Home » کانٹ، جرمن عقلیت اور ناقدین کی باطل تعبیرات
شخصیات وافکار فلسفہ

کانٹ، جرمن عقلیت اور ناقدین کی باطل تعبیرات

 

عمران شاہد بھنڈر

ا گر فلسفیوں کے درمیان ان کے نظامِ فلسفہ کو لے کر کوئی موازنہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے افکار کے درمیان مماثلتیں اور امتیازات دریافت کرنا ایک دلچسپ امر ہوتا ہے۔ تاہم فلسفے کا علم رکھنے والے لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ فلسفی اور متکلم کا موازنہ درست فکری رویے کی عکاسی نہیں کرتا۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ فلسفی خیالات کو پیدا کرتا ہے، ان کی تنظیم و تدوین کرتا ہے اور انہی منطقی صورت عطا کرتا ہے۔جبکہ متکلم اسی منطقی صورت کو اپنا رہنما بناتا ہے۔ایک متکلم اس قسم کا فقرہ ادا کر سکتا ہے کہ ”تمہارے تصور کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔“ لیکن ایک فلسفی پر ایسے الفاظ کی بے معنویت اور غیر منطقیت عیاں ہوتی ہے۔ کیونکہ فلسفی جانتا ہے کہ ایسے لغو فقرے کسی منطقی فکر کے زائیدہ نہیں ہوتے۔ ایک بڑا فلسفی اپنا ایک فکری نظام تشکیل دیتا ہے۔ اس فکری نظام میں ہر خیال، تصور، مقولہ اور ادراک ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ وہ منطقی مغالطوں پر نظر رکھتے ہوئے منطقی اصول و قواعدکی تشکیل کرتاہے اور انہیں منطقی اصول و قواعد کی روشنی میں تصورات، مقولات، خیالات، تصدیقات وغیرہ کا استخراج کرتا چلا جاتا ہے۔ جب ہم ایک بار کسی بڑے فلسفی کے فلسفیانہ نظام میں داخل ہو جائیں تو ان تصورات، خیالات، مقولات وغیرہ کی خود رو حرکت کے تحت ان کا استنباط زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ عمانوئیل کانٹ ایک ایسا ہی جنّاتی فلسفی ہے جو انتہائی مہارت سے منطقی اصول و قواعد تشکیل دیتا ہے اور انہی کی پیروی میں نتائج اخذ کرتا ہے۔ اس کے فکری منہج کو سمجھے بغیر اس کے کسی ایک ٹکڑے کو اٹھا کر اس سے کوئی نتیجہ نکالنا سطحی تنقید کا عکاس ہی نہیں بلکہ فلسفیانہ فکر سے نابلد ہونے کی علامت بھی ہے۔ اس طرح کے فلسفیوں کو چیلنج کرنے کے لیے ظاہری اور سطحی مماثلتیں تلاش کرنے کی بجائے ان کی فکر میں پائے جانے والے منطقی روابط اورمغالطوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ سب سے بنیادی چیز یہ کہ کوئی فلسفی کب پیدا ہوا اور اس کی پیدائش سے پہلے کون سی فکر غالب تھی اور اس فلسفی نے اس فکر کو کیسے چیلنج کیا۔ بعد ازاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی فکر کے اثرات کتنی دور تک پھیلتے گئے اور کیسے مختلف علوم میں ارتقا کا باعث بنتے گئے۔”آخری سچائی“ کی فلسفے میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ فلسفی جانتے ہیں کہ ”آخری سچائی“ اقوام کی فکری موت کے مترادف ہوتی ہے۔ فلسفیانہ افکار کی رد و نمو ہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ ذاتی تعصبات کی منطقی مباحث میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جہاں تعصب ہو وہاں منطق نہیں ہوتی اور جہاں منطق ہو وہاں تعصب کا ٹھہرنا ناممکن ہوتا ہے۔ 

عظیم فلسفیوں سے باطل اور خود ساختہ خیالات منسوب کرکے من پسند تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے رہنا ایک منفی ہی نہیں بلکہ لاحاصل عمل بھی ہے۔ فلسفیوں کے افکار پر تنقید کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ دورانِ تنقید اگر کوئی حقیقی زاویہ سامنے آتا ہے تو اس سے فکر کو مہمیز ملتی ہے اور فکر اگلے مراحل طے کرنے لگتی ہے۔ لیکن عدم تفہیم کی بنیاد پر کی جانے والی تنقید اپنے اور دوسروں کے وقت کے زیاں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتی۔ناقدین کبھی کہتے ہیں کہ کانٹ نے جو خیالات پیش کیے ان سے تو متکلمین پہلے سے آگاہ تھے۔کبھی وہ کانٹ کو سوفسطائی کہتے ہیں۔ تعصبات اتنے گہرے ہیں کہ آج تک کانٹ کی درست تفہیم بھی نہیں کر پائے۔ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ فلسفے کی دنیا میں ایک جیسے نتائج پر پہنچنا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ اصل چیز وہ فکری منہج ہوتا ہے جو مخصوص نتائج تک پہنچانے میں رہنمائی کرتا ہے۔ یہی وہ منہج ہے جو دوسرے تمام علوم میں سرایت کر کے ان میں ارتقا کا باعث بنتا ہے۔ اور اسی سے کسی فلسفی کی عظمت کا تعین ہوتا ہے۔

ایک کانٹین ’ناقد‘ نے اپنی تازہ تحریر میں فلسفیانہ اصطلاح ”تصور“ کا غلط استعمال کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ متکلمین اس بات سے آگاہ تھے کہ خدا کے”تصور“ کی معروضی بنیاد موجود نہیں ہے۔ لیکن جس غیر ضروری طریقے سے اس ناقد نے کانٹ کو درمیان میں گھسیٹا ہے، میرا یہ فرض ہے کہ میں کانٹ سے متعلق ان کی فکری غلطی کا محاسبہ کروں۔ اس فکری سمت میں بڑھنے سے قبل ضروری یہ ہے کہ کانٹ کے اپنے الفاظ یہاں پیش کر دیے جائیں جن میں وہ تصور کی اقسام، اعیان اور ادراکات کے درمیان فرق قائم کرتا ہے۔ کانٹ لکھتا ہے،

”ادراک حسی اور ادراک معروضی علم کہلاتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں: مشاہدہ اور تصور۔ مشاہدہ معروض پر بلاواسطہ عائد ہوتا ہے اور ہمیشہ منفرد ہوتا ہے۔ تصور معروض پر ایک ایسی علامت کے توسط سے عائد ہوتا ہے جو متعدد اشیا میں مشترک ہوتی ہے۔ تصور یا تو تجربی ہوتا ہے یا خالص جو کہ صرف فہم سے ماخوذ ہوتا ہے (نہ کہ حسی خاکے سے)، وہ معقول کہلاتا ہے۔ وہ تصور جو معقولات پر مبنی ہوتا ہے اور امکانی تجربے کے دائرے سے آگے بڑھ جاتا ہے عین کہلاتا ہے۔“

کانٹین فلسفے میں یہ تقسیم اس حد تک اہم ہے کہ کانٹ کو خدشہ تھا کہ قارئین اس فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے۔ کانٹ اس غلطی کی سنجیدگی سے آگاہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر یہ غلطی سرزد ہو گئی تو اس کے فلسفیانہ پروجیکٹ کی تفہیم میں غلطی کا ارتکاب یقینی ہو جائے گا۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کانٹ اپنے قارئین کو زور دے کر کہتا ہے،

”وہ عین کی اصطلاح کے اصلی معنی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اور اصطلاحات کے ساتھ نہ مل جائے جو مختلف قسم کے ادراکات کو ظاہر کرنے کے لیے بے احتیاطی سے بغیر کسی ترتیب کے استعمال کی جاتی ہیں تاکہ اس سے علمی تحقیق کو نقصان نہ پہنچے۔“

المیہ یہ دیکھیے کہ کانٹ نے مختلف تصورات کے تفاعل کی بنیاد پر ان کی تقسیم کے جس نکتے پر توجہ مرکوز کرنے کی تاکید کی ہے اسی نکتے کو ناقد نے ہمیشہ نظر انداز کر کیا ہے۔ یہ ناقدین ہمیشہ تصورات اور اعیان کے درمیان فرق کو یکسر فراموش ہی نہیں کرتے بلکہ ان قبل تجربی مقامیات کو بھی مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جہاں یہ اعیان اور تصورات مقررہ قواعد کے تحت موجود ہوتے ہیں۔ وہ اس معمولی بات سے بھی واقف نہیں ہیں کہ حسی معروضات پر فہم کے مقولات عائد ہوتے ہیں، نہ کہ عقل کے اعیان! حسی ادراکات کسی بھی صورت میں عقل کا معروض نہیں ہوتے۔ عقل کا معروض فہم کے تصورات ہوتے ہیں۔ اگرچہ عقل ان کو جانتی نہیں ہے، تاہم وہ ان سے کسی بھی طرح کے داخلی تناقض میں نہیں آتی۔ انہی کی مدد سے وہ ایک غیر مشروط تک رسائی حاصل کرتی ہے، اگرچہ اس کو جاننے کا دعویٰ نہیں رکھتی۔ کانٹین ناقدین قطعی طور پر نہیں جانتے کہ کانٹین فلسفے میں ادراکات، تصورات، تصدیقات اور اعیان میں کیا فرق ہے، لیکن اس کے باوجود وہ کانٹ پر تنقید کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ کانٹین ناقد کی اس انتہائی بنیادی غلطی کو واضح کرنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ تصورات اور اعیان کے درمیان فرق کی مزید وضاحت کر دی جائے تاکہ عام قاری کو کانٹین اصطلاحات کو ان کے درست پیرائے میں سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لی جائے کہ کانٹین فلسفے میں مابعد الطبیعاتی اعیان تین طرح کے ہیں: خدا، بقا اور ارادے کی آزادی۔ ان تینوں سے متعلق یہ بات واضح رہے کہ یہ عقل کے خالص اعیان ہیں۔ ان کا اثبات تو ہے مگر ان کا علم حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

ذہن نشین رہے کہ فہم کے تصورات کو حسی ادراکات کی ترکیبی وحدت سے سروکار ہوتا ہے۔ لیکن عقل کے قبل تجربی اعیان کُل شرائط کی غیر مشروط ترکیبی وحدت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں بھی اعیان کی تین اقسام موجود ہیں: خیال کرنے والے موضوع کی مطلق وحدت۔ دوسری مظاہر کے سلسلہ شرائط کی مطلق وحدت اور تیسری کُل معروضات خیال کی شرائط کی مطلق وحدت۔ فی الوقت ہمیں ان تینوں سے غرض نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ہم ان کے گہرے تجزیات میں اتریں تو یہ ہمیں ہمارے موضوع سے دور لے جائیں گے۔ بس یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ عقل کے وہ خالص تصورات جو ترکیب شرائط کے مکمل مجموعے پر مشتمل ہوں وہ وحدتِ فہم کو غیر مشروط تک پہنچانے کے لیے عقلی مطالبات کی حیثیت سے ضروری ہیں۔ یہ قبل تجربی تصورات کوئی مقرونی استعمال نہیں رکھتے، لیکن یہ کسی بھی طرح کے داخلی تناقض کے بغیر اپنا استعمال رکھتے ہیں۔ کانٹ کے مطابق عین عقل کا ایک وجوبی تصور ہے جس کے جوڑ کا کوئی بھی مشاہدہ حواس میں موجود نہیں ہوتا۔کانٹین طالبِ علم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان اعیان کو خود سے گھڑا نہیں گیا بلکہ یہ منطقی مطالبے کے طور پر عقلِ انسانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ عقلِ انسانی ہی کا مطالبہ ہے کہ یہ عین کُل تجربے کی حدود سے تجاوز کر جائے، ان معنوں میں تجربے میں کوئی ایسا معروض نہیں پایا جاتا جو عین سے مطابقت رکھتا ہو۔

کانٹ کے ناقدین نے اپنے تئیں یہ تصور کر رکھا ہے کہ کانٹ یہ نہیں جانتا تھا کہ عقل بلاواسطہ اشیا حقیقی کا علم حاصل کر سکتی ہے۔ حالانکہ کانٹین فلسفہ اسی نکتے سے نبرد آزما ہونے کی سعی ہے۔ کانٹ سے پہلے فلسفے میں دو رجحانات پائے جاتے تھے۔ ایک برطانوی تجربیت جس کے نمائندہ فلسفیوں میں جان لاک تھا۔ تجربیت میں تمام عقلی تصورات کو حسیات تک محدود کر دیا جاتا تھا۔ دوسرا فکری رجحان جرمن عقلیت پسندی تھا جس کے نمائندہ فلسفیوں میں لائبنیز اور وولف شامل تھے۔ جرمن عقلیت میں حسیات کے آزادانہ کردار کو ختم کر کے معروضات حس کو حقیقی مان کر ان کا صرف عقل میں ایک دوسرے سے تقابل کیا جاتا تھا، جس سے طبیعی دنیا کی خود مختاریت پر سوالیہ نشان قائم ہوتا تھا۔ کانٹ کے پیشِ نظر یہی دو رجحانات تھے جن کی اس نے اعلیٰ فلسفیانہ سطح پر تنقید پیش کی۔ کانٹ کے اٹھائے گئے نکات اس حد تک گہرے اور ہر فکری سمت کا محاصرہ کیے ہوئے تھے کہ کانٹ کے بعد حسیات کو بنیاد بنا کر حقیقت تک رسائی کا دعویٰ کرنے کا حوصلہ کسی فلسفی نے نہیں کیا۔ مابعد کانٹین فلسفیوں نے تسلیم کیا کہ عمومی تجربے کے علاوہ بھی تجربے کی سطحیں ہوتی ہیں جن کی پیروی میں کانٹین فلسفے کے پیش کردہ تناقضات کی تحلیل ممکن ہو سکے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ فلسفیوں نے حسیات یعنی عمومی تجربے کی بجائے فہم سے آغاز کیا۔ انہوں نے جزئی کی بجائے کُلی کو موضوع بنایا۔

میں نے مضمون کے آغاز میں تصورات کے قبل تجربی مقامیات کا مختصر ذکر کیا ہے۔ چونکہ لائبنیز کی عقلیت پسندی پر کانٹ کی تنقید کا بنیادی پہلو یہی قبل تجربی مقامیات ہیں، اس لیے یہ وضاحت کرنا بہت ضروری ہے کہ قبل تجربی مقامیات کیا ہیں اور کون سے تصورات ہیں جو ان مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ قبل تجربی مقامیات دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جہاں حسی تصورات موجود ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جہاں فہم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ قبل تجربی مقامیات اور مقولات میں فرق ہے، انہیں گڈ مڈ کرنے سے کانٹین فلسفے کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ان مقامیات میں تصورات کا تعین اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ فہمِ محض لغزشوں اور کوتاہیوں سے محفوظ رہ سکے۔ ”ہر تصور جو متعدد ادراکات پر حاوی ہو وہ ایک منطقی مقام کہلاتا ہے۔“ ارسطو نے انہی منطقی مقامات کا تعین انتہائی باریک بینی سے کیا تھا۔ انہی کی پیروی اور رہنمائی میں اور پوری منطقی صحت کے ساتھ مسیحی اور اسلامی متکلمین اپنی الٰہیاتی حیثیت کو واضح کرتے رہے ہیں۔

قبل تجربی مقامیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں فہم کے مقولات سے الگ رکھا جائے۔ ان دونوں میں فرق بہت باریک اور بنیادی نوعیت کا ہے۔ قبل تجربی مقامیات میں پائے جانے والے تصورات میں ”معروض اپنے تصور کے مشمول (کمیت، اثبات وغیرہ) کے لحاظ سے ظاہر نہیں ہوتا“ بلکہ اس میں صرف ان تصورات کا تقابل کیا جاتا ہے جو معروض سے مقدم ہوں۔ یہ تقابل اس لیے کیا جاتا ہے کہ قبل تجربی مقامیات پر واقع یہ تصورات حسیات سے تعلق رکھتے ہیں یا فہم سے! یہاں ایک باریک فرق ملحوظِ خاطر رہے کہ جب تصورات کا تقابل منطقی طور پر کیا جاتا ہے تو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ تصورات کس صلاحیت (فہم، حسیات) کے معروضات ہیں۔ تاہم جب ان تصورات کو معروضات پر عائد کرنا چاہیں تو یہ جاننا ازحد ضروری ہوتا ہے کہ یہ تصورات کس صلاحیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ اسی صورت میں یہ جانا جا سکتا ہے کہ آیا ان کا تعلق مظاہر کے ساتھ ہے یا اشیائے حقیقی کے ساتھ۔ کانٹ کا لائبنیز پر سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ وہ ان قبل تجربی مقامیات سے واقف نہیں تھا۔ اس نے ایک ایسا عقلی نظام قائم کیا کہ جس میں معروضات کا مقابلہ فہم اور اس کے تجریدی تصورات سے کرا کے یہ نتیجہ نکال لیا کہ اس نے اشیائے حقیقی کی ماہیت دریافت کر لی ہے۔ لائبنیز کی غلطی یہ تھی کہ اس نے جب معروضات حسیات کو فہم میں جگہ دی تو فہم کے تصورات کا ہی ایک دوسرے سے تقابل کیا اور انہی فہمی تصورات کی بنیاد پر پیدا ہونے والے امتیازات کو اہمیت دی جو فہم کے اندر سے پیدا ہو رہے تھے۔ اس طرح لائبنیز حسی مشاہدے کی ان شرائط کو نظر انداز کرتا ہے جو کانٹین فلسفے میں مشاہدے کی شرائط گردانی جاتی ہیں۔ فلسفے کے طالب علم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کانٹ سے قبل جرمنی میں لائبنیز کے فلسفہ زمان و مکاں کی دھوم تھی۔ لہذا کانٹ پر لازم تھا کہ اس کا تنقیدی جائزہ پیش کرے۔ کانٹ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ جب عقل کے ذریعے اشیا کے باہمی علاقوں کا ادراک کرنا مطلوب ہو تو یہ صرف ان اشیا کے باہمی علاقوں کے درمیان تعامل کے تصور سے ہی ممکن ہوتا ہے اور اگر ہم ایک ہی شے کی حالت کو اسی شے کی کسی دوسری حالت سے ربط میں دیکھنا چاہیں تو اس کے لیے علیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ کانٹ اعتراض کرتا ہے کہ لائبنیز نے ”مکاں کوجوہروں کے تعامل کی ایک خاص ترتیب اور زمانے کو ان کی کیفیات کا طبیعی سبب قرار دیا اور ان دونوں میں جو مخصوص چیز تمام اشیا سے الگ نظر آتی ہے اس کو اس نے ان تصورات کے ابہام کی طرف منسوب کر دیا جس کی وجہ سے وہ چیز جو محض طبیعی علاقوں کی ایک صورت ہے بجائے خود ایک مستقل اور اشیا سے مقدم مشاہدہ قرار دی جاتی ہے۔“ اس طرح اس کے نزدیک زمان و مکاں اشیائے حقیقی (جوہر اور ان کی کیفیات) کی معقول صورتیں قرار پاتی ہیں۔ اشیا کی یہ صورتیں جو کہ معقولات کے زمرے میں آتی تھیں، انہیں اس نے مظاہر پر لاگو کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ لائبنیز حس کے کسی مخصوص طریق مشاہدہ کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ اگر حسیاتی ادراکات کے کسی مخصوص طریقے کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ان کی فہمی اور عقلی تصورات سے مصالحت ایک مشکل کام ٹھہرتا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کانٹ نے لائبنیز کی عقلیت پسندی پر جو تنقید کی ہے وہ صرف اسی پر نہیں بلکہ تمام عقلیت پسندوں پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ سبھی عقلیت پسندحسیاتی معروضات کے بارے میں یہی رویہ رکھتے ہیں کہ وہ عقلی تصورات کے منطقی اظہار کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔

ایک اعلیٰ فلسفی جب منطقی طور پر تصورات کی تحلیل یا استخراج کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ یہ عمل انتہائی باریکی اور احتیاط سے سر انجام دیا جانا چاہیے، بصورتِ دیگر غلطی کا امکان باقی رہتا ہے جس سے اس کے سارے فلسفیانہ نظام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک فلسفی کسی دوسرے فلسفی پر تنقید کرتا ہے تو وہ سطحی مماثلتوں پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ ان منطقی تصورات کی تحلیل و استخراج کو پیشِ نظر رکھتا ہے جن میں غلطی کا امکان کسی فلسفی کے فلسفے کی خامی تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں سے آغاز کرکے فلسفیانہ سطح پر اگلے مراحل طے کیے جاتے ہیں۔

کانٹ کے فلسفے کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ہم صرف مظاہر کا ادراک کرتے ہیں، جبکہ شے حقیقی کے اندرونی تعینات ہماری حسیات پر ظاہر نہیں ہوتے۔ جہاں تک فہم کا تعلق ہے تو شے حقیقی کے داخلی تعینات براہِ راست اس کا معروض نہیں ہوتے۔ جبکہ لائبنیز اس سے اُلٹ سوچتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ داخل اور خارج کے فرق کو عقلی لحاظ سے دیکھتے ہوئے حسی معروضات کو معقولات میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس مختصر وضاحت کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ کانٹ کے ناقدین اس پر جو اعتراضات کرتے ہیں ان اعتراضات کے تفصیلی جوابات پہلے ہی سے اس کے فلسفے میں موجود ہیں۔ چونکہ یہ ناقدین لائبنیز اور وولف کے فلسفیانہ نظاموں سے واقف نہیں ہیں اس لیے وہ یہ تصور کر بیٹھے ہیں کہ کانٹ ان قضایا سے واقف نہیں تھا۔ حالانکہ کانٹ کا فلسفہ اسی عقلیت پسندی کی تنقید ہے جس کی یہ ناقدین اپنی کم فہمی کی بنیاد پر وکالت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ دوسرا نکتہ جس کی وضاحت یہاں ضروری ہے یہ ہے کہ کانٹین ناقدین کو آج تک یہی سمجھ نہیں آسکی کہ کانٹ کے فلسفے میں تصورِ خدا کا اثبات موجود ہے لیکن اس “تصور” کا علم ممکن نہیں ہے۔ علم کا تعلق فہمِ محض کے مقولات کے ساتھ ہے جب ان کو حسی ادراکات پر لاگو کیا جاتا ہے۔ جبکہ عقلی اعیان کبھی بلاواسطہ حسی ادراکات پر عائد نہیں ہوتے۔ بلکہ فہم کے تصورات حسی ادراکات پر عائد ہونے کے بعد عقل کا معروض بنتے ہیں۔ اس کے لیے کانٹین فلسفے میں باکمال تجزیات پیش کیے گئے ہیں جو کانٹین فلسفے کی داخلی ساخت میں کچھ اس طریقے سے مضمر ہیں کہ ان کا منطقی ابطال کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ فلسفیانہ تجزیات میں یہ ایک انتہائی فضول سرگرمی ہوتی ہے کہ کسی ایک فلسفی کے فلسفے کو رَد کرنے کے لیے کسی دوسرے فلسفی کا فلسفہ پیش کر دیا جائے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ جو رکاوٹیں ایک فلسفی نے کھڑی کر دی ہیں ان کو کیسے عبور کرنا ہے۔ لہذا کسی بھی فلسفے کی لاتشکیل اس کے اندر سے ہوتی ہے۔ صدیوں پرانے کلامی مباحث کو فقط پیش کر دینے سے خود بخود ابطال نہیں ہو جاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں