اعلیٰ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کا شمار برصغیر میں بیسویں صدی کے نمایاں ترین روحانی و مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ کو مختلف مکاتب فکر کے ہاں بھی احترام کا درجہ حاصل ہے۔ آپ کی رد قادیانیت پر خدمات سے ہر کوئی واقف ہے۔ آپ نے دیگر موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ “اعلا کلمتہ اللہ فی بیان وما اھل به لغیر اللہ” پیر صاحب کا ایک رسالہ ہے جس میں انہوں نے آیت قرآنی وما اھل به لغیر اللہ کے درست مفہوم پر گفتگو کی ہے۔ اس میں نذر ونیاز کے متعلق سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں ساتھ ہی سماع موتی ، توسل ، لزوم و التزام کفر کے مسائل پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
دراصل اس آیت کی تفسیر اور وما اھل به لغیر اللہ کے اطلاق کے بارے میں شاہ عبد العزیز دہلویؒ اور مولانا عبد الحکیم پنجابیؒ کے درمیان اختلاف رونما ہوا۔ یہ رسالہ اس تناظر میں لکھا گیا۔
پیر صاحب نے کتاب کے مقدمے میں تفسیر بالرائے اور تاویل بالرائے پر بات کی ہے اور بتایا کہ تفسیر بالرائے جائز نہیں ہے کیونکہ تفسیر میں اللہ معانی کی نسبت تعالیٰ کی جانب قطعی طور پر ہوتی ہے جو نقل و سماع کے بغیر ممکن نہیں ، اس بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفسیر بھی حدیث مرفوع کا درجہ رکھتی ہے جبکہ تاویل میں قواعد عربیہ کو دیکھا جاتا ہے اور اس میں متعدد احتمالوں میں سے ایک کو غیر یقینی طور پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس لیے تاویل بالرائے جائز ہے۔
پیر صاحب نے بتایا ہے کہ تفسیر میں اول درجہ تفسیر قرآن بالقرآن کا ہے، دوسرا درجہ تفسیر بالسنہ کا ہے، تیسرا دور صحابہ کرام کی تفسیر کا ہے اور چوتھا درجہ تابعین و تبع تابعین کی تفسیر کا ہے۔ پیر صاحب نے صحابہ میں سے خلفاء اربعہ ، سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کا خصوصی ذکر کیا ہے جبکہ تابعین میں سے مجاہد بن جبر، سعید بن جبیر ، طاؤس بن کیسان ، عکرمہ مولی ابنِ عباس ، عطاء بن ابی رباح ، علقمہ بن قیس اور اسود بن یزید کا ذکر کیا ہے۔ ان میں پہلے پانچ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں جبکہ آخری دو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔
پیر صاحبؒ سے سوال ہوا کہ اگر کسی شخص نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر اس کا کوئی کام انجام پذیر ہو جائے تو وہ بزرگ کے نام پر کسی جانور اللہ تعالیٰ کا نام لیکر ذبح کرے گا اور اس کا طعام غرباء و مساکین کو کھلائے گا تو کیا غیر اللہ کی نسبت کی وجہ سے جانور حرام تو نہیں ہو جائے گا۔
اس کا جواب دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت گولڑویؒ نے تحریر فرمایا کہ بزرگوں کے نام سے مشہور ہونے سے کوئی چیز حرام نہیں ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جن چیزوں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو وہ کھاؤ۔
پیر صاحب سے ایک اور سوال کیا گیا جس میں غیر اللہ کی جانب منسوب جانور کے بارے میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کی رائے نقل کی کہ وہ ایسے جانور پر بوقت ذبح بھی اگر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تب بھی حرام و ناجائز ہے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے یہ بھی لکھا کہ “اھل” کو ذبح کے وقت پر حمل کرنا فقہ ، عرف کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ لغوی طور پر بھی یہ درست نہیں۔ اہلال کا معنی بوقت ذبح کرنا کلام الہی کی تحریف کے قریب ہے۔
اس پر پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں لکھا کہ بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام بتوں کے نام سے مشہور کر دئیے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام نہیں فرمایا۔ حالانکہ شاہ صاحب کے نزدیک جو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنے سے جانور میں پلیدگی آتی ہے وہ یہاں تو بدرجہ اولیٰ پائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام نہیں فرمایا بلکہ ان کے کھانے کو جائز کہا۔
جہاں تک اہلال کو بوقت ذبح محمول کرنے والا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا اعتراض ہے تو اس پر بھی پیر صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ عرف اور فقہ کے خلاف نہیں بلکہ اہلال ذبح کے معنی میں پایا جاتا ثابت ہے۔ اس پر پیر صاحب نے مزید وضاحت کی ہے اور دیگر کتب تفسیر سے شواہد فراہم کیے ہیں ، صاحب تفسیر مظہری نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ربیع بن انس ک قول ذکر کیا کہ جس ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے ، ایسے ہی تفسیرات احمدیہ میں بھی بوقت ذبح کا ذکر ہے۔
پیر صاحب نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ ذبیحہ حلال تب ہی ہو گا اگر تقرب الی اللہ مقصود ہو، اگر تقرب الی الغیر مقصود ہو تو بھلے جانور پر بوقت ذبح اللہ کا نام بھی لیا جائے تب بھی وہ جائز نہیں ہو گا۔ اس بارے میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے ایک طرف فقط ایصال ثواب کی خاطر شرعی طریقہ سے ذبیحہ کو حرام کہنے والے جہاں غلط ہیں تو دوسری طرف ایسے عمل سے غیر اللہ کا قرب حاصل کرنے والے بھی غلط ہیں۔
اس کے بعد پیر صاحب نے فتاویٰ عزیزیہ سے شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی جانب سے وما اھل به لغیر اللہ کی تفسیر نقل کی ہے۔ جس میں انہوں نے غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کو حرام قرار دیا ہے بیشک اس پر بوقت ذبح اللہ کا نام لیا جائے۔ جہاں تک غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کا تعلق ہے تو ایسے جانور کی حرمت پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ کسی کے ایصال ثواب کے لئے کوئی جانور اللہ تعالیٰ کا نام لیکر ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت غرباء و مساکین میں تقسیم کیا جائے تو کیا وہ بھی وما اھل به لغیر اللہ میں آتا ہے یا نہیں۔
پیر صاحب نے بتایا ہے کہ ذبح کے چھے چیزیں ضروری ہیں۔
۱. ذابح کا خود بسم اللہ پڑھنا
۲. صرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا
۳.غیر کا نام نہ لینا
۴.مذبوح جانور پر بسم اللہ کہنا نہ کہ کسی دوسرے جانور پر
۵.ذبح اور بسم اللہ کے درمیان عمل کثیر کا فاصلہ نہ ہونا
۶. خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے لیے ذبح کرنا نہ کہ غیر کے لیے
پیر صاحب نے لکھا کہ جو جانور تقرب الی الغیر کے لیے ذبح ہو اس کی حرمت کی وجہ “وما اھل به لغیر اللہ” نہیں ہے جیسا کہ شاہ عبدالعزیر محدث دہلوی اور ان کی اتباع نے قرار دیا ہے بلکہ اس کی حرمت کی وجہ چھٹی شرط کا مفقود ہونا ہے یعنی ذبح خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے لیے نہیں ہے اور اس شرط کا ماخذ آیت “وما ذبح علی النصب” ہے یعنی وہ جانور جن کی ذبح سے مقصود ان نشانوں کی تعظیم ہے گو ذبح کے وقت بتوں کا نام نہیں لیا جاتا۔ بعد میں مفتی عبد الحکیم پنجابی کے اعتراضات کے جواب میں بھی شاہ صاحب نے زیادہ زور تقرب الی الغیر پر رکھ کر اس کی قباحت بیان کی ہے۔ محشی مولانا فیض احمد فیض نے اس کو شاہ صاحب کا رجوع قرار دیا ہے کہ انہیں اصل اختلاف تقرب الی الغیر پر ہے۔ جس کا تعلق آیت “وما اھل به لغیر اللہ” سے نہیں بنتا۔
