاں یہ سوال نہیں پوچھیں گے کہ اس سب کی دلیل قرآن یا پھر عقلیات کی رو سے کیا ہے کہ اس درجہ قطعیت سے کم تر درجے میں مفہوم ہونے والے معانی کلام کے معانی آخر کیوں نہیں ہوسکتے کیونکہ ظاہر ہے یہ ان کے وضع کردہ ایمانی مقدمات ہیں جن کی نہ دلیل ہوسکتی ہے اور نہ ان پر سوال ہوسکتا ہے۔ محترم صاف کہہ دیں گے کہ جو ان کی بات نہیں مانتا وہ کفر کررہا ہے۔ ویسے اگر کوئی یہ کہہ دے کہ قران میں بیان شدہ ہر ہر مسئلے سے جو علت میں نے اخذ کی اور اس کی بنیاد پر فرع کا حکم معلوم کیا، یہ سب بھی اسی مفہوم میں توضیح ہے جو ہمارے موصوف کہہ رہے تو؟ یعنی اگر وہ بھی اپنے ایمانی مقدمات سے یہ فتوی جاری کردے کہ جو ان کے بیان کردہ قیاسات کو نہیں مان رہا وہ قرآن کے مفہوم کا منکر ہے کیونکہ یہ سب کچھ کلام میں مقصود ہوتا ہے اور اس لئے منکر کافر ہے تو کیا ہوگا؟ الغرض تحکمات در تحکمات پر مبنی نظام فکر کے ساتھ دلیل سے گفتگو ممکن نہیں ہوتی، تحکمات کا علاج تحکمات ہی ہے۔ کہاں اصولیین کی عظیم لسانی روایت اور کہاں یہ تحکمات!
چوتھی دلیل
• مدعی: مختارات الہیہ (یعنی امور تعبدیہ) میں مداخلت کرنا جائز نہیں، اللہ نے جس شے کو اپنی مشئیت سے چن لیا ہے اسے جوں کا توں مانا جائے گا اور ان میں انسانوں کو تصرف کا اختیار نہیں ہے۔ دیکھو خانہ کعبہ اللہ کے مختارات میں سے ہے، کیا انسانوں کے سہولت کار بن کر کسی دوسرے مقام پر کعبہ تعمیر کرنا جائز ہوگا؟ اسی طرح عربی زبان کے خاص الفاظ کو اللہ تعالی نے اختصاصی طور پر چن لیا ہے، ان منزل الفاظ کے معانی کو غیر منزل الفاظ میں بیان کرنا مختارات الہیہ میں تصرف کرنا ہے۔ نیز کلام اللہ کے ساتھ جو مفاد ہدایت وابستہ ہے اسے کسی دوسرے الفاظ (یعنی ترجمے) کے ساتھ جوڑنا مختارات الہیہ میں مداخلت کرنا ہے۔
• مبصر: یہ استدلال خلط مبحث پر مبنی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تقدیرات شریعہ (جسے یہ مختارات الہیہ کہہ رہے ہیں) میں تبدیلی جائز نہیں جیسے مثلا نماز کی رکعتیں یا مناسک حج یا قبلہ رو ہوکر نماز ادا کرنا۔ تاہم مختارات الہیہ ہونے کا مطلب کسی شے کے ساتھ چند شرعی احکام وابستہ کرنا ہے جیسے یہ کہ کعبے کی جانب ہی رخ کرکے نماز ادا ہوگی، اس کے ارد گرد طواف ہوگا۔ لیکن اگر کوئی کعبے کی تصویر یا چھوٹا سا ماڈل بنا کر حصول برکت کے لئے گھر پر ٹانگ و رکھ لے وغیرہ تو ان احکام کے اعتبار سے کعبہ مختارات الہیہ نہیں ہے۔ اسی طرح کلام اللہ کا مختارات الہیہ ہونا بھی اسی معنی میں ہے کہ اسی کے ساتھ چند خاص احکام وابستہ کئے جائیں جو کسی دوسرے کلام میں روا نہ ہوں۔ مثلا یہ کہ اسے کلام معجز مانا جائے، نماز میں اسی کی تلاوت جائز ہے، ان خاص الفاظ کی نسبت ہی اللہ کی جانب کی جائے اور ان کے منکر یا اس میں الفاظ کا اضافہ کرنے والے کی تکفیر کی جائے، حالت نجاست میں اسے چھونا جائز نہیں وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ چیزیں امور تعبدیہ بعض احکام شریعہ کی نسبت سے ہوتی ہیں۔ ہمارے محترم گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ منزل الفاظ کے مفہوم کو منزل الفاظ ہی میں محصور سمجھنا نیز کسی بھی درجے میں حصول ہدایت کا انتساب ترجمے کی طرف کرنے کی ممانعت ہونا بھی امور تعبدیہ میں سے ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ انتساب سے کیا مراد ہے؟ بات آسان کرنے کے لئے یہ سوچیں کہ اگر قرآن کی کسی آیت کا ترجمہ بیان کیا جائے تو سامعین کو اس کا مفہوم سمجھ آتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو یہ دعوی خلاف واقعہ بھی ہے اور خود ہمارے محترم کے عمل کے بھی خلاف ہے۔ اور اگر ہاں، تو اب اس انتساب کی ممانعت سے مراد کیا یہ ہے کہ اگر قرآنی الفاظ کے ترجمے سے انہیں کوئی بات سمجھ آئے تو ان پر فوراً توبہ کرنا واجب ہے اور جس نے ترجمہ و مفہوم بیان کیا اس پر بھی توبہ لازم ہے نیز جو توبہ نہیں کرتا وہ اسی طرح کافر ہے جیسے قرآن کے اندر کسی لفظ کا اضافہ کرنے والا کافر ہے؟ یا اس سے مراد بس یہ ہے کہ لوگ اپنی زبان سے یہ لفظ ادا نہ کریں: “قرآن کے ترجمے سے بھی بایں معنی ہدایت ملتی ہے کہ قران کی آیت کا ترجمہ کیا جائے تو مفہوم سمجھ آتا ہے”، اگرچہ لوگ ترجمہ پڑھتے اور سمجھتے رہیں؟ یا پھر اس سے کچھ اور مراد ہے؟ ہم ان کا مدعا سمجھ نہیں پائے کہ یہ کہنا کیا چاہتے ہیں!
آخری بات یہ کہ محترم جب خود آیات قرآنیہ کا ترجمہ و مفہوم اردو زبان میں بیان کرتے ہیں تو کیا یہ بھی مختارات الہیہ میں تصرف کرنا ہے یا نہیں؟ اگر وہ کہیں کہ تعلیم و تفہیم کے لئے ایسا کرنا جائز ہے تو اس تخصیص کی دلیل کیا ہے؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے لئے مختارات الہیہ میں تصرف کرنا جائز ہے؟ کیا وہ نماز کی تعلیم کے لئے اپنی درس گاہ میں کعبے کا ماڈل تیار کرا کے اس کی جانب ظہر کی نماز ادا کرنے کے قائل ہیں؟ الغرض ہمارے محترم نے چیزوں کو بری طرح سے خلط ملط کردیا ہے۔
پانچویں دلیل
• مدعی: “انسانی کلام“ کو دوسرے ” انسانی کلام“ میں منتقل کرنے کا معاملہ کوئی ایشو نہیں ہے۔ دنیا کی کسی بھی انسانی کتاب کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ مصنف اور مترجم دونوں ہی انسان ہوتے ہیں۔ایسی صورتحال میں اصل کتاب بھی ”انسانی کلام“ ہوتی ہے اور ترجمہ بھی ” انسانی کلام “ ہوتا ہے۔قرآن مجید کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ قرآن مجید انسانی کلام نہیں بلکہ “کلام اللہ” ھے، جبکہ اس کا ترجمہ “انسانی کلام” ھے۔ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں اور یقینا درست ہیں تو قرآن مجید کا ترجمہ صرف ایک زبان و بیان کا دوسری زبان و بیان میں انتقال نہیں ھے بلکہ یہ” الہی کلام“ کا ”انسانی کلام“ میں تحول convert ھے۔ یہ الوہیت کو انسانیت کا جامہ پہنانے کا عمل ہے۔یہ الوہی جملوں کا انسانی جملوں میں تبادل ہے جس کی سنگینی کا ادراک لازم ہے۔ کیا ترجمہ اصل کا مکمل اظہار ہوسکتاہے؟
• مبصر: چلیں ہم یہ استدلال کرتے ہیں:
انسان کے وضع کردہ کلام کو سمجھنا انسان کے لئے ممکن ہے کیونکہ اس کلام کا خالق انسان ہے لہذا اس کے کلام کے پس پشت انسانی مافی الضمیر میں مراد معانی کو سمجھنا دوسرے انسان کے لئے ممکن ہے۔ لیکن کلام اللہ کو سمجھنا انسان کے لئے ناممکن ہے اس لئے کہ وہ قدیم و لامحدود ذات کے معنی پر دلالت کررہے ہیں اور انسان تو حادث و محدود ہے۔ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں اور یقینا درست ہیں تو قرآن مجید کے فہم کا دعوی ”الہی فہم“ کا ”انسانی فہم“ میں تحول convert ہونا اور دونوں میں مساوات قائم ہونا ہے، یہ الوہیت کو انسانیت کا جامہ پہنانے کا عمل ہے۔ یہ الوہی مفہوم کا انسانی مفہوم میں تبادل ہے جس کی سنگینی کا ادراک لازم ہے۔ پس کلام اللہ کو سمجھنا محال ہے، جو لوگ اسے سمجھ سکنے کے دعوے دار ہیں وہ دراصل الوھیت میں حلول کے دعوے دار ہیں۔
اب ہمارے دعوے میں کیا غلطی ہے؟ الغرض ان کا بیان کردہ استدلال ایسے ہی خلط مباحث کے مجموعوں کا نام ہے۔ جناب یہ دعوی کس نے کیا ہے کہ میں نے اللہ کے کلام کا ایسا متبادل بنا دیا ہے جس پر وہ شرعی احکام لاگو ہوں گے جو عربی زبان کے ان مخصوص الفاظ کے ساتھ خاص ہیں جو آپﷺ پر نازل ہوئے؟ آپ اس موٹے سے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ جب آپ قرآنی مفاہیم سے متعلق اردو زبان میں لیکچرز ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں اور کتابچے لکھ کر چھپواتے ہیں تو اس امید پر کراتے ہیں یا نہیں کہ لوگوں کو کلام اللہ کا مطلب سمجھ آئے گا؟ اسی کو ترجمہ و تفسیر کہتے ہیں۔ یہ دعوی بھی کسی نے نہیں کیا کہ اس نے کلام اللہ کی مراد کو چونکہ دوسری زبان میں پوری طرح منتقل کردیا ہے نیز اس میں کسی اختلاف کا امکان بھی نہیں لہذا اب اللہ کی کتاب کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ ہر ترجمہ مترجم کا فہم کلام ہوتا ہے جسے وہ دوسروں کے ساتھ شئیر کرتا ہے، اہل علم ایک دوسرے کے بیان کردہ تراجم (یعی فہم کلام) سے اختلاف کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
کمنت کیجے