محترم غامدی صاحب نے دو ویڈیوز میں سورۃ نحل کی آیت 43 (وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ) میں لفظ تبیین پر اپنے موقف پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ لغوی طور پر اس لفظ کے دو معانی ہیں:
(الف) از خود کسی بات کو واضح کرنا یا بیان کرنا یا اسے بعینہہ پہنچا دینا
(ب) کسی کلام یا بات کی شرح کرنا
ان کا فرمانا ہے کہ یہ دونوں معانی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ متعلقہ آیت میں الفاظ “لتبین للناس” میں قرآن کو بعینہہ پہنچا دینا مراد ہے اور حدیث میں بیان شدہ امور و توضیحات یہاں مراد نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ علمائے تفسیر نے بھی اس آیت کو ان دو معانی میں دیکھا ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے علامہ طبری (م 310 ھ) اور علامہ جار زمحشری (م 535 ھ) کو پہلے معنی بیان کرنے والا کہا ہے اور امام رازی (م 606 ھ ) و علامہ ابن کثیر (م774 ھ ) کو دوسرے معنی مراد لینے والا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ علامہ طبری نے ایک معنی کے سوا دوسرا معنی سے متعلق کوئی قول تک نہیں لکھا جس سے گویا معلوم ہوا کہ ابتدائی صدیوں میں علماء اس آیت کو اسی معنی میں دیکھتے تھے جو ان کا موقف ہے، پھر بعد میں اصولیین کے زیر اثر دوسرے معنی عام ہوکر زبان زد عام ہوگئے۔
انہوں نے ویڈیوز میں مزید باتیں بھی بیان کی ہیں جن پر ان شاء اللہ الگ سے بات ہوتی رہے گی۔ یہاں ہم ان کے اس بات پر تبصرہ کرتے ہیں کہ کیا واقعی علامہ طبری نے وہی ایک ہی معنی لکھے ہیں جس کے غامدی صاحب مدعی ہیں نیز اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ سے مراد آپﷺ کی جانب سے کلام اللہ کی شرح کیا جانا ہے؟ علامہ طبری نے سورہ نحل کے اس مقام پر یہ لکھا ہے:
وأنزلنا إليك يا محمد هذا القرآن تذكيرا للناس وعظة لهم، (لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ) يقول: لتعرفهم ما أنزل إليهم من ذلك
چنانچہ غامدی صاحب لفظ “لتعرفہم” سے استدلال کیا ہے کہ علامہ طبری کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ لوگوں کو قرآن کا تعارف کرادیں نہ کہ اس کی شرح کردیں اور اس سے انہوں نے اپنے موقف کی دلیل پکڑی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ شرح کرنے اور تعارف کرانے میں دوئی کیونکر ہے تاہم فی الوقت اس بات کو ایک طرف رکھئے، اس پر ہم پہلے بھی بات کرتے رہے ہیں۔ بجائے خود کوئی تبصرہ کرنے کے، آئیے علام طبری ہی سے پوچھ لیتے ہیں کہ “تعارف” سے ان کی کیا مراد ہےنیز کیا نبی کی شرح اس میں شامل ہے یا نہیں۔ علامہ طبری نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں ایک باب باندھا ہے “الْقَوْلُ فِي الْوُجُوهِ الَّتِي مِنْ قِبَلِهَا يُوصَلُ إِلَى مَعْرِفَةِ تَأْوِيلِ الْقُرْآنِ” یعنی ان امور کا بیان جن کے ذریعے قرآن کے معنی کی معرفت حاصل ہوتی ہے”۔ یہاں ان کی شہ سرخی میں لفظ “معرفت” پر توجہ رہے۔ آپ لکھتے ہیں:
قال الله جل ذكره وتقدست أسماؤه، لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم: {وَأَنزلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نزلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} [سورة النحل: 44] ، وقال أيضًا جل ذكره: {وَمَا أَنزلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ} [سورة النحل: 64] ، وقال: {هُوَ الَّذِي أَنزلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ} [سورة آل عمران: 7]۔ فقد تبين ببيان الله جلّ ذكره أنّ مما أنزل الله من القرآن على نبيه صلى الله عليه وسلم، ما لا يُوصل إلى علم تأويله إلا ببيان الرسول صلى الله عليه وسلم. وذلك تأويل جميع ما فيه: من وجوه أمره -واجبه ونَدْبِه وإرْشاده، وصنوفِ نَهيه، ووظائف حقوقه وحدوده، ومبالغ فرائضه، ومقادير اللازم بعضَ خَلْقه لبعض، وما أشبه ذلك من أحكام آية، التي لم يُدرَك علمُها إلا ببيان رسول الله صلى الله عليه وسلم لأمَّته. وهذا وجهٌ لا يجوز لأحد القول فيه إلا ببيان رسول الله صلى الله عليه وسلم له تأويلَه بنصٍّ منه عليه، أو بدلالة قد نصَبها، دالَّةٍ أمَّتَه على تأويله
اس عبارت میں واضح طور پر آپ نے الفاظ لتبین للناس کو اس طور پر دیکھا ہے کہ قرآن سے متعلق آپﷺ کی جانب سے بیان کردہ امور اس تبیین سے متعلق ہیں نیز قرآن کے معنی سے متعلق امور کی یہ وضاحت آپﷺ کے بیان کے سوا ممکن نہیں۔ اس عبارت سے علامہ طبری کا تصور “تعارف قرآن ” باآسانی سمجھا جاسکتا ہے نیز یہ بھی کہ کیا ان کے نزدیک سورہ نحل کی اس آیت سے آپﷺ کی شرح مراد تھی یا نہیں۔ تاہم غامدی صاحب نے یہ مقام دیکھنے کے بجائے لفظ تعارف کو دیکھ کر اسے اپنے قول کے حق میں دلیل سمجھ لیا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ علامہ طبری نے مقدمے میں ایک اور فصل ان متعدد روایات کے مفہوم کی وضاحت کے لئے بھی باندھی ہے جن کے مطابق آپﷺ قرآن کی تفسیر میں جو کچھ فرماتے اس کی تعلیم جبرائیل امین کی جانب سے آپ کو دی جاتی (عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُفَسِّرُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ، إِلَّا آيًا تُعَدُّ، عَلَّمَهُنَّ إِيَّاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، علامہ طبری اس مفہوم کی کئی روایات لائے ہیں)۔
وَهُوَ أَنَّ مِنَ تَأْوِيلِ الْقُرْآنِ، مَا لَا يُدْرَكُ عِلْمُهُ إِلَّا بِبَيَانِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَلِكَ يُفَصِّلُ جُمَلَ مَا فِي آيِهِ، مِنْ أَمْرِ اللَّهِ وَنَهْيِهِ، وَحَلَالِهِ وَحَرَامِهِ، وَحُدُودِهِ وَفَرَائِضِهِ، وَسَائِرِ مَعَانِي شَرَائِعِ دِينِهِ، الَّذِي هُوَ مُجْمَلٌ فِي ظَاهِرِ التَّنْزِيلِ، وَبِالْعِبَادِ إِلَى تَفْسِيرِهِ الْحَاجَةُ، لَا يُدْرَكُ عِلْمُ تَأْوِيلِهِ إِلَّا بِبَيَانٍ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، عَلَى لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِمَّا تَحْوِيهِ أَيُ الْقُرْآنِ، مِنْ سَائِرِ حُكْمِهِ، الَّذِي جَعَلَ اللَّهُ بَيَانَهُ لِخَلْقِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ تَأْوِيلَ ذَلِكَ، إِلَّا بِبَيَانِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَعْلَمُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا بِتَعْلِيمِ اللَّهِ إِيَّاهُ ذَلِكَ، بِوَحْيِهِ إِلَيْهِ، إِمَّا مَعَ جِبْرِيلَ، أَوْ مَعَ مَنْ شَاءَ مِنْ رُسُلِهِ إِلَيْهِ. فَذَلِكَ هُوَ الْآيُ، الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُفَسِّرُهَا لِأَصْحَابِهِ، بِتَعْلِيمِ جِبْرِيلَ إِيَّاهُ، وَهُنَّ لَا شَكَّ أَيٌ ذَوَاتُ عَدَدٍ. وَمِنْ أَيِ الْقُرْآنِ، مَا قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ، اسْتَأْثَرَ بِعِلْمِ تَأْوِيلِهِ، فَلَمْ يُطْلِعْ عَلَى عَلِمِهِ مَلَكًا مُقَرَّبًا، وَلَا نَبِيًّا مُرْسَلًا، وَلَكِنَّهُمْ يُؤْمِنُونَ بِأَنَّهُ مِنْ عِنْدِهِ، وَأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ. فَأَمَّا مَا لَا بُدَّ لِلْعِبَادِ مِنْ عِلْمِ تَأْوِيلِهِ، فَقَدْ بَيَّنَ لَهُمْ نَبِيَّهُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِبَيَانِ اللَّهِ ذَلِكَ لَهُ بِوَحْيِهِ مَعَ جِبْرِيلَ، وَذَلِكَ هُوَ الْمَعْنَى الَّذِي أَمَرَهُ اللَّهُ بِبَيَانِهِ لَهُمْ، فَقَالَ لَهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: {وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} [النحل: 44]
اس عبارت میں بھی آپ بالکل صریح الفاظ میں آیت کے الفاظ “لتبین للناس” کو آپﷺ کی جانب سے بیان کردہ قرآن کے مجمل امور کی تفسیر وغیرہ کے ضمن میں ہی لائے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ قرآن کے متعدد مقامات آپﷺ کی جانب سے اس تفسیر کے محتاج ہیں اور ایسے محتاج ہیں کہ بجز آپﷺ کے یہاں کسی کے لئے کلام جائز نہیں۔
درج بالا عبارات سے یہ امور واضح ہوئے:
• علامہ طبری کے نزدیک الفاظ لتبین للناس سے مراد آپﷺ کی جانب سے بیان کردہ توضیحات بھی ہیں جو قرآن کے ما سوا ہیں
• یہ توضیحات اس نوعیت کی نہیں کہ کوئی بھی مجتہد انہیں اپنے اجتہاد سے اخذ کرلے کہ یہ گویا اصل پر فرع کی حیثیت رکھتی ہوں
• قرآن کے تعارف کرانے میں یہ سب امور شامل ہیں
• علامہ طبری کا تصور تبیین وہی ہے جو امام رازی سمیت دیگر اصولیین مراد لیتے رہے ہیں، لہذا یہ کہنا کہ “علامہ طبری نے تو دوسرا قول ہی نہیں لکھا جس سے معلوم ہوا کہ ابتدا وہی با سمجھی جاتی تھی جو غامدی صاحب نے سمجھی” یہ علامہ طبری کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پڑھنا ہے
علامہ طبری سے قبل امام شافعی کے ہاں بھی “لتبین للناس” کے الفاظ اسی تناظر میں برتے گئے ہیں جو جمہور اصولیین کا موقف ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مکتب فراہی بھلے سے بیان پر اپنا الگ تصور وضع کرے لیکن عبارات اور مباحث کو ان کے سیاق سے کاٹ کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرنا گویا یہی تصور امت میں پیچھے سے چلا آرہا تھا محل نظر ہے۔
کمنت کیجے