پیر صاحب نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جب تک ناذر کے کسی لفظ سے صراحتاً پتہ نہ چلے کہ جانور ذبح کرنے کا مقصود تعظیم لغیر اللہ ہے اس جانور کی حرمت کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا ۔ کیونکہ نیت ایک قلبی اور مخفی امر ہے اور محض گمان اور شک کی بنا پر کسی مسلمان پر شرک کا الزام لگانا سخت نامناسب ہے۔
شاہ عبدالعزیر محدث دہلویؒ نے ایک بات یہ بھی کہ عوام کے دل میں یہ خیال رچ بس گیا ہے کہ جو جانور ایصال ثواب کے لئے ذبح کرنے کے لیے متعین کیا گیا اس کی جگہ کوئی دوسرا ذبح کر دیا تو نذر ادا نہ ہو گی۔ تو پیر صاحب نے لکھا کہ اس کا تعلق حرمت کے ساتھ نہیں ایسا اعتقاد بے اصل ہے۔ دراصل عوام نے یہ نظریہ قربانی کے جانور سے اخذ کیا ہے جہاں متعین شدہ جانور ہی کی قربانی درست ہوتی ہے۔ یہ نظریہ غفلت اور جہالت پر مبنی ہے مگر اس کے باوجود جانور حلال اور طیب ہے۔
شاہ عبدالعزیر محدث دہلویؒ کی رائے پر مفتی عبد الحکیم پنجابیؒ نے جو نقد کیا، پیر صاحب نے اس کو بھی نقل کیا ہے۔ مفتی عبد الحکیم پنجابیؒ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وما اھل به لغیر اللہ کے معنی لغت اور تفسیر میں رفع الصوت عند الذبح باسم غیر اللہ ہے خواہ وہ غیر بت ہو یا کوئی نبی یا کوئی اور۔ مفتی صاحب نے اپنے موقف کی تائید میں تفسیر بیضاوی ، مدارک ، جلالین اور تفسیر حسینی کو پیش کیا ہے۔ مفتی عبد الحکیم ملتانیؒ نے شاہ صاحب کی رائے کہ وہ جانور جو غیر اللہ سے منسوب ہو کو تفسیر بالرائے قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
جہاں تک قبروں کے نزدیک جانور ذبح کرنے کی بات ہے تو مفتی صاحب نے تحریر فرمایا کہ یہ مکروہ ہے مگر حرام نہیں۔
اس کے بعد شاہ صاحب کا جواب نقل ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ایصال ثواب کے لئے طعام غرباء کو کھلانا درست ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ عرسوں پر جو طعام کھلایا جاتا ہے اور جانور ذبح کیے جاتے ہیں اس کا مقصد تقرب الی اللہ ہوتا جس کے جواز پر شاہ صاحب بھی متفق ہیں۔
مفتی عبد الحکیم پنجابی نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے جہاں شاہ عبدالعزیر محدث دہلویؒ کی اس رائے پر نقد کیا ہے وہاں ان پر دیگر امور پر بھی طنز کیا جیسے کہ شیعہ کی بابت ان نظریہ اور عمل کے تضادات اور ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے پر بھی گفتگو کی ہے۔ شاہ صاحب نے اس کے جواب میں لکھا کہ اہل تشیع کی تکفیر پر اجماع نہیں ہے احناف میں علماء ماوراء النہر کافر کہتے ہیں جبکہ عراقی اور مصری علماء بدعتی اور گمراہ کہتے ہیں وہ تکفیر نہیں کرتے۔ شوافع بھی کفر کے قائل نہیں۔ شاہ صاحب کی کسی قربت دار کا نکاح اہل تشیع کے ہاں ہوا تو مفتی عبد الحکیم پنجابی نے اس پر بھی طنز کیا کہ اپنی لڑکیاں شیعہ کو نکاح میں دیتے ہیں تو اس پر شاہ صاحب نے کہا کہ کسی کی قرابت داری سے اس کا لڑکی کا ولی ہونا ثابت نہیں ہوتا جبکہ اس کے والد یا دیگر عزیز حیات ہوں تو کسی قرابت دار کو ولی کے اوپر جبر کا حق حاصل نہیں۔
دارالحرب سے ہجرت نہ کرنے والے اعتراض پر شاہ صاحب نے لکھا یہ ہجرت اس دارالحرب میں فرض ہوتی ہے جہاں مسلمانوں کو شعائر اسلام سے روکا جائے۔ جہاں جمعہ اور جماعت قائم ہو وہاں سے ہجرت فوراً فرض نہیں ہوتی۔
شاہ صاحب نے یہ بھی لکھا کہ قبور صالحین کی زیارت کرنا درست ہے مگر وہاں پر دعا فقط رب العزت سے مانگنی چاہیے اگر کوئی صاحب قبر سے دعا مانگے یا قبر کا طواف کرے تو یہ ناجائز ہے۔
اس کے بعد پیر صاحب نے ذبح کے طریقے اور کون سی رگیں بوقت ذبح کاٹنا ضروری ہے اس کو ذکر کیا ہے۔ یہ کافی دقیق اور مشکل گفتگو ہے۔ میں اس قابل نہیں کہ اس پر کچھ لکھ سکوں.
اس کے بعد پیر صاحب نے نذر کے بارے میں بتایا کہ اس کی دو اقسام ہیں نذر شرعی اور نذر عرفی۔ نذر شرعی وہ ہے کہ کوئی شخص اپنا اوپر کوئی چیز واجب کر لے جو نذر سے پہلے اس پر واجب نہ ہو۔ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے۔ یہ عبادت ہے جو کہ غیر کے لیے حرام ہے۔
نذر عرفی کو فارسی میں نیاز کہتے ہیں۔ اس میں کوئی ادنی شخص کسی اعلیٰ شخص کی خدمت میں کوئی شے پہنچاتا ہے۔ یہ نذر شرعی سے الگ ہے۔ پیر صاحب نے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے حوالے سے لکھا کہ اس کی حقیقت یہی کہ میت کی روح کو طعام کا ثواب ہدیہ کیا جائے ۔ یہ جائز ہے اس میں خباثت تب آتی ہے کہ اگر کوئی خدا نخواستہ ولی کو مستقل طور پر مشکلات حل کرنے والا یا شفیع غالب کا اعتقاد کرے تب یہ شرک ہوگا۔ اس کا تعلق عقیدے سے ہے۔ لیکن ایک مسلمان سے حسن ظن رکھنا چاہیے اس کا کوئی بھی ایسا عمل تقرب الی الغیر کے لیے نہیں ہوگا جب تک وہ خود اس کے برعکس اظہار نہ کرے۔ پیر صاحب نے لکھا ہے کہ نذر کے لفظ کو استعمال کرنے میں احتیاط برتی جانی چاہیے اگرچہ یہ عرفی معنی میں ہو۔
اس کتاب میں استعانت بالغیر کے مسئلہ پر بھی پیر صاحب نے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ کسی سے حکمت اور کارخانہ سبب کے تحت مدد مانگنا ممنوع نہیں جبکہ مستعان عنہ کو مظہر عون جانے۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کے بارے میں خود ارشاد فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کو طلب مغفرت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ کو رحیم اور تواب پائیں گے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی حاجات کو کسی محبوب کے توسل سے پیش کرنا اللہ تعالیٰ کے سمیع اور بصیر ہونے کے خلاف نہیں۔ پیر صاحب نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام یا اولیائے عظام کو منصب شفاعت باذن الٰہی حاصل ہے جبکہ اصنام کو ہرگز حاصل نہیں اس لیے کفار جو بتوں کو اپنا شفیع بناتے تھے وہ باطل ہے۔ دوسرا کفار اپنے اصنام کو مستحق عبادت سمجھتے تھے۔
مخالفین جو استعانت اور توسل کے خلاف آیات پیش کرتے ہیں وہاں “تدعوا”, “ویدعوہ” سے مراد پکارنا یا ندا کرنا نہیں بلکہ وہ معبود سمجھ کر پکارنا ہے جو کہ حرام ہے۔ پیر صاحب نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ زندہ شخص سے مدد مانگنے میں کوئی اختلاف نہیں جبکہ فوت شدہ شخص کی روح سے مدد مانگی جاتی ہے جو کہ حیات ہے۔ جو لوگ اہل کشف و شہود ہیں وہ جانتے ہیں کہ ارواح کاملین سے کس قدر فیوض اللہ تعالیٰ عطاء کرتا ہے۔ اور پھر بتوں کے متعلق وارد ہوئی آیات کو ارواح کاملین پر حمل کرنا قرآن مجید کی تحریف ہے۔
پیر صاحب نے سماع موتی کے مسئلہ پر بھی اس رسالے میں گفتگو کی ہے اور ان کا رجحان اثبات کی طرف ہی ہے۔ اس کی مخالفت میں جو دلیل قرآن مجید سے دی جاتی ہے اس پر پیر صاحب نے علامہ ابنِ کثیر کے حوالے سے لکھا کہ یہاں مطلقاً سماع کی نفی بلکہ سماع نافع کی ہے۔ دوسرا یہاں اسماع (سنانے) کی نفی مراد ہے۔ اس بارے میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی دلیل لی جاتی ہے تو اس پر پیر صاحب نے لکھا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا روضہ اطہر حاضری کے لیے بڑی چادر کا اہتمام نہ کرنا جبکہ وہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مدفون تھے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دفن ہونے کے بعد بڑی چادر کے ساتھ جانا بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی رائے سے رجوع کر لیا تھا۔ پیر صاحب کا موقف اثبات کا ہی ہے مگر انہوں نے بھی لکھا ہے کہ بعض مشائخ کی طرف اس کی نفی بھی منسوب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سماع موتی کے بارے میں دونوں نظریات شروع سے ہی پائے جاتے ہیں اور اگر اس کی نسبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف ہے جیسا کہ علامہ شبلی نعمانی نے بھی اپنے مقالے میں ذکر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں شدت سے گریز کرنا چاہیے اور مخالف آراء کا علمی اور تحقیقی انداز میں محاسبہ کرنا چاہیے ساتھ اس پر گنجائش بھی رکھنی چاہیے۔
پیر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر سماع موتی کی نفی بھی ہو جائے تو بھی استعانت بالغیر جبکہ اس کو مستقل بالذات نہ سمجھا جائے کی ممانعت نہیں ہوتی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے حوالے سے پیر صاحب نے بتایا ہے کہ کاملین کی ارواح فیضان الٰہی سے فیضیاب ہوتی ہیں جس سے اس کی حس مشترک میں ایسی قوت پیدا ہوتی ہے کہ جو عالم مثال کی مدد سے سمع ، بصر اور کلام کے لیے کافی ہوتی ہے۔ پیر صاحب نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علاوہ علامہ وکیل احمد سکندرپوری کی کتاب سے بھی کچھ حوالہ جات پیش کیے ہیں جس میں ارواح کاملین کا فیضان الٰہی سے فیضیاب ہو کر قوت حاصل کرنے کا ذکر ہے۔
مسئلہ علم غیب پر بھی اعلیٰ حضرت گولڑوی نے کلام کیا ہے اور بتایا ہے کہ
“غیب نام ہے اس چیز کا جو حواس ظاہرہ و باطنہ کے ادراک اور علم بدیہی اور استدلالی سے غائب ہو اور یہ علم حضرت حق سبحانہ کے ساتھ مختص ہے۔
پس اگر اس علم غیب کا کوئی مدعی ہو اپنے نفس کے لیے یا کسی غیر کے اس قسم کے دعوے کی تصدیق کرے تو وہ کافر ہے مگر وہ خبر جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیتے ہیں وہ بذریعہ وحی حاصل ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ اس کا علم ضروری نبی علیہ السلام کے اندر پیدا فرما دیتے ہیں یا نبی علیہ السلام کی حس پر حوادث کا انکشاف فرما دیتے ہیں تو یہ علم غیب میں داخل نہیں ۔ پس آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیب کی باتیں بتائیں وہ اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے سے بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منفی وہ علم غیب ہے جو بلاواسطہ ہو”
علم غیب جب نبی علیہ السلام کے لیے استعمال ہوتا ہے تو وہ بعطائے الٰہی ہوتا ہے۔ پیر صاحب نے لکھا ہے کہ جو بھی آیات یا احادیث علم غیب کی نفی پر پیش کی جاتی ہیں اس میں علم حقیقی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ سے خاص ہے۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق جس میں اپنی عاقبت کے بارے میں عدم علم کا اظہار کیا گیا ہے تو وہاں علم حقیقی مراد ہے جس کا اختصاص رب تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ ورنہ روز آخرت میں سب سے پہلے اٹھایا جانا، بارگاہ اقدس میں وفد کی صورت میں حاضر ہونا، لو الحمد کا اٹھانا یہ سب واقعات ہیں جن کی خبر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے جوانان جنت کی بشارت، اصحاب بدر اور اصحاب بیعت رضوان کے لیے بشارتیں احادیث ہی میں ذکر ہوئی ہیں۔ اگر علم ذاتی کا اختصاص نہ کیا جائے تو ان احادیث کے بارے میں ابہام پیدا ہوتا ہے۔
مزارات اولیاء پر خرافات کے حوالے سے بھی پیر صاحب سے سوال ہوا کہ اس کے بعد کیا ایک متبع سنت شخص کے لیے وہاں جانا درست ہے تو اس پر پیر صاحب نے بتایا کہ صفا و مروہ کا شعائر اللہ ہونا ثابت ہے اور زمانہ جاہلیت میں وہاں پر فسق و فجور کا ہونا بھی ثابت ہے لیکن اس کے باوجود صفا و مروہ کی سعی کو نہیں روکا گیا بلکہ ان برائیوں کو ختم کیا گیا ہے۔ اس لیے مزارات اولیاء کی زیارت وہاں پر فسق و فجور کی وجہ سے ترک کر دینا درست نہیں بلکہ وہاں فسق و فجور کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آخر میں پیر صاحب نے التزام کفر اور لزوم کفر پر بھی گفتگو کی ہے۔ تکفیر کے معاملے میں حد درجہ محتاط رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جب تک اہل قبلہ سے ضروریات دین کے انکار کی صراحت واضح نہ ہو اس بارے میں احتیاط برتی جانی چاہیے۔ پیر صاحب نے بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بادشاہ کی آمد پر اللہ تعالیٰ کا نام لیکر جانور ذبح کرے یا ولی اللہ کے ایصال ثواب کے لئے کوئی جانور اللہ تعالیٰ کا نام لیکر ذبح کرے تو اس ذبیحہ کو حرام اور اس شخص کو کافر کہنا محققین کی شان نہیں۔ پیر صاحب نے یہاں التزام کفر اور لزوم کفر کے فرق اور اس بارے میں فقہاء اور متکلمین کا کیا طریقہ کار اور فکر ہے اس کو بیان کیا ہے۔ میں اپنے محدود علم کی بنا پر اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا وہ اہل علم کے لیے خاص اور مفید ہے۔
پیر صاحب کے اس رسالے میں ان کی علمی پختگی کے ساتھ سنجیدگی اور متانت کو محسوس کیا جاتا ہے۔ یہ اختلافی مسائل ہیں مگر جس مدلل اور محققانہ انداز میں پیر صاحب نے ان کو زیر بحث لایا ہے یہ ان کی شان ہے۔ ہمیں کہیں بھی وہ جارحانہ انداز اختیار کرتے نظر نہیں آتے۔ اختلافی موضوعات پر گفتگو کرنے کا یہی درست طریقہ کار ہوتا ہے جس سے فریقین کے درمیان کوئی عناد اور ہٹ دھرمی جنم نہیں لیتی۔ یقیناً پیر صاحب کی آراء سے اختلاف کی گنجائش بھی ہے لیکن اس کا طریقہ کار بھی ایسا ہی ہونا چاہیے جس سے دوسرے کی دل آزاری نہ ہو۔ ہم نے دیکھا کہ ایسے مسائل پر جب بات چیت ہوتی ہے تو مسائل کو حل کرنے کی بجائے الزامات اور اتہامات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ حسن ظن کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا جاتا اور اپنے موقف کو بیان کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ اس سے اختلاف کی گنجائش ہی بھی نہیں رکھی جاتی اور ایک طرح سے جبر مسلط کیا جاتا ہے۔ ایسے رویے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور ایسا طریقہ اختیار کرنے جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے ہاں اس رسالے میں نظر آتا ہے تاکہ مکالمے کی ایک فضاء قائم ہو جس میں فریقین نیک نیتی اور تحمل سے ایک دوسرے کے مؤقف کو سنیں اور سمجھیں اور پھر سنجیدگی اور متانت سے اپنی بات سامنے رکھیں۔ پیر مہر علی شاہ کی تحریر سے ان کی علمیت چھلکتی نظر آتی ہے اور جس اعتدال سے انہوں نے اپنی آراء پیش کی ہے وہ بھی قابلِ تحسین ہیں۔
کمنت کیجے