ابو الحسین آزاد
”کیاآپ کا ذہن کسی عظیم ترین اور کامل ترین ہستی کا تصور کرسکتا ہے کہ اُس سے زیادہ عظیم اور کامل ہستی کا تصور ہی نہ کیا جاسکے؟ یعنی خدا کی ذات جو، آپ کے تصور کی انتہاہو،اگرچہ وہ حقیقتاً موجود نہ ہو۔“
”ہاں! بالکل کرسکتا ہے۔“
”ٹھیک ہے ذرا اپنے ذہن میں عظیم ترین اور کامل ترین ہستی کا تصور کیجیے۔ “
”ٹھیک ہے کر لیا۔“
”سوچ لیں کیا اس سے زیادہ عظیم اور کامل ہستی کوئی آپ کے ذہن میں آسکتی ہے؟“
”جی نہیں، یہی عظیم ترین اور کامل ترین ہستی ہے۔“
”اچھا! ٹھیک ہے، لیکن ایک مسئلہ ہے کہ یہ ہستی تو محض ایک خیال ہے۔“
”جی! ہے تو محض ایک خیال“
”اور یہ بھی طے ہے کہ باہر حقیقت میں موجود چیز خواہ کتنی بھی حقیر ہو وہ خیال سے زیادہ بڑی ہوتی ہے۔“
”جی بالکل“
”تو پھر آپ نے جس عظیم ترین ہستی کا ذہن میں تصور کیا ہے وہ حقیقی دنیا میں آپ کے ٹیبل پر پڑے ہوئے کپ سے بھی چھوٹی اور کم تر ہے۔ کیوں کہ وہ ہستی تو محض ایک خیال ہے اور جب کہ کپ ایک حقیقت“
”جی یہ تو ہے۔“
”اوہو! آپ نے تو کہا تھا کہ میں نے ایک ہستی کا تصور کیا ہے کہ اُس سے زیادہ عظیم ہستی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اب آپ کے ذہن میں اُس سے بھی عظیم ہستی کاتصور آگیا۔“
ایسا کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ انسان کا ذہن ایک ایسی کامل ترین ہستی کا تصور کرے کہ اُس سے زیادہ کامل ہستی کا تصور ممکن نہ ہو۔ کیوں کہ یہ بڑی مصیبت ہے کہ ہم جس بھی عظیم ترین ہستی کا تصور کریں خارج میں موجود اشیاء اُس سے بڑی ہوتی ہیں اور جوں ہی ان اشیاء کا تصور آتا ہے تو وہ ہستی خود بخود چھوٹی پڑجاتی ہے۔ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ یہ مان لیا جائے کہ ہم جس عظیم ترین اور کامل ترین ہستی کا تصور کر رہے ہیں وہ حقیقتاً خارج میں بھی موجود ہے۔جب ہم یہ مان لیں گے تو سارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔اب آپ اُس کامل ترین ہستی کا تصور ذہن میں لائیے، اب کوئی آپ سے کہے گا کہ باہر پڑا ایک کپ بھی اُس ہستی سے بڑا ہے کیوں کہ کپ کا حقیقی وجود ہے تو آپ اُسے آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے جس کامل ترین ہستی (یعنی خدا) کا تصور کیا ہے وہ بھی تو حقیقت میں موجود ہے۔
خدا کے وجود کو ثابت کرنے کا یہ گنجلک مگر انتہائی دل چسپ اور حیرت انگیز استدلال وجودیاتی دلیل (Ontological Argument) کہلاتا ہے جسے عظیم مسیحی متکلم اور فلسفی سینٹ انسلم (St. Anselm) (1033ء ۔ 1109ء) نے پیش کیا۔ اُس کے بعد کوئی نوسو سالوں تک اس دلیل نے انسانی تاریخ کے عظیم ذہنوں کو اپنے حصار میں جکڑے رکھا۔ اگر آپ تھوڑا سابھی فلسفے اور منطق کا ذوق رکھتے ہیں تو وجودیاتی دلیل ایک دفعہ آپ پر سحر طاری کر دے گی۔ وجودیاتی دلیل اتنی حیرت انگیز ہے کہ اپنی جوانی کے ایک خاص زمانے تک تو برٹرینڈ رسل کو بھی یہ معقول لگتی رہی۔ معلوم نہیں مسلم متکلمین نے اس دلیل کو کہیں ذکر کیا ہے یا نہیں البتہ مولانا یاسر واجدی صاحب نے اسے اویس اقبال کے سامنے پیش کیا۔
لیکن دوسری طرف اگر آپ تھوڑے سے بھی غیر فلسفیانہ ہو جائیں تو آپ کو یہی وجودیاتی دلیل انتہائی احمقانہ اور محض لفظوں کا اگاڑ پچھاڑ لگے گی۔ یہی نہیں بلکہ فلسفیوں نے بھی اس دلیل کا بطلان کیا ہے۔ مثلاً کانٹ جو عقل کے ذریعے خدا تک رسائی کو ناممکن سمجھتا ہے، اس نے سینٹ انسلم کے اس دعوے ہی کو باطل ثابت کر دیا کہ حقیقت میں موجود چیز خیال و تصور سے زیادہ عظیم اور بے نقص ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک آسٹریلوی فلسفی نے آنسلم کی وجودیاتی دلیل کاعجیب مضحکہ خیز جواب تیار کیا۔ اُس نے کہا:
”کائنات کی تخلیق وہ عظیم ترین اور حیرت انگیز ترین واقعہ ہے جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں اور کسی عظیم واقعے کی عظمت اور حیرت میں اُس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کہ جب اُس واقعے کو کرنے والا کم زور اور نااہل ہو اور اگروہ اتنا کم زور اور ناہل ہو کہ سرے سے ہو ہی نہ یعنی بالکل معدوم ہو تو یہ اس واقعے کی عظمت اور حیرت کی انتہائی ہے۔ لہذا یہ کائنات ایک معدوم خدا نے بنائی ہے یہی سب سے عظیم تصور ہے۔“
میں جب بھی وجودیاتی دلیل کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے زینو اور اُس کا فلسفۂ حرکت یادآجاتا ہے۔ زینو(Zeno) یونان کا مشہور فلسفی تھا۔ اُس نے کہا کہ حرکت ناممکن ہے، کوئی چیز حرکت نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ میں نےنقطہ A سے B تک سفر کیا ہے اور A سے B تک فاصلہ ایک میٹر ہے۔تو اب اس ایک میٹر کو لے لیجیے۔ اس کے دو ٹکڑے کیجیے، اُن دو کے چار ٹکڑے کیجیے، چار کے آٹھ کیجیے۔ اسی طرح اُسے تقسیم در تقسیم کرتے جائیے تو یہ لامتناہی (Infinite) نقطوں میں تقسیم ہوتا چلا جائے گا۔ یعنی خط AB لامتناہی نقطوں سے مل کر بنا ہے۔ اب جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اُس نے نقطہ A سے B تک سفر کیا ہے تو وہ دراصل یہ دعوی کر رہا ہے کہ اُس نے لامتناہی نقاط کو عبور کیا ہے۔ حالاں کہ لامتناہی نقاط کو عبور کرنا سرے سے ناممکن ہے۔ لہذا ثابت یہ ہوا کہ کوئی بھی چیز حرکت نہیں کرسکتی۔ منطقی طور پر حرکت ممکن ہی نہیں ہے۔زینو سے سوال ہوا کہ اچھا پھر یہ تو ہم خود ادھر ادھر چلتے پھرتے اور تمام چیزیں ہمیں حرکت کرتی دکھائی دیتی ہیں ان کا کیا بنے گا؟ زینو نے کہا یہ محض ہمارا خیال ہے۔یہ سب نظر کا دھوکا ہے۔
زینو کی یہ دلیل اتنی طاقت ور تھی کہ بڑے بڑے منطقیوں اور فلسفیوں کے سر چکرا گئے۔ کسی سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ آخر کار دیموقراطیس آیا اور اُس نے اجزائے لایَتَجزّیٰ (Indivisible particles)کا تصور دیا۔ اُس نے کہا زینو صاحب آپ کی یہ دلیل ہی غلط ہے کہ خط AB مسلسل تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جائے گا۔بات یہ ہے کہ جب آپ اسے تقسیم کرتے جائیں گے تو ایک مقام پر ایسے ذرات آجائیں گے جو مزید تقسیم نہیں ہوگی۔ لہذا خط AB لامتناہی (ٰInfinite) نقطوں سے مل کر نہیں بنا بلکہ یہ متناہی (ٖFinite) نقطے ہیں۔
اگر ہم غور کریں تو سینٹ انسلم کی وجودیاتی دلیل بھی زینو کے فلسفۂ حرکت ہی کے جیسی ہے۔ ایک لحاظ سے انتہائی حیرت انگیز اور سر چکرا دینے والی اور دوسری جہت سے محض ایک لفظی مغالطہ جسے محض یہ کہہ کر مسمار کیا جاسکتا ہے کہ بھائی! یہ کہاں سے ثابت ہو گیا ہے کہ موجود ہونا انتہائے کاملیت ہے!
آپ کو زینو کی بات زیادہ معقول لگتی ہے یا دیموقراطیس کی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوالحسین آزاد صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔آج کل مختلف عربی کتب کے تراجم کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے