Home » ثلاثۃ قروء کی تحقیق
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث زبان وادب فقہ وقانون

ثلاثۃ قروء کی تحقیق

والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء [البقرة:228]

’’اور مطلقات تین قروء تک خود کو (نئے نکاح سے) روک کر رکھیں۔’’

اس حکم میں صحابہ کے بعض آثار کا درست محل نہ سمجھنے نیز اہل لغت کے اپنی عادت کے مطابق مختلف قسم کے توسیعی قیاسات ذکر کرنے کی وجہ سے لفظ ’’قروء’’ کے مفہوم میں فقہاء ومفسرین کے مابین ایک اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ عموماً‌ اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ لفظ ’’قروء’’ پاکی کے ایام کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور ناپاکی کے ایام کے لیے بھی۔ یوں سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ قرآن کے حکم میں تین مرتبہ پاکی کے ایام گزارنے کو عدت قرار دیا گیا ہے یا ناپاکی کے ایام کو۔

ہماری رائے میں یہ بیان کہ لفظ قرء دونوں معنوں کے لیے مشترک ہے، علی الاطلاق درست نہیں ہے۔ درست بات وہ ہے جو امام راغبؒ نے لفظ کے لغوی استعمالات کی روشنی میں واضح کی ہے، یعنی یہ کہ قرء کا لفظ اصلاً‌ پاکی کے بعد ناپاکی کے ایام شروع ہونے کے لیے وضع ہوا ہے۔ چنانچہ ’’قرات المراۃ’’ کا مطلب ہوتا ہے، عورت کو خون آنے لگا۔ ’’اقرات المراۃ’’ تب بولا جاتا ہے جب عورت ماہواری کی عمر کو پہنچ جائے۔ ’’قرات الجاریۃ’’ کا مطلب ہے، ماہواری گزار کر باندی کا استبراء رحم کر لیا۔ راغب مزید واضح کرتے ہیں کہ لفظ قرء میں پاکی کے بعد ناپاکی آنے کا مفہوم لازم ہے۔ صرف پاکی یا صرف ناپاکی کو قرء نہیں کہا جاتا۔ مثلاً‌ جس عورت کو ابھی ناپاکی نہ ہوتی ہو، اس کو ’’ذات قرء’’ نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح جس عورت کو بیماری کی وجہ سے مسلسل ناپاکی رہتی ہو اور درمیان میں پاکی آتی ہی نہ ہو، اس کو بھی ’’ذات قرء’’ نہیں کہا جاتا۔

راغب نے اس ضمن میں شاہد کے طور پر ایک حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے۔ دراصل لفظ قرء کا استعمال ماہواری کے مفہوم میں درج ذیل تین احادیث میں ہوا ہے۔

۱۔ “تدع الصلاة أيام أقرائها” (ابوداود، ترمذی، نسائی)
عورت اپنے اقراء یعنی ماہواری کے دنوں میں نماز چھوڑ دے۔

۲۔ “إِذَا أَتَى قَُرْؤُكِ، فَلَا تُصَلِّي، فَإِذَا مَرَّ الْقَُرْءُ فَتَطَهَّرِي، ثُمَّ صَلِّي مَا ‌بَيْنَ ‌الْقَُرْءِ ‌إِلَى ‌الْقَُرْءِ” (مسند أحمد)
جب تمھیں قرء یعنی ماہواری آ جائے تو نماز نہ پڑھو۔ پھر جب ماہواری گزر جائے تو پاک ہو کر ایک ماہواری سے لے کر دوسری ماہواری تک کے ایام میں نماز پڑھتی رہو۔

۳۔ “طلاق الأمة طليقتان وقرؤها حيضتان” (أبو داود)
باندی کی طلاقیں بھی دو ہیں اور اس کے قرء یعنی (عدت کی) ماہواریاں بھی دو ہوں گی۔

راغب کی لغوی تشریح اور مذکورہ استعمالات سے واضح ہے کہ کسی موقع پر قرینے اور سیاق وسباق کی روشنی میں لفظ قرء، طہر یعنی پاکی کے لیے بھی آ سکتا ہے، لیکن اس کی اصل وضع اور استعمال ناپاکی کے ایام کے لیے ہے۔ چنانچہ مطلقاً‌ یہ کہنا درست نہیں کہ یہ لفظ دونوں معنوں میں مشترک ہے۔ اس کا اصل معنی ناپاکی کے ایام ہے اور کلام میں یہ مراد لینے کے لیے کسی اضافی قرینے یا دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں، کسی جگہ زمانہ طہر مراد لینا ہو تو اس کا قرینہ یا دلیل کلام میں ہونی چاہیے۔ بقرہ کی زیربحث آیت میں چونکہ طہر مراد لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں، اس لیے اپنے اصل مفہوم اور استعمال کے لحاظ سے آیت کا مدعا بالکل واضح ہے کہ حائضہ خواتین عدت کے طور پر تین ماہواریوں تک انتظار کریں گی۔

یہ مفہوم سورہ طلاق میں ان خواتین کی عدت کے حکم سے مزید موکد ہو جاتا ہے جن کو ماہواری نہیں آتی۔ فرمایا ہے، ’’واللائی یئسن من المحیض من نساءکم فعدتھن ثلاثۃ اشھر واللائی لم یحضن’’۔ یعنی جو عورتیں ماہواری سے مایوس ہو چکی ہیں یا جن کو ابھی ماہواری نہیں آئی، ان کی عدت تین مہینے ہے۔ دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھا جائے تو مفہوم یہ بنتا ہے،

’’جن مطلقات کی ماہواری کی عمر ہے، وہ تین قروء انتظار کریں اور جن کو ماہواری نہیں آتی، وہ اس کی جگہ تین ماہ کی عدت گزاریں۔’’

یعنی حائضہ خواتین کی عدت (تین طہر اور تین ماہواریاں) عموماً‌ جتنی مدت یعنی تین ماہ میں پوری ہو جاتی ہے، غیر حائضہ کے لیے احتیاطاً‌ اتنی ہی مدت کو عدت مقرر کر دیا گیا ہے۔

لفظ ’’قرء’’ کی لغوی تحقیق جو امام راغب سے نقل کی گئی، اس کی مزید تفصیل جصاص کی احکام القرآن اور ابن القیمؒ کی زاد المعاد میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس بنیادی وضاحت کے بعد اب یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ قرء کے لفظ کو مشترک ماننے کی الجھن مفسرین کے ہاں پیدا کیسے ہوئی؟

امام طبری کی تفسیر میں اس کی تفصیل دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل فقہائے صحابہ کے مابین ’’ثلاثۃ قروء’’ کی تفسیر کے حوالے سے جو اختلاف پیدا ہوا، وہ یہ نہیں تھا کہ یہاں قرء کا مطلب حیض ہے یا طہر۔ سیدہ عائشہ کے ایک اثر کے استثنا کے ساتھ، طبری کے نقل کردہ تمام آثار میں قرء کا مفہوم حیض ہی مانا گیا ہے۔ فقہائے صحابہ کے مابین اختلاف دراصل اس سوال کے حوالے سے پیدا ہوا کہ کیا تیسری ماہواری کا شروع ہو جانا عدت کے مکمل ہونے کے لیے کافی ہے یا تیسری ماہواری کے مکمل ہونے تک عدت جاری رہے گی۔ فقہائے صحابہ کا ایک گروہ جن میں سیدنا عمر، عثمان، علی، ابن مسعود، ابن عباس اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم شامل ہیں، دوسرے نقطہ نظر کا قائل تھا، جبکہ زید بن ثابت، سیدہ عائشہ اور ابن عمر کی رائے پہلے امکان کی تائید میں تھی۔ یہ بات اہم ہے کہ سیدہ عائشہ کے ایک اثر کے استثناء کے ساتھ، یہ سب حضرات طہر کے گزرنے کی نہیں، بلکہ تیسرے حیض میں داخل ہو جانے کی تعبیر استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے یہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ قرء کو طہر کے معنی میں لے رہے ہیں۔ نہیں، وہ اس کو حیض ہی کے معنی میں لیتے ہوئے تیسری ماہواری میں داخل ہو جانے کو عدت کی تکمیل کے لیے کافی قرار دے رہے ہیں۔ اسی لیے اس کے تقابل میں جب دوسرے صحابہ اپنا موقف بیان کرتے ہیں تو وہ تیسری ماہواری کے مکمل ہو جانے پر زور دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ماہواری کی ابتدا کو تکمیل عدت کے لیے کافی نہیں سمجھتے۔

جہاں تک سیدہ عائشہ کے اثر کا تعلق ہے تو ان کی رائے بھی آثار میں دو طریقوں سے نقل ہوئی ہے۔ ایک اسلوب وہی ہے جو دیگر صحابہ کے آثار میں ہے، یعنی تیسری ماہواری میں داخل ہو جانے پر عدت مکمل ہو جائے گی۔ یہ موقف، جیسا کہ واضح کیا گیا، قرء کی تفسیر طہر سے کرنے کو مستلزم نہیں۔ دوسرا اسلوب یہ ہے کہ سیدہ عائشہ نے اقراء کی تفسیر اطہار کے ساتھ کی۔ دراصل یہی وہ واحد اثر ہے جس سے قرء کو حیض اور طہر میں مشترک سمجھنے کی ساری الجھن مفسرین کے ہاں پیدا ہوئی ہے۔ یہاں دو تین امکانات قابل غور بنتے ہیں۔

پہلا یہ کہ سیدہ واقعتاً‌ قرء کا لغوی مفہوم طہر مانتی تھیں اور ثلاثۃ قروء کا مطلب یہ سمجھتی تھیں کہ تین طہر گزارنے کو عدت مقرر کیا گیا ہے۔ اگر یہ واقعی ان کی رائے ہو تو اس میں کوئی استبعاد کی بات نہیں۔ وہ ایک مجتہد تھیں اور حکم کی تعبیر میں اپنے فہم کو بروئے کار لانے کا پورا حق رکھتی تھیں۔

دوسرا یہ کہ وہ اصلاً‌ تو وہی بات کہنا چاہتی ہیں جو دیگر صحابہ نے کہی، یعنی کہ قروء کا مطلب تو ماہواری ہی ہے، البتہ تیسری ماہواری شروع ہونے پر ہی تین کا عدد متحقق ہو جاتا ہے اور حکم کی علت کی رو سے ماہواری کا مکمل ہونا شرط نہیں۔ البتہ کسی موقع پر سیدہ نے ضمناً‌ یا مجازاً‌ اس کو یوں بھی بیان کر دیا ہو کہ قروء کا مطلب طہر ہوتا ہے۔

اور تیسرا امکان یہ بھی ہے کہ سیدہ نے تو بات وہی کہی ہو جو باقی صحابہ نے کہی ہے، لیکن کسی راوی نے اس موقف کو اپنے فہم کے مطابق یوں تعبیر کر دیا ہو کہ وہ قروء کو اطہار پر محمول کرتی تھیں۔
ہماری رائے میں سیدہ کے اثر سے متعلق اس تیسرے امکان میں اس لیے کافی وزن ہے کہ عدت سے متعلق ایک دوسرے مسئلے میں وہ عدت کو ماہواری سے ہی متعلق قرار دیتی ہیں۔ چنانچہ اپنی آزاد کردہ باندی بریرہ کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ میں نے اسے تین ماہواریاں بطور عدت گزارنے کا حکم دیا (یا بریرہ کو تین ماہواریاں گزارنے کا حکم دیا گیا):

أَمَرْتُ بَرِيرَةَ أَنْ تَعْتَدَّ بِثَلاثِ حِيَضٍ. (ابْنُ مَاجَةْ)

امام ابن تیمیہؒ وغیرہ نے اس روایت کو اس بنیاد پر معلول قرار دیا ہے کہ سیدہ عائشہ تو قرء کو طہر کے معنی میں لیتی تھیں، اس لیے اس روایت کی نسبت ان کی طرف درست نہیں ہو سکتی۔ (مجموع الفتاوی) لیکن یہی استدلال الٹ کر یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ سیدہ نے بریرہ کی عدت تین ماہواریاں بیان کی ہے، اس لیے ان کی طرف قرء کو طہر کے معنی میں لینے کی نسبت درست نہیں، اور درست بات اتنی ہی ہے کہ وہ تیسری ماہواری کی ابتدا ہو جانے کو ’’ثلاثۃ قروء’’ کی شرط پوری ہونے کے لیے کافی سمجھتی تھیں۔

بہرکیف، سیدہ کا یہ محتمل الثبوت اور محتمل التاویل اثر اس تعبیر کا جواز مہیا نہیں کرتا کہ فقہائے صحابہ کے ہاں لفظ قرء کو حیض اور طہر میں مشترک سمجھا جاتا تھا اور بعض اس کو حیض اور بعض طہر کے معنی میں لیتے تھے۔ درست بیان واقعہ یہ بنتا ہے کہ صحابہ بغیر کسی قابل ذکر اختلاف کے قرء کا مفہوم حیض ہی سمجھتے تھے۔ ان کے مابین اختلاف دراصل اس سوال پر تھا کہ جب تیسری ماہواری شروع ہو جائے تو کیا اس کا شروع ہو جانا ہی عدت کو مکمل کر دیتا ہے یا اس کے اختتام تک عدت باقی رہے گی؟ یہاں زبان کے اسالیب نیز حکم کی علت کے لحاظ سے دونوں مواقف کی گنجائش موجود ہے۔ لسانی اسلوب کے اعتبار سے دو مکمل اور ایک جزوی حیض پر بھی تین کا عدد بولا جا سکتا ہے، جبکہ حکم کی علت کی رو سے تیسری ماہواری کا شروع ہو جانا استبراء رحم کی صورت حال واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے ابتدائے حیض کو بھی عدت کی تکمیل مانا جا سکتا ہے۔ تاہم جمہور صحابہ نے ازروئے احتیاط اس کو ضروری قرار دیا کہ تیسری ماہواری مکمل ہونے تک کے عرصے کو بھی عدت میں شمار کیا جائے اور اس پر عدت ہی کے احکام جاری کیے جائیں۔

مفسرین نے جمہور سے مختلف رائے رکھنے والے صحابہ کے آثار کو جب ان کے درست محل میں نہیں سمجھا اور سیدہ عائشہ کے ایک محتمل اثر پر ان سب آثار کو محمول کر لیا تو اس سے یہ غلط فہمی وجود میں آ گئی کہ صحابہ لفظ قرء کو مشترک مانتے تھے، اس لیے کسی ایک معنی کی تعیین میں ان کے مابین اختلاف واقع ہو گیا۔ پھر اہل لغت نے بھی اسی مفروضے کی تائید میں مختلف لغوی قیاسات پیش کرنے شروع کر دیے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔

 

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں