Home » محبت کیا ہے؟ افلاطون اور ارسطو کا نقطہ نظر
شخصیات وافکار فلسفہ

محبت کیا ہے؟ افلاطون اور ارسطو کا نقطہ نظر

سقراط کے شاگرد افلاطون نے محبت کے بارے جو تصور دیا، وہ آج افلاطونی محبت (Platonic         love) کے نام سے معروف ہے۔ واضح رہے کہ خود افلاطون نے اسے یہ نام نہ دیا تھا، یہ نام تو اسے بعد والوں نے دیا ہے۔ افلاطون کے تصورِ محبت پر اس کے استاذ سقراط کے نظریہ کا بہت اثر نظر آتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق افلاطونی محبت سے مراد وہ محبت ہے کہ جس میں شہوت یا جنسی تعلق شامل نہ ہو (affectionate relationship         in            which            sexual            intercourse            is           neither              desires               nor             practiced)۔ قرون وسطی میں اسی سے ملتی جلتی ایک اصطلاح عظیم محبت (courtly        love) کے نام سے بھی معروف ہوئی اور مغربی لٹریچر کا حصہ بنی۔ یہ محبت اگرچہ شہوت انگیز (erotic) تھی لیکن محبوبہ کا حد درجہ احترام جنسی خواہش کی تکمیل (sexual             intercourse) میں مانع رہتا تھا۔ البتہ محبوبہ کی اجازت سے اس کا امکان بھی تھا۔ آسان الفاظ میں عاشق اپنی محبوبہ سے محبت نہیں بلکہ اس کی پوجا کرتا تھا لہذا حد درجے مطیع اور اس کی رضا کا طلب گار رہتا تھا۔

افلاطونی محبت کوئی چیز ہے یا نہیں، بہر حال ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ جہاں بھی محبت موجود ہے، خاص طور جنس مخالف کی محبت، وہاں شہوت موجود ہے، اس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ افلاطون جنس کا انکار نہیں کرتا لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں محبت کو حیوانی خواہش سے اس حقیقی حسن (ideal            beauty) کی طرف اٹھا دینا چاہیے جو کہ عالم امثال (world           of           ideas) میں موجود ہے۔ افلاطون معاشرے کو تین حصوں میں منقسم کرتا ہے۔ اس کے بقول لوگوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جو جبلت کی سطح پر زندگی گزارتا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد ہی اپنی جبلتوں (instincts) کو پورا کرنا ہوتا ہے، یہ حیات انسانی کی حیوانی سطح (biological            level) ہے۔ افلاطون کی نظر میں ایسے لوگ در حقیقت غلام ہیں یعنی اپنی خواہشات کے غلام۔ ان کا کام صرف اپنی خواہش مثلاً بھوک، جنس، غصہ وغیرہ کو پورا کرنا ہے۔ انہیں آپ سمجھا نہیں سکتے، نہ ان کی تربیت کر سکتے ہیں کہ یہ لوہے کی طبیعت (metal         soul)کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو چاندی کی طبعیت(silver           soul) رکھتے ہیں کہ جذباتی سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ اچھے سپہ سالار اور فنکار (artists) ہو سکتے ہیں۔ ان سے ادب کی تخلیق اور وطن کے دفاع کا کام لیا جا سکتا ہے جیسا کہ شاعر اور سپاہی ہیں۔ ان کے لیے محبت کچھ اور معانی رکھتی ہے۔ معاشرے کا تیسرا طبقہ حکماء اور فلسفی ہیں جو کہ عقلی انسانی (rational          human         being) ہیں۔ انہی کو ریاست کے معاملات چلانے چاہییں۔ یہ وہ ہیں جو محبت کی حقیقت کو پا لیتے ہیں اور وہ مادی چیزوں سے محبت کی بجائے، غیر مادی چیزوں سے محبت کرتے ہیں جیسا کہ محبت کی صورت سے محبت جو کہ مثالی محبت (ideal             love) ہے۔

افلاطون کا تصور محبت در اصل اس کے تصور حقیقت کا ایک جز ہے۔ افلاطون کے مطابق حقیقت (reality) یہ مادی دنیا (material          world) نہیں بلکہ عالم امثال (world          of             ideas) ہے کہ جہاں ہر شیء اپنے کمال کے ساتھ موجود ہے۔ مادی دنیا کی ہر چیز کو زوال ہے جبکہ عالم امثال میں ہر شیء ابدی (eternal)ہے۔ لہذا افلاطون نے محبت کو بھی ایک تصور (idea) بنا دیا تا کہ وہ کمال محبت کا نظریہ پیش کر سکے۔ بعض لوگوں نے اگرچہ افلاطونی محبت کی تعبیر ہم جنس کی محبت (same         sex             love) سے کی ہے لیکن جنسی جذبہ تو وہاں بھی موجود رہتا ہے۔

افلاطونی محبت کو ہماری روز مرہ کی زبان میں پاکیزہ محبت کا نام بھی دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی پاکیزہ محبت نام کی چیز موجود نہیں ہے۔ 2000ء میں جرنل آف سوشل اینڈ پرسنل ریلیشن شپس (Journal         of            Social             and             Personal              Relationships) میں شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق کالج کے تین صد طلباء سے ایک سروے کیا گیا کہ جس کے مطابق ان میں سے 67 فی صد کی دوستی، جنسی تعلق میں تبدیل ہو چکی تھی۔

ایک امریکی یونیورسٹی، ونکونسین-ایو کلیئر (The           University              of            Wisconsin–Eau             Claire) نے 400 لوگوں کی دوستی کو تحقیق کا موضوع بنایا کہ جس کا نتیجہ یہ شائع کیا کہ ان میں قربت (intimacy) کی خواہش بہت عام تھی اور وہ محض دوستی نہیں تھی۔ اس تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ دونوں کی طرف سے نہ سہی لیکن ایک کی طرف سے قربت کی خواہش ضرور موجود ہوتی ہے، چاہے کم درجے کی ہو اور یہ عموماً مرد کی طرف سے ہوتی ہے۔

ایک اور امریکی یونیورسٹی، الاباما (The          University             of             Alabama) نے 418 طلبا پر تحقیق کی اور یہ نتائج شائع کیے کہ اگرچہ اکثریت اس بارے پر امید ہے کہ “محض دوستی” (just           friendship) کا وجود ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ 63 فی صد کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ نظر نہ آنے والی محبت (some          kind             of             secret             romantic             interest) کا شکار ہوتے ہیں یعنی وہ کسی نہ کسی ذہنی سطح پر جا کر ایک دوسرے میں قربت، رومانویت اور جنسی خواہش محسوس کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اس کو ماننے یا اس کے اظہار پر تیار نہیں ہوتے۔

افلاطونی محبت کی ایک تعبیر یہ بھی کی گئی ہے کہ جوانی میں تو یہ ممکن نہیں لیکن ڈھلتی عمر میں یہ محبت ہو سکتی ہے۔ جدید تعلیمی اداروں اور دفاتر میں جہاں مخلوط معاشرت ہوتی ہے تو بہت دفعہ جنس مخالف (opposite             gender) کی محبت پیدا ہو جاتی ہے جو محض دوستی، پیار ومحبت اور عشق ومعاشقے تک محدود رہتی ہے اور کسی جنسی تعلق یا شادی کی صورت اپنے انجام کو نہیں پہنچتی۔ اسے محض دوستی (just            friendship) نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اس سے آگے کی چیز ہے کہ اس میں محبت کا لفظ موجود ہے۔ یہاں بھی در اصل حالات ہیں کہ جن کے سبب وہ محبت کا تعلق قربت یا شادی کے تعلق میں نہیں ڈھلتا لیکن قربت (intimacy) کی خواہش برابر موجود رہتی ہے، دونوں طرف نہ سہی، ایک طرف ہی سہی۔ اس لیے افلاطونی محبت محض ایک ذہنی شیء ہے کہ جس کا خارج میں وجود تلاش کرنا مشکل امر ہے۔ ہاں البتہ خدا کی محبت کو اگر افلاطونی محبت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا امکان ہے کیونکہ خدا کی محبت میں جنسی خواہش شامل نہیں ہوتی۔ اور شاید افلاطون یہی چاہتا ہو۔

ارسطو کے مطابق دو بندوں میں ایک روح (single              soul                inhabiting               in             two           bodies) کو محبت کہتے ہیں۔ ارسطو جو کہ افلاطون کا شاگرد تھا، اس کے بقول انسان ایک سماجی حیوان (social             animal) ہے اور ان کی باہمی محبت کا مقصد افلاطون کے بیان کردہ کسی مجرد حسن کی پائیداری (timeless           reality            of            abstract              beauty) کو کسی مثالی دنیا (world of ideas) میں تلاش کرنا نہیں بلکہ دو افراد کا اپنے باہمی تعلق کے ذریعے پھلنا پھولنا (flourish) ہے۔ ارسطو محبت کو جنسی تعلق (sexual             relationship) یا خیر میں غور وفکر (contemplation            of            the               good) کی بجائے دوستی سے ڈیفائن کرتا ہے۔ دوستی کی وہ تین قسمیں بناتا ہے؛ منفعت کی دوستی (friendship           of             utility)، لذت کی دوستی (friendship of             pleasure) اور خیر کی دوستی (friendship         of             good)۔ فائدے کی دوستی میں ایک دوسرے کا احترام کم ہی ہوتا ہےجیسا کہ تاجروں کی باہمی دوستی ہے یا گاہک اور دوکاندار کی دوستی ہے۔ اس کے بعد دوسرا درجہ لذت کی دوستی کا ہے کہ جس میں دو دوست ایک دوسرے کی صحبت سے مزہ حاصل کرتے ہیں جیسا کہ ایک ساتھ کھانا پینا، کھیل کود کرنا وغیرہ۔ یہ دوستی بھی اس صورت ختم ہو جاتی ہے جبکہ وہ مشترکہ سرگرمی (shared         activity) ختم ہو جاتی ہے۔

خیر کی دوستی وہ ہے کہ جس میں دو دوست ایک دوسرے کے کردار کو پسند (character            enjoy) کرتے ہیں۔ عموماً ان کے کردار ملتے جلتے ہوتے ہیں اور وہ اپنے دوست سے دوستی اس دوست کی خاطر رکھتے ہیں نہ کہ اپنے فائدے اور لذت کے لیے۔ اسے وہ سچی دوستی (true               friendship) کا نام دیتے ہیں۔ برے لوگوں کی دوستی پہلی دو قسم پر ہوتی ہے کہ وہ جب تک ایک دوسرے سے فائدہ یا لذت حاصل کرتے رہتے ہیں تو دوست رہتے ہیں لیکن جیسے ہی فائدہ یا لذت ختم ہو جاتا ہے تو دوستی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اچھے انسان کی دوستی تیسری قسم کی ہوتی ہے کہ جس میں وہ اپنے دوست کو ایک اور خود (another             oneself) سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اسی کو ارسطو نے ایک دو جسموں میں ایک روح (single         soul           in          two           bodies) کا نام دیا ہے۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں