Home » لزومِ موجودگیء ولی در نکاح ( مسند امی عائشہ رضی اللہ عنھا)
تفسیر وحدیث فقہ وقانون

لزومِ موجودگیء ولی در نکاح ( مسند امی عائشہ رضی اللہ عنھا)

1879۔حدثنا ابو بکر بن ابی شیبہ قال: حدثنا معاذ قال:حدثنا ابن جریج، عن سلیمان بن موسی،عن الزھری ، عن عروۃ، عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا، قالت: قال رسول اللہ ﷺ:”(ایما امراۃ لم ینکحھا الولی، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل،فنکاحھا باطل،فان اصابھا فلھا مھرھا بما اصاب منھا،فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ)

ام المومنینؓ کی مسند کے مطالعے میں یہ معروف روایت ہمیشہ زیربحث آتی ہے جو خواتین کے نکاح میں سرپرست کے اختیار کے مسئلے میں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ جس عورت کا نکاح بھی اس کے سرپرست نے نہ کیا ہو (بعض طرق کے مطابق: جس نے اپنا نکاح سرپرست کے بغیر خود کر لیا ہو)، اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر (فسخ نکاح سے پہلے) میاں بیوی کی ملاقات ہو چکی ہو تو عورت مہر کی حق دار ہے۔ اگر ان کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو پھر حاکم یا قاضی اس کا سرپرست ہے جس کا سرپرست نہ ہو۔

روایت کی سند اور متن میں بہت زیادہ اضطرابات ہیں جن پر امام دارقطنی نے اپنی ’’علل’’ میں تفصیلی کلام کیا ہے۔ اس میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ سند کے مرکزی راوی، امام زہری یہ روایت بیان کرنے کے بعد غالباً‌ بھول گئے اور ابن جریج کے استفسار پر اس روایت کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اس بحث سے قطع نظر، روایت کا آخری جملہ نوعیت حکم کی توضیح کے لیے بہت اہم ہے۔ عموماً‌ فقہاء نے اس کو سرپرستوں کے باہمی اختلاف پر محمول کیا ہے۔ یہ بھی سیاق کے لحاظ سے محتمل ہے۔ ہمارے خیال میں اگر اس کو خاتون اور سرپرست کے باہمی نزاع پر محمول کیا جائے تو یہ بھی عین قرین قیاس ہے۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ اگر خاتون اور اس کے سرپرست میں جھگڑا ہو جائے، مثلاً‌ خاتون اس کا حق سرپرستی ماننے سے انکار کر دے اور اس پر کوئی اعتراض رکھتی ہو تو پھر قضیے کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ اس مفہوم کی تائید ان متعدد مقدمات سے ہوتی ہے جو احادیث میں نقل ہوئے ہیں اور جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کے غلط استعمال پر سرپرست کے حق کو کالعدم قرار دے دیا اور خاتون کو حق دے دیا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے، نکاح کر لے۔

امام شافعیؒ اسی بنیاد پر ’’فان اشتجروا’’ کے جملے کے تحت سرپرست کی غیر موجودگی کے علاوہ اس صورت کو بھی شامل کرتے ہیں جب سرپرست اپنی ذمہ داری ادا نہ کر رہا ہو اور بلاوجہ نکاح میں تاخیر یا رکاوٹ کا موجب بن رہا ہو۔ فرماتے ہیں:

وقول النبي ﷺ: «فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له» يدل على أن السلطان ينكح المرأة لا ولي لها والمرأة لها ولي يمتنع من إنكاحها إذا أخرج الولي نفسه من الولاية بمعصيته بالعضل (تفسیر الامام الشافعی، ج ۱ ص ۳۷۷)

کلاس میں اس حوالے سے ایک سوال یہ ہوا کہ جو لڑکیاں ازخود جا کر کورٹ میرج کر لیتی ہیں، ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟ ہماری رائے میں عاقل وبالغ لڑکی کا، نکاح کے معروف طریقے کو چھوڑ کر، عدالت میں چلے جانا سرپرست یا اہل خانہ پر عدم اعتماد کا ہی اظہار ہے اور یہ صورت ’’فان اشتجروا’’ کا مصداق بنتی ہے۔ چنانچہ عدالت کی طرف سے ایسے نکاح کی تصدیق کے بعد نکاح کے قانونی وشرعی طور پر درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں، یہ نکتہ ضرور اٹھایا جا سکتا ہے کہ عدالت کو تصدیق سے پہلے وہ وجوہ پوچھنے چاہییں جن کی وجہ سے لڑکی نے سرپرست کو بائی پاس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، یہ اجتہادی معاملہ ہے اور اگر عدالت مطلقاً‌ ایسے نکاحوں کی تصدیق کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس سے اس کے قانونی اثر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے نکاح بہرحال شرعی وقانونی طور پر درست شمار ہوں گے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

 

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں