Home » کیا قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے آدمی گمراہ ہو جاتا ہے ؟
تفسیر وحدیث شخصیات وافکار کلام

کیا قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے آدمی گمراہ ہو جاتا ہے ؟

ساویز  ندیم

قرآن کا ترجمہ بغیر استاذ کے پڑھنے سے آدمی گمراہ ہوجاتا ہے یہ جملہ برصغیر میں مشہور و معروف ہے۔ مغربی دنیا میں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں مسلمان ہر راہ چلتے کو قرآن پکڑا دیتے ہیں۔ ان میں کوئی گمراہ نہیں ہوتا بلکہ اکثر مسلمان ہو جاتے ہیں۔ لیکن برصغیر میں ایسا کیا ہے کہ یہاں یہ جملہ بولا جاتا ہے ؟
میری دانش میں اس کا جواب اول تو یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں جدیدیت سے مرغوب مسلم مفکرین نے جو کچھ اسلام اور قرآن کریم کے ساتھ کیا ، اس نے ایک دفاعی نفسیات کو جنم دیا ۔ سرسید احمد خان، سید امیر علی اور شیخ محمد عبدہ ، اسلم جیراجپوری، غلام احمد پر ویز وغیرہ نے جو طبع آزمائی کی ہے اس کے دفاع میں علماء اسلام نے روایتی فکر کو زندہ رکھنے کے لیے عامی شخص کو قرآن کا براہ راست(بغیر استاذ کے) ترجمہ پڑھنے سے روک دیا تھا اور یہ نظریہ اب بھی برقرار ہے۔علماء کرام اس مہم میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ۔ عوامی سطح پر کوئی بڑی روش اس ضمن میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بجز ایک دو واقعات کے۔
دوسری وجہ برصغیر میں تین بڑے مکاتب فکر کا خروج اور ان مکاتب فکر کی روایتی فکر کو زندہ رکھنے کے لیے یہ بیانیہ بنایا گیا۔ پھر یہ بیانیہ ہر مکتب فکر کے مدمقابل بھی بولا جانے لگا۔ ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کے لیے دوسرے مکتب فکر کا ترجمہ پڑھنا گمراہی اور خروج عن المکتب کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ صورت حال اب بھی یہی ہے۔
تیسری اور معقول وجہ یہ کہ ہر فن کے اساتذہ ہوا کرتے ہیں۔ جن کو ماہرین فن کہا جاتاہے۔ کسی کتاب کا اصل مفہوم متعین کرنا اور مصنف کی مراد کو پہنچنا ہر راہ چلتے کا کام نہیں۔ یہ ایک محنت طلب کام اور فن ہے۔ محمد شیخ صاحب کے نزدیک ہم مسلمان ہی اصل میں بنی اسرائیل ہیں کیوں کہ ا ن پر انعام کیا گیا تھا اور انعام یافتہ ہم ہی ہیں۔ہر کتاب کی تفہیم کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کو پامال کرکے مقصود و مراد کو نہیں پہنچا جا سکتا۔ اسی بے اصولی کی وجہ سے علماء مسلمین نے براہ راست قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے سے روک دیا تھا۔ جو کہ کافی معقول بیانیہ ہے۔ اسی کے ساتھ میرا یہ تجزیہ ہے کہ بر صغیر کی نفسیات میں خود آرائی کاعنصر دیگر اقوام کی نسبت زیادہ ہے۔اسی لیے یہاں فتنوں کا ظہور زیادہ ہوا ۔ اور یہ نفسیات صرف پڑھے لکھے طبقہ میں ہی نہیں بلکہ عامیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ حالیہ رمضان کے مہینے میں چونکہ تراویح کی تعداد کا مسلہ زور و شور سے جاری ہے ۔ ایسے جنفی جو ہمیشہ بیس رکعات پڑھتے تھے اب آٹھ پر آگئے ہیں۔ دلیل کی بنیاد پر نہی بلکہ تسہل اور تکاسل (سستی)کی بنیاد پر ۔ نتیجہ اور خلاصہ یہی ہے کہ بے اصولی ہر کام کو بگاڑ دیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساویز ندیم صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ علومِ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں