مضمون “رجم کی سزا” میں محترم جناب غامدی صاحب کی انشا پردازی اور زور بیان کو ایک طرف رکھ کر غور کیا جائے تو بیان تبدیل و تغییر (یعنی تنسیخ، تخصیص و تقیید) بذریعہ سنت جائز نہ ہونے کے لئے ان کی پیش کردہ واحد منصوص دلیل یہ ہے کہ قرآن خود کو میزان و حکم کہتا ہے۔ ہم نہیں سمجھ پائے کہ آخر یہ امور بذریعہ سنت قرآن کے میزان ہونے کے خلاف کیسے ہیں، یعنی وجہ استدلال کیا ہے؟ ہمارے فہم میں یہ ایسا ہی استدلال ہے جیسے کوئی یہ کہنے لگے کہ قرآن کے سوا جن سنن کو غامدی صاحب مانتے ہیں وہ چونکہ نہ صرف یہ کہ قرآن میں مذکور نہیں بلکہ کسی معین قرآنی حکم کی فرع بھی نہیں جبکہ نبی کا وظیفہ صرف قرآن کی تبیین کرنا ہے اور قرآن سے اضافی حکم جاری کرنا تبیین نہیں، لہذا ایسی کسی سنت کا اقرار کرنا قرآن کو میزان ماننے کے خلاف ہے۔ اس کا جواب ظاہر ہے یہ دیا جائے گا کہ ان سنتوں کی اتباع کی دلیل یہ قرآنی اصول ہے کہ اللہ نے نبی کے قول کی اطاعت کا حکم دیا ہے چاہے وہ قرآن میں ہو یا اس کے سوا، پس نبی کے لئے ایسا اختیار ماننا قرآن ہی کو میزان و حکم ماننا ہے۔ بالکل اسی اصول پر جب سنت قرآن کے کسی عام کی تخصیص، تقیید یا تنسیخ کرتی ہے تو یہاں رسول سے متعلق اسی قرآنی حکم کی اتباع کی جاتی ہے کیونکہ رسول اپنی جانب سے ایسی کوئی بات نہیں کرتے۔ بیان تغییر و تنسیخ بذریعہ سنت کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ رسولﷺ یہ بیان کردیں کہ قرآن کے کسی مقام کی اللہ کے ہاں مراد کیا ہے نیز حکم ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ ایک مدت تک کے لئے تھا۔ دنیا میں عقل سلیم رکھنے والا ہر شخص اسے متکلم کی بات کا بیان و وضاحت ہی سمجھتا ہے جبکہ یہ وضاحت اس کی جانب سے ہو جس کی اتباع کا متکلم نے خود حکم دیا ہو۔ جس نبی کی عصمت و صداقت پر معجزہ دلالت کرچکا ہو، اس کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے قرآن کے کسی حکم کو معاذ اللہ اپنی طرف سے بدل دیا ہوگا یا دین میں بغیر اللہ کی ہدایت کوئی حکم شامل کردیا ہوگا، ایسا مفروضہ نبی پر افترا باندھنے اور اسے نبی ماننے ہی کے خلاف ہے۔ اسی لئے جن لوگوں نے نسخ بذریعہ سنت کے ناجائز ہونے کے لئے اس قسم کے دلائل دئیے کہ اس سے گویا نبی کی جانب سے قرآن میں تبدیلی کرنے کا تاثر پیدا ہوتا ہے، قاضی باقلانی (م 403 ھ) اس دلیل کو انتہائی کمزور قرار دیتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ نبی تو قرآن کی پیروی کرنے کے پابند تھے یا وہ اپنی طرف سے قرآن میں تبدیلی کرنے کے مجاز نہ تھے، زیر بحث مقدمے میں یہ غیر مفید دلائل ہیں۔
الغرض قرآن میزان و حکم ہے، اس قسم کے عمومی بیانات کی بنیاد پر بیان تغییر و تقیید کو نبی کے وظیفے سے خارج قرار دینا بے بنیاد استدلال ہے۔ میزان کا یہ مفروضہ مطلب نہ عربی زبان میں کہیں مذکور ہے، نہ قرآن میں اور نہ عقل عام اسے ماننے کا تقاضا کرتی ہے۔
استدلال کا وزن داخلی اصولوں کی روشنی میں
مکتب فراہی کا اصرار ہے کہ سیاق کلام کو کسی آیت کے معنی کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار حاصل ہے۔ اسی اصول کو برتتے ہوئے محترم غامدی صاحب کا کہنا کہ سورہ نحل کی آیت 44 میں تبیین کا مطلب قرآن کو بعینہہ پہنچا دینا یا ظاہر کردینا ہے نہ کہ نبیﷺ کی جانب سے اس کی شرح کرنا۔ کیا اس مقام پر واقعی سیاق کلام کا یہی مدعا ہے، اس پر ان شاء اللہ الگ سے بات کریں گے۔ یہاں ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ سیاق کلام کے استدلال کو یہ حضرات کس طرح غیر ہم آہنگی کے ساتھ جہاں چاہتے ہیں استعمال کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں اگنور کرتے ہیں۔ ہمارے پیش نظر سورۃ شوری کی آیت 17 ہے جس کی بنیاد پر ان کا دعوی ہے کہ قرآن سے باہر کوئی وحی قرآن کی تخصیص و تقیید نہیں کرسکتی:
اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ
سورۃ شوری کی ابتدا سے لے کر اس مقام تک جہاں یہ آیت آئی ہے، اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ قرآن و سنت کا باہمی تعلق کیا ہے نیز کیا نبیﷺ قرآن کے کسی حکم کی تخصیص کرسکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن آیت کے سیاق کلام کو اگنور کرکے اس آیت سے یہ لوازم پیدا کئے جاتے ہیں۔ محترم مولانا اصلاحی صاحب اور محترم غامدی صاحب دونوں کا کہنا ہے کہ اس سورت کا بنیادی موضوع توحید کا اثبات ہے اور اس میں توحید کے مخالفین کو انذار کیا گیا ہے۔ ماقبل آیات کا خلاصہ یہ ہے:
سورت کی ابتدائی آیات میں کہا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا ہے، کفار جو شرک کررہے ہیں یہ ایسی قبیح بات ہے کہ اس سے آسمان بھٹ جائیں نیز ان کفار نے اللہ کے سوا اپنے جو مدد گار بنا رکھے ہیں وہ ان کے کسی کام نہ آئیں گے، نیز ہم نے اپنے نبی کو ان کی جانب ہدایت کے لئے مبعوث کیا ہے اور یہ اس سے اختلاف کرتے ہیں، اگرچہ انہیں حق جبراً نہیں منوایا جائے گا لیکن ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ پھر توحید کے دلائل لائے گے، پھر کہا گیا کہ توحید کے حوالے سے جس دین کی آپﷺ کو وصیت کی گئی یہ کوئی نئی دعوت نہیں ہے بلکہ پچھلے انبیا بھی اسی حقیقت کی دعوت دیتے رہے ہیں لہذا اللہ کی عبادت میں اختلاف نہ کرو۔ یاد رہے کہ مسائل عملیہ میں انبیاء کی شریعتوں میں تنوع و اختلافات رہے ہیں، یہاں ان دینی حقائق کی بات ہورہی ہے جو سب کے یہاں یکساں تھے جیسے کہ توحید وغیرہ (ملاحظہ کیجئے تفسیر ماتریدی اور تفسیر کبیر)، تو اس متفق علیہ دین سے تمسک کا یہاں حکم دیا جارہا ہے۔ یہاں دین سے مراد توحید اور ناقابل تبدیل حقائق ہیں، ظاہر ہے کفار مسائل عملیہ میں نبی سے نہیں جھگڑ رہے تھے۔ پھر کہا کہ یہ کفار اس معاملے میں نبیﷺ سے جو اختلاف کررہے ہیں تو یہ علم اور دلیل کی وجہ سے نہیں بلکہ ضد و عناد کی بنا پر ہے، پھر نبیﷺ سے فرمایا کہ آپ کی جانب جو کتاب نازل کی گئی آپ اس کی پیروی کیجئے اور عدل کے ساتھ ان کے مابین فیصلہ کریں، پھر فرمایا کہ جو لوگ توحید کے معاملے میں قیل و قال کررہے ہیں وہ ناکام ہوں گے۔ اس کے بعد درج بالا آیت 17 لائی گئی کہ اسی اللہ نے یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی اور میزان بھی قائم کیا، پھر کہا کہ ممکن ہے قیامت کا دن قریب ہو۔
بتائیے اس پورے سیاق کلام کا سنت بذریعہ تخصیص جائز یا ناجائز ہونے سے کیا لینا دینا؟ یہاں تو بات ہورہی ہے ابدی دینی حقائق کی اور ان کے حوالے سے کفار کے ساتھ فصل نزاع کی۔
اس آیت میں “میزان” کا معنی کیا ہے، امام ماتریدی (م 333 ھ) اس آیت کی جو شرح کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ “میزان” کا مطلب “عدل فی الاحکام” ہے، یعنی ہم نے ایسے احکام مقرر کئے جس سے انسان راہ عدل پر رہ سکتا ہے۔ یہی بات علامہ طبری (م 310 ھ) کہتے ہیں:
((اللَّهُ الَّذِي أَنزلَ) هذا (الكِتَابَ) يعني القرآن (بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ) يقول: وأنزل الميزان وهو العدل، ليقضي بين الناس بالإنصاف)
پیچھے آیت 15 کے تناظر میں بھی یہی بات قرین از قیاس ہے جہاں ارشاد ہوا:
وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ
یہ وہی بات ہے جو سورۃ حدید میں بیان ہوئی:
لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَأَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَالْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ [الْحَدِيدِ: 25]
آیت کے اس واضح سیاق و سباق اور لفظ میزان کے اس واضح معنی سے ماوراء لوازم پیدا کرنے کے لئے اس آیت پر محترم غامدی صاحب کا زور بیان ملاحظہ فرمائیں:
“’ اَللّٰةُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ‘ (اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی)۔ ہر چیز اب اِسی میزان پر تولی جائے گی۔ اُس کے لیے کوئی چیز میزان نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے اِس مقام سے واقف ہے، بغیر کسی تردد کے مانے گا کہ وحی خفی تو ایک طرف، اگر کوئی وحی جلی بھی ہوتی تو وہ خدا کی اِس میزان میں کوئی کمی بیشی کرنے کی مجاز نہ تھی۔ وہ بہرحال تسلیم کرے گا کہ قرآن کو صرف قرآن منسوخ کر سکتا ہے۔”
ان کے اخذ کردہ اس نتیجے پر ہم کوئی مزید تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں سوائے اس سے کہ سورۃ نحل کا سیاق کلام اگر دوسرا معنی مراد لینے میں مانع ہے تو سورٰۃ شوری کا سیاق کلام اس زور بیان کو قطعاً قبول نہیں کرتا۔
یہاں یہ آخری سوال بھی پوچھنا چاہیں گے کہ غامدی صاحب کے نزدیک عقل و فطرت کے واضح حقائق کے پیش نظر کلام اللہ کے الفاظ سے ظاہر ہونے والے معنی کی تخصیص جائز ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ نے ماقبل قرآن بعض حقائق کو معیار و حکم مانا ہے، اس سے قرآن کی میزانیت پر حرف کیوں نہیں آتا؟
کمنت کیجے